پرانا ملیر: ۱۹۹۹ میں لکھی گئی ایک تحریر (حصہ اول)

پیر محمد کلمتی مرحوم

جو ملیر ہم نے دیکھا، اُس کا تو اِس وقت نام و نشان تک نہیں رہا اور اپنے آباؤ اجداد سے جو سنا، وہ تو صرف دیو اور پریوں کی دیس جیسی کہانی لگتی ہے۔۔ البتہ اگر ملیر ندی کے کناروں سے سفر کا آغاز کیا جائے، ابتدا ڈفینس سوسائٹی کی عالیشان عمارتوں سے کی جائے اور جاتے جاتے عمیق نظروں سے ملیر ندی کے اطراف کا مطالعہ کیا جائے اور اُس دور کے باقی عالیشان درختوں، امرود، کھجور، انار اور آم کے بچے کھچے تنوں اور علاقہءِ ملیر کے پتھر کے بنے ہوئے عالیشان مقبروں کو دیکھا جائے تو اس پریوں کے دیس ملیر کے صحیح معنوں میں آج سے چند سو سال پہلے تک بہت ہی آباد، سرسبز، زرخیز اور خوشگوار ہونا یقین میں بدل جاتا ہے۔

اب کیا بتاؤں پرانے ملیر کی باتوں کو۔۔ ان حقائق اور دلفریب نظاروں کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ وہ ملیر ایک گلشن تھا، گلستان تھا یا سجی سجائی ہوئی دلہن تھی جسے نظرِ بد لگ گئی، وہ بھی اپنوں کی۔۔ اور غیروں نے اسے اٹھا کر گلستان سے ایک بنجر صحرا میں بدل دیا۔ شاید آئندہ آنے والی نسلیں اس بات کا یقین ہی نہ کریں کہ ملیر ہی کراچی کی ماں ہے۔ کراچی ملیر ہی کے بطن سے تولد ہوا، کراچی کو آباد کرنے کے خاطر ہی خوابوں نے ملیر کو لوٹا، ان کا خون چوسا، سرسبز و آباد گلستان کو ویرانیوں کے آغوش میں ڈالا۔

ملیر جس کی آبادی چند ہزاروں پر مشتمل تھی، لیکن تھے سارے جفاکش اور محنتی۔ شب و روز محنت کر کے زمین کے پیٹ کو چیرا۔ ملیر ندی کے ذخیرہِ آب کارگر بنا کر ملیر کی دھرتی کی پیاس کو بجھاتے ہوئے اس کے بطن سے آم، امرود، گندم، باجرا، جو، کھجور، انار، انگور اور مختلف قسم کی سبزیاں اگاتے رہے اور کراچی شہر کو تازہ پھل اور سبزیاں فراہم کرتے رہے۔ اسی طرح خود بھی خوشحال تھے اور اوروں کو بھی خوشحال بناتے گئے۔

۔۔۔اور جس دن سے مائی کلاچی جو گوٹھ، کراچی، ’کرانچی‘ کی طرف گامزن ہوا، اس دن سے ملیر پر آفتِ ناگہانی نازل ہونا شروع ہوئی۔ میانی کی جنگ کے بعد جب انگریزوں نے میروں کی شریف اور دیسی حکومت کو ختم کر کے انگریز حکومت کی بنیاد ڈالی تو کراچی کو انہوں نے ثانیِ یورپ بنانے کی کوششیں شروع کیں، اس لیے نہیں کہ انہیں کراچی کے میروں سے محبت تھی یا وہ ان کی ترقی چاھتے تھے، صرف اس لیے کہ ان کو اپنے انگریز نوواردوں کے لیے ایسی جائے پناہ کی تلاش تھی، جہاں ان کے لیے خطرات کم ہوں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کو زیادہ آسان اور سہل بنا سکیں۔ اس مقصد کے لیے کراچی ان کے لیے موزوں ترین جگہ تھی۔ اُنہوں نے کراچی کو ترقی دینا شروع کر دی اور اس ترقی کا خمیازہ تھوڑا بہت ملیر ہی کو بھگتنا پڑا، لیکن پھر بھی برداشت کر گیا اور اپنے آپ کو ویران نہ ہونے دیا۔

