کراچی میں زیرِ تعمیر بحریہ ٹاؤن اور سندھ کا مستقبل (قسط 10 – آخری)

گل حسن کلمتی

باب دوئم: کراچی میں تعمیر شدہ و زیر تعمیر رہائشی اسکیمیں

شہری حکومت ختم ہونے کے بعد اور سندھ میں شدید احتجاج کے بعد منصوبے پر عمل درآمد روکا گیا۔ 2007ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو مفاہمتی پالیسی کے تحت ایم کیوایم کو حکومت میں شامل کیا گیا.

وژن 2020 کو مکمل کرنے کے لیے دوسرے راستے اختیار کئے گئے اور وژن 2020 کا پورا پلان بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کے حوالے کیا گیا ہے جس کے نگران وژن 2020 کے خالق مصطفیٰ کمال ہیں. جو دبئی میں بیٹھ کر پورے منصوبے کی نگرانی کر رہے ہیں۔

Image Source : https://www.scribd.com/doc/6788059/Karachi-Master-Plan-2020

دوسری جانب حکومت کی سرپرستی میں نئی سبزی منڈی سے ناردرن بائی پاس کے دونوں کناروں پہ نیشنل ہائی وے پر چوکنڈی قبرستان سے دیہہ دھابیجی تک سرکاری زمین پر پرانے گوٹھوں کے نام پر لینڈ مافیا سرگرم ہوگئی ہے۔ ہزاروں ایکڑ سرکاری زمینوں پر گوٹھوں کے نام پر قبضے کرکے انہیں غیر مقامیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بے ترتیب کچی آبادیاں آ گے چل کر ایک الگ مسئلہ پیدا کر یں گی۔اس پورے عمل میں کچھ منتخب نمائندے اور کچھ قوم پرست جماعتیں ملوث ہیں۔ حکومت اور منتخب نمائندے پلاننگ سے ان بستیوں کو آباد کرنے اور انہیں قانونی شکل دینے کے بجائے یہ سب کچھ غیر قانونی طریقے سے کر رہے ہیں اور گوٹھوں کے نام ان آبادیوں کو اسناد دینے کا پروگرام ہے کیوں کہ اس کام میں ریونیو ڈپارٹمنٹ سے لے کر وزراء اور مشیروں کو لاکھوں روپے مل رہے ہیں، جو عمل وژن 2020 سے زیادہ خطرناک ہے. دیہہ کھدیجی، دیہہ آب دار، دیہہ بائل اور دیہہ کاٹھوڑ میں ملیر ندی سے سکن ندی تک ڈیفنس ہاؤسنگ اسکیم (DHA ) کے لئے 18868 ہزار ایکڑ زمین دی گئی، جس پر کام جاری ہے، جس کے لیے کچھ سال قبل جب مقامی لوگوں نے عدالت کا دروزاہ کھٹکھٹایا تو عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ گوٹھوں اور مالکانہ زمینوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ تمام زمین اٹھارٹی کو دی جائے. یہ زمین حکومت سندھ سے فقط ایک لاکھ روپے فی ایکڑ حاصل کی گئی ہے۔ مقامی دیہاتی اس زمین کے دو لاکھ روپے فی ایکڑ دینے کے لئے تیار تھے۔ یہ ساری زمینیں انگریزوں کے وقت سے مقامی لوگ لیز پر حاصل کرکے زراعت کر تے تھے۔ لیز کی مد میں وہ حکومت کو لاکھوں روپے بھی دے چکے ہیں پھر بھی انہیں مالکانہ حقوق نہیں مل پار ہیں، اور ایسا صرف ملیر میں ہوا ہے.

ڈی ایچ اے(DHA) سٹی کو جو زمین الاٹ کی گئی ہے، اس کی تفصیل ذیل میں پیش کی جاتی ہے

°دیہہ کھدیجی دیہہ آبدار 5136 ایکڑ
°دیہہ آبدار 5732 ایکڑ
°دیہہ بائل  7000 ایکڑ
°دیہہ کاٹھوڑ 1000 ایکڑ
°ٹوٹل 18868 ہزار ایکڑ

