خانبہادر اللہ بخش خان گبول ۱۸۹۶ میں اللہ بخش خان گبول گوٹھ، دیھ فہائی، ضلع ملیر میں خداداد خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام صدگنج تھا۔ دیھ فہائی ملیر کا ایک دور افتادہ گاؤں ہے۔ اُس وقت اس گاؤں میں کوئی اسکول وغیرہ نہیں تھا۔ خداداد خان گبول ایک زمیندار تھے۔ ان کی زمینیں دیھ فہائی، دیھ شرافی، دیھ ڈگھ اور دیھ صفوران میں تھیں۔ انگریزوں کی حکومت میں خداداد خان گبول کو انگریز فوج کو خوراک اور گوشت وغیرہ کی فراہمی کا ٹھیکہ بھی حاصل تھا۔ خداداد خان گبول کی انگریز حکومت سے قریب ہونے کی وجہ سے ان کو انگریزی تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے آگاہی حاصل ہوئی اور اس وجہ سے انہوں نے اپنے فرزند اللہ بخش خان گبول کو سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کر دیا۔
سندھ مدرسۃ الاسلام نے اللہ بخش خان گبول کی ذاتی خوبیوں اور صلاحیتوں کو خوب پروان چڑھایا۔ سندھ مدرسہ میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اللہ بخش خان گبول سیاست کی طرف مائل ہوئے۔ چونکہ سندھ مدرسۃ الاسلام ایک ایسا ادارہ تھا، جہاں طلباء زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست کی طرف مائل ہو جاتے تھے کیونکہ سندھ مدرسہ کے قیام کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمان طلباء کو علم سیاست سے آگہی دی جائے تاکہ وہ اپنے مظلوم قوموں کو آزادی کی راہ دکھا سکیں اور ادارہ اپنی کوششوں میں سو فیصد کامیاب بھی رہا اور اسی ادارے کی بدولت مملکت خداداد پاکستان کو کئی نامور سیاستدان، صحافی، ڈاکٹر اور ادیب نصیب ہوئے۔ خود بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ابتدائی تعلیم اسی مدرسے سے حاصل کی اور اسی مدرسے کے طالب علم خانبہادر اللہ بخش گبول نے نہ صرف سیاست کے میدان میں نام پیدا کیا بلکہ اپنے غریب خستہ حال لوگوں کی مدد اور خدمت بھی کی ہے۔
۱۸۴۰ء میں کنزرویشن بورڈ بلدیہ کراچی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت کراچی کی آبادی صرف پندرہ ہزار تھی۔ ۱۸۴۷ء میں سندھ کو ممبئی سے ملا دیا گیا۔ جہاں پہلے گورنر ہوتا تھا بعد میں گورنر کی جگہ کمشنر مقرر کیے گئے۔ ۱۸۵۱ء میں بورڈ آف کنزرویشن کو میونسپل کارپوریشن میں تبدیل کیا گیا اس وقت کراچی کی آبادی ۲۳ ہزار تھی۔ میونسپل کمیٹی کے سربراہ کو پہلے صدر کہتے تھے، ۱۹۳۳ میں اس کو تبدیل کر کے میئر کا نام دیا گیا اور جمشید مہتا جو اس وقت کراچی میونسپل کارپوریشن کے صدر تھے، کراچی کے پہلے میئر کے لیے منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے ۱۹۲۱ء میں غلام چاگلہ کراچی میونسپل کمیٹی کے صدر تھے۔
ضلع کراچی، کراچی کے دیہات پر مشتمل ہوتا تھا اور ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کے ماتحت تھا اور اس کے حدود اربعہ میں موجود ضلع ٹھٹہ اور دادو ضلع سے کوٹڑی بھی شامل تھے۔ کوٹڑی کو ۱۹۳۳ء میں علیحدہ کر کے دادو کے ساتھ شامل کیا گیا اور ٹھٹہ کو ۱۹۳۳ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا، جس میں ملیر ضلع کے درسانہ چھنہ اور گڈاپ بھی شامل کیے گئے۔
جس طرح شہری علاقوں کی ترقی اور انتظام کے لئے میونسپل کمیشن بنایا گیا تھا، اسی طرح دیہی آبادی کی بہتری کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ وجود میں لایا گیا۔ ۱۹۰۶ میں ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ قیام عمل میں لایا گیا۔ شروع شروع میں کلکٹر بورڈ کے صدر ہوتے تھے اور ممبر بھی حکومت کی طرف سے نامزد کیے جاتے تھے۔
