سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 7)

شہزاد احمد حمید

”وہ شخص جو برہما پتر اور میرے منبع دریافت کرنے کا پختہ عزم لے کر یہاں آیا سویڈش سیاح ’سیون ہیڈن‘ تھا جو 1907؁ ء میں مانسرور پہنچا۔ وہ لکھتا ہے؛ ’جھیل مانسرور کی سطح گنبد کی طرح ہے جس کی سنہری ریت پر ایک بڑا درخت اگا ہے جس پرسادھوؤں کے بے شمار سنہرے حجرے لٹکے ہیں۔ اس درخت نے جھیل کے نیچے واقع دیوتاؤں کے قلعے کو چھپا رکھا ہے۔جھیل کا قطر 15 میل ہے۔ رات کو ہوا عام طور پر تھم جاتی ہے اور چاند نی میں پہاڑ بھوتوں کی مانند نظر آتے ہیں تب یہ دنیا ایک پرستان معلوم پڑتی ہے۔جھیل گہری طشتری کی مانند ہے۔ درمیان سے اس کی گہرائی تقریباً اڑھائی سو فٹ ہے۔مجھے جھیل مانسرور سے پانی کا کوئی نکاس نظر نہیں آیا۔“

”سیون ہیڈن مزید لکھتا ہے: ’مانسرور سے میں دریائے سندھ کے پہلے معاون دریا گارتک سے ہوتا گارتک قصبہ پہنچا۔ کوہ کیلاش کے دامن کے ساتھ سفر کرتے اس پہاڑی سلسلہ کو عبور کرکے میں وسیع سرسبز میدان میں اترا جہاں کثیر تعداد میں ریوڑ اور چرواہے ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ ان چرواہوں میں سے ایک سنگی کھابب کا راستہ جانتا تھا وہ میرے ساتھ ہو لیا۔ پانی کی ایک غیر اہم ندی کے ساتھ بہاؤ کے مخالف سمت سفر کرتے ہم وہاں پہنچے ہیں جہاں یہ ندی ایک چھوٹے سے نالے میں بدل گئی ہے۔ ہم چڑھائی چڑھ کر سترہ ہزار (17000) فٹ بلند گارتک وادی میں اترے ہیں۔پہاڑ کے پہلو سے ’سل‘ کی شکل کی ایک چٹان باہر کو ابھری ہوئی ہے۔ اس چٹان کے نیچے بہت سے چھوٹے چھوٹے چشمے ابل رہے ہیں جن کا پانی گھاس پھوس سے بھرے تالابوں میں جمع ہو رہا ہے۔ قریب ہی زائر ین نے منت اتارنے کے لئے پتھروں کی ڈھیریاں بنا رکھی ہیں۔ یہ پہلا مقدس مقام ہے اور دوسرا ”سنگی کھابب (شیر کا منہ)۔

”آگے چل کر وہ لکھتاہے: ’میں یہاں سنگی کھابب پر کھڑا دریائے سندھ کو زمین کی آغوش سے جنم لیتے دیکھ رہا ہوں۔“

میں نے سندھو سے پوچھا؛ ”کیا ہیڈن ہی وہ شخص ہے جس نے تمھارا منبع تلاش کیا؟ میرے نزدیک یہ امر بحث طلب ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ مختلف سمتوں سے آنے والی ندیاں مل کر سندھو کی ابتدا کرتی ہیں۔ ان میں سے کس کو دریائے سندھ کی ابتداء تسلیم کیا جائے، ایک اہم سوال ہے۔ بہرحال مقامی لوگوں کی رائے میں کیا اس ندی کو سندھو کا منبع تسلیم کیا جائے جو سب سے زیادہ لمبی ہے یا اُس کو جس میں پانی کی مقدار سب سے زیادہ ہے؟“

میری اس نشاندہی کا سن کر سندھو کہنے لگا؛ ”ہیڈن ان مقامی روایات کو رد کرتا ہے شاید ایسا کرنا اس کے مفاد میں بھی تھا۔ میرے نزدیک یہ اہم نقطہ نہیں ایک طاقت ور اور عظیم دریا کے کئی منہ ہو سکتے ہیں۔ آج تبت کے جو نقشے بنائے جاتے ہیں ان میں میری ابتداء انہی چشموں کو دکھایا گیا ہے جو ہیڈن نے ہی دریافت کئے تھے۔ سنگی کھابب جھیل مانسرور سے تیس(30) میل کے فاصلے پر مزید بلندی پر واقع ہے۔

