سابق کرکٹرز اور شائقین کو مایوس کرنے والی ویسٹ انڈیز کی شکست کی وجہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

دو بار کرکٹ کی عالمی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام ہوئی۔ خراب کارکردگی پر ویسٹ انڈیز کے ورلڈ کپ سے باہر ہونے پر جہاں ایک جانب دنیا بھر اس کے مداح گہرے دکھ کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں اس کے سابق کرکٹرز کی جانب سے ایسی تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ ٹیم کا معیار اس قدر زوال پذیر ہو چکا ہے کہ یہ مزید گِر نہیں سکتا اور اس میں سب کے لیے نصیحت بھی ہے

سابق فاسٹ بولر اور کمنٹیٹر این بشپ نے ویسٹ انڈیز کی شکست کو ’دو بار ورلڈ کپ جیتنے والی عظیم ٹیم کا زوال‘ قرار دیتے ہوئے کہا ”کپتان تبدیل کرو، کوچ تبدیل، جسے مرضی تبدیل کرو۔ نتائج وہی رہے، جس کی توقع تھی“

انہوں نے کہا ”گروپ اسٹیج کے میچوں میں ویسٹ انڈیز نے فیلڈنگ اور بلے بازی میں بہت خراب کرکٹ کھیلی۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ کھیل کسی صورت قابل قبول ہے؟“

ان کے ساتھ سابق آل راؤنڈ کارلوس بریتھویٹ نے جواب دیا ”اس کا سیدھا جواب نہ ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کے بعد اس بار ہم ایک اور فارمیٹ (ون ڈے) میں موقع گنوا بیٹھے ہیں“

انہوں نے کہا ”یہ زوال کی وہ سطح ہے، جس سے آپ مزید نیچے نہیں جا سکتے!“

این بشپ کا کہنا ہے ”پوری دنیا میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے فینز کے لیے یہ ایک مشکل سفر رہا ہے۔ یہ دو بار عالمی چیمپیئن، دو بار ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن ٹیم کا عروج سے زوال تک کا ڈرامائی سفر ہے۔ مسئلہ سسٹم کا ہے۔ ہمیں سسٹم بدلنا ہوگا، اس میں تبدیلیاں لانا ہوں گی“

کرکٹ ورلڈ کپ کی پہلی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی اس حالت پر تجزیہ کار بھی حیران ہیں کیوںکہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کی 48 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو گا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم ورلڈ کپ مقابلے میں شامل نہیں ہو گی

سری لنکن ٹیم نے اتوار کو ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا تھا جس کے بعد بہت سے شائقین پرامید تھے کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو بھی ورلڈ کپ کھیلنے کا ٹکٹ مل جائے گا۔

ورلڈ کپ کوالیفائر میں ہالینڈ کے خلاف اہم ترین میچ میں ویسٹ انڈیز نے 347 رنز بنائے تھے لیکن پھر بھی وہ میچ نہ بچا سکی۔ سپر سکس مرحلے میں انھوں نے جس طرح کھیلا اس پر میڈیا میں کافی تنقید ہوئی

یہ پہلا موقع ہے جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم ون ڈے انٹرنیشنل ورلڈ کپ میں نہیں ہو گی۔ اس سے قبل یہ ٹیم گزشتہ سال آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکی تھی

 ایک زمانے میں ناقابل تسخیر ٹیم

ویسٹ انڈیز کی ٹیم وہی ہے، جس نے سنہ 1975 اور سنہ 1979 میں لگاتار دو بار ورلڈ کپ جیتے تھے۔ تیسری بار 1983 کے فائنل میں ایک بار پھر فاتح بننے سے انہیں بھارت کرکٹ ٹیم نے روکا

لیکن اس کے بعد یہ ٹیم ورلڈ کپ کے کسی بھی فائنل میچ تک نہ پہنچ سکی۔ سال 1996 میں ویسٹ انڈیز سیمی فائنل مرحلے تک پہنچی تھی

کھیل کے تقریباً ہر فارمیٹ میں اس ٹیم کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر ایک روزہ میچوں میں ان کے جارحانہ کھیل کی ایک الگ پہچان تھی

ہر حال میں ان کا بیٹنگ آرڈر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ویوین رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گورڈن گرینیج، لوگی، رچرڈسن اور برائن لارا جیسے بلے بازوں نے دنیا بھر کے کئی ماہر گیند بازوں کو پچھاڑا

1980 اور 1990 کی دہائیوں میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس ٹیم کے لیے کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔ تب اس ٹیم کے پاس خطرناک اور تیز رفتار بولرز بھی تھے۔ جوئل گارنر، مائیکل ہولڈنگ، اینڈی رابرٹس، میلکم مارشل، کرٹلی ایمبروز، کورٹنی والش، این بشپ کچھ ایسے تیز گیند باز تھے جنھوں نے بہترین بلے بازوں کو بھی ڈرا کر رکھا