شاید اُس وقت ملیر کے علم دوست انسانوں میں ملیر کی محبت تھی کہ وہ ملیر کو انگریزوں سے بچائے رکھ سکے، لیکن 1947ع کے بعد جب انگریز یہاں سے جا چکے اور اور ان کی پروردہ نوکر شاہی نے یہاں حکومت سنبھالی تو ملیر کو مالِ مردہ سمجھ کر خوب نوچنا شروع کر دیا۔ اس کے آباد اور سرسبز باغات، لانڈھی اور کورنگی کے صنعتی ایریا کے قیام کے بہانے کوڑیوں کے دام مقامی آبادی سے حاصل کئے اور باقی کئی ہزار ایکڑ زمین مہاجرین کی آبادکاری کی نظر ہو گئی۔ نہ صرف یہاں تک بلکہ ملیر ندی کی ریت، جو ذخیرہِ آب کا واحد وسیلہ تھی، اس کی سرِعام نیلامی شروع ہوگئی، حتیٰ کہ ملیر ندی کی ریت ختم، ذخیرہِ آب ختم اور کنویں خشک ہو گئے۔ سرسبز و آباد باغات کو پانی کہاں سے میسر ہو، اس کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ گھنے اور تناور درخت چند سالوں کے اندر ختم ہو گئے۔ ان کی لکڑی کراچی کی عمارات میں استعمال ہوئی۔ ملیر کی ریت سے عالیشان بنگلے تعمیر ہوئے۔ جہاں ملیر ندی ابتدا میں کراچی کو پانی میسر کرتی تھی، بعد میں دریائے سندھ سے کراچی کے لئے پانی کا بندوبست ہوا لیکن درمیان میں ملیر کو نظر انداز کرتے ہوئے۔۔۔! ملیر کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے اپنے جسم کو کاٹ کاٹ کر جسم میں موجود پانی کو پلا پلا کر کراچی کو آباد کیا۔۔ نہ صرف کراچی کو، بلکہ کراچی کے توسط سے پاکستان کو آباد کیا!

آئیے ذرا قدیم ملیر کے حوالے سے جو کچھ سنا اور دیکھا ان کو سرسری طور پر قارئین کے علم میں لاؤں۔

ملیر ندی جو کہ کھیرتھر کی پہاڑیوں سے عازمِ سفر ہوتی ہے اور درمیان میں کئی چھوٹے بڑے ندی نالوں کو اپنے اندر جذب کرتی ہوئی کلفٹن کے ساحل کے قریب ’بحیرِہ بلوچ‘ میں گرتی ہے۔ آج سے کئی سال پہلے ملک میں بارشیں خوب ہوا کرتی تھیں۔ کھیرتھر کے پہاڑوں پر بارش کی آمد اور ملیر ندی میں موجوں کی روانی شروع ہو جاتی تھی۔ اس زمانے کی ملیر ندی اتنی گہری نہیں تھی، صرف چند فٹوں کی گہرائی تھی۔ اس وجہ سے ملیر ندی زیادہ تر برساتی پانی کو اپنے اندر جذب کر کے اپنے فرزندوں کے لیے محفوظ کرتی تھی اور باقی ضرورت سے زیادہ پانی سے اپنے قرب و جوار کے سرسبز و شاداب کھیتوں اور کھلیانوں، حتیٰ کہ جنگلات کو سیراب کرتی ہوئی تازہ اور میٹھا پانی بطور تحفہ سمندر میں موجود مچھلیوں اور دیگر جانوروں کی نذر کرتی تھی۔ اسی ملیر ندی کے بدولت اس کے قرب و جوار کے جفاکش اور محنتی باسی معمول محنت کے عوض کھیتوں اور کھلیانوں کو آباد کرتے تھے. نہ بجلی کی ضرورت تھی نہ ایئر کنڈیشنرز اور فریج کی ضرورت، تمام ضروریات قدرتی طور پر دستیاب تھیں۔ نہ آلودگی تھی، نہ بیماریاں اس قدر عام تھیں اور نہ ہی سمندری مچھلیوں کی بربادی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ ملیر میں اگر کوئی قدم رکھتا، کھیتوں اور کھلیانوں کی سیر کرتا ہوا کئی سو میل تک جاتا تو اسے دھوپ اور گرمی کی شدت محسوس ہی نہیں ہوتی تھی، کیونکہ گھنے اور تناور پھل دار پیڑوں اور جنگلات کے وجہ سے دھوپ اور سورج کی روشنی بے اثر ہو جاتی تھی اور ٹھنڈی ہوائیں چلتیں۔۔ پھر کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس سرزمین کی مٹی سے کس طرح کے انسان پیدا ہوئے ہیں؟ بہادر، ملنسار، مہمان نواز، شفیق، مہربان اور ایماندار۔۔ وہ، جن کی وفا مثالی ہوتی ہے۔ ایسی سرزمین سے ایسے عظیم انسان جنم لیتے ہیں، جن کی محفلوں میں بیٹھ کر سارے غم بھلا دیئے جاتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی وجود سے انسان تو کیا چرند و پرند اور جانوروں کو بھی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ تھا ملیر، جس کا ہر فرد خوشحال تھا۔ غم و فکر کا نام و نشان نہیں تھا اور نہ ہی اس کے چرند و پرند اور جانوروں کو یہ فکر کہ انہیں کل چارہ اور پانی نصیب ہو کہ نہ ہو۔۔

