منظر لکھنوی کا ایک شعر ہے ”درد ہو دل میں تو دوا کیجئے۔۔ اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجئے“
دل میں درد اور اس درد کی دوا تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن دل کے نہ ہونے کی بات دل کو نہیں لگتی
دل تو خیر ہوتا ہی ہے لیکن اصل مسئلہ شاعروں کے ’دردِ دل‘ اور میڈیکل سائنس کے ’دل میں درد‘ کے مابین فرق کو سمجھنا ہے
شاعر ’دردِ دل‘ کی بات کرتے ہیں اور انہیں اسے پالنے کا ہمیشہ شوق بھی رہا ہے لیکن جہاں تک ’دل میں درد‘ کا تعلق ہے، تو ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے
سو، اس سے پہلے کہ ’درد ہو دل میں‘ تک نوبت پہنچے، بہتر یہی ہے کہ ہمیں اپنے دل کا خیال رکھنا چاہیے
گھبرائیے مت، اس کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ بات بہت آسان سی ہے: اٹھیے اور پیدل چلیے۔۔ جی ہاں، صرف ہم ہی نہیں، بلکہ ماہرین بھی کہتے ہیں کہ چہل قدمی، دل اور دماغ کی صحت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو طویل عرصے تک زندہ رہنے میں بھی مدد دیتی ہے
ہمارے ایک بے چین ’چین سموکر‘ عزیز کو دل کا دورہ پڑا تو انہیں ہسپتال کا دورہ کرایا گیا۔۔ حملہ خطرناک تھا لیکن زندگی بچ گئی۔ معلوم ہوا کہ وہ پیدل چلتے ہیں، ڈاکٹر نے زندگی بچ جانے پر انہیں اپنے پیدل چلنے کی عادت کو دعا دینے کا کہا، تاہم اپنی فیس وصول کرنا نہیں بھولے
امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام کے نگران ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن یا سی ڈی سی سے منسلک ماہر امراض قلب ڈاکٹر اینجلا تھامپسن پال کہتی ہیں ”چہل قدمی دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کئی طرح سے کردار ادا کرتی ہے، یہ دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرتی ہے، آپ کا وزن کم کرنے اور خون میں شکر کی سطح کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ دائمی تناؤ کو کم کرنے میں بھی مددگار ہوتی ہے۔“
ڈاکٹر اینجلا کے مطابق ”جب آپ صحت مند طرزِ زندگی کا انتخاب کرتے ہیں، تو آپ دل کی بیماری کے خطرے کو ہی کم نہیں کرتے بلکہ دیگر کئی بیماریوں جیسے ٹائپ 2 ذیابیطس اور کئی قسم کے کینسر کے خطرے کو بھی روک سکتے ہیں“
گویا ایک آسان سی کوشش۔۔۔اور فائدے بے شمار۔۔ ویسے بھی مہنگے پیٹرول کے دور میں پیدل چلنے میں صحت بھی اور بچت بھی
اب سوال یہ ہے کہ پیدل چلنا چاہیے، مگر کتنا؟ تو اس بارے میں امیریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایک بالغ شخص کو ہفتے میں کم از کم ایک سو پچاس منٹ کی معتدل جسمانی سرگرمی ضرور کرنی چاہیے۔ سننے میں شائد ایک سو پچاس منٹ بہت زیادہ لگیں لیکن اگر انہیں سات دنوں پر تقسیم کر دیا جائے تو یہ دورانیہ بیس منٹ روزانہ سے زیادہ نہیں بنتا، جسے ہلکی پھلکی واک کر کے پورا کیا جا سکتا ہے
اب دل کی دھڑکن کو قابو میں رکھنے اور صحتمند رہنے کے لیے اتنا تو آپ کر ہی سکتے ہیں۔۔ کیا کہا دل نہیں مانتا، دل سے کہیے کہ یہ تمہارے لیے ہی ہے بھئی