”تم کو یہ بھی بتا دوں۔ تبتی ہمیشہ ناممکنات اور باہمی متضاد اشیاء پر یقین کرتے ہیں اور آج بھی ان کے خیال میں دریائے سندھ جھیل مانسرور سے ہی نکلتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ جھیل مقدس ہے اور مجھ جیسے عظیم اور طاقت ور دریا کو اسی جھیل سے نکلنا چاہیے۔دوست! روایات اس قدر غلط بھی نہیں ہوتیں۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ ان چاروں میں سے کوئی بھی دریا اس جھیل سے نہیں نکلتا پھر بھی یہ ندیاں ایک دوسرے سے اتنے کم فاصلے سے پھوٹتی ہیں کہ ہم کہہ سکتے ہیں یہ ایک ہی جگہ سے نکل کر چار مختلف سمتوں کا رخ کرتی ہیں۔“

میں نے کہا؛ ”مان لیا تم نے اپنی ابتداء کے حوالے سے ٹھوس گفتگو کی ہے۔ چلودوست! کچھ تبت اور تبتی لوگوں کے بارے تو بتاؤ۔“

داستان گو کہانی آگے بڑھاتے کہنے لگا؛ ”اپنی ابتداء میں، میں تبتی چٹانوں، بلند و بالا پہاڑوں سے سفر شروع کرتا شمال مغرب اور پھر مغرب کا رخ کرتا درانتی کی شکل بناتا ہوں۔ میرا ابتدائی حصہ مغربی تبت کی داستان ہے۔ ہمسایہ ممالک کے لئے تبت معاشی اور فوجی نقطہ نگاہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں سونے، یورینیم، نمک، آتشی فولاد اور بورکس کے علاوہ بہت کچھ پایا جاتا ہے۔ تیل کی موجودگی کے امکانات بھی ہیں۔ اپنے مغرب میں قیمتی چراگاہیں مہیا کرتا وادی کشمیر میں اترتا ہوں۔ بلندو بالا کہساروں اور شدید موسم کے باوجود تبت میں اتنی کشش ضرور موجود ہے کہ اسے کئی بار چین، لداخ اور نیپال سے آنے والے حملہ آوروں سے لڑنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ تبتی دوسرے ممالک کے رہنے والوں کا تبت آنا اچھا نہیں سمجھتے۔ اگر یہاں آئے سیاحوں کے بیان یکجا کیا جائیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا؛ بیابانوں پہ مشتمل تبت ایک خوبصورت، خطرناک اور منفرد ملک کا نقشہ ہے

”یہاں حسین قدرتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہوا لطیف، تیز اور ماحول اس قدر صاف ہے کہ دور دور تک اشیاء واضح نظر آتی ہیں۔چٹانیں بے برگ و بار اور عام طور پر بھورے رنگ کی ہیں جن پر کہیں کہیں پیلے اور سرخ رنگ کے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ اجڑے اور خالی بیابانوں کے پار نوکیلے پہاڑ قطار اندر قطار کھڑے ہیں جن پر سارا سال برف جمی رہتی ہے۔ تبتی سطح مرتفع میں میرا پانی بہت شفاف اور نیلگوں ہے مگر گرمی میں جب برف پگھلتی ہے تو یہ گدلا اور گہرا ہوجاتا ہے۔ سرد موسم میں میری سطح جم جاتی ہے اور مجھ پر باریک برف کی تہہ ابھر آتی ہے۔ سال2010 ء میں ’غمدس‘ کے قریب میری سطح اس قدر سخت برف سے جم گئی تھی کہ لوگ اس پر موٹر سائیکل چلانے لگے تھے اور بچے کرکٹ کھیلنے۔ میری سطح پر برف کا جمنا کوئی نئی بات نہیں زمانہ قدیم سے ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ تبت ایک خاموش مقام ہے جہاں ہر موسم میں ہوا سیٹیاں بجاتی گزرتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہوا یہاں کی گہری خاموشی کو اور بھی اجاگر کرتی ہے۔ پرندوں میں کالا کوا کبھی کسی پہاڑ کی ڈھلوان کے پاس اڑتا نظر آ جاتا ہے اور کبھی صاف فضا میں عقاب بھی آسمان کی وسعتوں میں اڑتا دکھائی دیتا ہے۔ پہاڑ کے دامن میں خرگوش، ہرن اور گلہری چرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر برفانی چیتوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ برفانی ریچھ اور چیتے ان برف زاروں پر کھیلتے، شکار کے پیچھے دوڑتے اور پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ یہاں کی وادیوں میں یاک، بھیڑیں اور بکریاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے منفرد اور خوبصورت شاخ در شاخ سینگوں والی بھیڑ ’مارکو پولو شیپ‘ marco polo sheep ہے (روایت کے مطابق اس بھیڑ کو سب سے پہلے مارکو پولو نے ہی دیکھا تھا اور اس کے نام کی نسبت سے یہ مارکو پولو شیپ کہلاتی ہے۔)

