مارتونگ، جو موت سے بہتر تھا۔۔ اب یہاں ہر طرف معصوم بچوں کی موت کا دکھ پھیلا ہوا ہے۔۔۔

ویب ڈیسک

”موت سے مارتونگ بہتر ہے۔“ یہ وہ مقولہ ہے، جو خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل مارتونگ میں زبان زد عام ہے۔

کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں تین بھائیوں نے ضلع شانگلہ کے تین مقامات بشمول تحصیل مارتونگ، تحصیل چکیسر اور شاہ پور کا بٹوارا کرنے کا ارادہ کیا۔
چکیسر اور شاہ پور کی زمین قدرے بہتر تھی، جو دو بڑے بھائیوں نے اپنے لیے منتخب کی جبکہ مارتونگ کی زمین بنجر اور ریتیلی تھی، سو اسے چھوٹے بھائی کے حصے میں ڈال دیا۔ چھوٹے بھائی نے یہ حصہ لینے سے انکار کیا تو دونوں بڑے بھائیوں نے دھمکی دی کہ انکار کیا تو اسے مار دیا جائے گا۔ چھوٹے بھائی نے بنجر حصہ قبول کرتے ہوئے کہا ”موت سے مارتونگ بہتر ہے۔“

تحصیل مارتونگ کا یہ پورا علاقہ ریت کے پہاڑوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں ہر جگہ ریت پائی جاتی ہے جو تعمیراتی کاموں میں استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ ریتیلی زمین پر کھدائی آسان ہوتی ہے، اس لیے یہاں قبروں کی کھدائی میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ اس آسانی کے پیش نظر اب یہی مشہور مقبولہ تبدیل ہو کر ”موت کے لئے مارتونگ بہتر ہے“ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ مقولہ یوں سچ ہوگا کہ ہر دل غم سے بھر جائے گا اور ہر آنکھ اشک بار ہو جائے گی۔۔

یہ ذکر ہے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے قریب تحصیل مارتونگ کے کز کلی کا، جہاں جمعرات کو اچانک ریت کا ایک پہاڑ قریب ہی کھیلنے والے بچوں پر گر گیا تھا

شایان ماں سے چائے مانگ رہا تھا، تاکہ وہ کھیلنے کے لیے جا سکے ”مجھے چائے دو پھر میں کھیلنے جاتا ہوں“

ماں نے کہا خیال رکھا کرو، کہیں تمہیں گیند نہ لگ جائے۔ ”نہیں ماں میں ان سے دور کھیلتا ہوں“ شایان اپنی ماں کو یہ جواب دینے کے بعد چائے پی کر کھیلنے چلا گیا۔ پھر اس کی میت گھر پہنچی۔ شایان کو گیند تو نہیں لگی لیکن وہ ریت کے اس ٹیلے کی نیچے دب گیا تھا جو کھیل کے میدان کے ساتھ ہی تھا

جمعرات کو مارتونگ کے کھیل کے میدان میں چھوٹی سی پہاڑی کے قریب چند بچے کھیل کود میں مصروف تھے کہ اچانک ان پر ریت کا تودہ آن گرا۔ تودے کے نیچے نو بچے دب گئے تھے، جن میں سے ایک بچے کو بچا لیا گیا تاہم دو خاندانوں کے آٹھ بچے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے

شانگلہ کے ضلعی پولیس افسر سجاد احمد کے مطابق ”اس واقعے میں ایک بچہ زندہ بچ گیا ہے، جسے مقامی لوگوں نے فوری طور پر نکال لیا تھا۔ اس بچے کا جسم تو ریت میں دھنسا ہوا تھا لیکن سر باہر تھا۔ اس لیے اسے سانس لینے میں مشکل نہیں تھی باقی بچے مکمل دھنس گئے تھے“

عینی شاہد محمد مسعود بتاتے ہیں ”دو دن قبل اسی مقام پر ہیوی مشینری کے ذریعے کھدائی کی گئی تھی اور ریت نکال کر یہاں ڈھیر بنایا گیا تھا۔۔ کل میں چھ بج کر بیس منٹ پر گھر سے نکلا تو سامنے حادثے والے مقام پر چند بچے کھیل کود میں مصروف تھے جبکہ اوپر سے ریت کے ذرات گر رہے تھے۔ لہٰذا میں انہیں آواز دینے ہی والا تھا۔۔۔ کہ ریت کا ایک بڑا تودہ اچانک ان پر گر گیا اور وہاں موجود تمام بچے اس کے نیچے دب گئے“

ریسکیو عمل میں حصہ لینے والے سماجی کارکن عارف منصوری نے بتایا ”مقامی لوگ بچوں کو ملبے سے نکالنے کی کوششیں تو کر رہے تھے لیکن ملبہ اس قدر زیادہ تھا کہ کدال یا بیلچے کی مدد سے ہٹانا ممکن نہیں تھا“

