پیر کی صبح سیما حیدر اور سچن مینا انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی سے ستر کلو میٹر دور اپنے دو کمرے کے مکان میں بیٹھے اپنی کہانی پر میڈیا اور مقامی لوگوں کی بھیڑ کے سامنے انہی جوابات کو دہرا تھے جو کہ تین روز سے زیرِ گردش ہیں
ربوپورہ گاؤں اور آس پاس مسلسل بارش ہو رہی تھی لیکن سچن کی گلی اور چھوٹے سے گھر میں پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں ٹھی۔ سچن اور سیما دونوں ایک ٹی وی چینل پر لائیو انٹرویو دے رہے تھے اور دوسری طرف ساتھ میں سیما کے پاکستانی شوہر غلام حیدر بھی سعودی عرب سے موجود تھے
سیما نے سبز لباس میں سرخ دوپٹہ اوڑھے کیمرے سے مخاطب ہو کر کہا ’ہمارے بچے انھیں (سچن کو) پاپا کہتے ہیں۔ جو پیار دے گا، وہ پیار پائے گا۔‘
اسی دوران وہاں موجود دوسرے میڈیا والوں نے احتجاج کیا کہ دس منٹ کے انٹرویو کے نام پر گذشتہ ایک گھنٹے سے یہ لائیو شو جاری ہے
ایک سوال کے جواب میں کہا ”میں مانتا ہوں کہ سیما اور میرے ملن کا طریقہ قانونی طور پر صحیح نہیں ہے لیکن ہماری نیت ٹھیک تھی۔ سرکار جو سزا دے گی، میں اس کے لیے تیار ہوں۔۔۔‘ لیکن سیما نے فوراً مداخلت کرتے ہوئے کہا ’سچن کو سزا نہیں ملے گی۔ ملے گی تو مجھے بھی ملے گی، سچن سے زیاد جرم ہے تو میرا جرم ہے۔ انھوں نے صرف ساتھ دیا ہے، آئی تو میں ہوں نا۔‘
یہ بظاہر نہ ختم ہونے والا انٹرویو جاری ہے اور مسلسل بارش کے باوجود میڈیا کی بھیڑ میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سچن کے والد بار بار بے چینی سے باہر اور اندر آ جا رہے ہیں۔ وہ انٹرویو لینے والوں سے بار بار درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اسے مختصر رکھیں، لیکن ان کی اپیل سننے والا کوئی نہیں
سچن کے والد کہتے ہیں کہ سیما اور سچن بنا کھائے پیے انٹرویو دے رہے ہیں، ان کی زبان اور حلق تک تھک گئے ہیں۔ لیکن سوالوں کا سلسلہ جاری ہے
سیما اعلان کر چکی ہیں کہ وہ ہندو بن گئی ہیں۔ تاہم کئی ٹی وی چینلز کے لیے وہ ایک ’پاکستانی ایجنٹ‘ ہیں
’میں زہر کھا لوں گی، اپنا گلا کاٹ لوں گی لیکن پاکستان واپس نہیں جاؤں گی‘
گلے میں ‘رادھے رادھے’ کا سکارف اور منگل سوتر، ہاتھ میں سرخ چوڑیاں اور ماتھے پر لال بندیا۔ اپنے دو کمروں کے گھر میں صحافیوں، کیمروں اور مائیکوں سے گھری سیما حیدر بڑے اعتماد کے ساتھ سوالوں کے جواب دے رہی تھیں
گھر میں موجود ہجوم میں سیما کے چار بچوں کو آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ کچھ صحافی ان بچوں کو ’ہندوستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کر رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے بچوں کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے ہیں
اس درمیان قصبے کی کچھ خواتین اور کچھ ہندو تنظیموں کے لوگ بھی ملنے آ رہے ہیں۔ آشیرواد دیتے ہوئے یہ لوگ سیما کے ہاتھ میں کچھ پیسے پکڑ ا رہے ہیں اور ان کی تصویریں کھینچ رہے ہیں
