چین کے شہر شنگھائی کے شمال میں واقع ایک قصبے میں خستہ حال عمارتوں سے گھری ایک گلی کے آخر میں قریب ہی واقع ایک ٹیبل ٹینس کلب سے پنگ پانگ گیندوں کی آوازیں گونج رہی ہیں
روڈونگ نامی اس قصبے کی زیادہ تر آبادی عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہے، جو اس ٹیبل ٹینس کلب کے اراکین ہیں
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق چین میں ’فی خاندان ایک بچے‘ کی پالیسی کے اطلاق میں کلیدی کردار ادا کرنے والی روڈونگ کاؤنٹی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہاں کا ایک اسکول لاوارث ویران پڑا ہے اور ایک مقامی یونیورسٹی ریٹائر ہونے والوں کے لیے کورسز پیش کر رہی ہے
یہ رجحان صرف روڈونگ میں نہیں بلکہ پورے چین میں ہے جہاں بزرگ شہریوں کا تناسب زیادہ ہے
بھارت نے چین کو باضابطہ طور پر دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بیجنگ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس کی آبادی چھ دہائیوں میں پہلی بار کم ہوئی ہے
2011 میں روڈونگ میں کلب کھولنے والی چھپن سالہ خاتون فو نے کہتی ہیں ”بزرگ شہری یہاں آتے ہیں اور پنگ پانگ کھیلتے ہیں، تو انہیں لگتا ہے کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے، پھر وہ تاش کھیلنا چھوڑ دیتے ہیں“
فو کے ایک بیٹے شہر میں کام تلاش کرنے کے لیے روڈونگ سے باہر مقیم ہیں، جن کا ایک بچہ ہے، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے بیٹے اور بہو دوسرا بچہ پیدا کرنے پر غور کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا ”اس کا امکان نہیں ہے۔ ان دنوں بوجھ بہت زیادہ ہے“
اسی کلب کے ایک رکن ژو، جو اپنی عمر کی ساٹھ کی دہائی میں ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا ”چین کے نوجوانوں کے لیے ملازمت کی مارکیٹ ناقابلِ یقین حد تک چیلنجنگ ہے۔ یہ ہماری نسل کے برعکس ہے۔ ان دنوں ہمارے پاس ہر کام کے لیے مخصوص لوگ تھے۔ آج کی طرح نہیں، جب لوگوں کو کام تلاش کرنے کے لیے خود پر انحصار کرنا پڑتا ہے“
بچوں کی شرحِ پیدائش میں کمی سے چینی نوجوانوں پر عمر رسیدہ افراد کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے، جنہیں ملازمت کے ساتھ ساتھ خاندان کے بزرگ افراد کی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی ہے
چین میں بوڑھے افراد کا نوجوان بچوں کے ساتھ رہنا عام ہے، لیکن روڈونگ کے کچھ بزرگ شہریوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں
سڑسٹھ سالہ وانگ جیانہوا نے بتایا ”جب تک ہم صحت مند ہوں گے ہمارے بچوں پر دباؤ کم ہوگا، اس لیے ان سرگرمیوں میں حصہ لینا بزرگ شہریوں کے فائدے میں ہے بلکہ ان کے بچوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے تاکہ وہ اپنے بچوں اور معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔“