یہ وقت محبت کا نہیں (جدید یونانی ادب سے منتخب افسانہ)

کونسٹینٹینوس پولس (ترجمہ: قیصر نذیر خاورؔ)

محبت کی اس کہانی نے تب کھِلنا چاہا، جب قرضے کا بحران ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ یہ ایک مشکل وقت تھا۔ تناﺅ والے اِس دور میں لٹیرے سرمایہ داروں کے محنت کشوں پر حملے جاری تھے اور یہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ سرمایہ فراہم کرنے والے عالمی سرمایہ داروں نے بھی کُھل کر اعلانِ جنگ کر رکھا تھا۔ ایسے میں بھلا ’نِکوس‘ کیسے ایک لڑکی، جو واقعی دل موہ لینے والی تھی، کے عشق میں گرفتار ہو سکتا تھا۔۔ وہ اس کے دفتر کے پاس سے گزرتی اپنی ساتھی ’اناستاشیا‘ سے ملنے جاتی، جو اکاﺅنٹس کے شعبے میں کام کرتی تھی۔ نِکوس کا مسئلہ یہ تھا کہ اناستاشیا کے ساتھ اس کے کچھ زیادہ مراسم نہیں تھے، چنانچہ اس میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ اس سے اس کی سہیلی کے بارے میں کچھ پوچھ سکے۔ وہ جب بھی وہاں اناستاشیا کو لینے آتی، تاکہ وہ دونوں اکٹھی دوپہر میں ساتھ جا سکیں، تو وہ بس اسے دیکھتا ہی رہتا۔

وہ اُس سے پچھلے ہفتے تب مِلا تھا، جب اناستاشیا نے انہیں ایک دوسرے سے متعارف کروایا تھا اور اُس نے اس سے مختصر بات بھی کی تھی۔ اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے جمعرات کو اس ’تیورنا‘ (یونانی زبان میں ریستوراں کے لئے مخصوص لفظ) لے جانا چاہتا تھا، جہاں وہ سب جانا پسند کرتے تھے۔ اس نے الفاظ کو بار بار دوہرایا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سکون سے پریکٹس کی اور موقع ملنے کا منتظر رہا۔ اناستاشیا ہمیشہ کے لئے دفتر چھوڑ کر جا رہی تھی وہ اگر ابھی ایسا نہ کرتا تو اسے دوبارہ موقع ہی نہ ملنا ہی تھا۔ اسی سمے جب وہ اس سے بات کرنے کے لئے گہرا سانس لے رہا تھا کہ اس کا ایک ساتھی ساتھ والے کمرے سے نکلا اور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا ٹیکس کے دفتر والوں نے الیکٹرونک ادائیگی کے سسٹم کو چالو کر دیا تھا یا یہ کہ اسے کسی کو وہاں بھیجنا پڑنا تھا۔ اس کے جواب نے اسے اپنے اصل ہدف یعنی اپنی محبوبہ، ماریا، سے بات کرنے سے مزید کچھ دیر روکے رکھا۔

نِکوس اس دوران پھر سوچتا ہے، تھوک نگلتا ہے، گہرا سانس لیتا ہے اور پھر سے تہیہ کرتا ہے اور خود کو تیار کرتا ہے کہ اسے تیورنا لے جانے کی دعوت دے۔ وہ اپنا منہ کھولتا ہے، گلا صاف کرتا ہے اور دماغ میں پورا جملہ دوہراتا ہے کہ وہ اسے بولتے سمے نہ ہکلائے۔۔۔ اسی لمحے، وہ عورت، جو اس کے سامنے والے ڈیسک پر کام کرتی ہے، اپنی کرسی کو ٹُھڈے مارتی ہوئی فون پر چِلانا شروع کر دیتی ہے۔ وہ ڈیسک سے چیزیں اٹھا کر زمین پر پھینکنے لگتی ہے۔۔۔ اسٹیپلر، پنسلیں، ننھا ہاتھی، جو اسے اس کی بھتیجی نے تحفے میں دیا تھا، کاغذوں کا پیکٹ اور۔۔۔ اور پھر وہ مزید اونچی آواز میں بدزبانی کرنے لگتی ہے۔ وہ اپنے بیگ سے ناخنوں کی پالش صاف کرنے والا محلول نکالتی ہے اور ڈیسک پر پڑے کاغذوں پر چھڑکتی ہے۔

” تم مجھے کیا پاگل کرو گے، میں تمہیں پاگل کر دوں گی۔۔“ وہ چِلاتی ہے اور کاغذوں پر ایک جلتی ہوئی ماچس کی تیلی پھینک دیتی ہے، جنہیں وہ پہلے ہی ’ایسی ٹون‘ (نیل پالش صاف کرنے والا کیمیاوی محلول) میں بھگو چکی ہے۔ ہر کوئی اس کی طرف بھاگتا ہے، سپروائزر بھی اس کی طرف لپکتا ہے، وہ اسے پکڑ لیتے ہیں اور ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں، وہ پھر چِلاتی ہے؛ ”تم مجھے کیا پاگل کرو گے ، میں تمہیں پاگل کر دوں گی!“

سپروائزر ماریا سے کہتا ہے کہ وہ اس عورت کو باہر لے جائے اور اسے اس وقت تک باہر ہی ٹہلائے، جب تک وہ پرسکون نہیں ہو جاتی۔ تین لوگ آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں؛ ایک آگ بجھانے والا آلہ تھام لیتا ہے جبکہ دوسرے دو ان کاغذوں کو سمیٹنے لگتے ہیں، جنہوں نے ابھی آگ نہیں پکڑی۔ ماریا عورت کو بازو سے پکڑتی ہے اور اسے پُرسکون کرنے کے لئے دفتر سے باہر کی جانب بڑھتی ہے۔ حقیقت، البتہ یہ ہے کہ وہ ماریا کو لئے باہر جا رہی ہے؛ وہ اسے نِکوس کی بانہوں سے ایسے وقت دور لے جا رہی ہے، جب نِکوس بیچارہ مشکل سے ہی اپنی ہمت جمع کر پایا تھا کہ اسے تیورنا لے جانے کے بارے میں بات کر سکے۔۔

وہ گھر چلا جاتا ہے، اپنے جوتے اُتارتا ہے اور فرِج میں سے ایک روز پہلے کا، بچا ہوا دال کا سوپ نکالتا ہے اور اسے لئے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ ’اوہ یسوع مسیح، میں کتنا نزدیک پہنچ چکا تھا۔‘ وہ کچھ دیر کے لئے لیٹ جاتا ہے کیونکہ ان سب نے اس شام بھی تیورنا جانا تھا۔ وہ عرصے سے تنہا تھا اور کچھ ہونے کا منتظر تھا؛ کسی سے ملنے کا موقع، وہ موقع جو کبھی نہیں آیا تھا۔ ہمیشہ ایک جیسے لوگوں کے ساتھ یہ شامیں بِتانا اذیت سے کم نہ تھا۔ یہ وقت کا ضیاع تھا، چاہے وہ سب اُس کے اچھے دوست تھے۔

وہ کپڑے بدلتا ہے اور تیورنا پہنچتا ہے، اس کے مالک سے سلام دعا لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ماریا اس کے سامنے ہے۔ کسی نے اسے دعوت دے رکھی ہے، شاید وہ دوپہر میں لگی آگ کے واقعے میں اس سے متاثر ہوا تھا۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ اناستاشیا وہاں آئی تھی اور اپنے ساتھ ماریا کو لائی تھی ۔

”ارے، ارے!“

”بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے!“

”کیسا چل رہا ہے سب ؟“

”چلو ان ’مادر*‘ کو جلا کر خاک کر دیں تاکہ ان سے پیچھا تو چھوٹے۔“ کچھ اسی طرح کی باتیں ہوتی رہیں

