چلو میں اپنی کہانی آگے بڑھاتا ہوں، ”دارا پہلا بادشاہ تھا جس نے میرے منبع کی تلاش میں اپنے سالار ’اسکا لکس‘ کو بھیجا۔ پہلا یونانی ’کنیشاس‘ تھا جس نے ایرانیوں کو میرے بارے معلومات فراہم کیں۔ سکندر کے مورخین میں ’ٹالمی، آریان، سواٹر، نیرچس‘ وغیرہ نے مجھ پر بہت کچھ تحریر کیا۔ یہی وہ حوالے ہیں جو رومی اور یونانی تحریروں سے تم تک پہنچے ہیں۔
”تین سو (300) سال قبل مسیح تک میرے مشرقی کنارے کے ساتھ آباد خطے کو ہی ’انڈیا‘ تصور کیا جاتا تھا۔ یونانی مورخین نے جن میں megasthenus بھی شامل ہے اس پورے خطے کو ہی انڈیا کہنا شروع کر دیا تھا۔ تبت میں واقع جھیل ’مانسرور‘ (بلندی 5500 میٹر) کے قریب ہمالیہ کے ذیلی سلسلہ کیلاش کے پہاڑوں میں میرا جنم ہوتا ہے۔ تبتی اس جھیل کو بہت مقدس خیال کرتے ہیں اور ان کی سوچ اور فکر میں یہی میرا منبع ہے۔ ہندو روایات (ہندوؤں کی مذہبی تصاویر اس کی گواہ ہیں) کے مطابق اس جھیل سے چار دیگر دریا چار مقدس جانوروں کے منہ سے پھوٹتے ہیں۔۔ ’برہما پتر‘ مشرقی جانب سے ’گھوڑے‘ کے منہ سے نکل کر بہتا ہے تو ’گنگا‘ (کرنالی) جنوبی سمت سے ’مور‘ کے منہ سے جنم لیتی ہے۔ مغربی سمت سے ستلج ’ہاتھی‘ کے منہ پھوٹتا ہے تو میں (دریائے سندھ) شمالی سمت میں ’ببر شیر‘ (سنگی کھابب) کے منہ سے نکلتا ہوں۔ یہ جگہ جھیلوں کی وادی بھی کہلاتی ہے۔ یہاں دو اور بڑی جھیلیں بھی ہیں۔ ’مانسرور‘ اور ’رکاس‘ ۔ مانسرور کو مقدس جبکہ رکاس کو منحوس اور شیطانی خیال کیا جاتا ہے۔ کیلاش وادی سطح سمندر سے اوسطً پندرہ (15000) ہزار فٹ کی بلندی پر اطراف سے ایسے پہاڑوں میں گھری ہے جو ایک دوسرے کے اوپر سے سر نکالے کھڑے ہیں۔ جنوب میں کوہ ہمالیہ کی برف پوش چوٹیاں ہیں تو شمال میں کیلاش کا پہاڑی سلسلہ جو ان جھیلوں کے نزدیک آسمان کو چھوتا بائیس (22000) ہزار فٹ تک بلند ہے۔ چوٹیوں کے پہلو عمودی چٹانوں سے بنے ہیں۔ کچھ ڈھلوانیں تو برف تھامے ابھری ہوئی کھڑی ہیں جبکہ ان پہاڑوں کی چوٹیاں ہمیشہ برف سے ڈھکی سفید نظر آتی ہیں۔
”گرمیوں میں جب موسم خوشگوار ہوتا ہے تو یہ جھیلیں فیروزے کی طرح نیلی نظر آتی ہیں اور ان کے ارد گرد کی چٹانیں رنگوں کی پچکاری کا ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ کوہ کیلاش کی ڈھلوانوں پر پانی دھاروں کی طرح جھلملاتا ہے اور اس کی چوٹی کے گرد باریک برف دھوئیں کی مانند اڑتی نظر آتی ہے جبکہ دور افق پر بلندو بالا ہمالیہ کے برف پوش پرشکوہ پہاڑ دھوپ میں موتیوں کی طرح چمکتے ہیں۔ یقیناً اس وقت یہ وادی شاید دنیا کا خوبصورت ترین مقام معلوم ہوتی ہے۔ شیطانی جھیل کی سطح پر اس قدر شفاف اور ہموار برف کی تہہ جمی ہوتی ہے کہ اس کے نیچے ’نرسل‘ کے پودے یوں نظر آتے ہیں جیسے کسی کھڑکی سے جھانک رہے ہوں۔جھیل مانسرور کی تہہ میں گرم چشمے کی بدولت اس کی سطح مختصر وقت کے لئے ہی جمتی ہے۔ اس میں برف کے بڑے بڑے تودے تیرتے نظر آتے ہیں اور وقفے وقفے سے ایک غرغراہٹ والے اچھال کے ساتھ برف اپنے کناروں پر بھی پھینکتی ہے۔ ایسا منظر ’جھیل للو سر‘ پر بھی سرد موسم میں نظر آتا ہے جو تم دیکھ بھی چکے ہو۔ سال کے کسی بھی موسم میں ہوا کا طوفان چلنے لگتا ہے، گرجتے بادل، سیٹیاں بجاتی تیز ہوا، گرمی میں ریت کے مرغولوں اور سردیوں میں برف کی بوچھاڑ مسافروں کو اندھا کئے دیتی ہے۔ اس علاقے میں پیدا ہونے والے قدرت کے مختلف مظاہر انسان کو حیران، سراسیمہ اور دہشت زدہ کرتے ہیں۔ یہ ہے اس وادی کا مختصر مگر دل موہ لینے والا منظر جہاں میں جنم لیتا ہوں۔
”سنو دوست! بہت سے تبتیوں کا خیال ہے کہ خدا بھی اسی جگہ رہتا ہے۔ تبتی (جو روحی مظاہر پر مکمل یا جزوی یقین رکھتے ہیں۔) ان لوگوں کے نزدیک کیلاش کا پربت ہی کائنات کا مرکز ہے اورجہاں ہزاروں دیوتا اور ان کی ارواح آباد ہیں جن کو صرف پرہیزگار اور روحانی بندے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ تبتیوں اور ہندوؤں کے لئے یہ پہاڑ بڑا مقدس ہے۔ ہندو اسے ’لارڈ شیوا‘ کی جنت مانتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق انسانوں کو کبھی بھی اس پر نہیں چڑھنا چاہیے جبکہ تبتی اسے ’کھانگ رن پوش‘ کی وجہ سے متبرک سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر ’بدھا‘ اپنے پانچ سو ’منجی سادھوؤں‘ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس پہاڑ کو جانے والے راستوں پر جہاں جہاں سے بھی اس پہاڑ کی جھلک نظر آنا شروع ہوتی ہے، عقیدت مندوں نے احتراماً پتھروں کے ڈھیر بنا رکھے ہیں اور ان ڈھیروں پر مقدس دعائیہ عَلم لگے ہیں، جو ہوا میں اکثر پھڑ پھڑا تے رہتے ہیں۔ خانقاہوں، مقبروں، مندروں اور تارک الدنیا افراد کی چھوٹی چھوٹی جھونپٹریوں نے اس پہاڑ اور جھیل کو گھیر رکھا ہے۔
”ہندو اور بدھ زائر ہر سمت سے اس بے رحم سرزمین کی طرف سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے پہنچتے ہیں۔ کچھ اپنے مرے ہوئے رشتے داروں کی راکھ بھی ساتھ لاتے ہیں اور اس جھیل میں بکھیر دیتے ہیں۔ ہر زائر اپنے ساتھ مرتبان بھی لاتا ہے تاکہ واپسی پر مقدس پانی ساتھ لے جا سکے۔ (یہ پانی ان کے لئے آب زم زم کی طرح مقدس ہے)۔ وہ جھیل مانسرور اور کوہ کیلاش کے گرد سورج کی طرح مشرق سے مغرب کو چکر لگاتے ہیں اور راستوں پر آنے والے مقبروں پر دعائیں بھی کرتے ہیں۔ پہاڑ کے گرد یہ چکر (جس راستے سے زائر گھومتے ہیں) پچیس (25) میل لمبا ہے جبکہ جھیل کے گرد چکر اس سے دگنا ہے۔ پیدل چکر 3 دن میں مکمل ہوتا ہے جبکہ کچھ زائر زیادہ ’نیکی اور ثواب‘ کمانے کے حوالے سے زمین پر لڑھکتے ہوئے یہ چکر 3 ہفتے میں مکمل کرتے ہیں۔ کوہ کیلاش کے گرد 108 چکر لگانے کا مطلب دائمی خوشی اور مسرت ہے جبکہ جھیل مانسرور میں ایک بار نہانے سے نہ صرف ماضی کے بلکہ مستقبل کے گناہ بھی دھل جاتے ہیں