تحصیل پورن کے میونسپل آفیسر مارتونگ کا اضافی چارج بھی سنبھال رہے ہیں، انہوں نے بتایا ”لاشوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے ایکسکیویٹر کا انتظام تحصیل میونسپل اتھارٹی نے کیا تھا۔ ٹی ایم اے کا سارا عملہ جائے وقوعہ پر موجود تھا اور رات کو آپریشن کے لئے روشنیوں کا انتظام بھی ٹی ایم اے کی جانب سے کیا گیا تاہم مقامی لوگوں کے مطابق کئی گھنٹے گزرنے کے باجود ریسکیو ٹیمیں نہیں پہنچ سکی تھیں جبکہ تحصیل انتظامیہ بھی غائب تھی“

دوسری جانب ریسکیو ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے حادثات سے نمٹنے کے لیے اوزار کی شدید قلت ہے

اس وقت مارتونگ میں سوگ کا سماں ہے۔ لوگ غم سے نڈھال ہیں۔ مقامی لوگ اس حادثے کو بدترین سانحہ قرار دے رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق عوامی غفلت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی سینڈ مائننگ کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہے

سماجی کارکن عارف منصوری کے مطابق ”جہاں یہ حادثہ پیش آیا یہ زمین سابق ایم پی اے فضل اللہ پیر محمد خان کے خاندان نے لیز پر لی تھی، جس کے بعد یہاں سے ریت نکال کر فروخت کی جاتی تھی۔ اس مقام کےنچلے حصے کو ریت نکالنے کی غرض سے کھودا گیا تھا اور اوپر پہاڑ چھتری کی شکل اختیار کر گیا تھا“

اس حوالے سے جب سابق ایم پی اے فضل اللہ پیر محمد خان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ”ہم نے علاقہ پٹواری سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہماری زمین جائے وقوعہ سے تین سو میٹر فاصلے پر ہے“

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سینڈ مائننگ کے حوالے سے یہاں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ لوگ حفاظتی اقدامات کو پسِ پشت ڈال کر غیر پیشہ ورانہ طریقے سے ریت نکالتے ہیں، جس کی وجہ سے اب اس علاقے میں کئی ایسے خطرناک مقامات موجود ہیں، جو مستقبل میں اسی طرح کے سانحے کا سبب بن سکتے ہیں

مارتونگ میں پولیس انسپکٹر اجمل خان نے بتایا کہ شام کے وقت بچے اس میدان میں کھیلنے آتے ہیں۔ ”کوئی کرکٹ کھیلتا ہے، تو کوئی یہاں ریت کے ٹیلے پر چڑھ کر کھیلتا ہے۔ اس پسماندہ علاقے میں بچوں کے لیے یہ ایک قسم کا تفریحی مقام ہے“

ان کا کہنا تھا ”یہاں واقع ریت کے ٹیلے سے لوگ ریت بھی نکالتے ہیں۔ چند روز سے یہاں ہونے والی بارش ریت کے ٹیلے کی تہہ میں دھنس رہی تھی۔ جمعرات کی شام قریباً سوا چھ بجے اچانک ریت کا یہ ٹیلہ پھسل کر بچوں پر گر گیا۔ یہ ٹیلہ لگ بھگ پچیس فٹ اونچا تھا“

واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے مساجد میں اعلانات کیے کہ سب لوگ میدان میں پہنچیں۔۔ پہلے بیلچوں اور چھوٹے اوزاروں سے ریت ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے کام نہیں بنا تو اس علاقے کے یونین کونسل کے چیئرمین افتخار نے بھاری مشینری منگوانے کی کوششیں شروع کیں

افتخار نے بتایا کہ وہ خود قریبی پہاڑ سے شاول لے کر آئے۔ ”یہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے تھے تاہم رات ساڑھے دس بجے تک آٹھ بچوں کی میتیں ہم نے نکال لی تھیں“

شانگلہ کے ضلعی پولیس افسر سجاد احمد کہتے ہیں کہ علاقے میں ان دنوں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔ ’کل رات جب یہ واقعہ ہوا تو اس کے بعد بھی شدید بارش شروع ہو گئی تھی۔‘ عام طور پر یہ علاقہ خشک اور گرم رہتا ہے اور یہاں بارشیں کم ہی ہوتی ہیں

ایک ہی خاندان کے چھ بچے
اس میدان میں گاؤں کے بچے روزانہ عصر کے بعد کھیلنے جاتے تھے۔ اس حادثہ میں دو خاندانوں کے بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں ایک ہی خاندان کے چھ بچے بھی شامل ہیں۔

اس خاندان کے ایک بزرگ عمر کریم نے بتایا ”وہ ایک مشترکہ خاندان کا حصہ ہیں۔ ہم پانچ بھائی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور پھر ان پانچ بھائیوں کے بیٹے ہیں اور پھر ان کے بیٹوں کے بھی بچے ہیں جو سب ایک ہی کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ میں خود ٹیکسی چلاتا ہوں، باقی بھائی کوئی مزدوری کرتا ہے اور کوئی مقامی سطح پر حجام کا کام کرتا ہے“

