سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط23)

شہزاد احمد حمید

سندھو بولتے چلا جا رہا ہے؛ ”اولڈنگ سے یہاں تک دریائے شیوک، شگر، کئی ندی، نالے اور چشمے مجھ میں مل کر اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ آگے بھی دیکھنا میں کن کن اور کیسے کیسے ندی نالوں کو نگلتا ہوں۔ میرا وجود کافی بھرپور ہو چکا ہے۔ اب میں اپنا غصہ نکالنے اور سیلاب سے بربادی کرنے کے قابل ہو گیا ہوں۔“

جب تک اس کی بات ختم ہوتی ہم محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں۔تھکاوٹ اور دھول نے میری شکل پر بارہ بجا رکھے ہیں۔ گرم پانی کے غسل سے خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگا ہوں۔ میرے باہر آنے تک باہر کا منظر تبدیل ہو چکا ہے۔ سکردو کی شام پھر سے ٹھندی ہونے لگی ہے۔ دن بھر کا چمکتا سورج آج کی مسافت پوری کر کے اونچے پہاڑوں کے پیچھے اترنے کو تیار ہے۔ شام کے بڑھتے سائے لمبے ہو کر اپنی آخری حدوں کو چھونے لگے ہیں۔ دریا کی لہروں پر سورج کی آخری کرنیں دلکش منظر پیش کر رہی ہیں۔

صبح سے شام تک سکردو میں منظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ صبح رنگین ہوتی ہے، سفید برف، بھورے پہاڑ مگر جیسے جیسے سورج بلند ہوتا ہے، ہلکے خاکستری پہاڑوں پر بنفشی پر چھائیاں لہرانے لگتی ہیں اور ڈھلوانوں پر سفید دھاریاں، شام ڈھلتے ہی پہاڑ کی چوٹیاں مونگے کی طرح سرخ ہو جاتی ہیں۔ ہوا سے گرمی ختم ہو جاتی ہے اور فضا خاکستری رنگوں سے جھلملا اٹھتی ہے۔ رات کو چاند کی روشنی میں سفید ریت تاروں کی طرح چمکتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تارے زمین پہ اتر آئے ہوں۔

یہاں کے نظاروں کو دوبالا کرتی نین کی آمد بھی تھی جوکچھ دیر پہلے ہی جہاز سے گمبا (سکردو) ائیر پورٹ پہنچی تھی۔ فون پر اس کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی۔ ہم جب سکردو پہنچے تو وہ ریسٹ ہاؤس کے کمرے میں آرام کر رہی تھی

سکردو میں دوپہر ڈھل چکی ہے۔ شام کے سائے لمبے ہوتے سندھو کے پانی کو مچلا رہے ہیں۔ میں نین کا ہاتھ تھامے ریسٹ ہاؤس سے نکلا اور خراماں خراماں چلتے قریب سے بہتے اپنے دوست سندھو کے کنارے چلے آئے ہیں۔

ہم اس کے کنارے جا بیٹھے اور اس کا پانی ہمارے پیروں سے لگی مٹی دھونے لگا ہے۔ ہم کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہے۔ مجھے خاموش پا کر سندھو بولا؛ ”اداس لگ رہے ہو۔ واہ! اداسی بھی تمھیں اچھی لگ رہی ہے۔“ میں کچھ نہ بولا۔ وہ کہنے لگا؛ ”کہیں آگے جانے کا ارادہ تو نہیں تمہارا، جو تم خاموش ہو۔“
میں نے آنکھیں اٹھائیں سر کے اشارے اور آنکھ میں اتری نمی سے اُسے اپنے جانے کا سندیسہ دیا۔ وہ بولا؛ ”نہیں!میں تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔ ایسا نظارہ تمہیں اور کہیں دکھائی نہ دے گا۔ نین کو بھی تو یہ منظر، پہاڑ، اور میرا جل ترنگ پسند ہے نا۔ یہ مٹی، رنگ اور خوشبو تمہیں صرف میرے کنارے ہی ملے گی دوست۔“
میں نے کہا، ”تم ساتھ چلو میرے۔۔“
بولا؛ ”میں کہاں جاؤں گا۔ یہ پہاڑ، یہ تنہائی اب میرے سنگی ساتھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر میری روح بھی یہیں رہتی ہے۔ دریائے شیوک جہاں مجھ سے ملتا ہے، میری روح بھی وہیں ہے، جہاں کل تم رکے تھے۔“
میں اداس لہجے میں بولا، ”ساری زندگی تم دوسروں کے جینے کا سہارا بنے ہو۔ اب خود زندگی سے بھاگ رہے ہو۔ ایسا کیوں کر رہے ہو میرے دوست؟“
وہ بولا؛ ”واہ! پیارے کیسے بھولے ہو تم! زندگی تو خود مجھ سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہے۔ یہ میں ہی ہوں جو ڈھیٹ بنا اس سے چمٹا ہوں۔“
میں نے کہا، ”کیا مطلب تمہارا۔“
کہنے لگا، ”جیسے جیسے تم آگے بڑھو گے تو دیکھو گے کہ تمہارے شہروں کے رہنے والے مجھ میں موت سے بھرا گندا پانی پھینک رہے ہیں۔ میرے دو تین بھائیوں کو تو گندا پانی مار چکا ہے۔ اُن کے لاشے بدبو دے رہے ہیں۔ مچھلیوں کی جگہ وہاں اب کوے اور چیلیں اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں۔ میں ابھی اور جینا چاہتا ہوں۔ اپنی مچھلیوں کے لئے، اپنی ڈولفن کے لئے، تمہاری آنے والی نسلوں کے لئے۔۔ اسی لیے کہا تھا کہ تم بھی مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو۔“