۱۹۲۰میں رائے بہادر ہرچند رائے وشنداس کراچی ضلع لوکل بورڈ کے پہلے منتخب صدر چنے گئے۔ ۱۹۲۵ میں رائے بہادر ہرچند رائے دوبارہ صدر اور سائیں جی ایم سید مرحوم نائب صدر منتخب ہوئے اور ۱۹۲۸ کے ٹرم میں جی ایم سید صدر اور خانبہادر اللہ بخش گبول نائب صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۳ میں کوٹڑی دادو میں شامل ہونے اور ٹھٹہ کا علیحدہ ضلع وجود میں آنے کے بعد خانبہادر اللہ بخش خان گبول لوکل بورڈ کے صدر نامزد کیے گئے۔ اس طرح خانبہادر نے مختصر عرصے میں سیاست کے میدان میں اپنے وجود کو تسلیم کروا کر ملیر ضلع کے مردم خیزی کا ثبوت فراہم کر دیا۔
خانبہادر اللہ بخش گبول ۱۹۳۲ سے ۱۹۶۲ تک صدر کراچی لوکل بورڈ اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے ممبر رہے۔
۱۹۳۶ میں سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا۔ ۱۹۳۷ میں نئے انتخابات ہوئے اور سر غلام حسین سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے اور ۱۹۳۸ میں سر غلام حسین کی حکومت ختم ہو گئی اور ان کی جگہ خانبہادر اللہ بخش خان سومرو نے حکومت بنائی اور چند مہینوں میں اللہ بخش خان کے مسلمان ترقی پسند گروپ سے اختلاف پیدا ہو گئے۔ اس طرح جی ایم سید اور پیر علی محمد راشدی نے اللہ بخش کی حکومت ختم کرنے کے خاطر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اور خانبہادر اللہ بخش خان گبول چونکہ غلام حسین گروپ سے پہلے وابستہ تھے، ان کی بھی خانبہادر اللہ بخش سومرو کی حکومت سے اختلاف تھے۔ وہ بھی ایوب کھوڑو اور سر غلام حسین کے ساتھ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ اس سے پہلے سندھ میں مسلم لیگ کی باقاعدہ تنظیم نہیں تھی۔
ان تمام کی شمولیت کے بعد فیصلہ ہوا کہ سندھ میں مسلم لیگ کو منظم کیا جائے اور اس کی ابتدا کے لیے کراچی میں بڑی مسلم لیگ کانفرنس قائد اعظم کی زیر صدارت بلائی جائے۔ اس مقصد کے لیے میٹنگ بلائی گئی۔ حاجی عبداللہ ہارون صاحب بینٹر روڈ والے آفس میں کانفرنس بلانے کے فیصلے کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ مجلس استقبالیہ کے عہدے دار کون ہوں؟
تو خان بہادر اللہ بخش گبول نے اپنی ذہانت اور دانشمندی سے استقبالیہ کمیشن کے صدارت کے لئے عبداللہ ہارون اور جنرل سیکریٹری کے لئے پیر علی محمد راشدی کے نام پیش کیے حالانکہ اس سے قبل ان دو ہستیوں کے درمیان شدید اختلاف تھے، جن کو خان بہادر نے اپنی ذہانت سے ختم کرا کے مسلم لیگ سندھ کی مضبوط بنیاد قائم کی۔ اس طرح خان بہادر اللہ بخش خان گبول نہ صرف مسلم لیگ سندھ کے بانی ارکان میں سے ہیں، بلکہ پاکستان ریولوشن کے خالقوں میں سے ہیں، کیونکہ اگر مسلم لیگ سندھ قائم نہ ہوتی تو سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد پیش نہ ہوتی، اگر سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد منظور نہ ہوتی تو تحریک پاکستان کو پوری دنیا میں برتری حاصل نہ ہوتی۔ چونکہ سندھ اول صوبہ تھا، جس نے قرارداد پاکستان پاس کر کے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کر دی اور منزل کو بیت کر دیا۔
اس حقیقت سے گبول صاحب کی دور اندیشی اور اپنے مخالفین کو اجتماعی مفاد کی خاطر قبول کرنے کی استطاعت معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ عبداللہ ہارون اور گبول صاحب کا حلقہ انتخاب ایک ہی تھا تو وہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہے۔
اگر گبول صاحب کی جگہ کوئی کوتاہ اندیش شخص ہوتا تو عبداللہ ہارون کا نام بطور صدر استقبالیہ کمیٹی قطعاً پیش نہ کرتا بلکہ وہ اس کی مخالفت کرتا، لیکن گبول صاحب نے اجتماعی مفاد کی خاطر ذاتی مفاد کو قربان کر کے زریں تاج اپنی سیاسی حریف کو پہنا کر آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک اچھی مثال قائم کر دی۔