وہ سب تب ’ کپسیلی‘ (وسطی ایتھنز کے پاس کا ایک علاقہ) میں ’کلیمیٹ سیڈا‘ تیورنا میں اچھا وقت گزار رہے تھے۔ وہ دوپہر کا واقعہ بھول چکے تھے اور اب جبکہ وہاں ماریا بھی موجود تھی، اسے لگا جیسے اس کی موجودگی نے اس گروپ کو شاد کر دیا تھا۔ ماریا اور نِکوس ساتھ ساتھ بیٹھے تھے اور اس نے یہ نوٹ کیا کہ تیورنا میں شور شرابے کے باوجود ، وہ جب بھی بولتا تو وہ اس کے ہر لفظ کو توجہ سے سنتی ۔ وہ ’بابا غنوج‘ (مشرق وسطیٰ کی ایک ڈش) کے بارے میں بات کر رہا تھا، جسے اس کی خالہ نے لکڑیوں کی آگ والے تندور میں پکایا تھا اور وہ لاجواب تھی۔ وہ اس کی بات دھیان سے سن رہی تھی گو اسے تناﺅ بھی سہنا پڑ رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں اور سر ٹیڑھا کر رکھا تھا۔ نِکوس تھا کہ وہ ’بابا غنوج‘ کے بارے میں بولے جا رہا تھا۔ آپ کو بہت سے لوگوں کے ساتھ منہ قریب کر کے بات کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ آپ کی بات سن سکیں۔ چنانچہ بندہ کیا کہہ سکتا ہے کہ ماریا نے اپنی آنکھیں واقعی ٹیڑی کر رکھیں تھیں تاکہ وہ تیورنا کے شور میں اس کی بات سن سکے؟ اور جب وہ اس کی آواز سن نہ پاتی تو وہ اسے اپنی بات دوہرانے کے لئے کہتی؛ وہ ہنستی اور ایسے اصرار کرتی جیسے وہ ہر تفصیل جاننا چاہتی ہو۔ لیکن وہ ’بابا غنوج‘ ڈِش کے بارے میں مزید کیا بتا سکتا تھا؟ جب دس منٹ بعد، یہ کم وقت نہیں ہوتا، اس موضوع پر مزید بات کرنا ممکن نہ رہا تو ماریا نے اقرار کیا کہ اسے یہ سبزی اچھی نہیں لگتی اور اس نے نہ تو پہلے کبھی اِسے کھایا اور نہ ہی اب اس کا ارداہ تھا کہ وہ ’ ایگ پلانٹ‘ (ایک طرح کی سبزی یا پھل، جس سے ایسی ڈش تیار ہوتی ہے جیسے آلوﺅں کا بھرتہ) سے بنی ڈِش کھائے۔ اس پر وہ دونوں کُھل کر ہنسے۔ وہ اس طرح کیوں ہنسے تھے؟ کیا واقعی کچھ مضحکہ خیز تھا؟ تیورنا کے شور میں دو بچوں نے ’بوزوکی‘ (مینڈولین جیسا ایک یونانی آلہ موسیقی) اور گٹار بجانا شروع کر دیا، وہ اسے مائیکروفون کے بغیر بجا رہے تھے۔ تیورنا کا مالک اِس کا ماحول مزید شور سے آلودہ نہیں کرنا چاہتا تھا اور اسے زیادہ ”قدرتی“ رکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اس بات کو بھول جائیں کہ وہ فقط ’یونانی سلاد‘ کے لئے دس یورو وصول کرتا تھا۔ بوزوکی بجانے والے نے خوب زور سے بجایا اور ”الینی دی ڈائیورسی۔۔۔۔‘‘ (ایک مشہور یونانی گیت) گایا۔

اور جیسے ہی وہ ان مصرعوں پر پہنچتا ہے؛ ”قصاب کو پتہ چلا۔۔۔ تو اس نے ایک بکری بھیجی۔۔۔ اس نے اسے ساگ کے ساتھ پکایا۔۔۔ کیونکہ میں ڈنر پر آ رہا تھا۔۔۔“

نکوس چِلاتا ہے؛ ”اووپس! بکری کا گوشت اور ساگ!“

اور وہ پھر سے اُسی طرح کھکھلا کر ہنسے، جس طرح ’ایگ پلانٹ‘ کی دفعہ ہنسے تھے اور درمیان میں کسی بھی بات پر ایسا نہ کر سکے تھے۔ اور کون جانے کہ وہ اس طرح کیوں ہنس رہے تھے؟ کیونکہ اس دنیا میں، ایک ایسی دنیا میں جہاں ایک بیباک کا ملنا محال ہے اور کسی کو بھی اپنا سچا ساتھی نہیں ملتا البتہ ان دونوں کی تال ایک تھی۔۔ اور ہر بار جب ماریا ہنستی تو اس کا کندھا تھام لیتی، ایسا نہیں تھا کہ وہ گرنے والی ہوتی، وہ تو بس لگاوٹ سے ایسا کرتی۔ پھر انہوں نے بات کی انہیں ’ایرس پارک‘ (ایتھنز کے وسط میں ایک بڑا باغ) کے میدان میں لگے کتابی میلے میں لازماً جانا چاہیے۔

”ہاں“
”میں بھی وہاں جانا چاہوں گی۔۔۔ میں اس کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی۔“

نکوس نے اپنا فون باہر نکال لیا تھا اور میز پر بچھے کپڑے کے نیچے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا تاکہ کتابی میلے میں اکٹھے جانے کے لئے ماریا سے اس کا نمبر پوچھ سکے۔

اور ابھی جبکہ، وہ ہنس رہے تھے کہ انہوں نے باورچی خانے سے آتی آواز سنی؛ تیورنا کا مالک ایک ویٹرس پر چِلا رہا تھا۔ اس بیچاری لڑکی نے وہاں کی سب سے اہم میز بچوں کے ایک گروپ کے حوالے کر دی تھی۔۔۔ یہ ایسے گروپوں میں سے ایک تھا جو ساری شام وہاں بیٹھے رہتے اور کچھ اور کھانے کی بجائے صرف اشتہاء آور اشیاء ہی کا آرڈر دیتے۔

”وہ صرف موسیقی سننے آتے ہیں۔“ ، مالک چیخ رہا تھا ، ”اگر انہیں موسیقی اتنی ہی پسند ہے تو وہ اسے ریڈیو پر سن لیں۔ اور تم چغد ہو یا بیوقوف۔۔۔!؟“

”لیکن، انہوں نے مجھ سے ایک میز مانگی تھی اور یہ خالی بھی تھی۔ میں انہیں اور کیا کہہ سکتی تھی؟“

”تمہیں چاہیے کہ انہیں کہو، یہاں سے دفع ہو جائیں۔۔۔ اور تم بھی یہاں سے جاﺅ، بیوقوف کُتیا نہ ہو تو!“ ، نوجوان لڑکی نے رونا شروع کر دیا۔

”اپنا چہرہ صاف کرو اور یہاں کا کام ختم کرو۔“

مالک اسے کہتا ہے۔۔ مالک، جس میں کسی قسم کا صبر نہیں، تحمل نہیں، کیونکہ وہ تو تب سڑکوں پر کمانے نکلا تھا، جب وہ دس سال کا تھا، جس نے اس کے کام کو سفاک بنا دیا تھا۔ ویٹرس یہ سن کر اوون کے پاس جاتی ہے اور اس میں سے ایک ڈش نکالتے ہوئے، اس کا ہاتھ پھسل جاتا ہے اور گرم گرم جوس اس کے جسم پر گر جاتا ہے۔ اب وہ درد سے چِلا رہی ہے اور رو رہی ہے۔ اس کا مالک اسے پھر سے کوسنے لگتا ہے؛ ”گدھی۔۔احمق۔۔۔ تم مجھے ضرور جیل پہنچا کر ہی دم لو گی۔“

پھر وہ سب لوگ جو پہلے خاموشی سے یہ تکرار سن رہے تھے ، بول اٹھے، ”کیا تمہارا دماغ خراب ہے۔۔۔ لڑکی نے خود کو جلا لیا ہے۔۔۔ تم اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہو۔۔۔ دیکھو تم نے کیا کر دیا ہے!“

اس پر نِکوس لڑکی کو پکڑتا ہے اور باورچی خانے میں کام کرنے والی مسز گیروفیلیا کے ہمراہ اسے ہسپتال لے جاتا ہے۔

