سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط24)

شہزاد احمد حمید

کچھ دنوں سے دریا کے ساتھ سفر کرتے کرتے میں اس کے شور کا عادی ہو گیا ہوں لیکن آج صبح میری آنکھ دریا کے شور سے نہیں بلکہ پرندوں کی چہچہاہٹ سے کھلی ہے۔باس ہمیشہ کی طرح پہلے ہی تیار ہو چکے ہیں۔ نین جینز کی پینٹ اور سبز جیکٹ میں کسی اور دنیا کی مخلوق لگ رہی ہے۔ سکردو کی فضاء نے دو ہی دنوں میں اس کی رنگت گلابی کر دی ہے۔ پراٹھوں اور انڈوں کے ناشتے سے فارغ ہوئے۔ پروگرام کے مطابق ہمیں آج چلاس سے ہوتے داسو پہنچنا ہے۔ خیال آیا ’کھرپوچوئے‘ تو نین کو دکھایا ہی نہیں۔ اس کی سیر کو جانے کے لئے سکردو بازار پہنچے ہیں۔ شہر کے مرکزی چوک سے راستہ اُس پہاڑ کی بلندی کو جاتا ہے، جس کی چوٹی پر ’کھرپو چوئے‘ (بادشاہ کامحل) واقع ہے۔

ہم ’بالتت فورٹ‘ جسے مقامی زبان میں ’کھرپوچوئے‘ کہتے ہیں، کی سیر کو چلے آئے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے پہاڑ کی چوٹی پر واقع یہ قلعہ آج بھی سکردو کی پرانی تہذیب اور تاریخ کا واحد خاموش گواہ اور میرے دوست سندھو کی روانی کا چند صدیوں کا ساتھی ہے۔ دھوپ تیز ہے لیکن ہوا کی خنکی نے موسم خوشگوار کر رکھا ہے۔ مئی کے مہینے میں کم سیاح ہی سکردو آتے ہیں (سکردو اور یہاں کی وادیوں میں سیاحت کا بہترین وقت جون سے ستمبر ہے)۔ قلعہ میں ہمارے علاوہ دو تین ہی اور سیاح ہیں۔ یہ چھوٹا قلعہ اپنے اندر لمبی تاریخ سموئے ہے۔ جب یہاں آئے تھے توسورج خوب گرم تھا لیکن اس ڈھلتی دوپہر میں اس کی حرارت کم ہو گئی ہے، بھوک چمک پڑی ہے۔ کبھی اس قلعے میں راجہ کی رہائش بھی تھی اور راجہ کا دربار بھی یہیں لگتا تھا۔ اس قلعہ کا آج بھی اپنا ہی رعب ہے۔ اسے سولہویں صدی عیسوی میں راجہ علی خاں آنچن نے اس چٹان پر بنوایا تھا، جو ”راک آف سکردو“ (rock of Sakardu) کہلاتی ہے۔ قلعہ تعمیر کرنے والے معمار اپنی مہارت کی چھاپ اس قلعہ کی صورت ہم تک اور ہمارے بعد آنے والوں کے لئے چھوڑ گئے ہیں۔ قلعہ کی سیر سے فارغ ہو کر واپسی پر ہم سیدھے ’کیفے اسکولے گرل‘ پہنچے ہیں اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنے اپنے من پسند کھانوں کا آرڈر کیا ہے۔ ہمارے لوگ بہت سادہ ہیں، اپنی دوکان یا کاروبار کا نام رکھتے ہوئے بھی اپنی جائے پیدائش یا آبائی علاقے کو نہیں بھولتے ہیں۔ کیفے اسکولے گرل بھی ایسا ہی ایک نام ہے، اس کا مالک چونکہ ’اسکولے‘ گاؤں کا رہنے والا ہے، لہٰذا اُس نے اپنے ریسٹورنٹ کا نام اپنے علاقے اسکولے کے نام پر ہی رکھا ہے۔ (اسکولے کے ٹو کی چوٹی پر جانے کے لئے آخری گاؤں ہے جہاں تک جیپ جاتی ہے۔ اس کے آگے پیدل سفر شروع ہوتا ہے۔)

نین بولی؛ ”راجہ نے کیا قلعہ بنایا ہے۔ اس کی لوکیشن کا تو جواب نہیں۔ پہاڑ کی چوٹی سے گزرتے سندھو کا نظارہ۔۔ واہ! اس منظر کو الفاظ میں بیان کرنا کم از کم میرے لئے تو ممکن نہیں۔“ باس کہنے لگے؛ ”میڈم جو کام آپ نہیں کر سکتیں اُسے کرنا بھی نہیں چاہیے۔“ اس کے چہرے کے تاثر سے لگا اس نے باس کی بات کا برا منایا ہے۔ کھانے سے فارغ ہوکر واپس ہوٹل پہنچے تو سہ پہر ڈھلنے کو ہے۔ ہمیں چلاس بھی روانہ ہونا ہے۔ باس کہنے لگے؛ ”مجھے سکردو سے کچھ جڑی بوٹیاں خریدنی ہیں (باس ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں) تم جانے کی تیاری کرو میں گھنٹہ بھر میں آتا ہوں۔“ نین نے مجھے اشارے سے پاس بلایا اور کہنے لگی؛ ”یہ شنگریلا کیا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اسے دنیا کی جنت کہتے ہیں۔ تم مجھے دنیا کی جنت کی سیر نہیں کرواؤ گے۔ مجھے ہر صورت وہاں جانا ہے۔“ اس کی خواہش کو پورا نہ کرنا گناہ ہے۔ میں بولا؛ ”کیوں نہیں۔ ضرور چلتے ہیں۔ میں باس کو بتا دوں۔“ وہ بولی؛ ”ضرور بتا دو لیکن جائیں گے ہم دونوں ہی۔“ میں نے باس کو بتایا؛ ”باس! جب تک آپ بازار سے ہو کر آتے ہیں میں نین کو شنگریلا جھیل دکھا لاتا ہوں۔ ویسے بھی آپ کے آنے تک دیر ہو جائے گی، بہتر ہے کہ چلاس صبح ہی روانہ ہوں۔ رات کا سفر مناسب نہیں ہوگا اور سڑک بھی زیر تعمیر ہے۔“ وہ بولے؛ ”جیسے تم مناسب خیال کرو۔“ فیصلہ ہوا باس اور مشتاق بازار جائیں گے اور میں اور نین شنگریلا۔ اب چلاس کے لئے کل روانہ ہوں گے۔ باس مشتاق کو لے کر بازار چلے گئے اور ہم شنگریلا

جیپ اسکردو کی بھیڑ والی سڑکوں سے گزرتی شہر سے تقریباً پچیس (25) کلو میٹر باہر آگئی ہے۔ ماضی کا یہ چھوٹا سا تاریخی شہر اب بہت پھیل چکا ہے۔ سندھو بھی سڑک کے ساتھ ساتھ پرسکون مگر انتہائی چوڑائی میں بہہ رہا ہے۔ اتنی چوڑائی اور اتنے سکون سے میں نے اسے اب تک کے سفر میں کہیں اور بہتے نہیں دیکھا ہے۔ دونوں کناروں پر چمکتی ریت اور ان کے درمیان سے بہتے سندھو کا حد نظر تک پھیلا نقرئی پانی گزرتے مسافروں پر سحر طاری کئے ہے۔ ہم شنگریلا موڑ پہنچے ہیں، جہاں سے تقریباً پانچ (5) کلو میٹر دور برف پوش پہاڑوں کے دامن میں جنت نظیر شنگریلا جھیل ہے۔ سورج مغرب کی طرف تیزی سے محوِ سفر ہے۔ آسمان کا بدلتا نارنجی رنگ سورج کے آج کے سفر کے اختتام کا اعلان ہے۔ آسمان پر اڑتے تھکے ہارے پرندے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔درختوں سے گھری ویران سڑک شنگریلا کی حدود میں داخل ہو چکی ہے