کہا اُس نے بھی ٹھیک ہی ہے۔۔ ہم میدان واسی یہ کام تیزی سے کر رہے ہیں۔ اپنے دوست کی بیماری کے خدشات نے مجھے اور بھی اداس کر دیا ہے۔ میں واپس مڑا، پلٹ کر اُسے دیکھا۔ اس پر نظر دوڑائی ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ اس کے چہرے پر ہے۔ میں نے دل میں کہا؛ ”نہیں! میں تمہیں کچھ ہونے نہیں دوں گا۔ تمہارا پانی گدلا کرنے والوں کے خلاف احتجاج کروں گا، آواز اٹھاؤں گا۔“ وہ میرے دل کی آواز بھی سن لیتا ہے۔ کہنے لگا؛ ”مجھے یار سے امید بھی یہی ہے۔“

حکومتیں ڈیم، بیراج بنا کر اور نہریں نکال کر، اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کرتی چلی آئی ہیں لیکن کیا یہ ڈیم، یہ نہریں اس غصے کو کم کر پائیں گی؟ شاید ایسا ممکن نہیں۔ تم اس کے غصے اور سیلاب کو محض کم ہی کر سکتے ہو مگر یہ اس کی شناخت ہیں اور عمر بھر کی شناخت بدلنا آسان نہیں ہوتا پیارے۔

ہم بوجھل دل کے ساتھ ریسٹ ہاؤس لوٹ آئے ہیں۔ چاند کی نرم کرنیں سندھو اور اس دھرتی پر اتری ہیں۔ رات کے پاؤں زمین کو چھونے لگے ہیں۔ نیلگوں آسمان میں ہیروں کی طرح چمکتے ستارے نظر آنے لگے ہیں۔ دور پہاڑی پگڈنڈیوں پر رات کو مقامی لوگ ہاتھ میں لالٹین اٹھائے چلتے ہیں تو ایسا تاثر ابھرتا ہے جیسے کوئی پری یا جن ان پہاڑوں کے اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر چراغ لئے اڑا چلا جا رہا ہے۔ میں اپنے ساتھ آنے والے نئے دوستوں کو یہ اڑتے جن اور پریاں ضرور دکھاتا ہوں تو بیشتر کے منہ کھلے رہ جاتے ہیں اور خوف ان کے چہرے پر نمایاں ہو جاتا ہے۔ نین کے چہرے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔

ہوٹل پہنچے تو عشاء کی نماز کے بعد مچھلی اور پلاؤ سے پیٹ کے دوزخ کی آگ ٹھنڈی کی ہے۔ جلتے الاؤ کے قریب ہوٹل کے ٹیرس پر رکھی کرسیوں پر بیٹھے قہوے کے انتظار میں ہیں۔ آسمان ستاروں کی کہکشاں سجائے ہوئے ہے۔ تاروں نے حسب عادت چاند کو گھیر رکھا ہے۔ موسم خنک اور ہوا ٹھنڈی ہے۔ گرم قہوے کی چسکیاں لیتے گپ شپ بھی چلتی رہی۔ نیم شب بیتی تو باس اور نین اپنے اپنے کمروں کو ہو لیے ہیں۔ میں وہی جگ راتوں کا مارا کمرے میں پہنچ کر نیند کی تلاش میں لگ گیا لیکن نیند بھلاکہاں آنی تھی۔ میں نے خراٹے لیتے باس اور مشتاق کو چھوڑا اور باہر چلا آیا ہوں۔ رات کافی بیت چکی ہے۔ ستارے بھی آسمان سے گھروں کو لوٹنے لگے ہیں۔ مجھے لگا اُن کے گھر برفیلی چمکتی چوٹیوں پر ہیں۔ کچھ دیر تک گھر لوٹتے اپنے دوست ستاروں کو دیکھتا رہا۔ ٹیرس پر جلتا الاؤ کب کا ٹھنڈا ہو چکا ہے۔ میری آنکھوں میں اتری نیند گرم ہونے لگی ہے۔ میں ٹھنڈی راکھ کے پاس سے اٹھا، کمرے میں آیا اور بستر پر لیٹا، رضائی کی گرمائش نے مجھے جلد ہی نیند کی دنیا میں اتار دیا ہے

باس، مشتاق اور میں اولڈنگ سے سفر شروع کر کے کل دوپہر یہاں پہنچے تھے۔ نین اسکردو پہنچی تھی۔ رات یہاں قیام کر کے کل گلگت روانہ ہوں گے۔ دریا کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک پر سفر کرتے ہم آپ کو وہاں وہاں لے چلیں گے، جہاں جہاں سے سندھو بہتا ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close