ما پارکر کی زندگی (نیوزی لینڈ کے انگریزی ادب سے منتخب افسانہ)

کیتھرین مینسفیلڈ (ترجمہ: ڈاکٹر صہبا جمال شازلی)

ما پارکر ہر منگل اس ادبی شخصیت کے فلیٹ پر صفائی کے کام پر مامور تھی۔ حسبِ معمول جب وہ اس صبح آئی تو صاحب نے دروازہ کھولا اور اس کے پوتے کے بارے میں پوچھا۔ ماپارکر نے اندھیرے ہال میں داخل ہو کر، دروازہ بند کرنے میں صاحب کی مدد کی، ”ہم نے اسے کل دفن کر دیا، جناب“ اس نے خاموشی سے جواب دیا

”اوہ۔۔۔ پیارا بچہ! افسوس ہوا جان کر۔۔“ صاحب نے چونکتے ہوئے کہا۔ وہ ایک خستہ اور پرانا گاؤن پہنے، ہاتھ میں مڑا ہوا اخبار لیے ناشتہ کر رہے تھے۔ ایک رسمی جملہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلا جانا انھیں عجیب سا لگ رہا تھا۔ انھیں اپنی گرم نشست گاہ میں جانے سے پہلے کچھ اور کہنا چاہیے۔۔۔ کچھ اور۔۔ کیونکہ یہ لوگ تدفین کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، لہٰذا انھوں نے بڑی ہمدردی سے کہا، ”مجھے امید ہے تدفین اچھی طرح ہو گئی ہوگی“

”معاف کیجیے گاجناب!؟“ ما پارکر نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔۔ بیچاری بڑھیا، جو پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی۔

”امید ہے تدفین اچھی طرح سے ہو چکی ہوگی“ صاحب نے کہا۔

ما پارکر نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ جھک کر باورچی خانہ صاف کرنے میں لگی رہی۔ مچھلی کی خالی تھیلیاں، صفائی کرنے کی اشیاء، ایپرن، جوتے سمیٹتے ہوئے۔ صاحب نے اپنی بھنویں چڑھائیں اور پھر ناشتہ کی طرف متوجہ ہو گئے

”شاید اپنے غم پر قابو پا لیا ہو“ انھوں نے پھلوں کا مربہ لیتے ہوئے اونچی آواز میں کہا

ما پارکر نے اپنی ٹوپی سے سیاہ اور چمکدار، مچھلی پکڑنے والے دو اوزار نکالے اور دروازہ کے پیچھے لٹکا دیے۔پرانا جیکٹ نکال کر وہ بھی ٹانگ دیا۔ پھر ایپرن پہن کر جوتے نکالنے کے لیے بیٹھ گئی۔ جوتے پہننا اور جوتے نکالنا، اس کے لیے بڑی مصیبت تھی۔۔ مصیبت، جو وہ برسوں سے سہتی رہی تھی۔ حقیقت میں وہ اس درد کی اتنی عادی ہو چکی تھی کہ اس کے آثار اس کے چہرے پر پہلے سے ہی نمودار ہوتے تھے، جب وہ جوتوں کے تسمے کھولنے لگتی تھی۔۔ اور پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے بیٹھ جاتی اور اپنے گھٹنوں کو سہلانے لگتی تھی۔۔۔۔

’دادی، دادی!‘ اس کا پوتا کھیلتا ہوا، دوڑتا ہوا آ کر جوتوں سمیت اس کی گود میں کھڑا ہوجاتا تھا

’دیکھو تم نے میرے کپڑوں کا کیا حال کردیا۔۔ نالائق لڑکے!‘

لیکن وہ اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر اس کے گالوں سے خود کے گالوں کو رگڑنے لگتا

’دادی ، مجھے ایک پینی (penny) دے دو!‘ وہ خوشامند کرنے لگتا

’چلے جاؤ یہاں سے؛ دادی کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔‘

’ہاں، ہیں آپ کے پاس۔‘

’نہیں، میرے پاس نہیں ہے۔‘

’ہاں، ہیں آپ کے پاس۔۔ دادی ایک دے دو نا!‘

وہ پہلے ہی سے اپنے پرانے، فرسودہ ،چمڑے کے پرس کو ٹٹولنے لگی تھی ’ٹھیک ہے۔ تم اپنی دادی کو کیا دوگے؟‘