اس درمیان گھر میں ’جئے شری رام‘ کے نعرے بھی سنائی دے رہے ہیں، جب کہ کچھ لوگ سیما سے گھر میں لگے تلسی کے پودے کو پانی دینے کی بھی درخواست کرتے ہیں
پب جی کے دو کھلاڑی
تقریباً بیس منٹ کی گفتگو میں دونوں نے ان تمام سوالوں کے جواب دیے جو ان کی دوستی اور غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہونے سے لے کر جاسوسی کے الزامات، شادی، ہندو مذہب میں شمولیت کے متعلق ہیں
پاکستان کی سیما حیدر کی شادی سال 2014 میں جیکب آباد کے رہائشی غلام حیدر سے ہوئی تھی۔ اس شادی سے ان کے چار بچے ہوئے۔ بعد ازاں دونوں کراچی شفٹ ہو گئے اور 2019 میں غلام حیدر کام کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے
یہ وہ وقت تھا جب سیما نے سچن مینا سے بات کرنا شروع کی اور اس کا ذریعہ ایک آن لائن گیم تھا
سیما کہتی ہیں: ’ہماری محبت کی کہانی پب جی کھیلنے سے شروع ہوئی تھی۔ سچن پرانا کھلاڑی تھا اور میں نئی تھی۔ پب جی پر میرا نام ماریہ خان تھا۔ سچن نے مجھے گیم کھیلنے کی درخواست بھیجی تھی۔
’ہم گیمز کھیلتے ہوئے نمبرز کا تبادلہ کرتے تھے۔ جب بھی سچن گیم کھیلنے کے لیے آن لائن آتے تھے، وہ مجھے ‘گڈ مارننگ’، ‘تم بھی آؤ جی’ کا پیغام دیتے تھے
آن لائن کھیلوں میں دوستی
سیما کہتی ہیں، ’تین سے چار ماہ تک گیم کھیلنے کے بعد ہم دوست بن گئے۔ میں اسے ویڈیو کال پر پاکستان دکھاتی تھی، یہ مجھے انڈیا دکھاتے تھے۔ وہ خوش تھا کہ وہ پاکستان کو دیکھ رہا ہے اور میں خوش تھی کہ انڈیا دیکھ رہی ہوں۔ اگر کسی دوسرے ملک کا کوئی شخص آپ سے بات کرے تو خوشی ہوتی ہے
سیما کہتی ہیں ’میں زیادہ خوش تھی کہ میں انڈیا کے ایک لڑکے سے بات کر رہی ہوں۔ اس طرح ہم ساری ساری رات باتیں کرنے لگے۔ یہ عادت بن سے گئی اور ہمیں محبت ہو گئی‘
تبھی سیما نے سچن سے ملنے کا فیصلہ کیا، لیکن سیما کے لیے یہ آسان نہیں تھا۔ سیما حیدر کا کہنا ہے ’ایسا نہیں ہے کہ میں پاکستان سے نفرت کرتی ہوں، میں وہاں رہی ہوں، میرا بچپن وہیں گزرا ہے۔ میرے بھائی بہن، والدین سب وہیں سے ہیں۔ میرے والدین کی قبریں وہیں پر ہیں۔۔ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے چند سال بعد بڑھاپا اور پھر موت۔ آخر کار میں نے اپنی محبت کا انتخاب کیا‘
سیما حیدر نے سچن سے ملنے کے لیے نیپال کا انتخاب کیا، لیکن ان کے انتخاب کے پیچھے ایک خاص وجہ تھی۔
سیما کہتی ہیں، ’ہم دبئی سے بھی مل سکتے تھے، لیکن سچن کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ہندوستانی لوگ بغیر پاسپورٹ کے نیپال جا سکتے ہیں تو ہم نے نیپال میں ملنے کا فیصلہ کیا۔
ملاقات کا وقت اور جگہ طے کرنے کے بعد سیما نے نیپال کا سیاحتی ویزا لیا اور شارجہ کے راستے کھٹمنڈو پہنچیں۔
سیما کہتی ہیں، ’میں پہلی بار 10 مارچ 2023 کو پاکستان سے نکلی اور شام کو کھٹمنڈو پہنچی۔ میں پہلی بار ہوائی جہاز سے جا رہی تھی ۔ جب ہوائی جہاز نے اڑنا شروع کیا تو میں بالکل بہری سی ہو گئی تھی‘