”ہمیں اُسے پہلے شانت کرنا چاہیے اور پھر کچھ ابتدائی طبی امداد کا بندوبست کرنا چاہیے۔“ ایسا کہتے ہوئے ان کی گفتگو درمیان میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔

اس رات نِکوس اس واقعے کے بارے میں تو نہیں سوچتا، لیکن اگلی صبح وہ خود سے بار بار سوال کرتا ہے؛ کیا لڑکی خود کو کسی اور دن نہیں جلا سکتی تھی؟ ایک روز قبل؟ ایک روز بعد؟ اگلی جمعرات کو؟ کیا کوئی اور دن نہیں تھا اس سب کے لئے؟

اناستاشیا دفتر کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ رہی تھی اور نِکوس کے پاس اپنی محبوبہ کو دوبارہ ملنے اور پانے کا کوئی اور راستہ نہ تھا۔

جون 28 کو ’سادگی اور کفایت شعاری‘ کے خلاف مظاہرہ تھا۔ (یونان کی حکومت نے 2010ء میں یونانیوں پر یہ قانون لاگو کیا تھا اور بہت سی چیزوں پر ’ کَٹ ‘ (cut) لگایا تھا جس پر عوام سڑکوں پر نکل آئی تھی) نکوس ’سٹیڈیو‘ (ایتھنز کی ایک بڑی شاہراہ) سڑک پر جا رہا ہے اور اچانک اس کے سامنے کوئی ایسی آ جاتی ہے، جو دیکھنے میں ماریا جیسی ہے۔ وہ خود کو پُرجوش نہیں ہونے دیتا کیونکہ پچھلے ایک ماہ میں ماریا کی یاد میں اسے کم از کم دس لڑکیوں پر اس کا دھوکہ ہوا تھا۔ لیکن اس بار وہ بالکل اس جیسی ہی تھی؛ وہ سچ میں وہی ہی تھی۔ انہوں نے ایک دوسرے سے سلام دعا لی اور ایک دوسرے کے گال کا بوسہ لیا؛ ماریا نے اس سے پوچھا کہ اس شام کا انجام کیا ہوا، جب وہ لڑکی بری طرح جل گئی تھی۔ پھر کچھ اس طرح کی باتیں ہوئیں؛

”وہ۔۔ بدمعاش۔۔۔ حرامزادہ۔۔۔۔“

اور وہ تیورنا کے مالک کو کوستے ہیں اور لڑکی کے بارے میں افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ خیر، مختصراً وہ بات کا سرا وہیں، بابا غنوج، سے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں سے یہ ٹوٹا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ چیزیں ٹھیک ہی جا رہی ہیں اور یہ کہ حالات کتنے خراب ہو گئے ہیں۔ یہ سب کب تک چلے گا۔ لوگ اس کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔۔۔ اور اسی طرح کی باتیں جاری رہتی ہیں ۔