وہ شرما کر ، ہنستے ہوے دادی کو لپٹ گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی پلکیں اس کے گالوں کے ساتھ لگ کر تھرتھرا رہی تھیں۔ ’میرے پاس پیسے نہیں ہیں‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا

بڑھیا تیزی سے اٹھی، گیس اسٹو سے لوہے کی کیتلی اٹھا کر سنک میں ڈال دی دھونے کے لیے۔ لگتا تھا کیتلی میں گرتے ہوئے پانی کی آواز نے اس کا درد ہی ختم کر دیا ہو۔اس نے پانی کی بالٹی اور کپڑے دھلنے کے لیے رکھے برتن میں بھی پانی بھر لیا۔

ہفتہ بھر میں وہ ادبی شخصیت باورچی خانہ کا کیا حال بنا رکھتا تھا، اس کو بتانے کے لیے شاید ایک پوری کتاب درکار ہوگی۔ چائے کی ساری پتی جام (jam) کے خالی شیشے میں الٹا دی، اور جب صاف کانٹے نہ ملیں تو گندے کانٹوں کو ہاتھ پوچھنے والی توال سے صاف کر لیا۔ ویسے وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ گھر کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہیں۔ لوگ خوامخواہ ہنگامہ مچاتے ہیں۔ ’آپ بس سارے برتن خراب کرتے جائیں، اور اس سارے غلاظت کے انبار کو ہفتہ میں ایک بار صاف کر لیں اور آپ کا کام ختم۔‘

نتیجتاً ایک دیوہیکل جسامت کا کچرے کا ڈبہ وہاں کھڑا تھا۔ فرش سارا ڈبل روٹی کے بچے ٹکڑوں، لفافوں اور سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا پڑا ہوتا۔ لیکن ما پارکر بالکل بھی برا نہیں مانتی تھی۔ بلکہ اس کے لیے اپنے دل میں ہمدردی محسوس کرتی کہ بیچارے کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ دھندلائی کھڑکی سے غمگین آسمان کی لامتناہی وسعت دکھائی دیتی، اور جب کبھی بھی بادل آجائیں تو وہ تھکے ہوئے پرانے بادلوں نے، ایک دوسرے سے رگڑ کر جیسے سوراخ پیدا کر لیے ہوں یا شاید چائے کے گہرے دھبے ہوں۔

پانی کے گرم ہونے تک ما پارکر فرش پر جھاڑو لگانے لگتی۔ جب کبھی بھی جھاڑو لگاتے ہوئے وہ کسی چیز سے ٹکراتی، تو سوچتی ’ہاں، یہ میرے دکھ کا حصہ ہے۔ بڑی مشکلوں سے بھری زندگی ہے۔‘

یہاں تک کہ اس کے پڑوسی بھی اس کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔ کئی مرتبہ جب وہ لنگڑاتی ہوئی، بڑا سا سامان کا تھیلا اٹھائے گھر کی طرف آتے ہوئے، نکڑ پر کھڑے یا جنگلے پر جھکے لوگوں کی باتیں سنتی ، ’ما پارکر بڑی مشکل زندگی گذارتی ہے۔‘ اور یہ سچ بھی تھا کہ اس کے پاس فخر کرنے جیسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ بیسمنٹ کے پچھلے حصہ میں نمبر ۲۷ میں رہتی تھی۔ واقعی سخت زندگی۔۔۔!

ما پارکر سولہ سال کی عمر میں اسٹریٹ فورڈ (Stratford) چھوڑ کر لندن، ملازمہ کے طور پر کام کرنے کے لیے، آ چکی تھی۔ ہاں وہ اسی اسٹریٹ فورڈ-آن-ایون (Stratford-on-Avon) میں پیدا ہوئی تھی، جو شیکسپیر کی جائے پیدائش تھی۔ لوگ اس سے ہمیشہ شیکسپیر کے بارے میں پوچھتے، لیکن اس نے تو کبھی نام بھی نہیں سنا تھا، جب تک کہ اس نے تھیٹرس میں اس کا نام دیکھا۔

