قدرت کے کارخانے میں ایسے حشرات اور کیڑے مکوڑے موجود ہیں، جن کا کاٹنا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس کا کرب مدتوں یاد رہتا ہے، لیکن یہی خصوصیت ایک پودے میں موجود ہیں اور بہ درجہ اتم پائی جاتی ہیں
برطانیہ میں ایک ایسا پودا لایا گیا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے ڈنک سے انسان میں خودکشی کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں
اس آسٹریلوی پودے کو ’جمپی جمپی‘ کہا جاتا ہے، اس پودے کا یہ نام اس میں پائی جانے والی خصوصیات کے باعث رکھا گیا
اس پودے کا حیاتیاتی نام ‘ڈینڈروسنائیڈ موریوڈیس’ ہے جو آسٹریلیا کے جنوبی ویلز میں عام پایا جاتا ہے۔ اس کے پتے دل کی شکل کے اور پھل خوبصورت بنفشی رنگ کے ہوتے ہیں
انگلینڈ میں نارتھمبرلینڈ کے النوک گارڈن میں موجود بہ ظاہر اس عام سے پودے کی چھوٹی سی بالوں جیسی سوئیاں اگر جِلد پر لگ جائیں، تو ایک ہی وقت میں بجلی کے جھٹکے، تیزاب اور آگ لگنے کی طرح تکلیف محسوس ہوتی ہے
بظاہر بے ضرر لگنے والے اس پودے کے پتوں پر بہت باریک بال نما ابھار ہوتے ہیں، جو سوئیوں کی طرح سخت ہوتے ہیں۔ اگر یہ بال جِلد میں اتر جائیں تو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیزاب کی جلن، گرم پانی کی تپش اور بجلی کے جھٹکے کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ اس کی ہولناک تکلیف لوگوں کو بے حال کر دیتی ہے، جس کا احساس کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک بھی ہوسکتا ہے
’جمپی جمپی‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پتوں پر موجود سوئی کے ڈنک سے انسان اس حد تک درد اور تکلیف کا شکار ہوتا ہے کہ اس میں خودکشی کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں
النوک گارڈن کے فیس بک پیج کے مطابق ”یہ درد اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ لوگ اس سے نجات پانے کے لیے جان لیوا اقدام بھی اٹھا سکتے ہیں“
اس پودے کو سرکاری طور پر پریس اور عوام کے سامنے دکھایا گیا۔ پودے کو شیشے کے ڈبے میں تالا لگا کر رکھا گیا ہے
برطانوی اخبار مِرّر کے مطابق جمپی جمپی میں زہریلے مادوں سے بھری بالوں جیسی چھوٹی سوئیاں ہوتی ہیں، جن کی لمبائی 10 میٹر تک لمبی ہو سکتی ہے
کچھ رپورٹ شدہ کیسز میں اس کے ڈنک کا اثر ہفتوں یا مہینوں تک رہ سکتا ہے اور اس کی وجہ سے مریض خودکشی کر لیتے ہیں کیونکہ وہ تکلیف برداشت نہیں کر پاتے
پوائزن گارڈن کے ٹور گائیڈ جان ناکس نے مرر کو بتایا ”یہ پودا عام طور پر پھولتا ہے اور اس کا پھل اس وقت آتا ہے جب اس کی اونچائی تین میٹر سے کم ہو۔ اس کی اونچائی 10 میٹر تک جا سکتی ہے۔ تنا، شاخیں، پتے کی ڈنڈی، پتے اور پھل سبھی نوک دار بالوں میں ڈھکے ہوئے ہیں اور انہیں چھوا نہیں جا سکتا“
انہوں نے مزید کہا کہ پورے پودے پر موجود ٹرائیکومز نامی چھوٹے بال، زہریلے مادوں سے بھرے ہوتے ہیں اور اگر انہیں چھوا جائے تو ایک سال تک جلد میں رہتے ہیں۔
یہ بال متاثرہ جگہ کو چھونے، وہاں پانی لگنے یا درجہ حرارت میں تبدیلی کے وقت زہریلا مواد جسم میں چھوڑتے ہیں
اس پودے پر تحقیق کرنے والی ایک سائنس دان پروفیسر مارینا ہرلے کا کہنا ہے کہ یہ کوئنزلینڈ میں بھی پایا جاتا ہے اور اس کا کاٹا تینوں تکلیفوں کا احساس دیتا ہے، اس کی تاثیر اتنی خوف ناک ہے کہ اگر آپ اس پودے کے پاس تھوڑی دیر بھی کھڑے ہوجائیں تو چھینکوں کا دورہ پڑجاتا ہے اور ناک سے خون بہنے لگتا ہے
یہ پودا آسٹریلیا میں دریافت ہوا تھا۔ نارتھ کوئنز لینڈ کے روڈ سرویئر اے سی میکملن پہلے لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے اس ڈنکنے والے درخت کے اثرات کو دستاویز کیا، جنہوں نے 1866 میں اپنے باس کو اطلاع دی کہ اس کا ڈنک لگنے کے بعد پاگل ہو گیا۔ گھوڑا تڑپ کر بھاگا اور درد سے بے حال ہوکر اس نے خود کو پہاڑ کی چوٹی سے گرا لیا اور مر گیا
ایسی ہی کہانیاں مقامی لوک داستانوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں، جن میں گھوڑوں کی چٹانوں سے اذیت میں چھلانگ لگانے کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں
دوسری عالمی جنگ کے آسٹریلوی فوجی سیرل بروملے نے ایک اور ہولناک کہانی بیان کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ کیسے وہ تربیت کے دوران اس قسم کے پودوں میں پھنس گئے تھے، جس کے باعث کئی ہفتوں کی اذیت اور غیر موثر علاج کے بعد پاگل پن کا شکار ہو گئے
1994 میں مرینا کو لکھے خط میں آسٹریلوی سابق فوجی سرل بروملی نے ایک افسر کے بارے میں بھی بتایا کہ جنہوں نے ’ٹوائلٹ کے مقصد‘ کے لیے اس ڈنک لگانے والے درخت کے پتے کو استعمال کیا، جس کے بعد وہ اس حد تک تکلیف میں مبتلا ہوئے کہ انہوں نے خود کو گولی مار لی
ایرنی رائڈر 1963 میں وہ دن کبھی نہیں بھولیں گے جب انہیں ایک ڈنکنے والے درخت کے پتے ان کے چہرے، بازوؤں اور سینے پر مس ہو گئے تھے
اب کوئنز لینڈ پارکس اینڈ وائلڈ لائف سروس کے سینئر کنزرویشن آفیسر، ایرنی رائڈر نے بتایا”مجھے یاد ہے کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے میرے سینے کو کچلنے کی کوشش کرنے والے بڑے ہاتھ ہیں، دو تین دن تک درد تقریباً ناقابل برداشت تھا۔ میں کام کرنے سے معذور تھا اور سو نہیں سکتا تھا، پھر پندرہ دن تک بہت برا درد تھا۔ یہ ڈنک کا درد دو سال تک جاری رہا اور جب بھی میں ٹھنڈا شاور لیتا ہوں، یہ درد بار بار ہوتا ہے۔“
ایرنی رائڈر نے کہا کہ انہیں جھاڑیوں میں چوالیس سال کے کام کے دوران اس درد جیسی کوئی چیز محسوس نہیں ہوئی۔اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ کسی بھی تکلیف دہ چیز سے دس گنا بدتر ہے
کئی سال پہلے چہرے پر اس پودے کا ڈنک لگنے کے بعد لیس مور کا چہرے پر اتنی سوجن ہوئی تھی کہ اس نے کہا کہ وہ مسٹر پوٹیٹو ہیڈ سے ملتا جلتا ہے
کوئینز لینڈ میں CSIRO ڈویژن آف وائلڈ لائف اینڈ ایکولوجی کے سائنسی افسر لیس مور، جو بارٹل فریر (شمالی چوٹی) کے قریب کیسووریوں کا مطالعہ کر رہے تھے، جب ان پر یہ آفت آئی۔ وہ بتاتے ہیں ”مجھے لگتا ہے کہ میں anaphylactic جھٹکے میں چلا گیا تھا اور میری بینائی ٹھیک ہونے میں کئی دن لگے۔۔ کچھ ہی منٹوں میں ابتدائی ڈنک اور جلن تیز ہوگئی اور میری آنکھوں میں درد ایسا تھا جیسے کسی نے ان پر تیزاب ڈال دیا ہو۔ میرا منہ اور زبان اس قدر پھول گئی کہ مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی“
شاید یہ تیز رفتار اور وحشیانہ ردعمل ہی تھا جس نے 1968 میں جمپی-جمپی اسٹنگنگ ٹری کے مزید مذموم استعمالات میں برطانوی فوج کی دلچسپی کو متاثر کیا
برطانوی افواج نے جمپی جمپی پودے کے بعض نمونے لیے تھے اور انہیں کیمیائی جنگ میں استعمال کرنے کے تجربات شروع کیے تھے
اسی سال پورٹن ڈاؤن میں کیمیکل ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ (ایک اعلیٰ خفیہ تجربہ گاہ جس نے کیمیائی ہتھیار تیار کیے) ایلن سیورائٹ سے معاہدہ کیا، جو اس وقت کوئینز لینڈ یونیورسٹی میں پیتھالوجی کے پروفیسر تھے، ڈنکنگ درخت کے نمونے بھیجنے کے لیے
”کیمیائی جنگ ان کا کام ہے، لہٰذا میں صرف یہ فرض کر سکتا ہوں کہ وہ حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر اس کی صلاحیت کی چھان بین کر رہے ہیں“ ایلن نے کہا، جو اب یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ کے نیشنل ریسرچ سینٹر برائے ماحولیاتی آلودگی کے اعزازی ریسرچ کنسلٹنٹ ہیں۔ ”میں نے اس سے زیادہ کبھی کچھ نہیں سنا، لہذا مجھے لگتا ہے کہ ہم کبھی نہیں جان پائیں گے“
کریک لائنوں اور چھوٹی پٹریوں کے ساتھ ساتھ برساتی جنگلوں کی صفائی میں پھیلتے ہوئے، جمپی-جمپی اسٹنگنگ ٹری (ڈینڈروکنائیڈ ایکسلسا) طویل عرصے سے جنگلات، سروے کرنے والوں اور لکڑی کے کارکنوں کے لیے ایک خطرہ رہا ہے – جن کو موٹے دستانے فراہم کیے جاتے ہیں اور احتیاط کے طور پر ہسٹامین گولیاں بھی۔ اب تو جگہ جگہ بکھرے پودے کے تنوں، پتوں اور پھلوں کو ڈھانپنے والے بال بھی سائنسدانوں اور بش واکرز کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
ذرائع: دا مرر، نیوز ویک، آسٹریلیا جیوگرافک۔
ترجمہ و ترتیب: امر گل