فجر کی اذان ہے، پرندوں کی چہچہا نے کی آوازیں اور چرواہوں کے اپنے بھیڑ بکریوں کے ساتھ جنگلوں کی طرف رواں دواں کارواں اور منڈی سے واپس آنے والے جت اور ان کے شُتر اپنے گاؤں اور کھیتوں کی طرف رواں ہیں۔۔ اور چھوٹے معصوم بچوں میں سے کچھ اپنے جانوروں کو چراگاہوں کی جانب لے کر جا رہے ہیں اور کچھ بچے مدرسے اور مکتب کی طرف رواں ہیں، لیکن کسی کو کسی پر حسد نہیں آتا، ہر ایک اپنے کام میں مشغول، ہر ایک دوسرے سے خوش اپنے کام کی طرف گامزن ہے اور شامیں تو ملیر کی اور بھی سہانی۔۔ ان کی کیا ہی بات؟

شام ہوتے ہی بوڑھے، بچے اور جوان کھیتوں اور کھلیانوں اور چراگاہوں سے گاؤں کی طرف آتے تھے۔ عجیب دلفریب منظر ہوا کرتا تھا، بیل گاڑیوں پر گھاس لدی ہوئی ہوتی تھی، گلہ بان اپنے گُلوں کے ساتھ گائے اور بکریوں کے گلوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی دل موہ لینے والی آوازیں اور بیل گاڑی کے پہیوں کے گھومنے سے پیدا ہونے والی آواز اور مختلف جانوروں کی مختلف آوازیں عجیب سماں پیدا کرتی تھیں اور رات کو کھانا کھانے کے بعد کسی مخصوص آدمی کی بیٹھک پر مجلس لگتی تھی، جس میں لوگ قصّے، کہانیاں اور شاعری سنایا کرتے تھے۔ ہر شخص اپنے اندر ایک مکمل اور با اعتماد انسان ہوتا تھا کوئی کسی سے کمتر تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اسی محفل میں امیر کو بولنے کا حق تھا وہی حق کسی اور غریب کو بھی تھا۔ اگر گاؤں میں کوئی شخص بیمار ہو جاتا تھا تو گاؤں کے سارے لوگ اس کے گھر کے سامنے مجلس جماتے تھے اور پوری رات بیٹھ کر مریض اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ غم بانٹتے تھے۔ نہ صرف اسی گاؤں کے لوگ بلکہ قرب و جوار کے دوسرے گاؤں کے لوگ بھی وہاں آ جاتے تھے۔ امیر اپنے خوبصورت گھوڑوں اور اونٹوں پر چڑھ کر آتے تھے اور غریب پیدل ہی اس کارِ خیر میں شریک ہوتے تھے اور شادی خانہ آبادی کی محفلوں کی کیا بات۔۔ ایک مہینہ پہلے ہی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔ گاؤں میں تمام لوگ اس میں حصہ لیتے تھے اور شادی کے موقع پر محفلِ موسیقی جمتی تھی۔ اس میں ملک کے مایہ ناز فنکار حصہ لیتے تھے بلکہ اکثر اوقات گویوں کے درمیان باقاعدہ مقابلہ ہوتا تھا اور یہ محفل صبح تک جمتی تھی، مجال کہ کوئی اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا جائے۔ اس وقت گویوں میں مائی ماگی، فیض محمد بلوچ ،صالح محمد بلوچ اور بینجو نواز بلاول جیسے نامی گرامی فنکار تھے۔ اور شعراء میں خصوصاً بلوچی شاعری میں ملا مراد، ملا خداداد، ملا حسن اور وشدل اپنے دور کے باکمال شعراء میں شامل تھے اور باقی قدیم بلوچی شاعری تو اکثر بزرگوں کو زبانی یاد تھی۔

