فریج سے گوشت کی بدبو ختم کرنے اور فریج کے بغیر گوشت محفوظ کرنے کے طریقے

ویب ڈیسک

اس فیچر میں ہم آپ کو بغیر فریزر کے گوشت کو محفوظ رکھنے اور فریج میں گوشت کی بدبو ختم کرنے کے طریقوں کے بارے میں بتائیں گے، جن سے نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا بلکہ آپ ان سے مستفید بھی ہو سکتے ہیں

عیدالاضحیٰ کے موقع پر اکثر لوگ قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کے بعد جو حصہ بچ جاتا ہے اسے فریز کر لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی ہفتوں تک فریج میں رکھے ہوئے گوشت سے ناگوار بُو رہ جاتی ہے اور اچھی طرح سے فریج کی صفائی کے بعد بھی یہ بُو ختم نہیں ہوتی

عام طور پر گوشت کو بغیر دھوئے فریز کر لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گوشت کا خون جم جاتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم گوشت سے بنا سالن بھی فریج میں کئی دنوں تک رکھ لیتے ہیں جس کی مصالحہ جات کی مہک انتہائی تیز ہوتی ہے

امریکا کے محکمہ زراعت کی فوڈ اینڈ سیفٹی سروس کی ویب سائٹ کے مطابق فریج کو صاف کرنے کے متعدد طریقے ہیں، جن میں اکثر لوگ سرکہ، بیکنگ سوڈا، کافی، چارکول اور کلورین ڈائی آکسائیڈ کا استعمال کرتے ہیں

فریج یا فریزر سے بدبو دور کرنے کے لیے سب سے پہلے فریج میں رکھی پرانی کھانے کی اشیا (جو کھانے کے قابل نہیں ہیں) کو پھینک دیں

اب فریج کے تمام شیلف، آئس ٹرے نکال لیں، انہیں گرم پانی یا صابن سے اچھی طرح صاف کریں، پھر اسے کسی جراثیم کش سلوشن سے دھو لیں، مثال کے طور پر ایک کھانے کا چمچ مائع کلورین بلیچ کو فی گیلن پانی میں ملا کر دھو لیں

اب فریزر میں جمی ہوئی برف کو صاف کرنے کے لیے اس کے پگھلنے کا انتظار کریں، جب برف پگھل جائے تو اسے کسی کپڑے کی مدد سے باہر نکال لیں

ریفریجریٹر اور فریزر کے اندرونی حصے کو بیکنگ سوڈا سے دھو لیں اور فریج کے دروازے کے باہر کے حصے کو پانی میں ملے سینیٹائزر سے دھوئیں۔ اور پھر فریج کے دروازے کو تقریباً پندرہ منٹ کے لیے کھلا چھوڑ دیں

سرکہ بھی فریج سے گوشت کی بدبو دور کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، اس کے علاوہ، یہ ایک محفوظ اور قدرتی بلیچ بھی ہے، جو فریج پر موجود داغ دھبوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے

فریج کے اندرونی حصے کو صاف کرنے کے لیے سرکہ استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ایک اسپرے بوتل میں سرکہ اور پانی کو برابر مقدار میں مکس کریں، فریج کے حصے کو اسپرے کرتے جائیں، اس دوران صفائی کے لیے کسی مائیکرو فائبر کپڑے کا استعمال کریں

خیال رہے کہ کسی تیز یا نوکیلے کپڑے کا استعمال نہ کریں ورنہ فریج کو نقصان ہوسکتا ہے

ایک اور چیز بیکنگ سوڈا ہے، اس کو لیموں کے رَس میں برابر مقدار میں مکس کریں اور تھوڑے پانی میں ملا کر پیسٹ بنا لیں، اب اس پیسٹ کو کپڑے کی مدد سے فریج کے گندے حصے کو صاف کریں

کافی بھی بدبو کو جذب اور ختم کرنے میں مدد کر سکتی ہے، آپ اپنے فریج یا فریزر میں کافی کا پیالہ رکھ سکتے ہیں تاکہ بدبو یا کھانوں کی خوشبو کو ختم کیا جا سکے، لیکن خیال رکھیں کہ یہ طریقے آپ فریج کی صفائی سے کچھ روز قبل کریں تو بہتر ہے

ریفریجریٹر سے گوشت کی بدبو سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ کوئلہ (چارکول) استعمال کرنا ہے، درحقیقت، چارکول زہریلے کیمیکلز کو جذب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے

ایک چھوٹے سے پیالے میں کچھ مقدار تیل ڈال کر اس میں کوئلہ رکھ دیں، پہلے اس جگہ کا انتخاب کریں، جہاں سے زیادہ بو آئے، یاد رہے کہ ایک ماہ بعد اسے نکال دیں

فریج کی بدبو دور کرنے کے لیے لیموں بھی موثر ہے، اس کا رس لے کر اس میں لونگ ڈالیں اور فریج کی اندورنی سطح پر لگائے، اور پھر کسی صاف کپڑے سے دھولیں، یہ خوشبو کا احساس دینے کے ساتھ ساتھ فریج کی بدبو کو ما ردیتا ہے

بغیر فریزر گوشت کو محفوظ رکھنے کے طریقے

اقوام متحدہ کے زرعی ادارے کی گائیڈلائنز کے مطابق فریزرر میں رکھے گئے گوشت کو تین سے چار مہینوں تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر بجلی کا مسئلہ نہ ہو اور فریزرر بار بار نہیں کھولا جاتا تو اس کو چھ مہینوں تک استعمال کیا جا سکتا ہے

لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے، جب گھر میں گوشت بھی ہو، فریزر بھی موجود ہو لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ سے گوشت خراب ہونے کا خدشہ ہو، تو کیا فریزر کے علاوہ ایسا کوئی طریقہ موجود ہے جس سے گوشت کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھا جا سکے؟

تحقیقی مقالوں میں لکھا گیا ہے کہ فریزر کا استعمال امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں انیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا ہے، اور اس سے پہلے گوشت کو روایتی طریقوں سے محفوظ کیا جاتا تھا، جس سے گوشت کئی مہینوں تک خراب ہونے سے بچ جاتا تھا۔ یہ طریقہ آج بھی پاکستان کے کئی علاقوں میں مستعمل ہے

گوشت کو محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ’کیورنگ‘ یا نمک لگا کر خشک کرنے کا ہے۔ امریکہ کے کارنیور کلب، جو گوشت کے بارے میں تحقیقی مضامین شائع کرتے ہے، کے ایک مضمون کے مطابق گوشت کو نمک لگا کر محفوظ کرنا تقریباً پانچ ہزار سال پرانا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں گوشت کو نمک لگا کر سورج کی روشنی میں خشک کیا جاتا ہے اور اس کو کئی مہینوں تک استعمال کیا جاتا ہے

خیبر پختونخوا کے فوڈ سیفٹی اینڈ ہلال فوڈ اتھارٹی کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق گوشت کو نمک لگا کر خشک کرنا صدیوں پرانا طریقہ ہے، کیونکہ نمک کی خاصیت ہے کہ جراثیم کو مار دیتا ہے۔ گوشت پر نمک چھڑک کر اس کو سورج کی روشنی میں رکھا جاتا ہے تاکہ دھوپ کی وجہ سے، گوشت کے اندر نمی کو ختم کیا جا سکے کیونکہ گوشت میں جب پانی موجود ہوتا ہے، تو اس میں جراثیم کی افزائش کا خطرہ موجود رہتا ہے

تاہم ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق ابھی جو موسم ہے، اس میں نمی کا تناسب زیادہ ہے تو اس میں گوشت کو نمک لگا کر دھوپ میں رکھنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، تاہم پھر بھی باقاعدہ سورج کی روشنی میں اگر رکھا جائے تو گوشت کو خشک کیا جا سکتا ہے

کارنیور کلب کے مطابق تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح میں سومیرین لوگ گوشت کو تلوں کے تیل (سیسمی آئل) اور نمک میں رکھ کر محفوظ کرتے تھے، جبکہ نو سو قبل مسیح میں یونانیوں نے صرف نمک میں گوشت کو محفوط رکھنا شروع کیا تھا

اسی طرح دو سو قبل میسح میں رومنز نے یونیانیوں سے نمک کے ذریعے گوشت کو محفوظ کرنے کا طریقہ سیکھا تھا، اور اسی طریقے سے گوشت کو محفوظ کرتے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ نمک کے ساتھ دیگر اجزا جیسا کے نائٹریٹ اور دیگر کیمیکل کا استعمال شروع ہو گیا جس سے گوشت محفوظ بھی ہوتا تھا اور اس کا ذائقہ بھی اچھا رہتا تھا

ڈاکٹر ستار کے مطابق اس کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ گوشت پر نمک چھڑکنے کے بعد اس کو ایک تار یا کسی دوسرے چیز میں لٹکا کر دھوپ میں رکھا جاتا ہے، جس سے گوشت خشک ہو سکے اور خشک ہونے کے بعد اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے

دوسرا طریقہ سموکنگ کا ہے۔ کیٹس فورک نامی ویب سائٹ کے مطابق سموک کے ذریعے گوشت کو خشک کر کے اس کو محفوظ کرنا ہوتا ہے اور یہ طریق سولہویں صدی میں مشہور ہوا تھا، جس کو رومنز نے استعمال کیا تھا

اسی ادارے کے مطابق یہ طریقہ زیادہ تر رومن افواج کے لیے فوڈ سپلائی میں اس وقت استعمال کیا جاتا تھا، جب تازہ گوشت ملنا مشکل تھا۔ ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق یہ طریقہ بھی گوشت کو خشک کرنا ہی ہے لیکن اس کو لکڑی یا کوئلے کے دھویں میں گوشت کو خشک کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے پہلے بھی گوشت پر نمک چھڑکا جاتا ہے اور اس کے بعد آگ یا کوئلے کے دھویں میں گوشت کو خشک کیا جاتا ہے

کیٹس فورک ادارے کے مطابق اس طریقہ کار میں گوشت کو 75 سے 120 فارن ہائٹ درجہ حرارت پر سموک کے ذریعے خشک کیا جاتا ہے اور سموکنگ سے پہلے گوشت کو باقاعدہ نمک لگانا لازمی ہے

اسی طریقہ کار کے ذریعے بھی گوشت سے نمی خشک کی جاتی ہے، تاکہ اس نمی میں جراثیم کی افزائش نہ ہو سکے اور اس کو بعد میں ایک سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے

موجودہ دور میں ایک انگیٹھی یا تندور میں گوشت کو طریقے سے کسی سیخ یا نوک دار چیز میں پرو کر رکھا جا سکتا ہے تاکہ گوشت سموک کے ذریعے خشک ہوسکے یا گوشت کو کسی سیخ میں رکھ کر چمنی، جہاں سے دھواں نکلتا ہوں، کے سامنے رکھا جا سکتا ہے

تاہم ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق: ’دھوپ یا سموک کے ذریعے گوشت محفوظ رکھنے میں احتیاط لازمی ہے، کیونکہ درجہ حرارت میں اونچ نیچ کی وجہ سے گوشت خشک تو ہوسکتا ہے، لیکن اس میں فوڈ پوائزننگ بھی ہوسکتی ہے اگر گوشت میں موجود نمی باقاعدہ ختم نہیں ہوتی۔‘

تیسرا طریقہ پکلنگ یا اچار بنانے کا ہے۔ کیٹس فورک نامی ویب سائٹ کے مطابق اس طریقہ کار میں گوشت کی بوٹیاں کاٹ کر اس کو سرکے یا چینی کے پانی میں رکھ کر گوشت کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے

اسی ادارے کے مطابق رومن تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ گوشت کو شہد کے محلول میں رکھا کر محفوظ کیا گیا تھا اور کئی سالوں تک وہ گوشت قابل استعمال تھا۔ تاہم اس طریقہ کار میں گوشت کو پہلے پکایا جاتا ہے اور اس کے بعد سرکے یا چینی کے محلول میں رکھا جاتا ہے

شہد کے سلوشن میں گوشت کو محفوظ کرنے کا رواج شمالی افریقہ، وسطی ایشیا میں صدیوں سے کیا جاتا تھا، تاہم یہ طریقہ ابتدا میں سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن بعد میں ایسے شواہد پائے گئے کہ شہد کے محلول میں بھی گوشت کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے

گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک طریقہ برف کا استعمال بھی ہے۔ ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق باقی جتنے بھی طریقے ہیں، وہ شاید تھوڑے مشکل ہوں لیکن برف کے ذریعے گوشت کو ٹھنڈا رکھنا آسان طریقہ ہوسکتا ہے

انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہے، تو وہ بازار سے برف خرید کر اس میں گوشت کو رکھیں تاکہ وہ ٹھنڈا رہے اور جراثیم کو افزائش کا موقع نہ مل سکے لیکن ان سب طریقوں سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ جانور ذبح بھی درست طریقے سے ہوا ہو اور اس کے جسم سے خون مکمل طور پر نکل جائے

ڈاکٹر عبدالستار نے بتایا، ’جانور کا خون جراثیم کی افزائش کے لیے بہترین جگہ ہے اور اس میں وہ پلتے ہیں، تو جانور کو ذبح کرنے کے دوران یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی چار بڑی رگیں کاٹ دی گئی ہوں جس میں ایک سانس، ایک خوراک اور دو خون کی شامل ہیں، تاکہ جسم سے خون مکمل طور پر نکل جائے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close