بھارتی دوا ساز کمپنی کی کھانسی کی جس دوا کو پینے سے گزشتہ برس ازبکستان میں انیس بچوں کی موت ہو گئی تھی، اس میں ایسے صنعتی درجے والے زہریلے مادے کے استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جو جراثیم کش ادویات کی تاثیر بڑھانے کے کام آتے ہیں
تفصیلات کے مطابق بھارتی دوا ساز کمپنی میریون بایو ٹیک کی تیار کردہ کھانسی کی سیرپ پینے سے ازبکستان میں 19 بچوں کی ہلاکت کے واقعے کی تفتیش کرنے والی ایک ایجنسی سے وابستہ دو ذرائع نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کمپنی نے دواؤں میں قانونی طور پر استعمال کیے جانے والے جزو کے بجائے صنعتی درجے کا ایک زہریلا مادہ استعمال کیا تھا
تفتیشی ایجنسی کے ذرائع نے بتایا کہ میریون بایوٹیک نے مایا کیم ٹیک انڈیا نامی ایک کمپنی سے کھانسی کے شربت میں ملانے کے لیے پروپلین گلائکول (پی جی) نامی جزو خریدا تھا، جبکہ مایا کیم ٹیک کے پاس فارماسیوٹیکل گریڈ کے سامان فروخت کرنے کا لائسنس نہیں ہے اور وہ صرف ’صنعتی گریڈ‘ کی اشیاء کی تجارت کرتا ہے
مایا کیم ٹیک سے وابستہ ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا ”ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ میریون اس کا استعمال کیف سیرپ کی تیاری میں کرے گا۔ انہوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ہماری فروخت کردہ سامان کا کیا استعمال کریں گے“
دونوں ذرائع کا کہنا تھا کہ کھانسی کا یہ شربت صنعتی درجے کا پی جی استعمال کر کے تیار کیا گیا تھا، جو کہ ایک زہریلا مواد ہے۔ اس کا مائع ڈٹرجنٹ، اینٹی فریز، پینٹ اور کوٹنگس نیز جراثیم کش ادویات کی تاثیر بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے
ایک اور ذریعے نے بتایا کہ میریون نے کمرشیل گریڈ کا پروپلین گلائکول خریدا تھا۔ انہوں نے ادویات میں استعمال ہونے والے اجزاء کے ملکی میعارات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میریون کو انڈین فارماکوپیا گریڈ کا استعمال کرنا چاہئے تھا‘
تفتیش کار کا کہنا تھا کہ میریون نے ازبکستان کو فروخت کیے گئے کھانسی کی شربت میں استعمال کرنے سے قبل اس جزو کی جانچ بھی نہیں کی
بھارت میں ادویات اور کاسمیٹکس کے معیاری ضابطوں کے مطابق انہیں تیار کرنے والی کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان میں استعمال ہونے والے اجزاء کے سیفٹی کو یقینی بنائیں
دہلی میں واقع کمپنی مایاٹیک کے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ اسے کسی طرح کے الزامات کا سامنا نہیں ہے گوکہ ابھی تفتیش جاری ہے
گیمبیا میں درجنوں بچوں کی موت کا تعلق بھارت میں تیار شدہ دواؤں سے ہو سکتا ہے
دہلی میں ایک اسسٹنٹ ڈرگس کنٹرولر دیپک شرما نے یہ کہتے ہوئے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ اس کیس کی تحقیقات وفاقی ڈرگس حکام کر رہے ہیں
دواسازی، جڑی بوٹیوں اور کاسمیٹکس کی مصنوعات کا کاروبار کرنے والی میریون اس سے قبل کسی طرح کے غلط کام سے انکار کر چکی ہے
کمپنی، ڈرگ ریگولیٹر اور بھارت کی وزارت صحت نے تازہ انکشاف کے حوالے سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا
ازبکستان کو وزارت صحت نے گزشتہ سال ایک تجزیے کے بعد بتایا تھا کہ میریون کی تیار کردہ کھانسی کا سیرپ امبرونول او رڈی اوکے۔1 میکس میں زہریلے مادے ڈائی ایتھلین گلائکول (ڈی ای جی) اور ایتھلین گلائکول (ای جی)، جو انسانوں کے استعمال کے لیے نہیں ہوتے ہیں، ناقابلِ قبول مقدار میں شامل تھے
