ضلع دیر میں اسٹامپ پیپر پر ’تاریخی نسوار معاہدہ‘

نیوز ڈیسک

پشاور : خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں نسوار فروش زیادہ نسوار بیچنے کی مقابلے بازی میں اپنی بنائی ہوئی نسوار کی قیمت کم رکھتے ہیں، جس سے اکثر کم منافع یا نقصان کے پیش نظر اب انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت اب سارے نسوار فروش نسوار کی پڑیا ہر صورت بیس روپے میں فروخت کرنے کے پابند ہونگے

ضلع دیر بالا اور دیر پائین یونین کے صدر افتخار خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 2012ع میں نسوار کی قیمت چھ روپے سے بڑھاکر دس روپے کی گئی تھی، لیکن دس روپے قیمت کو برقرار رکھنے میں کافی مشکلات تھیں، اس لیے اس بار ہم نے نسوار کی فی ٹکی کی قیمت بڑھانے کے لیے اسٹامپ پیپر پر معاہدہ کیا ہے، جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں نسوار فروش پر پچاس ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا اور ساتھ ہی ایک ماہ کے لیے اس کی دکان بھی سِیل کر دی جائے گی

افتخار خان نے کہا کہ کچھ ساتھیوں سے جب گاہک پوچھا کرتے تھے کہ یہ ریٹ زیادہ ہیں، تو کچھ نسوار فروش لالچ کی وجہ سے فی ٹکی چھ یا سات روپے میں انہیں فروخت کر دیتے تھے، جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس بار ہر دکان پر ایک ریٹ مقرر کرنے کے لیے اسٹامپ پیپر لکھا گیا ہے، تاکہ سب نسوار فروش اس کے پابند رہیں

یونین کے صدر افتخار خان نے مزید بتایا کہ کچھ دکاندار ہاتھ سے اور کچھ مشین کے ذریعے نسوار بناتے ہیں۔ دونوں کے کام میں فرق ہے. ہاتھ سے جو کام کرنے والوں کی لاگت کم آتی ہے، اس لیے انہیں ریٹ کی کوئی پرواہ نہیں ہے، جبکہ مشینوں پر کام کرنے والے نسوار فروشوں کے لیے بجلی بل، ڈیزل، مزدور اور دکان کے کرائے کی وجہ سے کم ریٹ میں نسوار بیچنا نقصان کا باعث بنتا رہا۔ اسٹامپ پیپر کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ نسوار کے کاروبار سے وابستہ چھوٹے اور بڑے کاروبار والے دونوں ”ایک ہی پیج پر آجائیں“ اور تمام نسوار فروش اس معاہدے کے پابند رہیں

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یونین کے ساتھی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کسی نے خلاف ورزی کرتے ہوئے سستی نسوار بیچی تو پھر اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جرمانے کے طور پر پچاس ہزار روپے نقد ادا کرنے ہوں گے اور ایک مہینے کے لیے دکان بھی بند کردی جائے گی اور اگر جرمانہ ادا نہیں کیا گیا تو اس نسوار فروش کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے گی

افتخار خان نے شکوہ کیا کہ حکومت نے نسوار کو ایک غیر ضروری چیز سمجھا ہے، حالانکہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ بڑا کاروبار ہے۔ پاکستان میں پہلے نمبر پر پیٹرول اور دوسرے نمبر پر تمباکو کا کاروبار ہے، جن سے حکومت کے خزانوں میں لاکھوں روپے ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ حکومت نے سگریٹ پر تو توجہ دی ہے لیکن نسوار کو نظر انداز کیا گیا ہے

دوسری جانب دیر کے نسوار فروشوں کی یونین کے اس معاہدے کی دیکھا دیکھی ضلع باجوڑ میں بھی نسوار فروشوں نے قیمت بڑھانے کے لیے پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر اسی طرز کا معاہدہ کرلیا ہے اور باجوڑ میں فی ٹکی قیمت بڑھا کر بیس روپے طے کردی ہے

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے نسوار فروش شاہد کا کہنا ہے کہ میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے ہمیں نسوار کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا ہے، کیونکہ پہلے ایک بوری تمباکو نو ہزار پچاس روپے روپے میں خریدتے تھے، جبکہ اب وہی ایک بوری سترہ سے اٹھارہ ہزار تک پہنچ گئی ہے. اس کے علاوہ نسوار میں استعمال ہونے والے 25 کلوگرام سریش کی قیمت پانچ ہزار سے بڑھ کر دس ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے، جبکہ اس میں استعمال ہونے والی 50 کلوگرام راکھ کی قیمت سات سو روپے سے بڑھ ایک ہزار نو سو روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح نسوار کو پیک کرنے کا شاپر ڈیڑھ سو روپے فی کلو گرام سے لے کر تین سو اسی روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم مجبور ہوئے کہ قیمت میں اضافہ کریں

سولہ سال کی عمر سے نسوار استعمال کرنے والے ملک عبدالکبیر، جو اب پچھتر سال کے ہیں. ان کا تعلق ضلع باجوڑ کی تحصیل وڑ ماموند کے علاقے ڈبر سے ہے

وہ لڑکپن سے نسوار ایک ایسی ڈبی میں رکھتے ہیں، جو باکل نئی، چمک دار اور شیشہ جَڑی ہوئی ہے اور دیکھنے پر ایسا لگتا ہے کہ شاید اس میں کوئی خاص قیمتی چیز رکھی ہے

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ سولہ سال کے تھے تو اس وقت ایک ٹکہ کے حساب سے نسوار خریدتے تھے اور ایک روپے میں پچاس ٹکے ہوا کرتے تھے

ملک عبدالکبیر نے بتایا کہ ہمارے دور سے اب تک یہ روایت عام تھی کہ حجرے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو نسوار منہ میں رکھنے کے لیے دیتے تھے، لیکن اب مہنگی ہونے سے اس طرح کی روایت برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر نسوار سو روپے فی ٹکی بھی ہوجائے، تو اس کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ نسوار چھوڑنا ایک مشکل کام ہے

انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں صرف نسوار ہی سستی تھی، مگر اب وہ بھی دس روپے فی ٹکی سے اچانک بیس روپے تک پہنچ گئی ہے۔ نسوار کی قیمت میں سو فیصد فیصد اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے

جب باجوڑ کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شیر رحمٰن سے پوچھا گیا کہ نسوار کی فی ٹکی کی قیمت بڑھانے کے لیے سرکار یا ضلعی انتظامیہ ریٹ کیوں مقرر نہیں کرتی؟ تو انہوں نے کہا کہ ریٹ بڑھنے کے حوالے سے مجھے عوامی شکایات موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد میں نے نسوار کی قیمت بڑھانے والی کمیٹی کے لوگوں کو اپنے دفتر طلب کیا ہے اور ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ قیمت بڑھاتے وقت آپ لوگوں نے ضلعی انتظامیہ سے یہ بات کیوں شیئر نہیں کی۔ اگر انہوں نے انتظامیہ سے اجازت نہیں لی ہے، تو پھر اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close