ٹھیک اسی لمحے ’فلیش بینگ‘ (ایسے دستی بم جو زوردار دھماکوں کے ساتھ بہت زیادہ آگ لگانے کا سبب بھی بنتے ہیں) دستی بموں کی آواز سنائی دیتی ہے جو ’سِنٹیگما‘ چوک (ایتھنز کا ایک وسطی چوک جسے ’آئینی چوک‘ بھی کہا جاتا ہے) میں پھٹتے ہیں۔ وہ دونوں آپس میں مذاق کرتے ہیں کہ یہ ایسٹر ہے ، ”مسیحا اٹھ گیا ہے۔“ ، وہ ہنستے ہیں اور پھر آنسو گیس ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ پولیس مظاہرین کو چوک سے ہٹانا چاہتی ہے اور اُن پر ہر طرف سے دھاوا بول رہی ہے۔ وہ ان پر چھڑکاﺅ کر رہی ہے اور ان کو مار بھی رہی ہے ۔ وہ ’ایملیا‘ بولیوارڈ کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں، بیچاری ماریا کو کچھ نظر نہیں آ رہا، اس کی آنکھیں بند ہیں اور اس نے نکوس کا بازو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے اور وہ ہجوم میں پھنسے، ساتھ ساتھ چِپکے، اپنا راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ بھاگیں نہیں تاکہ بھگڈر نہ مچے۔ ماریا نے نکوس کے بازو کو اور زیادہ کَس کے پکڑ لیا ہے اور نکوس نے اپنا دوسرا بازو اس کے کندھے کے گرد ڈال دیا ہے تاکہ اس کی حفاظت کر سکے۔ اچانک ایک رومان بھری بارش شروع ہو جاتی ہے۔۔۔ لیکن یہ تو پتھروں کی ہے۔ ہجوم منتشر ہونے لگتا ہے۔ وہ دونوں، آنسو گیس کی وجہ سے، کچھ بھی نہیں دیکھ پاتے۔ کسی لڑکے کے پاس آنسو گیس کا توڑ، ’مائع مالوکس‘ ایک بڑے کنستر میں موجود ہے، جو وہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے چھڑکا رہا ہے، لیکن آنکھیں ہیں کہ جلدی کھل ہی نہیں پا رہیں۔ پہلے تو ماریا نِکوس کا بازو پکڑے رکھتی ہے کہ کہیں اس سے الگ نہ ہو جائے، لیکن انتشار بہت زیادہ ہے، لوگوں کا دباﺅ بڑھتا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ ہر طرف سے دھکیل رہے ہیں۔ اچانک ایک موٹا نوجوان بے ڈول جہاز کی طرح ان سے آ ٹکراتا ہے اور اپنا سارا وزن نکوس پر ڈال دیتا ہے، نکوس اسے پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے تاکہ گرنے سے بچے اور اپنے قدموں پر قائم رہ سکے؛ وہ گرنے سے تو بچ جاتا ہے لیکن ماریا کو تھامے رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ وہ بھی اپنا باتھ پھیلاتی ہے، لیکن یہ اتنا نہیں پھیلتا کہ نکوس اسے تھام سکے۔۔ یوں وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ وہ اسے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دھندلے چہروں کے سوا، اسے کچھ نظر نہیں آتا۔

اور یہی انت تھا؛ اس نے اسے پھر سے کھو دیا تھا۔ وہ چلتا رہا اور اسے ہجوم میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کی آنکھیں بھینگی ہو گئی تھیں اور یہ آنسو گیس کی وجہ سے جل رہی تھیں۔ لوگوں میں ہڑبونگ مچا تھا اور وہ خوفزدہ تھے۔ کیمیاوی مادوں کی ہر نئی لہر کے ساتھ وہ یہ آوازیں بھی سن سکتا تھا؛ ”بھاگو مت۔“ وہ پیروں تلے کچلے جانے کے خوف سے وہاں سے نکلتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ سارا راستہ وہ اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھ سکا لیکن اس نے پھر بھی چاروں طرف نظر بھر کر دیکھا کہ وہ نظر آ جائے؛ اس نے اس کی قمیض اور اس کے بیگ کی پٹی ڈھونڈنے کی کوشش کی، اسے خیال تھا کہ یوں اُس نے اسے تلاش کر لینا تھا۔ پولیس نے پھر سے آنسو گیس پھینکی اور ہر طرف سے دباﺅ بڑھا دیا اور انتشار پھیلانے کا ہر راستہ مسدود کرتے ہوئے مظاہرین کو بکھر جانے پر مجبور کر دیا۔ نکوس نے تلاش جاری رکھی اور اس نے ایک ایسی قمیض دیکھ بھی لی جو ماریا جیسی تھی لیکن یہ وہ نہ تھی؛ وہ اس لڑکی سے بات کرنے بھی گیا لیکن جب لڑکی نے گھوم کر دیکھا تو وہ کوئی اور تھی۔ وہ ناامید ہو کر قومی باغ کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور دن میں ہی خواب دیکھنے لگا، ویسے ہی جیسے وہ جوانی میں دیکھا کرتا تھا؛