گبول صاحب کی سیاسی زندگی میں اس طرح کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ان میں سب سے اعلیٰ ۱۹۴۶ کے انتخاب کے موقع پر عید گاہ میدان کا خطبہ ہے، جس میں قائد اعظم نے درخواست کی کہ مجھے اس انتخاب میں سندھ کی تمام نشستوں پر کامیابی کی ضرورت ہے، اگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو پاکستان کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت خان بہادر اللہ بخش خان اور یوسف ہارون ہر دو ایک ہی نشست پر امیدوار تھے، لیکن گبول صاحب نے قائد اعظم کی اپیل پر لبیک کہہ کر الیکشن سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تاکہ یوسف ہارون کامیاب ہو سکے۔ اس طرح ایک بار پھر گبول صاحب نے ذاتی مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح دے کر حصول پاکستان کو آسان تر بنا دیا۔
گبول صاحب کو انسانی خدمات کے بنا پر ’خان بہادر‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ اور اسی طرح قیام پاکستان کے بعد بھی گبول صاحب خدمت وطن میں مصروف رہے اور ۱۹۵۸ میں چیئرمین ایڈوائزری کونسل (میئر) چنے گئے۔
خان بہادر اللہ بخش خان گبول کے بارے میں پیر علی محمد راشدی صاحب اپنی کتاب "اُهے ڈِینھں، اُھے شِينهں” کے جلد دوم، صفحہ ۳۲۹ پر اس طرح رقم طرز ہیں: (قارئین کی دلچسپی کے لیے اس کا پورا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے)
”خانبہادر مرحوم کراچی کے کلبوں، سیاسی اور سوشل مجالس کی رونق ہوا کرتے تھے۔ وہ قدم رکھتے تو محفل کا موڈ باغ و بہار ہوجاتا تھا۔ ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ آج وہ ان کی زبانی کوئی نئی بات سنیں۔ مزاح کا خزانہ ان کے پاس نہ ختم ہونے والا تھا۔ اس کے لیے ان کا قد و قامت بھی موزوں ہوتا تھا۔ قدآور، بھاری مزاج، رنگ ضرورت سے کم سانولا اور پیٹ ضرورت سے زیادہ برکت بھرا۔ انگریزی کٹ کا سوٹ پہنے، سر پر ترکی ٹوپی، خوش پوش، خوش نوش، خوش مزاج، خوش مذاق، زندگی کا سفر خوشی کے ساتھ ہنستے مسکراتے ختم کر گئے۔ غم و الم کو اپنے پاس سے گزرنے بھی نہیں دیا۔ انگریزوں کے محبوب اور دیسی دوستوں کے سہارا تھے۔
سر غلام حسین مرحوم سے خاص محبت اور سر عبداللہ ہارون سے خاص رقابت تھی۔۱۹۳۷ء کے اسمبلی انتخابات میں لیاری کے حلقے سے سر عبداللہ ہارون کو شکست دے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اسمبلی میں بہت کم بولتے تھے مگر جو بولتے تھے سننے والوں کے غم غلط کر دیتے تھے۔ ان دنوں میں ممبر ھر وقت پارٹی بدل کر عہدہ حاصل کرتے تھے۔ گبول صاحب نے اس کا جواز یہ پیش کیا کہ ’سندھی دریائے سندھ کا پانی پیتے ہیں، اس لیے جتنے پیچ و تاب دریائے سندھ کے ہیں، اتنے ہی پیچ و تاب سندھ کی سیاست میں بھی ہیں، پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔‘ آپ کا یہ جملہ کلاسیکی حیثیت اختیار کر گیا اور سالوں تک سندھ کی سیاست کے لیے ’کوٹ‘ ہوتا رہا ۔
ایک وقت ایسا آیا جب سر غلام حسین انتقال کر گئے اور دوسرے کچھ حالات کی وجہ سے سندھ کی سیاست ویران ہو گئی۔ گبول مرحوم نے دوسروں کی طرح ملک کے اندر سر نہیں ٹکرائے ۔ وہ حالات کا رخ سمجھ گئے۔ سیاست چھوڑ کر سیاحت کی طرف آئے۔ زیادہ تر وقت یورپ میں رہے ۔
ایک مرتبہ میں نے ان کو جنیوا (سویٹزرلینڈ) میں تالاب کے کنارے بیٹھا دیکھا۔ ان کے چاروں اطراف یورپی خواتین کا جھرمٹ تھا۔ خود بھی ہنس رہے تھے اور ان کو بھی ہنسا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ خود پرانے دنوں کی طرح کراچی کلب میں تشریف فرما ہیں اور ان کے گرد ان کو ہنسانے کے لئے لوگوں کا جم غفیر ہے۔
سندھ کے وہ ایک ہی سیاستدان تھے، جو اپنی مرضی سے سیاست کے میدان کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کڑوے گنّے کا رس نہیں پیا۔
فارسی دان کا کیا کہنا ہے:
کارِ دنیا کسی تمام نہ کرد،
ہر چہ گیرید مختصر گیری“