جب ساحر لدھیانوی نے ’بھیس بدلا‘ اور پاکستان چھوڑ کر انڈیا چلے گئے

عقیل عباس جعفری

سنہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد انڈیا سے جو ادیب اور شاعر پاکستان منتقل ہوئے، ان میں ایک اہم نام ساحر لدھیانوی کا تھا۔

حمید اختر اپنی کتاب ’آشنائیاں کیا کیا‘ میں ساحر لدھیانوی کے خاکے میں لکھتے ہیں کہ ’قیام پاکستان کے بعد میں بذریعہ مہاجر کیمپ اور ساحر بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچے۔ وہ جون 1948 تک لاہور رہے۔ ایبٹ روڈ پر ہم نے ایک مکان الاٹ کرایا اور ساحر، امی اور میں ایک ساتھ رہنے لگے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’میں کیمپ میں تقریباً تین ماہ رہا۔ میں نومبر میں لاہور پہنچا تھا اور ساحر ستمبر 1947 میں آ گئے تھے۔ ساحر اس سارے عرصے میں اکھڑا اکھڑا رہا۔ میرے آنے سے اسے تقویت تو بہت ہوئی مگر وہ عدم تحفظ کا شکار پہلے سے بھی زیادہ نظر آتا تھا۔ سویرا کی ادارت سے چالیس، پچاس روپے ماہوار مل جاتے تھے لیکن یہ کافی نہیں تھے، بظاہر بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آتے تھے۔‘

حمید اختر لکھتے ہیں کہ جون 1948 میں انھیں کسی کام کے سلسلے میں ایک ہفتے کے لیے کراچی جانا پڑا اور اس ایک ماہ کے دوران خط و کتابت بھی نہیں ہو سکی۔

’ٹیلی فون اس زمانے میں عام نہیں تھے۔ پھر اسے (ساحر) کسی نے کہہ دیا کہ میں کراچی میں گرفتار ہو گیا ہوں اور سندھ پولیس نے مجھے کسی کال کوٹھری میں ڈال دیا ہے اور یہ کہ میرے اب وہاں سے بچ نکلنے کے امکانات بہت کم ہیں۔‘

’یہ روایت بھی ہے کہ خفیہ پولیس والے اسے انتہائی خطرناک آدمی (ہائے یہ کم فہم خفیہ پولیس والے) سمجھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اسے یہاں سے بھگانے کے لیے ایک سیاسی مخبر کی خدمات حاصل کیں۔ وہ روزانہ آ کر ساحر کو ڈراتا اور کہتا کہ پولیس اسے گرفتار کر کے شاہی قلعے میں لے جائے گی۔ وہاں بڑے بڑے سانپ اور بچھو ہیں، تشدد کے نرالے طریقے ہیں وغیرہ۔‘

’یہ چال کام کر گئی۔ میں اگر موجود ہوتا تو شاید اس کو ڈھارس رہتی، مگر یاروں نے تو مجھے پہلے ہی حوالہ پولیس کر دیا تھا۔ ساحر اس قدر گھبرایا کہ ایک دن اس نے اچانک دہلی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس زمانے میں پاسپورٹ ویزا وغیرہ کی پابندی نہیں تھی۔ اس لیے وہ فرضی نام سے ٹکٹ خرید کر جہاز میں سوار ہو گیا۔‘

’اپنے تئیں یہ سفر اس نے خفیہ طور سے کیا۔ جون کی ایک گرم دوپہر کو ایک لمبا کوٹ اور ہیٹ پہن کر وہ ایئر پورٹ پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں سے چھپ کر وہ گھر سے ایئر پورٹ گیا تھا وہ وہاں تک پیچھے پیچھے گئے اور واپس آ کر رپورٹ لکھی۔ ‘مسمی ساحر لدھیانوی ملک چھوڑ کر چلا گیا ہے۔‘

پولیس سے ساحر کو ڈرانے والا دوست کون تھا؟

یہ معمہ احمد راہی نے کھولا۔

اس واقعے کے مدتوں بعد 1995 میں چھپنے والی ’کلیات ساحر‘ کے پیش لفظ میں انھوں نے لکھا کہ ’ساحر پر سی آئی ڈی کا خوف آغا شورش کاشمیری نے طاری کر رکھا تھا۔ شورش ساحر کا دلی ہمدرد اور خیرخواہ تھا۔ وہ تو ہمدردی کے طور پر ساحر کو آنے والی تکالیف سے خبردار کرتا مگر ساحر اندر سے ہل چکا تھا۔‘

