قصہ دو شہر – 2

مشتاق احمد یوسفی

یہ بچے کتنے بوڑھے ہیں، یہ بوڑھے کتنے بچے ہیں

انہوں نے اپنے نارتھ ناظم آباد والے گھر کے سامنے مولسری کا درخت لگانے کو تو لگا لیا، لیکن یادوں کی مولسری کی بھینی بھینی مہک، بچپن اور چھب چھاؤں کچھ اور ہی تھی۔ اب وہ انواع و اقسام کے پھول کہاں کہ ہر پھول سے اپنی ہی خوشبو آئے۔ ان پر بھی وہ مقام آیا، جو بڑھاپے کے پہلے شب خون کے بعد ہر شخص پر آتا ہے، جب دفعتاً اس کا جی بچپن کی دنیا کی ایک جھلک، آخری جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے۔ لیکن اسے کہ علم نہیں ہوتا کہ بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کوئی غیبی ہاتھ چپکے سے سو گنی طاقت کا magnifier (محدب عدسہ) رکھ دیتا ہے۔ دانا کبھی اس شیشے کو ہٹا کر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے ہٹتے ہی ہر چیز خود اپنا miniature (تصغیر) معلوم ہونے لگتی ہے۔ کل کے دیو بالکل بالشتیے نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر آدمی اپنے بچپن کے Locale (جائے ورود و واردات) سے عرصہ دراز تک دور رہا ہے، تو اسے ایک نظر آخری بار دیکھنے کے لیے ہرگز نہیں جانا چاہیے.. لیکن وہ جاتا ہے۔ وہ منظر اسے ایک طلسمی مقناطیس کی مانند کھینچتا ہے اور وہ کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ طفلِ طلسمات پر جہاں دیدہ آنکھ پڑ جائے تو سارے طلسم ٹوٹ جاتے ہیں۔ بہروپ نگر کی ساری پریاں اُڑ جاتی ہیں اور شیش محل پر کالک پت جاتی ہے۔ اور اس جگہ تو اب مقدس خوشبوؤں کا دھواں ہی دھواں ہے۔ یہاں جو کام دیو کی دہکتی دھنک کمان ہوا کرتی تھی، وہ کیا ہوئی؟

یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے؟
وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی؟

آدمی کو کسی طرح اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ رُوپ سُروپ کیا ہوا؟ وہ چہکار مہکار کہاں گئی؟ نہیں… یہ تو وہ اوراق مصور کوچے اور بازار نہیں، جہاں ہر چیز اچنبھا لگتی تھی۔ یہ ہر چیز، ہر چہرے کو کیا ہو گیا؟

Was this the face that launch’d a thousand ships?

And burnt the topless towers of llium?

جس گھڑی یہ طلسم ٹوٹتا ہے، ماضی تمنائی کی خواب سرا ڈھے جاتی ہے۔ پھر اس شخص کا شمار نہ بچوں میں ہوتا ہے، نہ بوڑھوں میں۔ جب یہ مقام آتا ہے تو آنکھیں یکایک ”کلر بلائینڈ“ ہو جاتی ہیں۔ پھر انسان کو سامنے ناچتے مور کے صرف پیر دکھائی دیتے ہیں اور وہ انہیں دیکھ دیکھ کے روتا ہے، ہر سُو بے رنگی اور بے دلی کا راج ہوتا ہے۔

بے حلاوت اس کی دنیا اور مذبذب اس کا دیں

جس شہر میں بھی رہنا، اُکتائے ہوئے رہنا

سو اس طفل بزرگ نے کانپور جا کر بہت گریہ کیا۔ پینتیس برس تک تو اس پر رویا کیے کہ ہائے، ایسی جنت چھوڑ کر کراچی کیوں آ گئے۔ اب اس پر روئے کہ لاحول ولا قوۃ اس سے پہلے ہی چھوڑ کر کیوں نہ آ گئے۔ خواہ مخواہ عمر عزیز کی ایک تہائی صدی غلط بات پر رونے میں گنوا دی۔ رونا ہی ضروری تھا تو اس کے لیے 365 معقول وجوہات موجود تھیں، اس لیے کہ سال میں اتنی ہی مایوسیاں ہوتی ہیں۔ اپنی ”ڈریم لینڈ“ کا چپہ چپہ چھان مارا، لیکن

وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی، وہ رنگ نہ لَوٹ کے پھر آیا…

پینتیس برس پرانا ناسٹلجیا یکایک ٹوٹا تو ہر جگہ اجاڑ اور ہر شے کھنڈر نظر آئی۔ حد یہ کہ جس مگر مچھ بھرے دریا میں کہ جس کا اور نہ چھور، وہ فلک بوس برگد کی پھننگ سے بے خطر چھلانگ لگا دیا کرتے تھے، اب اسے جا کر پاس سے دیکھا تو ایک مینڈک بھر برساتی نالا نکلا۔ اور وہ جبر جنگ برگد تو نرا بونسائی پیڑ لگ رہا تھا۔