ازبکستان نے جنوری میں چار افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں میریون کی دوا درآمد کرنے والی کمپنی کے دو اعلیٰ افسر شامل تھے
ازبکستان کی وزارت صحت نے روئٹرز کی اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ان قصورواروں کو کیا ممکنہ سزا دی جا سکتی ہے
فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ کے ماہرین کے مطابق ڈی ای جی اور ای جی چونکہ سستے ہیں اس لیے بے ایمان افراد پروپلین گلائکول کے متبادل کے طورپر ان کا استعمال کرتے ہیں
عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے اس ماہ کے اوائل میں روئٹرز کو بتایا تھا کہ وہ اس نظریے پر کام کر رہے ہیں کہ سن 2021 میں جب پروپلین گلائکول کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہو گیا تھا تو ایک یا زائد سپلائرز نے جائز کیمیکل کے ساتھ سستے زہریلے کیمیکلز ملا دیے
جب ڈبلیو ایچ او کے ترجمان سے میریون کے استعمال کردہ جزو کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ”یہ ضروری ہے کہ مینوفیکچرز صرف مناسب اہل سپلائزز کا ہی استعمال کریں“
بھارت کے ڈرگ کنٹرولر نے مارچ میں بتایا تھا کہ جنوری میں بھارتی لیباریٹریز میں کی گئی جانچ سے پتہ چلا کہ میریون کے تیار کردہ بائیس سیرپ ’زہریلے اور ملاوٹی‘ تھے
ریاست اترپردیش کے حکام، جہاں میریون واقع ہے، نے مارچ میں میریون کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔ پولیس نے اس کے تین ملازمین کو گرفتار کرلیا تھا اور دو ڈائریکٹروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے
اترپردیش کے ایک پولیس افسر وجے کمار نے بتایا کہ تینوں ملازمین اس وقت ضمانت پر رہا ہیں۔ ان میں سے ایک آپریشنز ہیڈ توہن بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے میریون کے لیے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ روئٹرز اس کی تصدیق نہیں کر سکا۔ دیگر دو ملزمین کیمسٹ مول سنگھ اور اتول راوت یا ان کے وکلاء سے روئٹرز کا رابطہ نہیں ہو سکا
میریون کے دو ڈائریکٹرز کے وکیل نے اپریل میں اترپردیش کی الہ آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ ”دوائیں مقررہ میعار پر نہیں پائی گئی ہیں، لیکن ان میں ملاوٹ نہیں ہے“ وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ڈائریکٹروں نے بھارت میں کوئی جرم نہیں کیا کیونکہ یہ دوائیں صرف ایکسپورٹ کے لیے تھیں
عدالت نے پولیس کو کمپنی کے دو ڈائریکٹرز جیا جین اور سچن جین کو گرفتار کرنے سے اس وقت تک روک دیا، جب تک کہ وہ قصوروار ثابت نہ ہو جائیں۔ ان کے وکیل روہن گپتا نے اس حوالے سے روئٹرز کے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا، جبکہ ڈائریکٹروں سے رابطہ نہیں ہو سکا
قبل ازیں مارچ میں بھارتی ڈرگ ریگولیٹر نے دوا ساز کمپنیوں کو مایاٹیک سے پی جی نہ خریدنے کا حکم دیا تھا
یاد رہے کہ ازبکستان میں بچوں کی اموات کے علاوہ گزشتہ برس ہی بھارت کی ایک دوسری دوا ساز کمپنی کی تیار کردہ کھانسی کے شربت پینے سے گیمبیا میں کم از کم ستر بچوں کی موت ہو گئی تھی۔ یہ کھانسی کے شربت زہریلے مادوں سے آلودہ پائے گئے تھے۔ ان اموات کی گونج عالمی سطح پر سنائی دی، جس کے بعد بھارت نے جون سے ملک میں تیار کھانسی کی سیرپ کو ایکسپورٹ کرنے سے قبل کمپنیوں پر ان کی جانچ لازم کر دیا ہے۔