”یہاں پہنچنے والے پہلے دو شخص عیسائی یورپین مبلغ تھے جو سترہویں صدی میں ہندوستان سے گزر کر یہاں آئے۔ ان میں سے ایک کو میں نے کیلاش کے پربت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے سنا تھا: ’یہ بہت بلند پہاڑ ہر وقت بادلوں میں چھپا رہتا ہے۔ اس کی چوٹیاں برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ یہ انتہائی خوفناک، بنجر اور یخ بستہ ہے۔ قدیم دیوتاؤں کی یہ سر زمین عرصہ تک دنیا سے پوشیدہ ہی رہی کیونکہ تبتی کسی غیر ملکی کا یہاں آنا پسند نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی کو آنے کی اجازت دیتے تھے۔‘
وہ لمحہ بھر کے لئے رکا اور پھر داستان جاری رکھتے بولنے لگا ہے، ”اس جھیل اور علاقے سے متعلق معلومات پہلی بار ایک انگریز ماہر حیوانیات ڈاکٹر ’مور کرافٹ‘ نے دنیا تک پہنچائیں جو اٹھارویں صدی کے آغاز میں یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفر کی یادداشتیں بھی قلم بند کی ہیں۔ وہ چاروں طرف کچھ فاصلے تک اس جھیل کے گرد گھوما۔ وہ لکھتا ہے، ’اس جھیل کا ظاہری منظر اپنے اندر تقدس لئے ہوئے ہے۔ اس کے پتھریلے کناروں اور ریتلے ساحلوں پر جا بجا سرخ اور سبز گریفائیٹ کے بڑے بڑے ٹکڑے بکھرے ہیں جو قریبی چٹانوں سے ٹوٹ کر گرے ہیں۔ جھیل کا پانی بہت خوش ذائقہ ہے۔ یہاں مسلسل تیز چلتی ہواؤں کارخ اور رفتار بدلتی رہتی ہے۔ یہاں عقاب، بھوری مرغابیاں اور کئی قسم کے آبی پرندے بھی ہیں۔سارا دن کالے رنگ کے مچھر جھیل پر اڑتے رہتے ہیں (ایسے ہی مچھر دیو سائی میدان میں واقع شوشر جھیل پر بھی ہیں۔) جو ان پرندوں کو پریشان کرتے ہیں لیکن شام کو جب یہ خود جھیل کی سطح پر اترتے ہیں تو ٹراؤٹ کا شکار بن جاتے ہیں۔اس جھیل میں پہاڑوں سے اترتی پانی کی چھوٹی چھوٹی ندیاں گرتی ہیں مگر میں نے کسی ندی کو یہاں سے نکلتے نہیں دیکھا۔ یہ جھیل جسے خوبصورت اور حواس کو سرا سیمہ کر دینے والے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے روایتی خیال کے برعکس کسی بھی دریا کا منبع ہر گز نہیں ہے۔‘
”مغل حکمرانوں سے لے کر انگریز کے ہندوستان پر قابض ہونے تک کسی نے بھی پہاڑوں میں گھرے تبت کو نہ تو کبھی کوئی اہمیت دی تھی اور نہ ہی کاروبار کے حوالے سے اسے کوئی منافع بخش علاقہ خیال کیا تھا۔ اس جگہ کی اہمیت میرا منبع ہی تھی اور شاید آج بھی ہے۔ قدیم زمانے میں میرا منبع تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہی رہیں۔ مور کرافٹ کے یہاں پہنچنے تک دنیا دریائے ستلج (ہاتھی دریا) اور دریائے گنگا (کرنالی، مور دریا) کے منبعوں کے بارے میں جان چکی تھی۔گھوڑا دریا (برہم پتر) اور شیر دریا (دریائے سندھ) یعنی میرے اصل منبع کا تعین ہونا ابھی باقی تھا۔ مور کرافٹ بھی اپنے مقصد میں ناکام رہا۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 1)
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 5)