وہ تصور کرتا ہے کہ ماریا سڑک کے ایک طرف کھڑی ہے اور مشکل سے سانس لے رہی ہے، وہ اس کی مدد کرتا ہے اور وہ چلنا شروع کر دیتے ہیں، بہتے آنسوﺅں کی وجہ سے وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہی ۔ وہ ’ موناسٹیراکی‘ (ایتھنز کا ایک قدیمی علاقہ) کی طرف بڑھتے ہیں اور ایک اور ہی دنیا، ’ تھیسیو ‘ کے پُرسکون صحن میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ وہاں آرام کرتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ تبھی پولیس ایک بار پھر حملہ آوار ہوتی ہے۔ دن میں خواب دیکھنے کے لئے یہ ایک بُری جگہ ہے، اسے وہاں سے جانا ہی چاہیے۔ وہ آگے بڑھتا ہے اور ہجوم کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ اب اسے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ ماریا کو پھر سے تلاش کر پائے۔۔۔

اور پھر اس پر آشکار ہوتا ہے کہ وہ یہ سادہ سی بات کیوں نہیں سمجھ پایا کہ یہ پیار کرنے کی عمر اور زمانہ نہیں ہے۔ ’بھلا ایسے اتفاقات کیسے ہو سکتے ہیں کہ ہر شے ہی الٹی ہو جائے۔ آگ، لڑکی کا جلنا ، فائرنگ، پولیس کے حملے۔۔۔ اصل میں تو یہ وقت ہی صحیح نہیں ہے۔۔

اور۔۔۔ اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ میں بھی، اپنے اندر دور کہیں، چاہتا بھی یہی تھا کہ ایسا ہی کچھ ہو۔ تناﺅ والے اس دور میں جب لٹیرے سرمایہ دار محنت کشوں پر حملے کر رہے ہیں ، محبت کی کہانی سنانا ناممکن ہے۔ ہمیں، بہرحال حقیقت پسند بھی ہونا چاہیے؛ ایسے دنوں میں بھلا اس طرح کی کہانیاں کون پڑھنا پسند کرتا ہے۔

*’ تھیسیو ‘ = Thissio

مترجم کا نوٹ: کونسٹینٹینوس پولس 1973ع میں ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس نے یونانی ڈرامہ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ ان کی یہ کہانی یونان کے بحران کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ یونان کا یہ بحران 2008 تا 2009 کا وہ معاشی بحران تھا، جس کی وجہ سے وہاں افلاس پھیلا، آمدن میں انتہائی کمی ہوئی اور وہاں جائیداد کی قیمتیں زمین بوس ہو گئی تھیں۔ اس بحران نے انسانی بنیادوں پر بھی یونانی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور وہاں کے لوگ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو گئے، جس کے اظہار مختلف شکلوں میں ہوئے اور ان کی زندگی ڈیڑھ مربع میٹر کے رقبے میں سمٹ کر رہ گئی۔ یونانی معاشرے پر اس معاشی بحران کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں۔ مصنف نے اپنی اس کہانی میں اسی بحران کو پس منظر میں رکھتے ہوئے ایسی ہی انسانی کیفیات کو موضوع بنایا ہے۔ اس کہانی میں نِکوس محبت تو کرنا چاہتا ہے لیکن ’یونانی بحران‘ کے اثرات اور سرکار کی نافذ کردہ نام نہاد اور فاسق ’ austerity ‘ نے یونانیوں کی نفسیات پر اتنا دبائو ڈالا کہ نِکوس کی ساتھی عورت کریزی (crazy) ، تیورنا کا مالک سفاک ہے۔ پولیس بربریت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اب جبکہ یونانی سرکار نے 20 اگست 2018 ء کو یہ اعلان کیا ہے کہ مالی بحران پر قابو پا لیا گیا ہے تو بھی پوری دنیا اور یونانیوں کو یہ معلوم ہے کہ یونان پر چڑھے بیرونی قرضوں کا بوجھ 2060 ء تک یونانیوں کی نفسیات پر اپنا دبائو جاری رکھے گا ؛ ایسے میں پولس کی یہ کہانی اپنے وقت سے آگے نکل کر ابھرتی ہے اور آج بھی نہ صرف یونان بلکہ پاکستان جیسے ملکوں پر بھی منطبق ہوتی ہے جن کو قرضے کی قسط اتارنے کے لئے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔

Original Title: Untimely Love
By. Konstantinos Poulis

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close