’اپنی نظموں میں وہ جتنا جیالا دکھائی دیتا ہے، اپنی عملی زندگی میں وہ اتنا ہی ڈرپوک تھا۔ اسے ہر وقت محافظ کی ضرورت رہتی تھی، شروع سے ہی وہ محافظوں کا محتاج رہا۔ لدھیانہ میں چودھری فیض الحسن، انور مرتضیٰ، ابن انشا، حمید اختر وغیرہ۔ جب امرتسر ایم اے او کالج میں مشاعرہ پڑھنے کے لیے آیا تو اس کا ایک ہندو دوست جے دیو اس کے ساتھ تھا، جس کو اس نے میوزک ڈائریکٹر بنایا تھا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’بمبئی جاتے وقت وہ حمید اختر کو ساتھ لے کر گیا تھا اور اسے بھی اپنی فلم کمپنی میں ملازمت دلوائی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور آیا تو چودھری نذیر اور میں اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ انڈیا واپس جانے پر پرکاش پنڈت اس کا محافظ بنا رہا۔ ہو سکتا ہے ساحر کے شورش سے تعلقات اسی بزدلی کے باعث ہوں کیونکہ شورش بڑا دبنگ اور دلیر تھا۔‘

’ساحر کے لیے وہ ڈھال تھا، مگر شورش کو ساحر سے واقعی پیار تھا، ساحر سے نظریاتی اختلاف کے باوجود۔ ساحر کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ ویسے تو وہ سویرا کا ایڈیٹر تھا مگر دس، دس، بیس، بیس روپوں کی قسطوں میں چودھری نذیر سے جو تنخواہ ملتی تھی، وہ گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی تھی اور گھر کا خرچ بی بی جی اپنے زیور بیچ کر چلاتی تھیں۔‘

’ایک تو حالات پریشان کن تھے، دوسری شورش کی باتیں۔ شورش ساحر سے ہمدردی جتاتے ہوئے ترقی پسندوں اور کمیونسٹوں کے خوب لتے لیتا۔ وہ ساحر سے اکثر کہا کرتا تھا کہ یہ لوگ تمہارے کندھے پر بندوق رکھ کر تمہیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ ادھر ساحر کو کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے امید دلائی گئی تھی کہ ‘امروز’ جاری ہوتے ہی اسے ایڈیٹوریل سٹاف میں رکھ لیا جائے گا۔‘

’امروز کے اجرا پر یہ امید بھی ٹوٹ گئی۔ مولانا چراغ حسن حسرت ایڈیٹر تھے۔ ان کی مشہور غزل ’آؤ حُسن یار کی باتیں کریں‘ بعد میں تلخیاں میں چھپی تھی۔ مولانا حسرت نے بڑا برا محسوس کیا تھا۔ ساحر کا امروز کے ایڈیٹوریل سٹاف میں داخلہ کیسے ہوتا۔ ساحر کی اس سلسلے میں میاں افتخار الدین سے ایک دو ملاقاتیں ہوئی تھیں، مگر بے سود۔‘

’اس ترقی پسند اخبار نے رجعت پسند ادیبوں کے لیے دروازے تو کھول رکھے تھے مگر ترقی پسند ساحر کو اندر نہیں گھسنے دیا۔ ساحر اس رویے سے مایوس ہوگیا اور شورش کی باتوں میں اسے صداقت نظر آنے لگی۔‘

ساحر لدھیانوی کی سوانح عمری ’میں ساحر ہوں‘ میں بھی اس واقعے کی جھلک ملتی ہے۔

اس کتاب میں انھوں نے احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ’سویرا‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور احمد راہی کی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چودھری نذیر اس رسالے کی محدود آمدنی کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی انھیں اچھی تنخواہ نہیں دے پا رہے تھے۔

’سویرا‘ ترقی پسند مصنّفین کا رسالہ تھا اور اس کی سرگرمیوں پر پاکستانی حکومت کی نظر رہتی تھی۔ خفیہ پولیس والے بھی ’سویرا‘ کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے تھے اور احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھیانوی کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تھے۔

ساحر نے لکھا ہے کہ ’میں نے بہت سے مضمون اس رسالے کے حوالے سے حکومت کے خلاف چھاپے۔ شورش میرے خیر اندیش تھے اس لیے مجھے اس بات سے وقت بہ وقت آگاہ کرتے رہتے تھے کہ حکومت کی نظر سویرا پر ہے اور کمیونسٹوں پر بھی۔ شورش نے مجھے یہ بھی بتایا کہ کمیونسٹ میرے کندھے پر بندوق رکھ کر مجھے استعمال کر رہے ہیں۔‘