ماضی کے دشتِ بازگشت میں وہ اپنے ہمزاد کا خیمہ زنگار گوں نہ پہچان پائے…

کبوتر خانے کا چربہ

یونانی کورس (Greek Chorus) بہت فلسفہ چھانٹ چکا۔ اب اس کہانی کو خود اس کے ہیرو بشارت کی زبانی سنیے کہ اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے:

یہ افسانہ اگرچہ سرسری ہے،
ولے اس وقت کی لذت بھری ہے

صاحب، میں تو اپنا مکان دیکھ کے بھونچکا رہ گیا کہ واللہ، ہم اس میں رہتے تھے، اور اس سے زیادہ حیرانی اس پر کہ بہت خوش رہتے تھے، مڈل کلاس غریبی کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے، جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو لیکن اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ ماشاء اللہ سے ہم تلے اوپر کے نو بھائی تھے اور چار بہنیں۔ اور تلے اوپر تو میں نے محاورے کی مجبوری کے سبب کہہ دیا، ورنہ کھیل کود، کھانے اور لیٹنے بیٹھنے کے وقت اوپر تلے کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ سب کے نام ت پر ختم ہوتے تھے۔ عشرت، عترت، راحت، فرحت، عصمت، عفت وغیرہ۔ مکان خود والد نے مجھ سے بڑے بھائی کی سلیٹ پر ڈیزائن کیا تھا۔ سو سوا سو کبوتر بھی پال رکھے تھے۔ ہر ایک کی نسل اور ذات جدا۔ کسی کبوتر کو دوسری ذات کی کبوتری سے مختلط نہیں ہونے دیتے تھے۔ لکڑی کی دکان تھی۔ ہر کبوتر کا خانہ اس کی جسامت، عاداتِ قبیحہ اور دُم کی لمبائی کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود بناتے تھے۔ صاحب، اب جو جا کے دیکھا تو مکان کے آرکیٹیکچر میں سراسر ان کے اس شوق فضول کا عکس اور عمل دخل نظر آیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سارا مکان دراصل ان کے کبوتر خانے کا بھونڈا سا چربہ تھا۔

والد بہت دور اندیش اور پریکٹیکل تھے۔ اس اندیشے سے کہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی اولاد جائداد کے تقاسمہ پر جھگڑا کرے گی، وہ ہر بیٹے کے پیدا ہوتے ہی اس کا علیحدہ کمرا بنوا دیتے تھے۔ کمروں کی تعمیر میں خرابی کی ایک سے زیادہ صورتیں مضمر تھیں یعنی یہ حفظِ مراتب بھی تھا کہ ہر چھوٹے بھائی کا کمرہ اپنے بڑے بھائی کے کمرے سے لمبائی چوڑائی میں ایک ایک گز چھوٹا ہو۔ مجھ تک پہنچتے پہنچتے کمرے کے حدود اربعہ تقریباً اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ پورے سات سال لگے مکان مکمل ہونے میں۔ اس عرصے میں تین بھائی اور پیدا ہو گئے۔ آٹھویں بھائی کے کمرے کی دیواریں اٹھائی گئیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ قدمچوں کی نیو رکھی جا رہی ہے یا کمرے کی۔ ہر نومولود کی آمد پر سلیٹ پر سابقہ نقشے میں ضروری ترمیم اور ایک کمرے کا اضافہ کرتے۔ رفتہ رفتہ سارا آنگن ختم ہو گیا۔ وہاں ہمیں ورثے میں ملنے والی کوٹھریاں بن گئیں۔

