قوموں میں احساس کمتری کیسے پیدا ہوتا ہے؟

ڈاکٹر مبارک علی

شکست قوم میں احساس کمتری پیدا کرتی ہے اور ان میں آزادی کی خواہش ہی دم توڑ دیتی ہے۔ یہ احساس اس وقت اور بڑھ جاتا ہے، جب بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر موقع پرست عناصر اپنی ہی قوم کو سماجی کمتری میں رکھنے پر زور دیتے ہیں

جب حملہ آور کسی قوم کو شکست دے کر ملک پر قابض ہو جاتے ہیں۔ ان کی پالیسی ہوتی ہے کہ شکست کھانے والی قوم کی تاریخ اور کلچر کو ختم کر دیا جائے تاکہ ان میں اپنی شناخت کا کوئی نشان باقی نہ رہے اور وہ بیرونی حملہ آور کے اقتدار کو مانتے ہوئے اس کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کر سکے

ہندوستان میں جب 1500 قبل مسیح میں آریاؤں کی آمد شروع ہوئی تو یہاں دراوڑ نسل کے لوگ حکمران تھے، جنہوں نے شہر آباد کیے تھے اور اپنے ترقی یافتہ کلچر کی بنیاد ڈالی تھی۔ ان کے مقابلے میں آریا گلہ بانی کرتے تھے، مویشی پالتے تھے اور دیہاتی زندگی کے عادی تھے۔ آریاؤں نے آہستہ آہستہ دراوڑ قوم کے لوگوں کو دھکیل کر ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور اپنا تسلط قائم کر کے اسے آریاورت کا نام دیا

جب آریاؤں نے ورن یا رنگ کی بنیاد پر ذات پات کا نظام قائم کیا تو ان میں براہمن، کشتری، ویش اور شودر تھے۔ ان چار ذاتوں کے علاوہ ’اچھوت‘ ذات بھی تھی، جس میں دراوڑ شامل تھے۔ یہ چاروں ذاتوں سے علیحدہ تھے اور اس لیے مجبور تھے کہ وہ بظاہر گندے اور غلیظ سمجھے جانے والے کام کر کے اپنی زندگی گزاریں۔ جب اچھوت ذات کے لوگ صدیوں تک ذلت اور خواری کی زندگی گزار چکے تھے تو ان میں نہ تو اپنی تاریخ کا احساس رہا اور نہ ہی ہندو مذہب میں ان کے لیے کوئی نجات کا راستہ تھا

تیرہویں صدی میں جب ہندوستان میں ترکوں کی حکومت قائم ہوئی اور سولہویں صدی میں جب مغل برسر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی کم تر سمجھے جانے والی اچھوت برادری کی سماجی حالت کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لیکن جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اسکولوں میں ہر ذات کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی سہولت دی۔ ان سکولوں میں خود کو اونچی ذات سے سمجھنے والوں کے بچوں نے اچھوت لڑکوں کے ساتھ ایک ہی بینچ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ اس پر اچھوت لڑکے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔

ان ہی تعلیم یافتہ لڑکوں میں بعض بڑے ذہین اور باصلاحیت نکلے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اچھوتوں نے صدیوں کی غلامی سے نکلنے کی ابتداء کی۔ ان ہی میں سے ایک ڈاکٹر بھیم راؤ اُمبیڈکر بھی تھے، جنہوں نے کولمبیا یونیورسٹی اور لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور آزادی کے بعد انڈیا کے وزیر قانون بنے۔

تعلیم نے اچھوت لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ انہیں اپنی تاریخ اور کلچر کو جو کھو گیا ہے، اسے دوبارہ سے واپس لانا چاہیے۔ ایک تو انہوں نے اپنے آپ کو ’دَلِت‘ کہا، جس کا مطلب ہے کچلے لوگ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی دلت تنظیم بنائی تاکہ ان میں اتحاد ہو اور اتحاد کی طاقت پر وہ اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کر سکیں۔ ان کے مورخوں نے تاریخ کی ابتداء کرتے ہوئے یہ نشاندہی کی کہ آریا حملہ آور تھے، جنہوں نے ان کے ملک پر قبضہ کر کے انہیں پسماندہ بنا دیا۔ پسماندگی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تاریخ لکھیں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں

ہمارے دوست خورشید قائم خانی نے اپنی کتاب ’بھٹکتی نسلیں‘ میں یہ تھیوری دی ہے کہ آریاؤں سے شکست کے بعد دراوڑ کے کچھ قبائل نے ہندوستان سے ہجرت کی اور خانہ بدوشی کی زندگی اختیار کر لی۔ ان کے مطابق جپسیوں یا خانہ بدوشوں کا تعلق اسی دراوڑ نسل سے ہے۔ انہوں نے خانہ بدوشی کی زندگی اختیار کرتے ہوئے یہ عہد کیا کہ وہ کبھی سیاسی اقتدار حاصل نہیں کریں گے تاکہ انہیں دوبارہ سے کسی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ نہ تو شہروں میں رہیں گے نہ سرمایہ جمع کریں گے۔ نہ ہی کسی جائیداد کے مالک ہوں گے۔ خانہ بدوشی کی اس زندگی میں وہ آزاد ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور سادہ زندگی گزارتے ہیں

دلت ذات کے جو رہنما ہندوستان میں رہ گئے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو مذہب میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ڈاکٹر امبیڈکر اور ان کے بہت سے ساتھیوں نے بدھ مذہب اختیار کر لیا۔ لیکن اس کے باوجود ہندو ذات پات کے نظام میں ان کا سماجی مرتبہ تبدیل نہیں ہوا بلکہ ان کے تبدیلی مذہب سے دلت ذات کے لوگوں کو سخت نقصان پہنچا کیونکہ اچانک وہ اپنے بڑے رہنماؤں سے محروم ہو گئے اور نئی لیڈر شپ کے سامنے آنے میں کافی وقت لگا

دلت لوگوں نے اپنی سیاسی علمی اور ادبی تنظیمیں بنائی ہیں۔ ان کے دانشور، افسانے، ناولوں کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کر رہے ہیں۔ (دیکھیے میری کتاب اچھوت لوگوں کا ادب)۔ اگرچہ دستور میں انہیں پورے حقوق دیے گئے ہیں، مگر ہندو معاشرے میں ان کے خلاف صدیوں کی جو نفرت ہے وہ آج بھی موجود ہے

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی قوم کی تاریخ کو جب سرے سے مٹا دیا جاتا ہے تو اس کی دوبارہ سے تشکیل مشکل ہوتی ہے۔ اس کا ایک ہی ماخذ رہ جاتا ہے اور وہ زبانی تاریخ ہے۔ جو سینہ بہ سینہ نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے دلت ذات کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنی تاریخ کے لیے زبانی واقعات کے علاوہ آثار قدیمہ کے ثبوت بھی چاہیے۔

جب 1922ء میں ہڑپا اور موہن جو دڑو کی دریافتیں ہوئیں تو دراوڑ تہذیب کے ان آثاروں نے ان کے اعلیٰ تہذیبی ترقی کا اظہار کیا۔ اب جیسے جیسے وادی سندھ کے آثار دریافت ہو رہے ہیں، دراوڑ تہذیب آریائی تہذیب کے مقابلے میں زیادہ برتر ثابت ہو رہی ہے۔ لہٰذا گمشدہ تاریخ کی اگر کھوج لگائی جائے تو اس کی تشکیل سے محروم قوموں کو نیا شعور اور اعتماد ملے گا۔ لیکن دلت ذات کے لوگوں کو ابھی بہت سے مرحلوں سے گزرنا ہوگا اور صدیوں پرانے تعصبات کو مٹا کر اپنے لیے معاشرے میں جگہ بنانی ہوگی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close