کرۂ ارض پر ہوا اور پانی میں مائیکرو پلاسٹک کی بڑھتی ہوئی مقدارانسانی صحت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یونیورسٹی آف سڈنی کی ایک تحقیق کے مطابق انسان ہر ہفتے سانس کے ذریعے ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں۔
ہماری زندگی کے ہر شعبے میں بڑھتے ہوئے پلاسٹک کے استعمال کی وجہ سے ماحول اور پانی کے ذخائر میں مائکرو پلاسٹک کی بڑھتی مقدار کئی نئے چیلنجز کا سبب بن رہی ہے۔۔ اور اس پر مستزاد ہمارا غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔
مائکرو پلاسٹک دراصل انتہائی چھوٹے سائز کے وہ ٹکڑے ہیں، جو پلاسٹک سے بنی اشیاء کو تلف کرنے کے دوران ہوا میں اور بعد ازاں پانی یا مٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ نظر نہ آنے والے یہ ذرات یا مائکرو پلاسٹک انتہائی زہریلے کیمیکل پر مشتمل ہوتا ہے، جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر اندرونی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسان ہر گھنٹے سانس کے ذریعے سولہ اعشاریہ دو بٹس مائکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں۔ مزید اعداد و شمار سے یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ انسان ایک ہفتے میں 2721.6 بٹس مائکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں
آپ جانتے ہیں، یہ مقدرا کتنی بنتی ہے؟ یہ ایک کریڈٹ کارڈ میں پلاسٹک کی مقدار کے برابر ہے۔ آسان الفاظ میں ہم ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک اپنے اندر انڈیل رہے ہیں
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے منسلک سائنسدان محمد ایس اسلام کی سرکردگی میں ہونے والی یہ تحقیق رواں ہفتے سائنسی جریدے فزکس آف فلوئڈز میں شائع ہوئی ہے
تحقیق کی قیادت کرنے والے محمد ایس اسلام یونیورسٹی ٹیکنالوجی سڈنی میں میٹریل اینڈ پراسس انجینئرنگ کے شعبے سے ایک محقق کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کرۂ ارض پر ہَوا، پانی اور مٹی میں مائکرو پلاسٹک کے ذرّات لاکھوں ٹنوں کی تعداد میں شامل ہو چکے ہیں۔ سن 2022ع میں ایک تحقیق کے نتائج سے سامنے آیا تھا کہ مائکرو پلاسٹک کے ذرّات انسان کی سانس کی نالی میں بھی پائے گئے ہیں
ایس اسلام کا کہنا ہے کہ اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی ٹیم نے ’کمپیوٹیشنل فلوئڈ ڈائنامکس ماڈل‘ کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مختلف اشکال اور سائز کے مائکرو پلاسٹک کے ٹکڑے کس طرح نظام تنفس میں داخل ہوتے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف اشکال کے ان ٹکڑوں کا سائز دو انچ سے پانچ ملی میٹر تک تھا۔ جبکہ کچھ ٹکڑوں کا سائز پانچ اعشاریہ چھ مائکرون تک بھی نوٹ کیا گیا۔ یہ انسانی بال کی چوڑائی کے ساتویں حصے کے برابر ہے۔ دورانِ تحقیق سائنسدانوں نے آہستہ اور تیز سانس لینے سے مائکرو پلاسٹک کے ٹکڑوں پر پڑنے والے اثرات کا بھی مشاہدہ کیا
ایس اسلام کے مطابق ان کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ سانس لینے کے عمل میں ہوا میں موجود انتہائی چھوٹے سائز کے مائکرو پلاسٹک کے ٹکڑے انسانی نتھنوں، حلق اور گلے کے پچھلی جانب چلے جاتے ہیں۔ نتھنوں، حلق اور سانس کی نالی کی ساخت کچھ اس طرح کی ہے کہ یہ مائکرو پلاسٹک کو بہاؤ کے اصل راستے سے ہٹا کر ان جگہوں پر جمع کر دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ حلق میں مائکرو پلاسٹک کا یہ ذخیرہ بڑھتا جاتا ہے
اسلام مزید بتاتے ہیں ”مائکرو پلاسٹک جتنے چھوٹے سائز کا ہوگا، وہ سانس کی گزرگاہوں میں اتنی ہی زیادہ مقدار میں جمع ہو جائے گا۔ اسی طرح سانس کی رفتار بھی اس کے ذخیرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر سانس زور سے لی جائے تو مائکرو پلاسٹک نتھنوں یا حلق میں جمع ہونے کے بجائے بہاؤ میں نکل جاتا ہے۔“
انہوں نے کہا کہ عمر رسیدہ یا بیمار افراد چونکہ مدہم سانس لیتے ہیں، اس لیے ان کے نظام تنفس میں مائکرو پلاسٹک ذخیرہ ہونے کا خدشہ دیگر افراد سے زیادہ ہوتا ہے
ایس اسلام بتاتے ہیں کہ وہ علاقے جہاں کارخانے، فیکٹریاں یا صنعتیں آبادی کے قریب واقع ہیں، وہاں کے رہائشی مائکرو پلاسٹک براہ راست نگل رہے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر مائیکرو پلاسٹک صنعتوں میں اس سے تیار کردہ اشیاء کی ری سائیکلنگ یا تلف کیے جانے کے دوران ماحول میں شامل ہو رہا ہے
کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں دمہ، پھیپھڑوں اور سانس کے دیگر امراض پر بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے
مائکرو پلاسٹک کے مضر اثرات کے بارے میں ایس اسلام کا کہنا ہے ”مائکرو پلاسٹک میں انتہائی زہریلے کیمیکلز شامل ہوتے ہیں، جو اینڈوکرائن گلینڈ اور غدود کے نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ انسانی جسم پر مائکرو پلاسٹک کے مکمل اثرات پر مزید تحقیق جاری ہے۔ اب تک ہونے والی تحقیقات کے مطابق مائکرو پلاسٹک جسم میں زندہ خلیوں کو مارنے، انہضام اور سانس کے امراض کا سبب بن رہا ہے۔ جبکہ کچھ جانوروں جیسے چوہے اور کچھوؤں میں مائکرو پلاسٹک سے جنسی تولید اور نر اور مادہ کی شرح پیدائش متاثر ہونا بھی نوٹ کیا گیا ہے۔“