ہندوستان کی تاریخ میں 1858ء کا سال انتہائی اہم رہا ہے، کیونکہ اس سال جنگ آزادی ناکام ہوئی، مغل بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت ہوا، اس کے ساتھ ہی ملک میں سیاست کا آغاز ہوا
1858ء میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مختلف جماعتیں بنیں اور ہر ایک نے اپنی شناخت کے لیے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے احیاء کی تحریکیں شروع کیں۔ 1875ء میں آریا سماج کا قیام عمل میں آیا، جس کا نصب العین یہ تھا کہ ویدوں کی تعلیمات کو پھیلایا جائے اور تعلیمی اداروں کے ذریعے نوجوانوں کے ذہن کو مذہبی بنایا جائے۔ اس کے بعد ہندوؤں کی اہم تحریک ’ہندو محاسبہ‘ تھی، جو 1915ء میں قائم ہوئی۔ اس کا مقصد مذہبی تعلیمات کے علاوہ ہندو سماج کو متحد کرنا اور ایک مضبوط قوم کی شکل دینا تھا۔ اس موضوع پر پرابھو باپوکی کتاب ’ہندو محاسبہ‘ ہے، جو 2012ء میں شائع ہوئی۔
اس میں انہوں نے 1915ء سے 1930ء تک شمالی ہندوستان میں اس کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس تحریک کے حمایتیوں کے لیے ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتیں، والیان ریاست اور زمیندار شامل تھے، جو اس کی مالی امداد کرتے تھے۔ اس کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کا وی ڈی ساوارکر نے کیا۔ اس ہندو توا کا نظریہ ہندو محاسبہ تحریک کا منشور بنا۔
ہندو توا کے نظریہ کے تحت ہندو آریائی تہذیب 4000 سال پرانی ہے۔ ویدوں کا زمانہ اس کا سنہری دور ہے۔ اس لیے ہندوستان کے اصل باشندے ہندو ہیں۔ مسلمان اور مسیحی اگرچہ ان کی یہاں کی پیدائش ہو، مگر ان کے مذہبی مقامات ہندوستان سے باہر ہیں۔ اس لیے وہ ہندوستان پر اپنا حق نہیں رکھ سکتے۔ ساوارکر نے آریاؤں کو بھی اصل ہندوستان بنا دیا، جبکہ وہ 1500BC میں وسط ایشیا سے ہندوستان سے آئے تھے۔
ہندو محاسبہ تحریک کو ہندوؤں کی تعداد بڑھانے کی فکر تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ اچھوت ذات کے لوگوں کو ہندو سماج کا حصہ بنا لیا جائے، مگر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ اس پر دلت کے لیڈروں نے کہا کہ آریا بھی غیر ملکی تھے، جنہوں نے دراوڑ قوم کو نچلی ذاتوں میں بدل کر ان پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ ہندوؤں کی تعداد بڑھانے کا دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ جو قبائل ہندوؤں سے مسلمان ہو گئے تھے، انہیں شدھی بنا کر دوبارہ سے ہندو بنایا جائے۔
ساوارکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو ہندو دھرم میں ضم ہو جانا چاہیے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہندو مذہب میں تبدیلی مذہب کی گنجائش نہیں۔ اس لیے مسلمانوں اور مسیحیوں کو ہندو نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہی وہی سلوک کرنا چاہیے، جو ان کے ساتھ اندلس میں ہوا تھا۔ یعنی 1492ء میں وہاں سے مسلمانوں کو نکال دیا گیا تھا، مگر یہ حل بھی مشکل تھا۔ کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کے لیے ہجرت کر کے جانا ناممکن تھا۔ پھر ایک یہی صورت رہ جاتی تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو دِلت بنا کر رکھا جائے۔
ہندو محاسبہ تحریک میں مذہب کو استعمال کرتے ہوئے گائے کو بطور علامت استعمال کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ گائے نہ صرف کھیتی باڑی میں ضروری ہے۔ بلکہ اس کا دودھ بطور غذا ہندوؤں کی صحت کے لیے لازمی ہے۔ اس مقصد کے لیے زبردست تبلیغ کی گئی۔ دوسری علامت جس کو استعمال کیا گیا وہ ہندی کا ”دیوناگری‘‘ رسم الخط تھا۔ اس کا پروپیگنڈا کیا گیا کہ ہندی زبان دنیا کی سب سے قدیم زبان ہے اور اس کا رسم الخط ہر اعتبارسے مکمل ہے۔
محاسبہ تحریک نے اس تاثر کو بھی پیدا کیا کہ ہندوؤں کے بارے میں یہ تصور ہے کہ یہ جسمانی طور پر نحیف اور کمزور ہیں۔ جنگجو نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں اتحاد ہے۔ لہٰذا ہندوؤں کو جسمانی طور پر صحت مند اور طاقتور بنانے کے لیے منصوبے تیار کیے گئے۔ جبکہ جگہ جگہ اکھاڑے قائم ہوئے، جہاں نوجوانوں کو پہلوانی کی تربیت دی جاتی تھی۔ ان میں فوجی جذبہ پیدا کرنے کے لیے لڑنے کے حربے سکھائے جاتے تھے۔ ہندو محاسبہ تحریک خاص طور سے میسولینی کے فاشزم اور ہٹلر کے نازی ازم سے متاثر تھی۔ اس لیے وہ ہندوؤں کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتے تھی، جو مسلمانوں سے مقابلہ کر سکے اور انگریزی اقتدار کی بھی مزاحمت کرے۔
ساوارکر کے ہندوتوا کے مقابلے میں کانگریس پارٹی نے، جو 1885ء میں قائم ہوئی تھی، مقابلہ کیا۔ گاندھی جی، جو 1915ء میں جنوبی افریقہ سے ہندوستان آئے تھے۔ انہوں نے یہاں کی سیاست میں اہم تبدیلیاں کیں۔ کانگریس جو اب تک اشرافیہ کی جماعت تھی گاندھی جی اسے عام لوگوں تک لے آئے، اگرچہ وہ خود پکے ہندو تھے اور انہوں نے بھی عوام میں مقبولیت کے لیے رام راجیا کا نعرہ لگایا۔ یعنی ہندوؤں کا سنہری دور مگر ان کی سیاست میں تنگر نظری نہیں تھی اور وہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو بھی ان کے حقوق دینے پر تیار تھے۔ اس لیے گاندھی جی نے ساوارکر کی انتہا پسندی کو چیلنج کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ہندو اور مسلمان متحد ہو کر ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ اسی نظریے کے تحت انہوں نے ترک موالات کی تحریک کے ساتھ ساتھ خلافت تحریک کی بھی حمایت کی۔
گاندھی جی دلت ذات کو تبدیل تو نہیں کر سکتے تھے، مگر انہوں نے یہ کوشش ضرور کی کہ ان کا سماجی درجہ بہتر ہو۔ انہوں نے اچھوتوں یا ذلت ذات کو ہری جن کا نام دیا اور ان کی بستیوں میں جا کر بھی رہے، مگر وہ ہندو ذات پات کے ڈھانچے کو بدلنے پر تیار نہ تھے۔ جب 1909ء میں برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق دیا تو دِلت کے راہنما ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر نے یہ مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی طرح دلت ذات کے لوگوں کو جداگانہ انتخاب کا حق دیا جائے۔
اس پر گاندھی جی نے پونا کے شہر میں مرن برت رکھ لیا کہ یا تو دِلت اپنا مطالبہ ترک کر دیں ورنہ وہ بھوک ہڑتال سے مر جائیں گے۔ ڈاکٹر امبیڈکرپرسخت دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جداگانہ انتخاب کا مطالبہ نہ کریں۔ ایک موقع پرامبیڈکر نے کہا کہ اگر گاندھی جی میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیں تو میں اپنے مطالبے سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ بالآخر ڈاکٹر امبیڈکر دباؤ کے تحت گاندھی جی سے بات چیت پر تیار ہوئے اور فیصلہ یہ ہوا کہ دلت ذات کے لوگوں کا Quota بڑھا دیا جائے گا۔
ڈاکٹر امبیڈکر جب ہندو مذہب سے بیزار ہو گئے تو انہوں نے تبدیل مذہب کا فیصلہ کیا اس بار پھر ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اسلام اور مسیحیت کو قبول نہ کریں۔ امبیڈکر نے اپنے مطالعہ اور غوروخوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت بدھ مذہب کو اختیار کریں گے۔
1930ء کی دہائی تک ہندوتوا کا نظریہ پوری طرح سے کامیاب نہ ہو سکا، مگر ہندو مذہبی جذبات نےSanatam Dharam یعنی خالص مذہب اور RSS کی جماعتیں پیدا کیں، جو لڑنے اور فساد پیدا کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ گاندھی جی کا بہرحال یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے ہندو سوسائٹی میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے لیے جگہ کی گنجائش رکھی۔ اس لیے ساوارکر اور ہندو محاسبہ تحریک گاندھی جی کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگے اور یہی وہ ذہن تھا کہ ساوارکر کے مرید نتھورام گوڈسے نے 1948ء میں گاندھی جی کو قتل کیا۔
ملک کی تقسیم کے بعد کانگریس پارٹی ہندوستان میں اقتدار میں رہی اور محاسبہ خاموشی کے ساتھ وقت کا انتظار کرتی رہی اور 1980ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جس نے ہندوتوا کے نظریے کو اپنائے ہوئے سیاست میں حصہ لیا اور عام انتخابات میں شمولیت کے بعد یہ اقتدار میں بھی آتی رہی۔
اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گاندھی جی کی آہندسہ کا نظریہ اور ہندو مسلم اشتراک ناکام ہو گیا اور کیا ہندو انتہا پسندی نے ہندوستان کے سماج کو تبدیل کر کے مسلمانوں، مسیحیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ہندوستان میں رہنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی مذہب کو سیاست میں استعمال کیا جائے تو لوگ عقل اور شعور کے بجائے مذہبی جذبات سے مغلوب ہو کر سماج کی تباہی کا باعث بنیں گے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)