سچن پہلے ہی کھٹمنڈو میں سیما کا انتظار کر رہے تھے۔ سچن کے مطابق اس نے ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا، جس کے لیے وہ ہوٹل کے مالک کو روزانہ 500 روپے ادا کرتے تھے
اس دوران سیما حیدر کے انسٹاگرام پر ایسی کئی وڈیوز موجود ہیں جن میں دونوں کھٹمنڈو کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس دوران دونوں نے بڑا فیصلہ کیا
سیما کہتی ہیں، ’ہماری شادی 13 مارچ کو کھٹمنڈو کے پشوپتی ناتھ مندر میں ہوئی۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے ہم شادی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارے پاس ویڈیوز بھی ہیں… میں نے خود ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے۔ مجھ پر کسی نے دباؤ نہیں ڈالا۔‘
شادی تو ہو گئی لیکن سیما انڈیا نہ آ سکیں کیونکہ کراچی میں چار بچے ان کے منتظر تھے۔ وہ لاہور میں درگاہ جانے کے بہانے سچن سے ملنے نیپال آئی تھیں
محبت میں گھر بیچ دیا
سیما پاکستان واپس آگئیں لیکن اب یہاں ان کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ دو مہینے گزر گئے اور سیما نے اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا
سیما کہتی ہیں، ’میرے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے۔ میرے نام پر گھر تھا جو میں نے 12 لاکھ میں بیچا۔ اس رقم سے میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے نیپال کا ویزا حاصل کیا جس پر تقریباً پچاس ہزار روپے خرچ ہوئے۔
اس بار سیما کا ارادہ نیپال کے راستے انڈیا میں داخل ہونے کا تھا۔ سیما نے دوبارہ سفر کے لیے 10 مئی کا انتخاب کیا، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ تاریخ ان کے لیے خوش قسمت ثابت ہوگی، کیونکہ 10 مارچ کو وہ نیپال میں پہلی بار سچن سے ملی تھیں۔
سیما کہتی ہیں، ’دوسری بار آنا آسان تھا، کیونکہ انٹری، ایگزٹ اور کنیکٹنگ فلائٹس پہلے سے معلوم تھیں۔ میں 10 مئی کو اپنے بچوں کے ساتھ وہاں سے (پاکستان) روانہ ہوئی اور 11 مئی کی صبح کھٹمنڈو پہنچی، پھر پوکھرا گئی اور رات وہیں رہی۔
صبح چھ بجے، میں نے بچوں کے ساتھ دہلی کی بس پکڑی۔ میں نے اپنے شوہر کے طور پر سچن کا نام لکھا۔ سچن نے ٹکٹ بنانے والوں سے بھی فون پر بات کی۔ میں گریٹر نوئیڈا پہنچ گئی‘۔ یہاں سچن ان کا انتظار کر رہا تھا جس کے بعد وہ اسے ربو پورہ میں کرائے کے کمرے میں لے گیا۔
پوکھرا سے دہلی کے لیے ہر صبح بسیں چلتی ہیں۔ تقریباً 28 گھنٹے کے اس سفر میں ہند-نیپال سرحد آتی ہے، جہاں تمام مسافروں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، لیکن سخت حفاظتی نظام میں سیما آسانی سے انڈیا میں داخل ہو گئیں۔
سیما کہتی ہیں، ’سچن نے اپنا پتہ صحیح لکھا تھا۔ بہت پوچھ گچھ ہوئی، بیگ چیک کیے گئے۔ اس نے آئی کارڈ کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ گم ہو گیا ہے۔ میرے بچے بیمار پڑ گئے تھے، یہ تین دن کا سفر تھا۔ میری بڑی بیٹی کو قے آ رہی تھی۔ چیک کرنے والوں کو مجھ پر رحم آیا