ماہرِ امراض قلب ڈاکٹر اینجلا تھامپسن کہتی ہیں ”ہفتے میں کم از کم ڈیڑھ سو منٹ کی معتدل جسمانی سرگرمی یا پچھتر منٹ کی نسبتاً سخت جسمانی ورزش دل کی صحت کے لیے ضروری ہے اور چھ سے سترہ سال کی عمر کے بچوں کو روزانہ کم از کم ایک گھنٹے کی کھیل کود، بھاگ دوڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔“
وہ کہتی ہیں کہ بیٹھے رہنے کے بجائے، چلنا پھرنا، کام کاج یا حرکت میں رہنا صحت کے لیے مفید ہے
اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی دن بھر کی دوڑ دھوپ، واک اور ورزش کا حساب بھی آپ کو معلوم ہو تو اس میں جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے پیڈومیٹر، موبائل فون اور کمپیوٹر کے پروگرام موجود ہیں جو مددگار ثابت ہو سکتے ہیں
واک یعنی پیدل چلنے کی پیمائش کا ایک مقبول طریقہ قدموں کی گنتی ہے، جس میں دس ہزار قدم روزانہ کو بہترین ہدف سمجھا جاتا ہے، تاہم جرنل آف دی امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک مطالعے کے مطابق، وہ لوگ جو روزانہ کم از کم سات ہزار قدم چلتے ہیں، وہ کم چلنے والوں کی نسبت لمبی عمر پاتے ہیں اور ان میں موت کے امکانات پچاس سے ستر فیصد کم ہوتے ہیں
اچھی بات یہ ہے کہ پیدل چلنے کےدل کی صحت کے علاوہ بھی فوائد ہیں۔ چہل قدمی ہر عمر کے لوگوں کے لیے ایک آسان اور مفید ورزش ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سے دل تو صحتمند رہتا ہی ہے اور دوران خون میں بہتری آتی ہے، اس کے علاوہ عمر طویل ہوتی ہے اور موڈ خوشگوار، جوڑ اور پٹھے مضبوط اور وزن میں کمی اس کے علاوہ واک کرنے سے پُرسکون نیند بھی آتی ہے
الزائمر کا کوئی علاج نہیں مگر ماہرین کے مطابق پیدل چلنے سے اس سے بچاؤ ممکن ہے کیونکہ کھلی فضا میں پیدل چلنے سے دماغ تیز ہوتا ہے اور سانس کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے
مہنگے مہنگے فوڈ پلینز، جم کی ممبرشپ سب جیب پر بوجھ اور مشکل، ورزش اور بھی دوبھر۔۔۔ چنانچہ پیدل چلنے جیسے اس مفت نسخے اور محض کاہلی سے چھٹکارا پا کر ہم کتنا صحتمند رہ سکتے ہیں
تاہم ماہرینِ صحت کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ڈاکٹر سے مشورے کے بعد چہل قدمی کا دورانیہ اور رفتار طے کرنا ضروری ہے
لگتا ہے آپ سوچ رہے ہیں کہ چہل قدمی کے علاوہ آپ کیسے صحت مند رہ سکتے ہیں؟ تو لیجیے، یہ بھی جان لیجیے
سی ڈی سی سے منسلک دل کے امراض کی ماہر ڈاکٹر اینجلا تھامپسن پال کہتی ہیں، ”واک کرنے اور ایکٹیو رہنے کے علاوہ بھی صحت مند رہنے کے بہت سے طریقے ہیں، مثلاً کھانا ایسا کھائیے جو سادہ اور متوازن ہو اور اس میں غذائیت ضرور ہو جیسے پھل، سبزیاں، دالیں اور گوشت مناسب مقدار میں اپنے کھانے میں شامل کیجئے۔اس کے ساتھ ساتھ زیادہ چینی والی غذا سے پرہیز اور نمک بھی کم سے کم استعمال کیا جائے“
کچھ عادتیں بھی ترک کردی جائیں تو خود اپنے ہی حال پر مہربانی ہوگی، مثلاً تمباکو نوشی، شراب نوشی اور ویپنگ سے اجتناب۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر بات بات پر تناؤ اور ٹینشن کا شکار نہ ہوا جائے اور حالات کا مقابلہ ہمت اور حوصلے سے کیا جائے تو دل و دماغ کو فوری نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