”یہاں انسانوں کی موجودگی کے آثار کم ہیں۔ میرے بالائی حصہ میں تبتی باشندے محض پوجا پاٹ یا تجارت کرنے یا پھر بھیڑ بکریاں چرانے کے لئے ہی آتے ہیں۔ تبتی مظاہر پرست ہیں۔ ان کے عقیدے کو موسموں کی شدت، قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی و بربادی مزید تقویت دیتی ہے۔ وہ بے شمار دیوتاؤں کو پوجتے ہیں اور اپنی خوشی اور تحفظ کے لئے دیوتاؤں کے علاوہ دریاؤں، چشموں، پہاڑوں اور ہواؤں کی بھی پوجا کرتے ہیں اور نذرانے کے طور پر جانوروں کی بلی چڑھاتے ہیں۔ ’بون‘ قدیم ترین حکومتی مذہب تھا جس کے ماننے والے پروہت اور کاہن کی صورت عوام پر اپنی برتری اور اقتدار کے جال ڈالا کرتے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے تمھارے دیس میں آج بھی کچھ مخصوص طبقے کے مذہبی پیشواؤں نے ڈال رکھا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں تبت کے بادشاہ نے بدھ مذہب کی ماننے والی دو خواتین سے شادی کی، خود بھی بدھ مت اختیار کیا تو بدھ مت یہاں کا حکومتی مذہب بن گیا اور اسے فروغ ملنے لگا۔ اس کے باوجود قدیم مقامی مذہب بون کو ختم نہ کیا جا سکا۔ بدھ پروہتوں، عالموں اور راہبوں کے ساتھ ساتھ آج بھی غیب دان، جوتشی، جادوگر، آسیب اتارنے والے اور مذہبی رقاص اپنی اپنی رسوم ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے دوست؛ شعبدہ بازی اور بت پرستی کی یہ عجیب و غریب ملغوبہ دنیا ہے۔بدھ مت کی جو صورت ’لاما ازم‘ میں یہاں پروان چڑھی اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہے۔ لاما کا مطلب ہے ’استاد، آقا، یا عظیم تر۔‘ سترھویں صدی عیسوی میں سب سے بڑے لاما کو تبت کا سردار دیوتا ’چنرازی‘ کا دوسرا جنم قرار دے کر ’دلائی لامہ یعنی زندہ بدھا‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر چینی حملوں تک بدھ پروہت یہاں بلا شرکت غیر حکومت کرتے رہے۔ 1950؁ء میں چینی سول وار کے خاتمے پر تبت کو چین میں شامل کرنے کے لئے چودھویں دلائی لامہ سے 7 نکاتی معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی پا سداری نہ کرتے ہوئے دلائی لامہ 1859ء میں اپنے دارالحکومت سے فرار ہوئے اور ’دھرم شالا‘ (بھارت) میں خود کو جلا وطن کر لیا اور تب سے وہیں مقیم ہیں جہاں انہوں نے جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے۔ تم بڑے لوگ ہوتے ہی ناقابل بھروسہ ہو۔ اپنے مطلب کے صرف۔۔

”تبتی مذہب پسند لوگ ہیں۔ ہر گھر میں قربان گاہ اور عبادت کے لئے مخصوص جگہ ہے۔ ہرے بھرے میدانوں اور صحراؤں میں بھی پگوڈا کی شکل کے ’چارٹنر‘ یا مقبرے قائم ہیں جن میں مرنے والوں کی راکھ رکھی جاتی ہے۔ دعائیہ چرخ ہیں جن کو مسافر گھماتے ہیں، لمبے لمبے بانسوں پر علم لہراتے ہیں۔یوں دنیا سے چلے جانے والوں سے اظہار عقیدت کرتے ہیں۔زندوں کی ناقدری اور مردوں سے عقیدت۔ یہ بھی تمھاری دنیا کا نرالا اصول ہے۔

”میرے گرد آباد دیہاتی گھروں کی سر نکالتی ہوئی سنہری چھتیں، سرخ، بھورے اور پیلے رنگ والی بڑی بڑی خانقاہیں صدیوں سے ویسی کی ویسی اپنی نوک دار چوٹیوں کے ساتھ کھڑی گھورتی نظر آتی ہیں۔ یاد رکھو؛ یہاں مادیت کا غلبہ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ تبتی دنیا میں شاید سب سے آزاد اور خود مختار قوم ہے۔ یہاں دھونس سے لاگو کی جانے والی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بقول ایک سیاح؛ ’تبتی ایک خوش باش چھوٹی سی قوم ہے جس کا مزاج بچوں جیسا ہے۔ وہ ہنسنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، ہر چیز اور شخص کا مذاق اڑانے کے عادی ہیں۔‘ ویسے ہی جیسے فلم ”گائیڈ“ میں دیو آنند ہر شے کو دھوائیں میں اڑا دیتا ہے۔ تبتی لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ نئے اور مختلف نظریات کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ یہ دنیاوی معاملات میں کسی دوسری قوم سے کم نہیں۔ تاہم اپنے روحانی پیشواؤں کی پیروی میں وہ ہمیشہ مذہب کو تجارت پر فوقیت دیتے ہیں۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close