سیما کے شوہر غلام حیدر نے سعودی عرب سے اپیل کی ہے کہ ان کی بیوی اور بچوں کو پاکستان واپس بھیج دیا جائے۔ جبکہ سیما کا کہنا ہے کہ ان کی غلام حیدر سے زبردستی شادی کی گئی تھی اور وہ اسے طلاق دے چکی ہیں
وہ کہتی ہیں، ’میں 2013 میں کسی کو پسند کرتی تھی۔ گھر والوں کو یہ بات پسند نہ آئی تو انہوں نے زبردستی میری شادی غلام حیدر سے کروا دی۔ اس وقت میری عمر صرف سترہ سال تھی
سیما کہتی ہیں، ’پاکستان میں بھی اٹھارہ سال کی لڑکی کوئی بھی فیصلہ خود لے سکتی ہے۔ میں آج ستائیس سال کی ہوں۔ میں اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتی ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں عورت ہوں اس لیے میں کسی مرد کو طلاق نہیں دے سکتی
ان کا کہنا ہے کہ انہیں تحریری طلاق نہیں ملی ہے، زبانی طلاق ملی ہے۔ بی بی سی اردو سے گفتگو میں سیما کے سسر میر جان زکھرانی نے الزام لگایا کہ وہ گھر سے بھاگتے ہوئے سات لاکھ روپے اور سات تولے سونا لے گئی ہیں
ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے سیما نے کہا، ’میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ میرے پاس میری ماں کا سونا ہے۔ جسے میں نے اپنے کان اور ہاتھ میں پہنا ہوا ہے۔ جو ان کی ماں کی نشانی تھی
سیما حیدر جس انداز میں انڈیا میں داخل ہوئیں اسے دیکھ کر کئی لوگوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کی جاسوس ہیں
ان کے بھائی کی پاکستان کی فوج میں ملازمت، ان سے چار موبائل فونز کی برآمدگی نے بھی لوگوں کے ذہنوں میں شکوک کو مزید گہرا کر دیا
ان الزامات پر بات کرتے ہوئے سیما نے کہا ’میں جاسوس نہیں ہوں۔ سچن کی محبت میں میں نے گھر کے باہر نکلنا شروع کیا، پاسپورٹ بنوائے۔ ہمیں یہاں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں غریب گھرانے سے ہوں، میں نے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ ہاں، میں انگریزی کے چند الفاظ بول سکتی ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں انگریزی جانتی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں ’میں نے انڈیا میں پولیس سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ پولیس نے جو بھی پوچھا، سب کچھ صحیح بتایا۔ 2022 میں میرے بھائی کی نوکری پاکستان آرمی میں تھی۔ انہیں بہت کم پیسے ملتے ہیں، انھیں صرف 18 ہزار پاکستانی روپے ملتے ہیں۔
تین شناختی کارڈ اور پانچ موبائل کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس پانچ فون تھے، جن میں سے ایک میرا، تین میرے بچوں کا اور ایک سچن کا تھا۔ میرے بچے فون پر کھیلتے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے پاس پاکستان کے تین شناختی کارڈ تھے جن میں ایک میرے والد کا، ایک غلام حیدر کا اور ایک میرا