میں نے نین سے کہا؛ ”نین! سال کے اس حصے میں بہت کم سیاح ہی ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے ہمارے علاوہ وہاں کوئی دوسرا نہ ہو۔ کافی پئیں گے اور پھر واپس۔“ اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے گھورا، مسکرائی اور بولی؛ ”اس کا فیصلہ مجھے کرنا ہے آپ کو نہیں۔ دیکھوں گی۔“ ہم مرکزی گیٹ سے شنگریلا ریزرٹ پہنچے ہیں۔ اب اس ریزرٹ کے علاوہ بھی جھیل کے ارد گرد بہت سے ہوٹل تعمیر ہو چکے ہیں۔ یقیناً اب دوسرے سوک مسائل بھی جنم لیں گے۔

واہ! کیا زبردست نظارہ ہے۔ ڈھلتے سورج کی کرنوں نے آکاش سے لے کر زمین تک کائنات کی ہر شے پر نارنجی رنگ چڑھا دیا ہے۔ درختوں کے زرد اور سرخ پتے شام کے اس منظر کو اور بھی دل نشین بنا رہے ہیں۔ جھیل کا نیلگوں پانی اس نارنجی رنگ سے مل کر وہ جل ترنگ بجا رہا ہے جو یہیں کا خاصہ ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیاں آسمان میں ہیروں کی طرح چمکتی نظر آتی ہیں۔ میری نظر دم بہ خود نین پر پڑی۔ اسے شاید احساس ہی نہیں کوئی اور بھی اس کے ساتھ ہے۔ وہ شنگریلا کے حسن میں ڈوبی ہے۔ شنگریلا انتہائی رومانوی جگہ ہے جہاں پہنچ کر انسان اس کی سحر انگیزی میں اُس دنیا میں چلا آتا ہے، جہاں قدرت کا حسن چار سو پھیلا، محبت میں کھو جانے کی کھلی دعوت دیتا ہے۔ جوانیاں مستانیاں ہو جاتی ہیں۔ میں نے مبہوت نین کو کندھے سے پکڑتے کہا؛ ”کیسی لگی تمہیں دنیا کی جنت۔“ وہ بیدار سی ہوئی اور لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد کہنے لگی، ”ناقابلِ یقین، یہ مدہوش کر دینے والی خوبصورتی ہے۔ اگر آج یہاں نہ آتی تو شاید دنیا کی اس جنت کو پھر کبھی دیکھنے کا موقع نہ ملتا۔ نہ تم کو معاف کرتی اور نہ خود کو۔ بس مجھے کم از کم آج کی رات تو یہیں رہنا ہے۔“

بہرحال بحث و تمحیص کے بعد ہم نے رات یہیں رہنے کا ارادہ کیا ہے

میری آنکھ کھلی تو پو پھوٹے زیادہ وقت نہ ہوا تھا۔ سورج مہاراج پہاڑوں کی اوٹ سے اپنی روشنی سے برفیلی چوٹیوں کو سنہری رنگ دے رہے ہیں۔ چمکتی برف، صبح کی نرم ہوا، جھیل کا پرسکون پانی۔ سب اللہ کی شان کبریائی بیان کر رہے ہیں۔درخت بھی ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ پرندے بھی چہک رہے ہیں۔ قضاء نماز سے فارغ ہوا تو فون کی گھنٹی بول اٹھی۔ دوسری طرف باس ہیں۔انہیں بتایا بس گھنٹہ بھر میں پہنچ رہے ہیں۔ باس کے پاس پہنچے تو صبح کے9 بجے ہیں۔