ان شادی کے محفلوں میں بڑے بزرگ اپنی بڑی بڑی پگڑیوں کے ساتھ فرش پر کوئی بچھونا بچھائے کمردانی باندھ کر بیٹھے ہوئے اسٹیج کی جانب فنکاروں کی طرف متوجہ ہوتے تھے، اگر کہیں بھی فن کار شعر کو غلط بیان کرتا تو سامعین کے جانب سے فنکار کی شامت آ جاتی اور ناپسندیدہ فنکار سمجھا جاتا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچی نظم سینہ در سینہ صدیوں سے محفوظ ہوتی آئی ہے۔۔ اور دوسری جانب خواتین کی محفلوں میں ھلوھالو اور نازینک کی محفلیں سجتی تھیں یعنی دولہا اور دلہن کے لیے تعریفی اشعار بیان کرتی تھیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بلوچی ہیروز مثلاً میرکمبر، حمل جیہند، بالاچ و دودا اور دیگر کے کارناموں کو اپنی خوبصورت آواز میں بیان کرکے دولہا کو ان سے تشبیہ دیا کرتی تھیں۔

ملیر کی راتیں آرام دہ خوشگوار اور ٹھنڈی ہواؤں کے لئے مشہور تھیں۔ نہ اتنی گندگی تھی کہ مچھر اور مکھیاں پرورش پائیں، مچھر کے وجود سے بھی شاید لوگ نا آشنا تھے اور نہ ہی راتوں کو لوگوں کو دہشت گردوں کی ڈز ڈز کی آوازیں آتی تھیں۔ رات کا سکوت توڑنے کے لیے اگر کوئی آواز آتی تھی تو بہت ہی سریلی، بہت ہی خوبصورت ہوا کرتی تھی۔ وہ آواز کسی ماں کی ہوتی تھی جو اپنے لختِ جگر کو جھولے میں جھلا کر لوری دے رہے ہوتی تھی اور اس خوبصورت آواز کے ساتھ وہ معصوم بچہ بھی نیند کی آغوش میں چلا جاتا تھا۔ اس ملیر میں نہ ریڈیو تھا، نہ ٹیلی ویژن اور نہ ہی وی سی آر۔۔ نہ کرکٹ تھی نہ ہاکی نہ والی بال، نہ ٹیبل ٹینس اور نہ ہی تاش کے پتے۔۔

لوگ کھیلا کرتے تھے تو ملاکھڑا، ویھ وتی ورندو، کپگی اور دیگر معروف اور مردانہ شجاعت کے کھیل، جن میں نہ کسی کی حق تلفی ہوتی تھی اور نہ کسی کو یہ شکایت کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی، جو محنت کرتا اسے پھل ملتا، جو نہیں کرتا وہ محروم رہتا۔۔

اور پھر انگریز آئے اور انگریزوں کی آمد کے بعد 1888ع میں جب ریلوے لائن بچھائی گئی تو ملیر میں ریلوے اسٹیشن قائم کر کے اس کے قریب کچھ دوکانیں وغیرہ قائم ہوئیں اور ایک سڑک کراچی کو، ملیر سے گزرتی ہوئی، ٹھٹہ سے‌ ملاتی تھی اور دوسری سڑک جو کہ موجودہ سپر ہائی وے کے جگہ پر بنی تھی، حیدرآباد اور سیہون کی طرف جاتی تھی۔ ان سڑکوں پر صرف اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں کے ذریعے سفر کیا جاتا تھا اور باقی پورے علاقے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے، جنگلات تھے اور سرسبز شاداب باغات۔۔ انگریز کے دور میں اور پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہالینڈ سے آلو کے بیج منگوائے جاتے تھے اور ملیر میں آلو کاشت کی جاتی تھی۔ آلو جب تیار ہوتا تھا تو ملیر کے زمیندار اور کسانوں میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوتا تھا۔ باقی دیگر میوہ جات ملیر کے باغات میں سے ہی پورے کراچی کو بھیجے جاتے تھے اور ملیر تمام کراچی کی ضروریات کم و بیش پورا کرتا تھا، بلکہ یہ کراچی کی ضروریات سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔

ملیر سندھ کا ایک حصہ ہے اور سرزمینِ سندھ جس طرح زرخیز اور سرسبز ہے، جس میں کئی قسم کے کھیت اگتے ہیں، وہیں سندھ کی زرخیزی نے بہت سے عظیم انسان بھی پیدا کیے ہیں، جن میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، خیر بخش جتوئی، علی بخش تالپور، ھوشو شیدی، میر شیر محمد تالپور، شاہ عنایت اور انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے ابتداء میں حسن علی آفندی، عبدالحمید سندھی، حاجی عبداللہ ہارون، ایوب کھوڑو، قاضی فضل اللہ وغیرہ موجود ہیں۔

ملیر ضلع کے سندھی شعراء میں جام بجار، جام مہر علی، چگی جت اور غلام اللہ کافی مشہور تھے اور بلوچ شعراء میں ملا حسن، خداداد، گہرام اور ملا داد رحمٰن کافی مشہور ہوئے۔

اور بھی کئی بہادر، پہلوان ملیر کی سرزمین نے پیدا کیے جن میں ملک طوطا خان کلمتی، ملک زردار کلمتی، ملک سہراب، گندیو منوواٹی کلمتی جو کہ ملک طوطا خان کے قبرستان واقع میمن گوٹھ کے قریب مدفون ہیں۔ ان کے علاوہ ملیر کے دیگر قبائل مثلا بلپت (بُرفَت) اور جوکھیوں میں بھی کئی بہادر انسانوں نے جنم لیا ہے۔ اسی طرح ملیر سندھ کے دیگر اضلاع کی طرح اولیاء اللہ کے مقابر سے بھی محروم نہیں جن میں سید ہاشم شاہ (شرافی گوٹھ)، مندا پیر کلمتی (شرافی گوٹھ)، ولایت شاہ، مہر شاہ (اولڈ تھانہ)، شاہ مرید، شاہ ابراہیم، عثمان شاہ وغیرہ گڈاپ میں عام خاص کی زیارت گاہیں ہیں۔

اسی طرح سرزمینِ ملیر نے قابلِ احترام استاد بھی پیدا کیے ہیں، جن کی محنت اور کاوشوں سے ملیر میں کئی اور قابل انسان پیدا ہوئے، جو کہ آج اعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہیں اور بعض درس و تدریس کے باعزت شعبے سے منسلک ہیں۔ ان اساتذہ میں قابل احترام شفیع محمد جلبانی صاحب، پروفیسرشیر محمد بلوچ صاحب، پروفیسر عبدالستار بلوچ، ماسٹر عبدالرحیم کلمتی مرحوم، ماسٹر سلیمان مرحوم، ماسٹر محمد خان مرحوم، استاد علی بخش مرحوم، استاد حاجی جوہر مرحوم، ماسٹر علی محمد مرحوم، استاد شمس الدین جوکھیو، کمال خان جوکھیو، ڈاکٹر محمد اسماعیل بلوچ، استاد لعل بخش، ماسٹر رحمت اللہ نہ صرف تدریس کے حوالے سے عظیم اور قابل استاد مانے جاتے ہیں، بلکہ فنِ موسیقی کے بھی سنجیدہ استاد ہیں۔ دینی مدرسین اور علمائے کرام میں مولوی مفتی عبداللہ نعیمی مرحوم، مولانا عبدالقادر کلمتی مرحوم، حاجی داد محمد کلمتی، ملا دوست محمد چاکر مرحوم اور دیگر قابل اساتذہ نے اس سرزمین پر جنم لیا ہے۔

اسی طرح سندھ کے اور اضلاع کی طرح ملیر ضلع سیاست کے میدان میں بھی آگے رہا ہے۔ ملیر میں چھوٹے بڑے کئی سیاستدان پیدا ہوئے لیکن سب سے زیادہ نامور ہستی سیاست کے میدان میں خان بہادر اللہ بخش گبول کی شخصیت تھی، جن کی وجہ سے ملیر کی سیاست نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں روشناس ہوگئی۔
(جاری‌ هے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close