سیما کا کہنا ہے کہ اب وہ انڈیا میں رہنا چاہتی ہیں اور سچن کے ساتھ خوش ہیں لیکن اپنی بہنوں کو یاد کرکے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں’بہنوں کو سب پیار کرتے ہیں۔ بہنیں بھی یاد آتی ہیں۔ ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹی ہے۔ بڑی کی شادی ہو گئی ہے۔ میرا بھائی چھوٹی بہن کا خیال رکھے گا۔ میرے والد کے جانے کے بعد پاکستان میں میرا کوئی نہیں تھا۔ اب میری شادی سچن سے ہو گئی ہے۔ وہ میرے بچوں کا خیال رکھتے ہیں، میری عزت کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ کافی ہے.‘
اپنے وطن واپسی کے سوال پر سیما جذباتی ہو جاتی ہیں۔ ’میں مر جاؤں گی، ختم ہو جاؤں گی، میں اپنا گلا کاٹ لوں گی، میں زہر کھا لوں گی، لیکن کسی بھی حال میں واپس نہیں جاؤں گی۔ میرے پاس وہاں کچھ نہیں ہے۔‘
سچن مینا بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میں نے سیما سے شادی کی ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں انہیں ہندوستان سے نہیں جانے دوں گا۔
فی الحال ضمانت ملنے کے بعد سیما اور سچن اب ایک ساتھ ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مذاہب اور ملکوں کی سرحدوں کو عبور کرنے والی یہ کہانی آگے کہاں تک پہنچتی ہے
سچن کے دوست کیا کہتے ہیں
انڈیا میں ’لو جہاد‘ پر بنایا گیا بیانیہ بہت دور تک پھیل چکا ہے جس کے تحت کئی قدامت پسند جماعتوں کا ماننا ہے کہ مسلم مرد ہندو عورتوں کو دھوکے سے محبت کے جال میں پھنساتے ہیں
اس پس منظر میں ایک مسلم خاتون کا، اور وہ بھی پاکستان سے، یہ کہنا کہ اس نے اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب تسلیم کر لیا ہے کافی دلچسپی کا باعث ہے اسی دلچسپی کا ثبوت گاؤں میں بارش کے پانی سے بھری گلیوں سے گزر کر آنے والے مقامی لوگوں کی بھیڑ ہے۔
انھی میں سے ایک بوڑھے شخص سے ایک میڈیا پرسن پوچھتے ہیں ’منھ دکھائی دو گے بہو کو؟‘ تو وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا، کیسے دیتا۔‘
تماشائیوں میں سچن کے دوست بھی ہیں، جو خود اپنے دوست کی محبت کی غیر معمولی کہانی سے حیران ہیں۔ موہت مینا کہتے ہیں ’دن رات ساتھ میں رہے ہیں، ساتھ میں کام کرتے ہیں۔ لیکن سچن نے اس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔‘
موہت گاؤں میں گھر گھر پانی پہنچاتے ہیں۔ سیما کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جو معاملے کے سامنے آنے سے پہلے اسی گاؤں میں کرائے پر رہ رہی تھیں، موہت کہتے ہیں، ’یہیں رہ رہی تھیں لیکن ہمیں نہیں پتا چلا۔ ہم ہر گھر جاتے ہیں پانی سپلائی کرنے، کبھی ان کے بارے میں پتا نہیں چلا۔‘
ان کے ایک دوست مولا ٹھاکر بتاتے ہیں کہ سچن ایک شرمیلا شخص ہیں۔ ’بہت سیدھا آدمی ہے، کسی سے ہنسی مذاق تک نہیں کرتا ہے۔‘
لیکن ایک دوست ہونے کے ناتے کیا سچن نے انھیں سیما کے بارے میں پہلے کچھ نہیں بتایا تھا؟
وہ کہتے ہیں ’یہاں سب پب جی کھیلتے ہیں، ہم بھی کھیلتے ہیں۔ اس طرح کچھ ہوگا کسی کو کوئی آئیڈیا ہی نہیں تھا۔ بھائی نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سچن کے اس قدم سے ’ہم بھی تعجب میں ہیں جیسے کہ باقی گاؤں والے۔‘