ملیر کینٹ کے لئے ممتاز بھٹو کی قائم مقام وزارت اعلیٰ کے دور میں دیہہ کونکر اور دیہہ ڈانڈو میں 5000 ہزار ایکڑ زمین دی گئی۔ یہ زمین ڈیفنس ہاؤسنگ اسکیم کے علاوہ ہے۔ ان اسکیموں میں 35 دیہیں اور ضلع ملیر کی 28 دیہیں جو دیہات میں تھی، مختلف رہائشی اسکیمیں بنا کر شہر میں شامل کی گئی ہیں۔ وژن 2020 کے علاوہ شہری حکومت کی طرف سے کیاماڑی ٹاؤن میں کراچی کے مغربی ساحل سمندر پر ایک دوسرا جدید شہر تعمیر کرنے کا منصوبہ 2006ء سے شروع کیا گیا ہے۔ اس شہر کو ’’کرا چی واٹر فرنٹ شوگر لینڈسٹی‘‘ کا نام دیا گیا ہے ل۔ کیاماڑی ٹاؤن کے نو دیہوں میں سے 40 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے، جس میں سے 21 ہزار ایکڑ زمین مقامی لوگوں کی لیز کو منسوخ کرکے حاصل کی گئی، جہاں مقامی لوگ زراعت اور پولٹری فارمنگ کرکے روزگار کرتے ہیں۔ دبئی کی ایک کمپنی لمٹ لیس (Limitless) کی جانب سے 68 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جاۓ گی۔ اس منصوبے سے 102 گوٹھ اور ایک لاکھ 25 ہزار لوگ متاثر ہوں گے۔ ڈنگی اور بھنڈار جزائز کی بات بھی اتنی پرانی نہیں جہاں دبئی کی عمار کمپنی کی سرمایہ کاری سے ’ڈائمنڈ بار آئی لینڈ‘ شہر تعمیر کرنے کا منصو بہ تھا۔ ڈنگی اور بھنڈار ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کے نزدیک دو قدرتی جزائر ہیں۔کورٹ میں معاملہ جانے کے باعث وقتی طور پر خاموشی ہوگئی لیکن اس پروجیکٹ کو ختم نہیں کیا گیا تھا۔ اب جب عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو یہ زمین آدھی آدھی دے دی ہے، تو پاکستان پیپلز پارٹی نے دونوں جزیروں میں شہر بنانے کا منصو بہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے سپرد کیا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پورا سندھ لیز پر ملک ریاض کے حوالے کر دیا ہے۔

1996ء سے 2008ء تک مختلف اسکیموں کے لیے دیہی کراچی کی جو زمینیں حاصل کی گئی ہیں، ان کی تفصیل ذیل میں پیش خدمت ہے:

°گڈاپ ٹاؤن
دیہہ کا نام ۔۔۔ کل اراضی
1- کھر کھرو – 9564.33 ایکڑ
2۔ ٹَوڑ – 5673.22 ایکڑ
3-ملھ ۔ 2000 ایکڑ
4۔ تھانو ۔ 3000 ایکڑ
5- سور جانی – 5960.9 ایکڑ
6- ہلکانی – 7050.36 ایکڑ
7- جام چکرو ۔ 4601.27 ایکڑ
8- تائیسر – 5002.27 ایکڑ
9۔ شاہ مرید – 1055.6 ایکڑ
10- بجار بُٹھی ۔ 7167 ایکڑ
11- ناگن – 5298 ایکڑ
12۔ موکھی – 3446 ایکڑ
13۔ منگھو پیر – 4059 ایکڑ
14- بند مرادخان – 9354 ایکڑ
15- حب – 3744 ایکڑ
16- میٹھان – 2359 ایکڑ
17-مائی گاڑھی۔ 3558.22 ایکڑ
18- ناراتھر – 11464.13 ایکڑ
19- لوھارکو لنگھ – 7730 ایکڑ
20-اللہ پھہائی 9685.37 ایکڑ
21-مہیو – 5403 ایکڑ
22۔ مٹھان گھر – 8511 ایکڑ
23- مانڈڑو – 11073 ایکڑ

°بن قاسم ٹاؤن
1- ڈانڈو – 14184 ایکڑ
2۔ گھگھر -18849 ایکڑ
3- جوریجی – 22577 ایکڑ
4۔ کوٹیرڑو – 11685 ایکڑ
5- گانگیارو – 5134 ایکڑ
6- کھانٹو ۔ 5397 یکڑ
7-لانڈھی ۔ 4504 ایکڑ
8- ابراہیم حیدری – 3782 ایکڑ
9- ریڑھی – 5158 ایکڑ

°کیاماڑی ٹاؤن
1- اللہ بنوں – 10,055 ایکڑ
2- چھتارا – 5361 ایکڑ
3- گابو پٹ – 5288 ایکڑ
4۔ گوند پاس – 4018 ایکڑ
5-لال بکھر – 19680 ایکڑ
6-من – 4712 ایکڑ
7- میندھیاری – 5948 ایکڑ
8- مواچھ – 31105 ایکڑ
9۔ موچکو – 5866 ایکڑ