’ادھر کمیونسٹ مجھے اس بات کا بھروسہ دلا رہے تھے وہ ایک اخبار امروز کے نام سے شروع کرنے والے ہیں اور مجھے اس اخبار کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل کیا جائے گا۔ آخر کار جب امروز شروع ہوا تو میری جگہ مولانا چراغ حسن حسرت کو بطور ایڈیٹر رکھا گیا اور مجھے اس اخبار میں کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی۔‘

’مجھے بہت افسوس ہوا اور اب مجھے شورش کی کہی باتیں یاد آنے لگیں۔ پھر مجھے یہ اڑتی اڑتی ہوئی خبر ملی کہ میرے نام کے وارنٹ بھی نکل چکے ہیں۔‘

اسی کتاب میں ساحر لدھیانوی نے آگے چل کر لکھا ہے کہ ’حمید اختر سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں مشغول رہتے تھے اور اسی سلسلے میں ان کو ایک دفعہ خفیہ طریقے سے کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرنے کی غرض سے سجاد ظہیر کے ساتھ کراچی جانا پڑا، لیکن انھوں نے مجھے اس بات کا گمان بھی نہیں ہونے دیا۔‘

’وہ مجھے یہ بتا کر گئے کہ تھے وہ کچھ ہی دنوں میں واپس آئیں گے۔ مگر وہ بتائے گئے وقت کے مطابق واپس نہیں آ پائے۔ ان کے بعد کے بیان کے مطابق حالات کچھ اس قدر خراب ہوگئے کہ ان کا وقت کے مطابق واپس لوٹنا ممکن نہیں تھا۔‘

ساحر لکھتے ہیں کہ ’حمید اختر نے اس سفر کو مجھ سے راز ہی رکھا اور مجھے تاخیر سے آنے کا نہ سندیسہ دیا اور نہ ہی فون کر کے بتا پائے۔ میں حمید کا انتظار کرتا رہا۔ یہاں لاہور میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے میرا جینا حرام کر رکھا تھا۔ میں سیاسی طور پر نہ سہی لیکن انجمن ترقی پسند کے حوالے سے اکثر بہت کچھ حکومت کے خلاف لکھتا اور کہتا رہتا تھا۔ مجھے یہ خوف بھی ستانے لگا تھا کہ کہیں مجھے گرفتار ہی نہ کر لیا جائے۔‘

’پھر مجھے اُڑتی اُڑتی سی خبر ملی کہ حمید کراچی میں گرفتار ہو گیا ہے۔ اب میں خود کو غیر محفوظ اور تنہا پا رہا تھا۔ مجھے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ ایک روز میں چپکے سے بھیس بدل کر جون 1948 کی کڑکڑاتی گرمی میں شرلاک ہومز کے جیسے لباس میں (مفلر، اوور کوٹ، سیاہ چشمہ اور انگریزی ٹوپی لگا کر) بھارت منتقل ہونے کے ارادے سے نکل پڑا۔‘

’دھوپ اس قدر قہر ڈھا رہی تھی کہ چیل تک انڈے چھوڑ چکی تھی۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہہ رہا تھا، گرمی کے مارے سانس سینے میں نہیں سما رہا تھا۔ اتنی گرمی میں اوور کوٹ میں ملبوس ٹانگے پر ایک چھوٹے سے اٹیچی کے ساتھ، میں ظاہر ہے دوسروں کو بہت عجیب نظر آرہا تھا۔ میں اتنا سہما اور گھبرایا ہوا تھا کہ بار بار خوفزدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اپنی طرف سے میں بظاہر پرسکون اور بے پروا ہونے کی پرزور کوشش کر رہا تھا۔‘

’میری خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ ان دنوں بھارت اور پاکستان کے درمیان سفر کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، اس لیے میں نہایت خاموشی کے ساتھ لاہور کے والٹن ایئر پورٹ سے دہلی کے لیے روانہ ہوگیا۔ حمید اختر جب ایک ماہ کے بعد لاہور واپس آئے تو وہ گھر کو خالی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ میں اور میری ماں وہاں نہیں تھے، جو ان کے بیان کے مطابق، اس مکان کو گھر کا درجہ دے چکے تھے اور تمام دوستوں کی مہمان نوازی کرتے تھے۔‘