ان کے پاس کارل ہوپر اور راجر ہارپر کی شکل میں بہترین آل راؤنڈر بھی تھے۔ جیف ڈوجون ایک عمدہ وکٹ کیپر اور بلے باز تھے، جنہوں نے کئی میچ جیتنے والی اننگز کھیلی

 اور پھر زوال کی داستان شروع ہوئی

1990 کی دہائی کے آخر سے ویسٹ انڈیز کرکٹ کے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ پچھلی دو دہائیوں میں چند فتوحات اور ریکارڈز کے علاوہ خوشی کے لمحات کم ہی ان کے ہاتھ آئے

ٹیم نہ صرف ایک روزہ کرکٹ میں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اپنی چمک کھو بیٹھی۔ اگرچہ انھوں نے سال 2012 اور 2016 میں دو بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا لیکن یہاں بھی یہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ بعد ازاں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ان کی کارکردگی میں بھی خرابی آتی چلی گئی

اگر ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ موجودہ آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں آٹھویں، ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں دسویں اور بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ساتویں نمبر پر ہیں

سنہ 2002 میں جمیکا ٹیسٹ جیتنے کے بعد اسے بھارت کے خلاف کوئی بھی ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے اکیس سال ہو چکے ہیں۔ اس سیریز کے بعد بھارت نے ویسٹ انڈیز کے خلاف آٹھ ٹیسٹ جیتے ہیں

آسٹریلیا کے خلاف بھی ویسٹ انڈیز کی کچھ ایسی ہی کارکردگی رہی ہے۔ سنہ 2003 کی سیریز کے بعد وہ آسٹریلیا کے خلاف ایک بھی میچ نہیں جیت سکے۔

پچھلے چار سالوں میں تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز میں بھارت نے ویسٹ انڈیز کو کلین سویپ کیا ہے

حالیہ برسوں میں کئی بار یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا ویسٹ انڈیز واقعی ایک ٹیم کے طور پر کھیل بھی رہی ہے؟ اکثر یہ الزامات لگائے جاتے ہیں کہ ٹیم میں اتحاد کا فقدان ہے اور یہ ایسے کھلاڑیوں کی ٹیم ہے جو انفرادی طور پر اچھا کھیلتے ہیں

 اس زوال کی وجہ کیا ہے؟

ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی میں مسلسل گراوٹ پر سینیئر صحافی آنند وینکٹرامن کہتے ہیں ”ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی میں کمی ایک سال یا ایک دورے میں نہیں آئی، ویسٹ انڈیز کی ٹیم 1990 کی دہائی سے اپنی فارم کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھی۔ ویون رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گرینیج، مارشل اور ڈوجون کی جگہ لینا آسان نہیں تھا، وہ ایک ایک کر کے ریٹائر ہوئے۔ یہ تمام کھلاڑی اکیلے ہی ایک میچ کو ٹیم کے حق میں بدل سکتے تھے۔ یقینی طور پر لارا اور ایمبروز انفرادی ٹیلنٹ کے ایک ہی زمرے کے کھلاڑی تھے“

آنند وینکٹرامن کہتے ہیں ”امبروز کو والش نے سپورٹ کیا، جبکہ لارا کو بہت کم سپورٹ حاصل تھی۔ 2000ع کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کو زیادہ تر بین الاقوامی ون ڈے ٹورنامنٹس میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جن میں 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ بھی شامل تھے“

انہوں نے کہا ”گیل بہت طاقتور بلے باز تھے۔ سروان اور چندر پال نے بھی کچھ حصہ ڈالا۔ لیکن ایک ٹیم کے طور پر یہ کافی نہیں تھا۔ سب سے زیادہ نقصان بولنگ کے شعبے میں ہوا کیونکہ انہیں اچھے کھلاڑیوں کا متبادل نہیں مل سکا“

اس کی وجہ کے بارے میں، وہ کہتے ہیں ”ایتھلیٹکس اور باسکٹ بال نے کیریبین جزیروں میں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے. فٹبال بھی بہت مقبول ہے۔ اس کے علاوہ معاشی پہلو سے بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اکثر کھلاڑیوں نے بورڈ کے خلاف بغاوت کی کہ انہیں دوسری ٹیموں کی طرح مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ دوسرے ممالک کے بورڈز کی طرح کرکٹ پر خرچ کر سکیں۔“

وینکٹارامن کا کہنا ہے کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کو دوسرے ممالک کی طرح اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو ترقی دینے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے

وہ کہتے ہیں ”بہت کم نوجوان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن وہی کھلاڑی آئی پی ایل اور بگ بیش لیگ جیسے کلبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو اپنے بورڈ، کھلاڑیوں اور سابق کھلاڑیوں کو مل کر بدلنا ہوگا“

کئی سالوں تک ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم اپنی جارحیت کے لیے جانی جاتی تھی چاہے وہ بلے سے ہو، بولنگ سے ہو یا فیلڈنگ میں۔ تب دنیا کے کونے کونے میں ان کے چاہنے والے تھے۔

