وسیع سلطنت کا زوال

ڈاکٹر مبارک علی

جرمن فلسفی شوپن ہائر نے لکھا ہے کہ انسان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ جب اس کی ایک خواہش مکمل ہوتی ہے تو اسے اطمینان نہیں ہوتا اور فوراً ہی دوسری خواہش کی تکمیل کے لیے جدوجہد شروع کر دیتا ہے۔ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی توانائی اور پوری زندگی صَرف کر دیتا ہے۔

یہی صورتحال ایک سلطنت کی ہوتی ہے۔ تو یہ ایک ختم نہ ہونے والا عمل ہوتا ہے، جو اس کی طاقت اور اقتدار کو وسعت دے کر اسے کمزور کر دیتا ہے۔ رومی سلطنت نے جب فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تھا تو اس کے سیاسی ادارے مستحکم تھے۔ اس کی فوج میں روم کے شہری ہوتے تھے۔ معاشرے میں اخلاقی قدروں کی اہمیت تھی۔ بہادری اور شجاعت کے بارے میں قومی فخر تھا۔ فتوحات نے نہ صرف اس سلطنت کو وسیع کیا بلکہ بے شمار مالِ غنیمت اور غلاموں کی وجہ سے رومی معاشرے کی ساخت بدل گئی۔ رومی جنرلوں کے درمیان رقابتوں اور سازشوں نے خانہ جنگیوں کو پیدا کیا، جس نے سلطنت کی بنیادوں کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔

جب رومی سلطنت مغرب سے مشرق تک پھیل گئی تو اس کے لیے فوجی طاقت کی ضرورت تھی۔ اب فوج میں مفتوح قوموں کے لوگوں کو بھی شامل کر لیا گیا، جس کی وجہ سے فوج کا کردار بدل گیا۔ مفتوحہ علاقوں کے انتظام کے لیے قابل اور ذہین عہدیداروں کی ضرورت تھی، لیکن وسعت کی وجہ سے اہل افراد کی بھی کمی ہو گئی۔ ٹیکسوں کے نفاذ میں مفتوحہ لوگوں کو غیرمُلکی حکومت سے مُتنفر اِس کے ساتھ آہستہ آہستہ بغاوتیں اور شورشیں ہونے لگیں۔ اب رومی سلطنت فتوحات کے بجائے اپنے دفاع میں مصروف ہو گئی اور یہاں اس کی وسعت ٹھہر کر رہ گئی۔

وسیع سلطنت کے تحفظ کے لیے اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا، جو ایمپائرز کہلائیں۔ ہر ایک ایمپائر کا ایک سیزر ہوتا تھا، جو اپنے علاقے کا دفاع کرتا تھا۔ انگلستان میں اقتدار کو بچانے کے لیے ہیڈرین وال تعمیر کرائی گئی۔ تاکہ مخالف حملہ آوروں کو روکا جا سکے۔ مگر نہ تو چار ایمپائرز نے رومی سلطنت کو بچایا اور نہ ہیڈرین کی فصیل نے اور رومنز (Romans) مجبور ہو کر بغیر کسی جنگ کے انگلستان سے واپس آ گئے۔

رومیوں Romans نے اپنے ابتدائی دور میں جن جرمن قبائل کو شکستیں دیں تھیں، اُنہی جرمن قبائل نے رومنز کے آخری عہد میں رومیوں کو شکستیں دے کر 410 عیسوی میں روم پر قبضہ کر لیا اور مغربی رومی سلطنت کا خاتمہ کر کے اس کی شان و شوکت کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔

اس کی دوسری مثال ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ہے۔ اکبر کے زمانے سے فتوحات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اورنگزیب تک جاری رہا، لیکن مسلسل فتوحات اور وسعت نے مغلیہ سلطنت کو اندر سے کھوکھلا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اورنگزیب جس نے اپنی زندگی کے آخری سال دکن میں گزارے، وہ مرہٹوں سے جنگ میں فتحیاب نہیں ہو سکا، کیونکہ مرہٹوں اور مغل فوج کے درمیان بہت فرق آ چکا تھا۔ مغل جرنل جب فوجی مہم پر جاتے تھے تو ان کے ساتھ پورا لاؤلشکر ہوتا تھا، وہ جنگ کی سختیوں کے عادی نہیں رہے تھے۔

ان کے مقابلے میں مرہٹہ فوج گوریلا جنگ میں ماہر تھی۔ مرہٹہ رہنما شیواجی نے سورج بندرگاہ کو دوبار لُوٹا اور کوئی اس کو نہیں روک سکا۔ ایک بار اس نے مغل امیر شائستہ خان کی حویلی پر حملہ کر کے سب کو دہشت ذدہ کر دیا تھا۔ جب مغل اُمراء مرہٹوں کو شکست دینے میں ناکام ہو جاتے تھے، تو اورنگزیب خود فوجی مہمات کےلیے نکل پڑتا تھا۔

اکثر مغل اُمراء جب کسی قلعے کا محاصرہ کرتے تھے تو لڑنے کے بجائے قلعہ دار کو رشوت دے کر معاہدہ کر لیتے تھے۔ مغل سلطنت وسیع تو ہو گئی تھی مگر اس میں وہ طاقت اور توانائی نہیں رہی تھی، جو اس کی وسعت کو تحفظّ دے۔

1707ء میں جب اورنگزیب کی وفات ہوئی تو مغل سلطنت کی کمزوریاں ایک ایک کر کے سامنے آ گئیں۔ تخت کے دعویداروں کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے سیاسی استحکام نہیں رہا۔ اُمراء کا طبقہ کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ تخت پر ایک کے بعد ایک بادشاہ بنے اور یہ سب جلد ہی سازشوں کا شکار ہو کر قتل ہوئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حرم کو خواتین کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے بیٹوں کو بادشاہ نہ بنایا جائے۔

جب سلطنت کمزور ہوئی تو مرہٹوں کے علاوہ جاٹ، سِکھ اور روہسیے بھی بغاوت پر آ گئے۔ سلطنت اس قابل نہ تھی کہ ان بغاوتوں کو روک سکے اور جب 1864ء میں بکسر کی لڑائی میں ہندوستان کو شکست ہوئی تو انگریز اقتدار آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مغل سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

سلطنت کی وسعت اور زوال کو ہم اس نقطۂ نظر سے دیکتھے ہیں، کہ وسعت کو نئے علاقوں کے انتظام کے لیے دور رَس سیاستدان چاہیے ہوتے ہیں۔ مفتوحہ قوموں پر اگر زیادہ ٹیکس لگائیں جائیں یا انہیں طاقت اور سزاؤں کے لیے اطاعت پر مجبور کیا جائے تو یہ عمل وقتی ہوتا ہے۔

بیرونی اقتدار قوموں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جس کی خاطر وہ بغاوتوں اور جنگ کے ذریعے غیر ملکی تسلط کو ختم کرتے ہیں، اور غیر ملکی طاقت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ واپس اپنی سرحدوں پر چلی جائے۔

اس کی مثال ہم یورپی سامراج سے بھی دیتے ہیں۔ جب یورپی ملکوں نے ایشیاء اور افریقہ میں اپنی کالونیز قائم کیں تو وہ بھی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے نہیں رہے، اور اپنے مفتوحہ علاقوں میں اضافہ کرتے رہے، لیکن جب سامراج میں وسعت آ گئی تو وہ اپنی فوجی طاقت اور سیاسی اور سماجی حالات کی وجہ سے مجبور ہوئے کہ قومی بغاوتوں کے پیشِ نظر کالونیوں کو آزاد کر کے واپس اپنے ملکوں میں چلے جائیں۔

اسی رویّے کو ہم سرمایہ دارنہ نظام میں دیکھتے ہیں۔ سرمایہ دار کسی ایک مقام پر پہنچ کر مطمئن نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک کے بعد ایک خواہش پیدا ہوتی ہے، اور اس کی تکمیل کے لیے وہ تمام اخلاقی قدروں اور ضابطوں کو توڑ کر اپنے مفادات کو پورا کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں سرمایہ داری نے عالمگیری شکل اختیار کر لی ہے، جس نے دوسری قوموں کی معیشت کو اس کے تابع کر دیا ہے۔ یہ تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کو توڑتی ہوئی مسلسل آگے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کی یہ وسعت بعث زوال ہوگی یا نہیں؟

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close