ویسے اسٹریٹ فورڈ کی بھی کچھ ہی یادیں باقی تھیں۔ جیسے شام میں آتشدان کے پاس بیٹھ کر چمنی سے تاروں کو دیکھنا، ماں کا بیکن کو اوپر لٹکائے رکھنا۔۔ سامنے کے دروازہ کے قریب اگنے والی جھاڑیاں، جن سے بڑی اچھی خوشبو آیا کرتی تھی۔۔۔ لیکن جھاڑیوں کی یاد بہت مبہم سی تھی۔۔ اس نے بس دو ایک بار ہی یاد کیا تھا، جب وہ اسپتال میں تھی۔

اس کے رہنے کی پہلی جگہ کافی ناخوشگوار تھی۔ اسے کبھی باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ چونکہ وہ نمائش کے تہہ خانہ میں رہتے تھے، اس لیے صرف صبح اور شام عبادت کے لیے اوپر جانے کی اجازت تھی۔۔ اور باورچن بہت ہی ظالم عورت تھی۔ وہ اس کے گھر سے آئے سارے خطوط چھین کر آگ میں ڈال دیا کرتی تھی کیونکہ وہ اسے خیالوں میں گم کر دیا کرتے تھے۔۔ اور بھنورے! شاید آپ یقین نہ کریں، لندن آنے سے پہلے اس نے کبھی کالے بھنورے نہیں دیکھے تھے۔۔ اس پر ماپارکر ہنس دیا کرتی تھی۔ کالے بھنوروں کو نا دیکھنا! خیر یہ ایسی ہی بات ہوئی کہ آپ نے کبھی خود کے پیر نہ دیکھے ہوں۔

جب وہ لوگ گھر فروخت کر کے چلے گئے، تب ماپارکر ملازمہ کے طور پر ایک ڈاکٹر کے گھر رہنے لگی۔ دو سال کے بعد اس نے ایک بیکر سے شادی کر لی۔

’ایک بیکر، مسز پارکر!‘ ادبی شخص پوچھا کرتا تھا۔ کبھی کبھار وہ اپنی ضخیم کتابیں بازو رکھ کر اس کی باتیں سنا کرتا۔ یہ تیارکردہ چیز ’زندگی‘ کہلاتی ہے۔ ’کسی بیکر سے شادی کرنا واقعی بہتر تھا۔‘
مسز پارکر بہت زیادہ پریقین نہیں تھی

ادبی شخص نے کہا، ’بہت صاف ستھرا کاروبار‘ مسز پارکر کچھ نہ سمجھ پائی۔۔ ’اور کیا تمھیں پسند نہیں گاہکوں کو ڈبل روٹی دینا؟‘

’ٹھیک ہے، جناب‘ مسز پارکر نے بتایا، ’لیکن زیادہ تر میں دوکان پر نہیں ہوا کرتی تھی۔ہمارے تیرہ بچے تھے، جن میں سے سات انتقال کر گئے۔ میں اکثر چھوٹے بڑے دواخانوں میں ہوا کرتی تھی۔‘

’ہاں، ہاں، بے شک!‘ کہہ کر، خوف سے کپکپاتے ہوئے شریف انسان نے دوبارہ اپنا قلم اٹھا لیا

سات بچے گذر گئے اور چھے بہت چھوٹے تھے، تب ہی اس کے شوہر کو تپ دق لاحق ہو گیا۔ ڈاکٹر نے مسز پارکر کو بتایا کہ دراصل اس کے پھیپڑوں میں آٹا بھر گیا تھا۔پھر ڈاکٹر نے اس کے شوہر کی پیٹھ پر اپنی انگلی سے ایک دائرہ بناتے ہوئے کہا، ’اگر ہم نے یہاں پر آپریشن کیا تو دکھائی دے گا کہ اس کے پھیپڑوں میں سفید پاؤڈر پوری طرح سے بھر گیا ہے۔۔۔سانس لو، بھائی!‘ بیچاری مسز پارکر کبھی نہیں جان پائی کہ کیا اس نے سچ مچ دیکھا یا صرف اس کا خیال تھا کہ اس کے چہیتے شوہر کے منہ سے سفید گرد اڑ کر نکلی۔۔۔۔