اگر کبھی ویسٹ انڈیز اپنی فارم میں واپس آتا ہے تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ کرکٹ کے لیے بھی بہت اچھا ہوگا

 ویسٹ انڈیز کی شکست پر ردعمل

ویسٹ انڈیز کے موجودہ کوچ اور سابق کپتان ڈیرن سیمی نے نیدرلینڈز کے خلاف سابقہ شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ”یہ ہار ہماری کارکردگی کی عکاسی کرتی ہے“

انہوں نے کہا ”کبھی کبھار آپ کو اوپر جانے کے لیے سب سے نیچے جانا ہوتا ہے“

ویسٹ انڈیز کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق بھارتی اوپنر وریندر سہواگ نے اسے ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ”اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹیلنٹ ناکافی ہوتا ہے، اسے توجہ اور بہتر انتظامی ڈھانچہ درکار ہوتا ہے جو سیاست سے پاک ہو“

سابق بھارتی کھلاڑی گوتم گمبھیر کے مطابق ویسٹ انڈیز اب بھی نمبر ون ٹیم بن سکتی ہے جبکہ سابق پاکستانی کپتان محمد حفیظ کی رائے میں ویسٹ انڈیز کی ناکامی میں سب کے لیے نصیحت ہے

محمد حفیظ کا کہنا ہے ”انٹرنیشنل لیول پر قائم رہنے کے لیے انفراسٹرکچر، کھلاڑیوں کی بہتر مینجمنٹ بھی درکار ہوتی ہے“

ادھر شعیب اختر کہتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز کو ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہ کرتا دیکھنا بہت افسوس ناک ہے

اسکاٹ لینڈ سے ہار کر ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں ہی باہر ہونے والی ویسٹ انڈیز کے کپتان شائے ہوپ نے شکست پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ”میں کسی ایک چیز پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ہم نے پورے ٹورنامنٹ کے دوران خود کو مایوس کیا ہے۔ ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا کہ ہم کیسے اننگز کا آغاز کرتے ہیں“

ان کا کہنا تھا ”میرے خیال سے فیلڈنگ کا تعلق آپ کے رویے سے ہوتا ہے۔ ہمیں مزید کوشش کرنی ہوگی، خاص کر اپنے رویے کو لے کر۔۔ کیچ چھوٹ جاتے ہیں، خراب فیلڈنگ ہوتی رہتی ہے، یہ کھیل کا حصہ ہے۔ مگر کوشش موجود رہنی چاہیے۔“

ہوپ نے کہا ”بنیاد سے شروعات ہوتی ہے۔ گھر واپس جا کر ہمیں بہتر تیاری کرنا ہوگی۔ ہم یہاں آ کر یہ توقع نہیں کرسکتے کہ ہم ایک بہترین ٹیم ہیں، جب ہماری تیاری ہی نہ ہو“

ویسٹ انڈین کپتان نے تسلیم کیا کہ ’ہم ایک صبح اٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایک عظیم ٹیم ہیں۔ توجہ دینے کے لیے کچھ ہے، ہم صرف اس چیز کو کنٹرول کر سکتے ہیں، جو ہمارے بس میں ہے۔‘

ویسٹ انڈیز کی شکست نے کئی شائقین کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، کئی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کچھ شائقین ویسٹ انڈیز کے آؤٹ ہونے پر شدید غم کا اظہار کر رہے ہیں

ایک مداح نے لکھا، ’’ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز کے بغیر! وہ دیو ہیکل ٹیم جو عالمی کرکٹ پر راج کرتی تھی، ان کا زوال شروع ہوگیا ہے۔“

ایک اور مداح نے لکھا، ”زمبابوے، اسکاٹ لینڈ اور نیدرلینڈز سے شکست کے بعد ویسٹ انڈیز ورلڈ کپ 2023 سے باہر ہو گیا ہے۔ یہ ویسٹ انڈیز کے لیے خود کو بہتر کرنے کا وقت ہے۔“

ایک مداح کے مطابق ”ویسٹ انڈیز کرکٹ کو آئی پی ایل کے پیسے نے تباہ کر دیا“

ایک مداح لکھتے ہیں، ’’دو بار کی عالمی چیمپئن ویسٹ انڈیز اس سال ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے بغیر ورلڈ کپ، یہ واقعی عجیب ہے۔“

ایک اور مداح نے لکھا، ”اسے ہم سچ مچ ڈاؤن فال کہتے ہیں۔ ویسے مجھے ویسٹ انڈیز کے لیے بہت دکھ محسوس ہو رہا ہے۔“

ایک مداح لکھتے ہیں ”امید ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ وہ اپنے کرکٹ بورڈ میں کچھ تبدیلیاں کریں گے۔ سیاست نے اس ٹیم کو برباد کر دیا ہے۔“

واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے 27 جون کو 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کا شیڈول جاری کیا تھا جو 5 اکتوبر 2023 سے بھارت میں منعقد ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close