انھوں نے کہا ”ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا حادثہ ہو سکتا ہے۔ مائیں بچوں کو بار بار تلقین کرتی ہیں کہ باہر جاتے ہو تو اپنا خیال رکھو، بچے یہی کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ماں یہ سامنے ہی تو کھیل رہے ہیں“

عمر کریم کہتے ہیں ”اس واقعے کے بعد ہمارے گھر میں ایک کہرام تھا، خواتین بے ہوش ہو گئی تھیں۔ انھیں ہوش میں لانے کے لیے ڈاکٹروں کو بلایا گیا۔ بچوں کی لاشیں گھر بھی نہیں لے جا سکتے تھے“

ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کی مائیں اب بھی اپنے مکمل ہوش و حواس میں نہیں ہیں

شایان اور چائے کا ایک کپ

اس حادثے میں محسن شاہ کے دو پوتے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ ان میں نو سالہ شایان اور تیرہ سالہ رضا شامل ہیں

محسن شاہ نے بتایا کہ جمعرات کو بچے ماں سےکہنے لگے کہ ’جلدی ہمیں چائے دو پھر ہم کھیلنے جاتے ہیں۔‘

ماں شایان سے بار بار یہی کہتی رہی کہ ’خیال کیا کرو، تم چھوٹے ہو۔ وہاں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں کہیں تمہیں گیند نہ لگ جائے۔‘

’شایان نے ماں سے کہا کہ نہیں ماں، ہم تو ان سے دور ایک سائیڈ پر کھیلتے ہیں۔ اچھا ماں، جلدی سے چائے دو ناں دیر ہو رہی ہے۔ سب بچے وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔‘

’ماں نے اسے چائے دی اور وہ روانہ ہوگیا۔‘

شایان کے ساتھ ان کا بڑا بھائی رضا بھی کھیلنے گیا تھا۔ رضا کی عمر تیرہ برس کے لگ بھگ بتائی گئی ہے

محسن شاہ نے بتایا کہ بچوں کے والد حفیظ اللہ سعودیہ میں کام کرتے ہیں اور ان دنوں عید کی وجہ سے پاکستان میں تھے

ان کا کہنا تھا کہ ایسا واقعہ ان کی زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ ’پورا گاؤں سوگوار ہے۔ بہن اور بھائیوں کو شایان کی باتیں یاد آتی ہیں تو رونے لگ جاتے ہیں۔ وہ چھوٹا تھا اور سب کا لاڈلا تھا۔‘

سات بہنوں کا اکلوتا بھائی

’عظمت اللہ کو تو ماں گھر سے باہر ہی نکلنے نہیں دیتی تھی۔ وہ سب کا لاڈلا تھا۔ سب اس سے بہت پیار کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے وہ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور سب سے چھوٹا تھا۔‘

عمر کریم نے بتایا کہ ان کے بھائی شاہد کی سات بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ شاہد خود لاہور میں ایک تندور پر کام کرتے ہیں

’اس سے پہلے ایک بیٹا بیمار ہوگیا تھا۔ اسے لاہور لے گئے تھے لیکن اس کی بیماری کے دوران وفات ہو گئی۔‘

’اب اس کی سات بیٹیاں اور ایک ہی بیٹا رہ گیا تھا اور یہ بیٹا انھیں بہت پیارا تھا۔ بہنیں اور والدین عظمت اللہ کو گھر سے باہر بھی نہیں جانے دیتے تھے اور وہ یہی کہتا کہ ماں یہ گھر کے سامنے ہی تو کھیلنے جاتا ہوں میں کون سا دور چلا جاتا ہوں۔‘

عمر کریم نے بتایا ’میدان ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے اور یہاں علاقے کے بچے کرکٹ اور دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔ چھوٹے بچے تو ریت کے ٹیلیوں کے اوپر چڑھ کر اور پھر اس سے سلائیڈ لیتے ہیں اور اس سے خوش ہوتے ہیں۔ بارش کی وجہ سے کسی نے یہ خیال نہیں کیا کہ ریت نیچے دھنس رہی ہے اور بچوں کا یہاں کھیلنا خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں تو سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہسپتال میں آکسیجن ہوتی ہے اور ناہی دوسری سہولیات۔ اگر کوئی واقعہ ہو جائے تو شانگلہ یا سوات اور بونیر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔‘

یہ علاقہ شانگلہ کی تحصیل الپوری سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہاں بیشتر لوگ مزدوری کرتے ہیں اور ایک بڑی تعداد میں لوگ دیگر شہروں میں جا کر کام کرتے ہیں

مارتونگ، جو موت سے بہتر تھا۔۔ اب یہاں ہر طرف ان معصوم بچوں کی موت کا دکھ پھیلا ہوا ہے۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close