’حمید اس گھر میں زیادہ دن نہیں رہ پائے، وہ گھر انہیں کاٹنے کو دوڑتا تھا، انہیں لگتا تھا کہ یہ مکان جن کے ہونے سے گھر لگتا تھا جب وہی نہیں رہے تو یہ مکان کس کام کا۔ آخر کار انہوں نے بھی وہ مکان چھوڑ دیا اور لاہور ہی میں کسی اور مکان میں منتقل ہو گئے۔‘

لاہور کے قیام کے دوران ساحر لدھیانوی نے سویرا کے صرف چند شماروں کی ادارت کی۔ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا آخری شمارہ سویرا کا چوتھا شمارہ تھا۔ اس شمارے میں ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم ’نیا سفر ہے، پرانے چراغ گل کر دو‘ شائع ہوئی۔

اسی شمارے میں ان کی دو نثری تحریریں بھی شائع ہوئیں جن میں سے ایک تقسیم کے دوران اغوا شدہ عورتوں کے مسئلے کے موضوع پر تھی اور دوسری تحریر شیخ عبداللہ کے ’کشمیر کے جشن آزادی‘ میں شمولیت کے دعوت نامے کا جواب تھا۔

اس خط میں ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا کہ ’جس دن کشمیر فی الواقع آزاد ہو جائے گا اور وہاں کے عوام اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے بیرونی اور اندرونی لوٹ کھسوٹ سے نجات پا لیں گے اس دن میں کشمیر کی سرزمین پر حاضر ہوں گا اور کشمیر دیس میں بسنے والے عام مردوں اور عورتوں کو، ان کے آہنی عزم کو، ان کی تحریک کو اور ان کی تحریک کے رہنمائوں کو خلوص نیت سے سلام کروں گا۔ وہ دن صرف کشمیر کی زندگی کا ہی نہیں میری اپنی زندگی کا بھی مبارک دن ہوتا۔ میری دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے۔‘

ساحر دہلی پہنچے تو وہاں انھیں ترقی پسند ادبی جریدے شاہراہ کی ادارت سونپ دی گئی۔ اس رسالے میں پرکاش پنڈت ان کے معاون مدیر کے طور پر کام کرتے تھے۔یہاں انھوں نے اس جریدے کے دو شمارے شائع کیے۔ اسی دوران انھوں نے سردار گور بخش کے رسالے پریت لڑی کی بھی ادارت کی۔

دہلی میں ان کی ملاقاتیں جوش ملیح آبادی، کنور مہندر سنگھ بیدی، عرش ملسیانی، بلونت سنگھ، بسمل سعیدی، جگن ناتھ آزاد اور کشمیری لال ذاکر سے رہیں مگر چند ہی ماہ بعد مئی 1949ء میں وہ بمبئی چلے گئے جہاں ایک روشن مستقبل ان کا منتظر تھا۔

بمبئی میں ساحر نے فلمی دنیا میں بڑی جدوجہد کے بعد اپنا مقام بنایا اور انڈیا کے سب سے مقبول فلمی شاعر قرار پائے۔ انھوں نے متعدد فلموں کو اپنے نغمات سے سجایا جن میں آزادی کی راہ پر، نوجوان، بازی، پیاسا، ملاپ، سادھنا، جال، انگارے، الف لیلیٰ، شہنشاہ، دھول کا پھول، تاج محل، پھر صبح ہوگی، انداز، داغ ، کبھی کبھی اور انصاف کا ترازو کے نام سرفہرست ہیں۔

انھوں نے فلم تاج محل اور کبھی کبھی میں بہترین نغمہ نگار کے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیے۔

ساحر لدھیانوی کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تلخیاں، پرچھائیاں، گاتا جائے بنجارا اور آئو کہ کوئی خواب بنیں کے نام سرفہرست ہیں۔

سنہ 1970 میں حکومت ہند نے انھیں پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا۔ سنہ 1972 میں انھیں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سنہ 2013 میں انڈیا کے محکمہ ڈاک نے ان کا یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔

ساحر لدھیانوی نے 25 اکتوبر 1980 کو ممبئی میں وفات پائی۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

 

ساحر لدھیانوی کے بارے میں مزید مضامین:

مسمی ساحر لدھیانوی ملک چھوڑ کر چلا گیا!

جب ساحر لدھیانوی نغمہ نگاروں کی آواز بنے

جب ساحر لدھیانوی نے یش چوپڑہ کی مشکل آسان کی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close