جب ساحر لدھیانوی نغمہ نگاروں کی آواز بنے

سفیان خان

نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کو اس بات پر اکثر و بیشتر بڑا غصہ آتا کہ آخر فلم رائٹرز، اسکرین پلے رائٹرز اور خاص کر نغمہ نگار سے کیوں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے

یہ 1950 کی دہائی کا درمیانی عرصہ تھا، جب ساحر لدھیانوی بھارتی فلم نگری میں قدم جما چکے تھے۔ نوجوان، ٹیکسی ڈرائیور، نیا دور، پھر صبح ہوگی اور بازی ان کی مشہور فلمیں تھیں

ان فلموں کے رومانی اور کچھ انقلابی گانے ہر ایک کے دل میں جل ترنگ بجا دیتے، لیکن خود ساحر لدھیانوی کا دل اس وقت غمگین اور اداس ہو جاتے جب وہ دیکھتے کہ گلوکار اور موسیقار کی تو ’واہ واہ ‘ ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ جن پر یہ گانے فلمائے گئے ان اداکاروں کی اداکاری کے چرچے ہر سو ہیں لیکن کوئی نغمہ نگار کی پذیرائی نہیں کرتا

فلم پوسٹرز پر تو نغمہ نگار کا نام و نشان تک نہیں ملتا اور کسی کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ جن گانوں کو وہ گنگنا رہے ہیں وہ دراصل کن کے قلم کے شاہکار ہیں

ساحر لدھیانوی کو شکوہ تو ویسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں سے بھی تھا جو نغمہ نگاروں کو ان کے کام کا معاوضہ ادا کرنے کے بعد سمجھتے کہ بس اب ان کی کوئی ضرورت نہیں

ہدایت کار، فلم ساز اور رائٹر خواجہ احمد عباس اور ساحر لدھیانوی کی محفلیں جمی ہوتیں تو وہ ان سے اپنا غم ضرور ہلکا کرتے بلکہ یہاں تک کہتے کہ اگر ان کو اس سلسلے میں کچھ کرنے کا موقع مل گیا تو وہ کبھی بھی تھک ہار کر پیچھے نہیں ہٹیں گے

ساحر کا کہنا تھا کہ ایک لکھاری اور نغمہ نگار کے لیے نام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کیسے اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا کہیں بھی کوئی تذکرہ نہیں کر رہا

اب یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ 1960 میں خواجہ احمد عباس فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کے صدر بنے تو ساحر نائب صدر کے عہدے پر براجمان ہوئے

فلموں کے لیے نغمہ نگاری تو جاری تھی لیکن اب ان کو اپنا وہ کام پورا کرنا تھا جس کے لیے وہ فکرمند رہتے۔ انہیں یقین تھا کہ اس نئے عہدے کے ذریعے وہ نغمہ نگاروں اور اسکرین پلے رائٹرز کے حقوق کی آواز بن جائیں گے

یہی دل کی بات انہوں نے خواجہ احمد عباس پر بھی واضح کردی جو جانتے تھے کہ ساحر اس معاملے میں کس قدر حساس ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بھی ساحر کا ساتھ دینے کا ارادہ کرلیا

اب ہوتا یہ کہ ساحر اور خواجہ احمد عباس کی یہ ٹیم پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں کے ساتھ ساتھ تقسیم کاروں کو قائل کرنے کے مشن پر نکلتی

ابتدا میں خاصے پاپڑ بیلنے پڑے لیکن پھر ان سب نے ساحر کی فرمائش رد نہیں کی۔ دیکھا جائے تو وہ واقعی رائٹرز اور نغمہ نگاروں کی آواز بن گئے تھے

دونوں نے اخبار اور فلمی جرائد کے مالکان سے مل کر اپنے موقف کو منوا لیا جو کسی بھی فلم کے حوالے سے ان اہم عہدوں پر کام کرنے والوں کو نظر انداز نہیں کرتے

اس حوالے سے خواجہ احمد عباس اپنی کتاب ’سونے چاندی کے بت‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ساحر کو جنون تھا، وہ شاعروں کے درجے کو فلمی دنیا کے تجارتی ماحول میں بہتر بناناچاہتے تھے

’گیتوں کی قیمت بھی معقول نہیں ملتی تھی بلکہ اکثر حالات میں ملتی ہی نہیں تھی۔ وہ اس تمام عمل کو شاعروں کی ہتک سمجھتے تھے۔‘

ساحر کو اس بات کی خوشی تھی کہ وہ جس مقصد اور جدوجہد کے لیے سرگرم ہیں اس میں انہیں کامیابی مل رہی ہے۔ اس زمانے میں ذرائع ابلاغ کے اتنے تو ذرائع نہیں تھے

تاہم یہ ضرور تھا کہ ریڈیو سے نشر ہونے والے گانوں کو خاص مقبولیت اور شہرت ملتی اور یہی کسی کو بھی بلند مقام دلانے کا مضبوط اور اہم میڈیم کے طور پر شناخت رکھتا

اسی لیے ساحر نے اس میڈیم کے کرتا دھرتاؤں کو بھی اپنا پیغام پہنچانے کا ارادہ کر لیا

خواجہ احمد عباس اور ساحر اسی مقصد کے لیے بمبئی سے دلی پہنچے۔ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تک رسائی کی

خواجہ احمد عباس کی کتاب ’سونے چاندی کے بت‘ کے ایک باب کے مطابق ڈائریکٹر جنرل کو ساحر صاحب نے کہا کہ آپ ہر گانے کے ساتھ اس کے پس پردہ گلوکار کے نام تو بتاتے ہیں پھر شاعر کو ہی کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟

اس پر ریڈیو ڈائریکٹر جنرل کا جواب تھا کہ بات صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہوت اہے اسی لیے شاعر کا نام نہیں دے سکتے

ساحر کا کہنا تھا کہ جب وہ ہر گانے کے ساتھ کئی منٹ تک فرمائش کرنے والوں کے نام سناتے ہیں تو اس میں وقت ضائع نہیں ہوتا؟

ساحر نے یہ بات اس پراعتماد اور دلیل کے ساتھ بیان کی کہ ڈائریکٹر جنرل قائل ہوگئے اور چند دن بعد انہوں نے ہدایت دی کہ شاعر کا نام ہر گیت کے ساتھ نشر ہونا چاہیے

درحقیقت یہ کام اتنا بڑا تھا کہ اس کا علم جب دیگر نغمہ نگاروں کو ہوا تو وہ ساحر کو تشکر بھری نگاہوں سے دیکھتے اور ان کے دل میں ساحر کی قدر و منزلت میں اور اضافہ ہوگیا کیونکہ وہ انہیں گم نامی کے اندھیروں سے ایک نئے اجالے کی طرف لے آئے تھے

اس کامیاب جدوجہد کا ہی ثمر تھا کہ اگلے سال فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ان کو صدر کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا

انہون نے نئی ذمے داری ملنے کے بعد نغمہ نگاروں، سکرین اور سٹوری رائٹرز کو بھارتی فلموں میں بلند مقام دلانے اور ان کے حقوق کے لیے دن رات ایک کر دیے

یہ ان کا ہی اعزاز ہے کہ آج بھی بھارتی ریڈیو پر کسی فلمی گانے کے نشر ہونے سے پہلے گلوکاراور موسیقار کے ساتھ ساتھ نغمہ نگار کا نام ضرور سامعین کے گوش گزار کیا جاتا ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close