لیکن چھے بچوں کی پرورش اور خود کو سنبھالے رکھنے کی جدوجہد واقعی ایک بے حد مشکل کام تھا۔ جب بچے اسکول جانے لگے تب اس کے شوہر کی بہن آ کر رہنے لگی تاکہ اس کی کچھ مدد ہوجائے۔ بدقسمتی سے نند کو دو ہی مہینے ہوئے تھے کہ وہ سیڑھیوں سے گر پڑی اور ریڑھ کی ہڈی زخمی ہو گئی اور اگلے پانچ سال تک وہ اپنی نند کو ایک روتے ہوئے بچے کی طرح سنبھالتی رہی۔ پھر ماڈی (Maudie) نے کچھ غلط عادتیں اپنا لیں اور بہن ایلس (Alice) کو لے کر کہیں چلا گیا۔ دو لڑکے کسی دوسرے ملک کو ہجرت کر گئے۔ چھوٹا جم (Jim) فوج میں شامل ہو کر انڈیا چلا گیا اور سب سے چھوٹا ایتھل (Ethel)، اس نے ایک بیکار سی ویٹر سے شادی کی، جو لینی (Lennie) کی پیدائش کے ساتھ ہی السر سے متاثر ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گئی۔

اور اب یہ چھوٹا سا لینی۔۔۔ اس کا پوتا۔۔۔۔۔۔

استعمال شدہ گندے کپ، پلیٹیں دھو کر خشک کر دیے گئے۔ کالی چھریوں کو آلو کے ٹکڑے سے صاف کرنے کے بعد شاہ بلوط کی چھال سے مزید صاف کر دیا گیا۔ کھانے کی میز اور سنگھار میز رگڑ کر صاف کرنے کے بعد سنک بھی صاف کر دیا گیا، جس میں چھوٹی مچھلیوں کی دمیں تیر رہی تھیں۔

لینی کوئی صحت مند بچہ نہیں تھا۔ چاندی سی چمکتی زلفوں، نیلی آنکھوں، اور ناک کی ایک طرف ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے داغ کے ساتھ وہ ان گورے بچوں میں سے تھا، جسے کوئی بھی اپنی لڑکی کے لیے پسند کر لیتا۔ ما پارکر اور ایتھل کے لیے اس کی پرورش کرنا ایک مسئلہ تھا۔اخبارات میں دیے گیے اشتہارات کی چیزوں کا استعمال بھی بےسود رہا۔ ہر اتوار کو ایتھل اپنی ماں کو اشتہارات پڑھ کر سناتا، جب وہ کپڑے دھورہی ہوتی۔

’جناب… آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میری مائرٹل (Myrtil) تقریباً موت کے قریب تھی۔۔ اس دوا کی چار بوتلوں کے استعمال نے نو ہفتوں میں اس کے وزن میں آٹھ پاؤنڈ کا اضافہ ہوا۔ اور اب بڑھتا ہی جارہا ہے۔‘

فوراً ہی خط لکھا گیا اور پارسل منگوا کر دوسرے ہی دن سے اس کا استعمال شروع کر دیا گیا، لیکن اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہو سکا۔ کوئی بھی دوا یا تدبیر ننھے لینی کو تندرست نہیں کر پائی۔ یہاں تک کہ قبرستان بھی لے جایا گیا، لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔۔ بس کے جھٹکے بھی اس کی بھوک کو بڑھانے میں کوئی خاص مددگار ثابت نہ ہو سکے۔

لیکن وہ تو بس ابتدا ہی سے اپنی دادی کا پوتا تھا۔
’تم کس کے لڑکے ہو؟‘ ما پارکر نے چولھے کے اوپر سے سیدھی ہو کر دھندلی کھڑکی کے پاس جاتے ہوئے پوچھا۔۔ اور ایک ہلکی سی، گرم اور بہت قریب سے، جیسے اس کی سانس ہی رک گئی ہو، جیسے اس کے دل کے اندر سے کوئی ہنس دیا اور کہا ، ’میں اپنی دادی کا بیٹا ہوں!‘

اسی لمحہ کسی کے قدموں کی آواز آئی، ادبی شخصیت سیر کو جانے کے لیے کپڑے تبدیل کر کے نمودار ہوئے۔ ”مسز پارکر میں باہر جارہا ہوں۔“

”ٹھیک ہے جناب۔“

”اور تمھارا آدھا کراون (half crown) میں نے سیاہی کی دوات کی کشتی میں رکھ دیا ہے۔“

”بہت شکریہ، جناب۔“

”ویسے، مسزپارکر“ ادبی شخصیت نے پوچھا، ”کہیں میرا کوکوا (cocoa) تم نے تو نہیں پھینک دیا تھا، جب تم یہاں تھیں۔۔۔ پھینکا تھا؟“

”نہیں، نہیں، جناب۔“

”تعجب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تھوڑا سا کوکوا ڈبے میں چھوڑ رکھا تھا“ پھر نرمی کے ساتھ کہا، ”آئندہ تم کبھی بھی مجھے بتائے بغیر کوئی چیز نہیں پھینکو گی۔“

اور وہ چلا گیا، کافی خوش اور مطمئن۔۔ کہ اس نے مسز پارکر کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ وہ گھریلو کاموں میں بے حد لاپرواہ ہی صحیح لیکن وہ ایک عورت کی طرح چوکنا اور محتاط بھی تھا۔
دروازہ کے بند ہونے کی آواز آئی۔ مسز پارکر صفائی کے لیے اپنے برش اور کپڑے لے کر بیڈ روم میں چلی گئی۔ بستر ٹھیک کرتے ہوئے لینی کے خیال نے اسے پریشان کر دیا۔وہ کیوں اتنی تکلیف سہے؟ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ فرشتے جیسے بچے کو آخر کیوں اپنی سانسوں کے لیے لڑنا پڑتا ہے؟ بچے کی اس تکلیف کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

لینی کے سینے سے کسی چیز کے ابلنے کی آوازیں آتی رہتیں۔ اس کے سینے میں کسی قسم کی گانٹھ بن چکی تھی، جس سے بلبلے نکلتے رہتے اور اس تکلیف سے وہ شاید کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے۔ جب وہ کھانستا تھا تو لگتا تھا کہ آنکھیں باہر نکل پڑیں گی۔ اس کی آنکھیں سوج کر باہر کو نکل آئی تھیں اور سینہ کی گانٹھ اس طرح سے آوازیں کرتی رہتی، جیسے ابلتا ہوا آلو برتن سے ٹکراتا ہو۔اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ جب وہ نہیں کھانس رہا ہوتا، تو تکیہ کے سہارے بس خاموش بیٹھا رہتا۔ وہ سنتا تو رہتا لیکن ناراضگی کا تاثر دیتا۔

’میرے لال، یہ سب تمھاری غریب دادی نہیں کر رہی ہے‘ اس کے گیلے بالوں کو اس کے سرخ کانوں کے پیچھے ہٹاتے ہوئے مسز پارکر نے کہا۔ لیکن لینی سر ہٹاتے ہوئے دور چلا گیا۔ وہ خوفناک طور پر ناراض اور سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے سر جھکا لیا اور ترچھی نظروں سے ایسے دیکھ رہا تھا، جیسے اسے اپنی دادی کی باتوں پر یقین نہیں تھا۔

آخر مسز پارکر نے چادر بستر پر پھینکی۔ اب وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کی قوتِ برداشت تقریباً ختم ہو چلی تھی۔ وہ مسلسل برداشت کیے جاری تھی، بغیر کوئی شکوہ کیے۔۔ کسی نے اسے روتا ہوا نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ اس کے اپنے بچوں نے زیادتیاں کیں، تب بھی وہ نہیں ٹوٹی۔ چہرہ ہمیشہ فخر سے بھرپور رہا۔۔ لیکن اب لینی چلا گیا۔۔۔ کیا رہا اس کے پاس؟ کچھ بھی تو نہیں! لینی کے سوا اس کے پاس تھا ہی کیا؟ وہ خدا نے اس سے چھین لیا۔ وہ حیران تھی یہ سب اسی کے ساتھ کیوں ہوا؟ ’آخر میں نے کیا کیا؟‘ ما پارکر نے کہا، ’آخر میں نے کیا کیا؟‘
ان جملوں کو کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے برش چھوٹ گیا اور جب اسے پتہ چلا کہ وہ باورچی خانہ میں تھی، اس نے اپنی ٹوپی اور جیکٹ پہنی اور فلیٹ سے اس طرح باہر نکلی جیسے خواب میں چل رہی ہو۔ اسے بالکل پتہ نہیں تھا وہ کیا کر رہی تھی۔۔ وہ ایسے حواس باختہ ہو کر چلی جا رہی تھی، جیسے اس نے کوئی خطرناک منظر دیکھ لیا ہو۔۔ وہ بس چلی جا رہی تھی۔۔۔ کہیں بھی، جیسے چلے جانے سے اسے غموں سے چھٹکارا مل جائے گا۔۔۔

باہر یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے سردی کی شدت میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔ لوگ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ کوئی کسی کی پرواہ کیے بغیر _ مرد قینچی کی طرح تیز جب کہ خواتین بلی کی طرح پاؤں دباتے ہوئے۔کوئی کسی کو نہیں جانتا، کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔

ان تمام برسوں میں جب بھی مسز پارکر ٹوٹ کر رونا چاہتی تو خود کو کسی کمرے میں مقفل کر لیا کرتی تھی۔
رونے کے خیال سے ہی اسے محسوس ہونے لگتا جیسے لینی اس کی بانہوں میں اچھل کود رہا ہو۔ یہی سب تو وہ کرنا چاہتی تھی اپنے کبوتر کے ساتھ۔۔ دادی روناچاہتی تھی۔۔ اگر وہ اس وقت رونا چاہتی تو بہتر ہے کہ وہ کافی دیر تک ہر بات پر رو لے _

اس کی پہلی ملازمت سے شروعات کر کے اس ظالم کوک (cook)، ڈاکٹر کے گھر، پھر وہ سات بچوں کی موت، شوہر کی موت، اس کے بچوں کا چھوڑ کر چلا جانا اور وہ سارے مصیبتوں سے بھرے سال، جو لینی کے ساتھ گذرے۔۔ لیکن ان سب کے لیے ایک مناسب چیخ نکالنے کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ ایسے ہی، جیسے اب اس کا وقت آ چکا تھا۔ اسے یہ کرنا ہی ہوگا۔ اس کو مزید آگے نہیں دھکیلا جا سکتا۔ اسے اور زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔۔ وہ آخر کہاں جاسکتی تھی۔

’بڑی سخت زندگی گذاری تھی ما پارکر نے، ہاں، بے شک، مشکلات سے بھری۔۔ اس کی ٹھوڑی تک ہلنے لگی تھی۔ مزید وقت گنوایا نہیں جا سکتا تھا۔۔ لیکن کہاں؟ آخر کہاں؟

وہ گھر تو نہیں جا سکتی تھی؛ کیونکہ ایتھل وہاں تھا۔ہو سکتا ہے کہ ڈر کر وہ بھی اس کی زندگی سے چلا جائے۔۔ وہ کہیں کسی بنچ پر نہیں بیٹھ سکتی تھی، کیونکہ آتے جاتے لوگ ہزاروں سوالات پوچھ سکتے تھے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ اس شریف انسان کے فلیٹ پر گئی ہو۔ وہ کبھی اجنبیوں کے سامنے اپنے دکھوں کو بیان کر کے نہیں رو سکتی۔ اگر وہ کہیں سیڑھیوں پر بیٹھی ہو تو کوئی پولیس والا تفتیش کرنا شروع کردے گا۔

اوہ، کیا ایسی کوئی جگہ ہو سکتی تھی، جہاں وہ خود کو چھپا سکے اور خود کے وجود کے ساتھ، جب تک چاہے رہے، نہ وہ کسی کو پریشان کرے اور نہ ہی کوئی اسے؟ کیا دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی، جہاں وہ بلآخر اپنی دبی ہوئی چیخ نکال سکے؟

ما پارکر بس کھڑی تھی، اوپر اور نیچے دیکھتی ہوئی۔۔ یخ بستہ ہوائیں اس کا ایپرن غبارے کی طرح اڑا لے گئیں۔بارش شروع ہو گئی۔۔ وہ جگہ کہیں نہیں تھی۔

Original Title: Life of Ma Parker
Written by:
Kathleen Mansfield Murry

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close