تعجب کی وجہ اس لیے بھی ہے کہ اگرچہ محض 70 کلومیٹر کی دوری پر ہی انڈیا کا دارالحکومت نئی دہلی ہے لیکن یہ علاقہ اس سے ایک الگ دنیا ہے۔
یہ گاؤں اُبھرتے ہوئے شہر نوئیڈا کے اندر آتا ہے جو کہ خود ہی ایک طرح سے تضادات کا مرکز ہے۔ ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چمکتے شیشوں والے دفاتر اور اونچی رہائشی عمارتیں ہیں، دوسری طرف مذہبی طور پر قدامت پسند دیہات ہیں۔
ان گاؤں والوں میں سے کچھ پرانے زمیندار ہیں، جنھوں نے اپنی زمینیں بیچ کر خوب دولت کمائی اور جن کی زمینوں پر گذشتہ چند دہائیوں میں نوئیڈا جیسا ایک جدید شہر ابھرا ہے۔
لیکن بہت سے لوگ اب بھی غریب ہیں۔ وہ یا تو اپنی زمینیں بیچنے کے بعد رقم کو غیر مناسب طریقے سے ختم کر چکے ہیں یا ان کے پاس بیچنے کے لیے پہلے سے ہی کچھ نہیں تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بے روزگار ہیں یا یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں یا زندگی گزارنے کے لیے آس پاس چھوٹ موٹی نوکریاں کرتے ہیں۔
سچن کے والد قریبی دہلی میں پودے بیچتے ہیں اور سچن اسی گاؤں میں ایک مقامی دکان پر کام کرتے ہیں۔
انڈیا میں انٹرنیٹ کافی سستا ہے جو کہ کم آمدن والے نوجوانوں کو اچھا ٹائم پاس فراہم کرتا ہے۔ اس پس منظر میں پب جی جیسے آن لائن گیمز یہاں کافی مقبول ہیں۔
اسی انٹرنیٹ پر سچن کے گھر کے اندر وہی لائیو انٹرویو جاری ہے۔
سچن کہہ رہے ہیں کہ ’ہم نے یوٹیوب سے ساری جانکاری لی اور۔۔۔‘ لیکن اسی درمیان ان کے والد پھر سے اعلان کرتے ہیں کہ براہِ کرم انٹرویو کو مختصر رکھیں۔
وہ کہتے ہیں ’میڈیا والے اپنی طرف سے سوچ رہے ہیں، ہماری بارے میں کسی نے نہیں سوچا کہ یہ صبح سے بھوکے مر رہے ہیں، زبان تال سے لگ رہی ہے۔‘
پچھلے تین دنوں سے مسلسل بارش ہونے کی وجہ سےگاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ سچن اور سیما پسینے سے شرابور ہیں لیکن وہ سنجیدگی سے جواب دے رہے ہیں۔
اسی اثنا میں سچن کے والد غصے میں واپس لوٹتے ہیں اور لائیو انٹرویو کو روک کر بیچ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور سیما اور سچن کو دوسرے کمرے میں جانے کو کہتے ہیں۔
لیکن بھیڑ کمرے کے اندر بھی داخل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد سچن کے والد ان دونوں کو گھر اور محلے کی دیگر خواتین کے ساتھ دوسرے کمرے میں شفٹ کر دیتے ہیں لیکن لوگ پھر بھی اندر آ جاتے ہیں۔ وہ چلاتے ہیں کہ ’کیا زبردستی ہے یہ؟‘
وہ غصے میں کہتے ہیں ’تم سب باہر بیٹھ جاؤ، ہاتھ جوڑ رہا ہوں۔ اگر نہیں مانو گے تو اسے بھی مار دوں گا اور میں بھی مر جاؤں گا۔۔۔ سبھی پھنس جاؤ گے۔۔۔ بہت بُرا ہو جائے گا، بتا رہا ہوں میں۔‘
سچن تازہ ہوا کے لیے مختصر لمحے کے لیے باہر آتے ہیں کہ ان کے سامنے پھر ایک مائیک آتا ہے۔ ان کے والد پھر سے لوگوں کو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام ہو جاتے ہیں۔ سچن اندر جا کر کمرہ بند کر لیتے ہیں۔
شام ہونے کو ہے۔ بارش تھم چکی ہے۔ لیکن متجسس لوگوں کی آمد اب بھی جاری ہے۔