بورژوایت پر بوذریت کا گمان

صاحب، کہاں کراچی کی کوٹھی اور اس کے ایئر کنڈیشنز اور قالین اور روبلیک پینٹ اور کہاں یہ ڈھنڈار کہ کھانس بھی دو تو واللہ پلستر جھڑنے لگے۔ چالیس برس سے رنگ سفیدی نہیں ہوئی۔ پھوپھی زاد بھائی کے مکان میں ایک جگہ ترپال کی چھت گیری بندھی دیکھی۔ کراچی اور لاہور میں تو کوئی چھت گیری اور نم گیرہ کے معنی بھی نہیں بتا پائے گا۔ چھت گیری پر تین جگہ نیل پالش سے ضرب کا نشان x بنا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کے نیچے نہ بیٹھو۔ یہاں سے چھت ٹپکتی ہے۔ کانپور اور لکھنؤ میں جس دوست اور رشتے دار کے یہاں گیا، اسے پریشان حال ہی پایا۔ آگے جو سفید پوش تھے، وہ اب بھی ہیں۔ مگر سفیدی میں پیوند لگ گئے ہیں۔ اپنی عسرت اور خودداری پر کچھ زیادہ ہی فخر کرنے لگے ہیں۔ ایک نجی محفل میں، میں نے اس پر اچٹتا سا فقرہ کس دیا تو ایک جونیئر لیکچرار جو کسی مقامی کالج میں اقتصادیات پڑھاتے ہیں، بگڑ گئے۔ کہنے لگے ”آپ کی امیری امریکا اور عرب امارات کی دَین ہے۔ ہماری غریبی ہماری اپنی غریبی ہے۔ (اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے قرات سے الحمد للہ کہا) مقروضوں کے اللے تللے آپ ہی کو مبارک ہوں۔ عرب اگر تھرڈ ورلڈ کو عالم الفقیر کہتے ہیں، تو غلط نہیں کہتے۔“ میں مہمان تھا۔ ان سے کیا الجھتا۔ دیر تک فقر و غنا، نانِ جویں اور خودداری اور مفلسی کے دیگر لوازمات کی مدح میں اشعار سناتے رہے۔ دو شعر حضرت ابوذر غفاری رح پر بھی سنائے۔ شرما حضوری میں نے بھی داد دی۔ مہمان جو ٹھہرا۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، آج کل ہر انٹلکچویل کو اپنی بے زری اور بورژوایت پر بوذریت کا گمان ہونے لگا ہے۔

کوئی چیز ایسی نہیں جو ہندوستان میں نہ بنتی ہو۔ ایک کانپور ہی کیا، ہر شہر کارخانوں سے پٹا پڑا ہے۔ کپڑے کی ملیں، فولاد کے کارخانے، کار اور ہوائی جہاز کی فیکٹریاں، ٹینک بھی بننے لگے۔ ایٹم بم تو عرصہ ہوا ایکسپلوڈ کر لیا۔ سیٹلائٹ بھی خلا میں چھوڑ دیا۔ عجب نہیں چاند پر بھی پہنچ جائیں۔ ایک طرف تو یہ ہے۔ دوسری طرف یہ نقشہ بھی دیکھا کہ ایک دن مجھے انعام اللہ برملائی (انعام اللہ ایک زمانے میں اس پر بہت فخر کرتے تھے کہ وہ ناگفتنی بات برملا کہہ دیتے ہیں۔ اسی بنا پر ان کا لقب برملائی پڑ گیا۔) کے ہاں جانا تھا۔ ایک پیڈل رکشا پکڑی۔ رکشا والا مدقوق سا تھا۔ بنیان میں سے بھی پسلیاں نظر آ رہی تھیں۔ منھ سے بنارسی قوام والے پان کے بھبکے نکل رہے تھے۔ اس نے انگلی کا آنکڑا (ہُک) سا بنا کر پیشانی پر پھیرا تو پسینے کی تللی بندھ گئی۔ پسینے نے منھ اور ہاتھوں پر لسلسی چمک پیدا کر دی تھی، جو دھوپ میں ایسی لگتی تھی جیسے ویسلین لگا رکھا ہو۔ ننگے پیر، سوکھی کلائی پر کلائی سے زیادہ چوڑی گھڑی۔ ہینڈل پر پروین بوبی ایکٹرس کا ایک سیکسی فوٹو۔ پیڈل مارتے میں دہرا ہو ہو جاتا اور پسینے میں تر پیشانی بار بار بوبی پر سجدہ ریز ہو جاتی۔ مجھے ایک میل ڈھو کے لے گیا۔ مگر گیس کیجیئے کتنا کرایہ مانگا ہو گا؟ جناب، کُل پچھتر پیسے، خدا کی قسم، پچھتر پیسے، میں نے ان کے علاوہ چار روپے پچیس پیسے کا ٹپ دیا تو پہلے تو اسے یقین نہیں آیا۔ پھر باچھیں کھل گئیں۔ کدو کے بیجوں جیسے پان آلودہ دانت نکلے رہ گئے۔ میرے بٹوے کو حریص نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ”بابو جی آپ پاکستان سے آئے ہیں؟“ میں نے کہا ”ہاں۔ مگر پینتیس برس پہلے یہیں ہیرامن کے پردے میں رہتا تھا۔“ اس نے پانچ کا نوٹ انٹی سے نکال کر لوٹاتے ہوئے کہا ”بابو جی، میں آپ سے پیسے کیسے لے سکتا ہوں۔ آپ سے تو محلے داری نکلی، میری کھولی بھی وہیں ہے۔“

جاری ہے


  1. قصہ دو شہر – 1


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close