ان دیہوں میں صرف گوٹھ والی زمین اور سروے والی زمینیں بچی ہوئی ہیں، باقی سب حکومت نے حاصل کرلی ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو 92 دیہوں میں اب جو دیھیں بچی ہیں، وہ 2013ء میں ملیر اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو الاٹ کی گئی ہیں۔ اب کراچی دیہی علاقہ نہیں رہا، زرعی اور وائلڈ لائیف کی زمینیں MDA اور LDA کو دی گئی ہیں۔ یا اکثریتی لیز والی زمینیں ہیں۔کسی بھی وقت انہیں مختلف اسکیموں کے لیے حاصل کیا جاۓ گا۔ یہاں کے لوگوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے یہ امید اور خیال تھا کہ ان کی چھینی گئی زمینیں واپس کی جائیں گی۔ ملیر سمیت کراچی کے دیگر اضلاع کو بحال کیا جائے گا۔ کراچی کے گوٹھ دشمن ادارے ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی اور لیاری ڈولپمنٹ اتھارٹی کو ختم کیا جاۓ گا، لیکن خواب سراب نکلے۔ پوری الیکشن مہم لیڈروں نے ان نکات پر چلائی، لیکن حکومت مصلحت پسندی کے باعث کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ سارا کام اسی رفتار سے جاری رکھا۔ ایم ڈی اے (M.D.A) کے ایم ڈی امیر زادہ کوہاٹی ریٹائرمنٹ کے بعد اس سیٹ پر کئی برس برقرار رہنے کے بعد دبئی فرار ہو گئے۔ بڑی بڑی باتیں اور دعوے غبارے میں سے ہوا کی مانند نکل گئے۔ کراچی کو پاکستان پیپلز پارٹی نے جیسے بھلا دیا۔اگر پاکستان پیپلز پارٹی یہاں اپنی سیاسی قوت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، تو پھر کچھ بولڈ فیصلے کرنے پڑیں گے۔ وژن 2020، بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے، فضائیہ ٹاؤن اسکیم، جزائر کی تعمیرات کے مسائل ختم کرنے پڑیں گے۔ کیوں کہ اس پورے پلان میں اصل اور مقامی لوگوں کو کسی بھی اسٹیج پر شامل نہیں کیا گیا ہے۔ شوگر لینڈسٹی، تائیسر اسکیم، ڈفینس ہاؤسنگ اسکیمیں بھی ختم کرنی پڑیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ کراچی کی زراعت، زرعی زمینوں کو ہمیشہ کے لیے بچانا ضروری ہے تو یہ تمام زمینیں جو لیز پر مقامی لوگوں کے پاس ہیں انہیں ارزاں نرخ پر مالکانہ حقوق دے کر ان زمینوں کو ہمیشہ کے لیے صرف زراعت کے لیے وقف کیا جائے۔ پورٹ قاسم اور KPT کی طرف سے اضافی لی گئی زمینیں واپس کرکے اصل مالکان کو دی جائیں اور تمام گوٹھوں کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں دے کر انہیں پختہ کیا جائے۔ جعلی گوٹھوں کو ختم کرنے کے لئے اقدام اٹھائے جائیں۔ ان اقدامات سے، یہاں کے لوگوں میں جو بےچینی اور تنہائی موجود ہے، اسے کسی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے.

دڑبو بندر کے نزدیک لیاری ندی کے پرانے ڈیلٹا والے مقام ’کلا کے بھنور یا کلاچی کے بھنور‘‘ کی طرف جب 1723ء میں سیٹھ بھوجو مل نے کاروبار کے لیے اپنے خیمے گاڑے، تو یہ خطہ جو چھوٹی بندرگاہوں اور زراعت پر مبنی علاقہ تھا، اس نے ترقی کا سفر شروع کیا اور آج وہ ’’میگاسٹی‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس پوری ترقی میں سندھ کے دارالحکومت کے شہر کے پرانے باسی فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھویں، کنکریٹ کے جنگل، سیمنٹ فیکٹریوں کی گرد میں کہیں نظر نہیں آتے۔ ان کی طاقت ور آواز کلاشن کوف کی گھن گرج، ترقی کے نام پر جاری اسکیموں کے بلڈوزروں کے شور میں کہیں گم ہوگئی ہے۔شاید اس کے بعد کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہاں کے اصل اور مقامی لوگ صرف تاریخ کے اوراق میں رہ جائیں گے!

(اختتام)



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close