باس کی ناراضگی ان کی آنکھوں سے نمایاں ہے۔ میں نے ان سے معذرت کی کہ رات رکنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ وہ بولے؛ ”میاں! تم کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔“ ان کے لہجے میں غصہ بھی تھا اور پیار بھی۔ یہ بھی ان کی محبت کا اظہار ہے۔ روانہ ہونے کی تیاری تھی کہ میرا فون بول اٹھا۔ دوسری طرف محمد علی تھا، غلام محمد قاچو کا برادر نسبتی۔ کہنے لگا، ”سر! میں دس منٹ میں ملنے آ رہا ہوں۔ آپ کے لئے میرے پاس ہدایت اللہ صاحب کے بجھوائے کچھ تحائف بھی ہیں۔“ دس منٹ میں ہی وہ موٹر سائیکل پر ہمارے پاس پہنچ گیا۔ محکمہ مقامی حکومت بلتستان کا اسسٹنٹ محمد علی دبلا، لامبا قد، سادہ، خوش گفتار، تابعدار اور انسان دوست۔ وہ اپنے ڈپٹی ڈائریکٹر کھرمنگ ہدایت اللہ کی طرف سے کچھ میوہ جات دئیے اور ساتھ ہی بتایا ”سر آج آپ گلگت روانہ نہیں ہو سکتے کہ استک کے قریب بلاسٹنگ سے بند راستہ ابھی تک نہیں کھلا ہے۔ لہٰذا آپ صبح ہی روانہ ہوں۔“ بھائی جان قیس کہنے لگے، ”نہیں ہم راستے میں انتظار کر لیں گے۔“ محمد علی نے جواب دیا، ”سر! بہت خواری ہوگی۔ وہاں بیٹھنے کی بھی بھی جگہ نہیں۔ بس پہاڑ ہیں، پانی کا ایک نالہ ہے یا دو چھوٹے چھوٹے ہوٹل ہیں۔ رات بسر کرنے کی بھی گنجائش نہیں اُن ہوٹلوں میں۔ آج کا دن میں آپ کا میزبان ہوں۔ میرے غریب خانے چلتے ہیں۔ ان شاء اللہ آپ کو کسی قسم کی تنگی نہ ہوگی۔“ یہی فیصلہ ہوا سڑک پر خوار ہونے سے بہتر ہے ہم محمد علی کی میزبانی کا لطف لیں اور سکردو سے کچھ میوہ جات بھی خرید لیں۔

سد پارہ روڈ پر واقع ہم محمد علی کے گھر چلے آئیں ہیں۔روشن، ہوا دار، صاف ستھرا گھر اور سلیقہ سے سجایا ہوا۔ قریب سے ہی چشمہ کا پانی بہتا ہے۔ صحن میں شہتوت، خوبانی اور سیب کے درخت ہیں۔ دو منزلہ گھر کی اوپری منزل پر چلے آئے ہیں۔ سامان رکھا، پر تکلف چائے کا لطف لیا اور کچھ خریداری کرنے سکردو بازار چلے آئے۔ دوپہر کے بعد واپس آئے تو عمدہ اور لذیذ کھانوں کا دستر خوان سجا ہے۔ بڑے دنوں بعد گھر کا بنا نہایت لذیذ کھانا کھانے کو ملا۔ یقین کریں ایک دن ہم محمد علی کے گھر رہے اور اس نے میزبانی اور تکلف کی انتہا کر دی۔ ہم کبھی بھی اس کی میزبانی کا حق ادا نہ کر پائیں گے۔ گلگت روانگی کے لئے اگلی صبح سویرے ہی جاگ گئے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے سامان جیپ میں رکھا۔ روانہ ہوئے تو صبح کے 8 بجے تھے۔ موسم سہانا، ہوا ٹھنڈی، بادل کے چند ٹکڑوں اور محمد علی کی مسکراہٹ نے ہمیں الوداع کہا۔ اتوار کا دن اور سکردو کی سڑکوں پر رش نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔سکردو کو دور پیچھے پہاڑوں میں چھوڑ آئے ہیں۔ گمبا ائیر پورٹ کے سامنے سے گزر کر ہم اگلے دس منٹ میں سندھو کے پل پر پہنچ کر ’کچورا وادی‘ میں ہوں گے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close