اسکردو، جگلوٹ، داسو کی تھکا دینے والی مسافت طے کرنے میں تقریباً آٹھ (8) گھنٹے لگیں گے (اب جبکہ نئی سڑک زیر تعمیر ہے، یقیناً یہ فاصلہ کم وقت میں طے ہوگا) جبکہ گلگت اسلام آباد کی مسافت سولہ گھنٹے کی ہے البتہ ہوائی جہاز راولپنڈی سے یہی مسافت پچاس (50) منٹ میں طے کرتا ہے۔ مجھے ایک بار ہوائی جہاز سے راولپنڈی سے گلگت تک کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے
پچاس منٹ کی یہ پرواز ایسے ایسے مناظر دکھاتی ہے کہ انسان دم بہ خود رہ جاتا ہے۔ مبہوت ہی نہیں ہوتا بلکہ قدرت کے حسن میں ایسا کھوتا ہے کہ وقت کا احساس ہی نہیں رہتا۔ جہاز راولپنڈی سے اڑ کر مشرق کا رخ کرتا ہے۔ مارگلہ ہلز جیسے جیسے بلند ہوتی ہیں جہاز بھی اپنی اٹھان جاری رکھتا ہے۔ جہاز کی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھیں تو نیچے اسلام آباد/ روالپنڈی کا جڑواں شہر، سرسبز مارگلہ ہلز اور وادیاں ہیں۔زمین پر بنے مکان ننھے ننھے سے کھلونے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاز ناران کا رخ کرتا بابو سر ٹاپ سے تقریباً سولہ ہزار (16000) فٹ سے زیادہ کی بلندی پر پرواز کرتا شمال کی جانب سفر جاری رکھتا ہے۔ بابو سر ٹاپ کراس کرکے جہاز دریائے سندھ کے اوپر اڑتا ہے کہ راستہ نہ بھٹکے۔ میرا دوست سندھو جہازوں کو بھی راستہ دکھاتا ہے۔ ارد گرد کے برف پوش پہاڑ اس پرواز سے کافی بلند ہیں۔ چٹیل پہاڑوں پر 2 مقامات پر یہ پرواز تنگ گھاٹیوں میں انگریزی حرف ”ایس“ کی طرح بل کھاتی محو پرواز رہتی ہے۔ جہاز کی کھڑکیوں سے باہر جھانکتے مسافر بدلتے مناظر کے سحر میں کھو ئے رہتے ہیں۔ سبحان اللہ؛ دھند میں چھپے برفیلے پہاڑ، ان کی چوٹیوں سے اٹھتا دھواں۔۔ مقامی روایت کے مطابق ان چوٹیوں پر رہنے والی پریاں جب کھانا بناتی ہیں تو یہ دھواں اٹھتا ہے۔ (سادگی اور معصومیت کی انتہا ہے) نانگا پربت کی چوٹی تو جیسے آسمان کو چھوتی ہے۔ جونہی جہاز نانگا پربت کی چوٹی قریب پہنچتا ہے مائیکرو فون پر پائیلٹ کی آواز بھی کانوں میں پڑتی ہے؛ ”ہمارے دائیں جانب آٹھ ہزار ایک سو پچیس (8125) میٹربلند نانگا پربت کی برف پوش چوٹی آپ کو خوش آمدید کہہ رہی ہے۔“ بلندی سے اس پہاڑ کا نظارہ ناقابل بیان ہے۔ بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ دیکھنے والے کی زبان گنگ، آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے، سبحان اللہ۔ واہ اللہ تیری شان ہے۔ جہاز نانگا پربت کی بلندی سے کہیں نیچے پرواز کرتا ہے اور سندھو دور نیچے سولہ ہزار (16000) فٹ کی گہرائی میں باریک سی لکیر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ جہاز تیزی سے دائیں گھومتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا پیٹ کسی پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں بس گلگت ہوائی اڈے کی آمد ہے۔ نانگا پربت گزرتا ہے تو جہاز لینڈنگ کے لئے اترائی شروع کر دیتا ہے۔ اپنے پیچھے یہ ریت کے مرغالے اڑاتا، دریائے گلگت کے اوپر سے گزر کر گلگت کے پیالہ نما ہوائی اڈے پر اترتا ہے۔ دنیا کا یہ مشکل ترین فضائی سفر دنیا کے حسین ترین نظارے دکھاتا ہے۔ عام ڈرائیور کی طرح یہاں عام پائلٹ بھی نہیں آتے ہیں۔ پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائن (پی آئی اے) کے جہاز اپنے بہترین اور کہنہ مشق ہوا بازوں کے ساتھ ہی یہاں کی اڑان بھرتے ہیں۔ موسم کے باعث یہاں کئی کئی دن اور بعض دفعہ کئی کئی ہفتے بھی پروازیں معطل رہ سکتی ہیں لیکن اب جدید دور کے ہوائی جہازوں کی موجودگی میں ایسا کم کم ہی ہوتا ہے
سکردو دور پیچھے رہ گیا ہے۔سامنے سندھو پر تعمیر کردہ ایک سو بتیس (132) میٹر طویل ’ساپر شہید بیلی سسپنشن برج‘ ابھر رہا ہے۔ پرانے جھومتے پل کی جگہ اب نیا جدید پل تعمیر کر دیا گیا ہے، جس سے اب دو طرفہ ٹریفک گزرتی ہے۔ نئے دور کی نئی ایجادات نے زندگی سہل کر دی ہے۔ اس پل سے پہلے سندھو اپ اسٹریم کافی چوڑائی میں بہتا اس مقام پر تقریباً 100 میٹر چوڑی تنگ گھاٹی میں داخل ہو کر سنگلاخ چٹانوں سے سر ٹکراتا شور مچاتا ہرموش وادی کی جانب بہتا ہے۔ سکردو میں سندھو نے جو خاموشی اختیار کی تھی، یہاں وہ اس شدت سے توڑتا ہے جیسے خاموشی نام کے لفظ سے واقف ہی نہ ہو۔ یہ شور دراصل شاید احتجاج ہے کہ ”کیوں مجھے پھر سے 2 بلند پہاڑوں کے درمیان قید کر دیا ہے؟“ ہم کئی کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پل کے اوپر سے جبکہ دریا سینکڑوں کلو میٹر کی رفتار سے پل کے نیچے بہتا ہے۔ یہاں سے رائے کوٹ برج تک یہ ہمارے بائیں ہاتھ ہی بہے گا۔ اب سکردو گلگت شاہراہ کی نئے سرے سے allignent کرکے خطرناک موڑوں اور دشوار چڑھائیوں کو آسان بنا دیا گیا ہے۔ نئے پل تعمیر کر دئیے گئے ہیں تاکہ سفر آسان اور اس کا دورانیہ بھی کم کیا جا سکے۔ جب میں یہاں سے گزرا تو شاہراہ کی تعمیر کا لگ بھگ ستر اسی فی صد کام مکمل ہو چکا تھا۔ امید ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے عمدہ سڑک آپ کے سفر کی منتظر ہوگی۔ سڑک دل دہلاتی، داد دلواتی، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے نظارے دکھاتی گزرتی ہے
سکردو سے آگے راستہ زیادہ خطرناک وادیوں سے گزرتا ہے جبکہ سندھو عظیم گھاٹیوں کے درمیان سے بہتا ہے۔ میلوں تک جھاگ اڑاتا پانی یا عمودی چٹانوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ سارا راستہ عجیب مناظر دکھاتا ہے۔ کہیں چٹیل پہاڑ ہیں تو کہیں ان کی ڈھلوانوں سے لٹکے ہرے بھرے کھیت، کہیں شیریں پھلوں کے درخت ہیں تو کہیں جنگلی پھول کھلے ہیں، کہیں خشک میوہ جات کے باغات ہیں تو کہیں سبزہ، کہیں انسانی بستیاں اور آبادیوں کو جاتی بل کھاتی پگڈنڈیاں اور کہیں ان بستیوں کو جاتے اونچے نیچے کچے تنگ اور دشوار راستے ہیں تو کہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر پتھر کی بنی چھوٹی چھوٹی عارضی کمین گاہیں جو دراصل اُن کوہ کنوں کے عارضی ٹھکانے ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ان پہاڑوں سے قیمتی پتھر اور دوسری معدنیات نکالتے ہیں۔یہ پہاڑ بھی اتنی آسانی سے خود کو کھودنے نہیں دیتے، ڈراتے ہیں، غراتے ہیں۔ کوئی نہ ڈرے تو انتظار میں رہتے ہیں کہ کب کوئی غلطی کرے اور وہ بدلہ چکا لیں۔ سارے راستے میں ایک قدر مشترک ہے۔ شور مچاتا سندھو۔۔ اونچے پہاڑ، سنگلاخ چٹانیں، ٹانواں ٹانواں ہریالی اور پہاڑ کے گرد تراشی گئی سرمئی ویران سڑک اور سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ان جوانوں کے ناموں کے کتبے جو ان پہاڑوں کی غراہٹ اور سنگ باری کا شکار ہو گئے۔ کچھ ان چٹانوں کو بارود سے اڑانے کی کوشش میں ان چٹانوں کی بلی چڑھ گئے اور کچھ کو سنگ دل سندھو نگل گیا۔
ان پہاڑوں اور سندھو کی دوستی بہت گہری اور انسانی یاد سے بھی پرانی ہے۔ یک جان دو قالب والی بات ہے۔ مجھے تو ایسے لگا جیسے یہ فلک بوس پہاڑ سندھو کی حفاظت پر صدیوں سے معمور ہیں۔ سڑک کبھی اونچائی کی حدوں کو چھوتی ہے تو کبھی انتہائی نشیب میں اترتی سندھو کے متوازی دوڑنے لگتی ہے۔ کہیں پہاڑ رنگ بدلتے ہیں تو کہیں چٹانیں۔ کہیں پہاڑ کی کھوہ میں انسان خزانے اور پانی سے سونا تلاش کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں کھیتیاں اگاتے۔ کہیں لبِ سڑک بستیاں ہیں تو کہیں سندھو کے پار آبادیاں، کہیں پہاڑ کی ڈھلوانوں کی زینت بنے کھیت ہیں تو کہیں پھلوں کے باغات۔ سڑک اور سندھو دونوں ہی پہاڑ کے گرد بل کھاتے ہیں۔ کہیں پہاڑی نالوں سے بجلی پیدا کی جاتی ہے تو کہیں یہ آب پاشی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ کہیں میرے دوست سندھو میں اٹکے بڑے بڑے پتھروں سے سندھوکا پانی ٹکراتا اچھلتا جھاگ اڑاتا لمحہ بھر کے لئے رکتا اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ان پتھروں اور سندھو کا ساتھ بھی جنم جنم سے ہے۔گول، چوڑے، نوکیلے، چھوٹے بڑے پتھر آپ کو سندھو کی ابتداء سے کالا باغ تک اکثر مقامات پر تواتر سے نظر آئیں گے۔ اگر دریا سڑک کے ساتھ بہتا شور نہ مچائے تو یقین کیجئے مسافروں کے کان خاموشی سے دکھنے لگیں اور اتنا سناٹا ہو کہ انسان خود سے ہی ڈر جائے۔ نین خاموش ہے اور شاید ڈری ہوئی بھی پر مانتی نہیں۔ نہ ماننا بھی ایک فن ہے جو کوئی خواتین سے سیکھے۔
موسم میں کچھ حدت ہے۔ کہتے ہیں میدانی علاقوں میں گرمی زیادہ ہوتی ہے لیکن قدرت دیکھیں اونچی بلندیوں پر دھوپ کا درجہِ حرارت اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ سندھو کی گزر گاہ کے ساتھ بنجر پہاڑوں پر کوئی سایہ نہیں اور یہاں چٹانیں گرمی کے موسم میں بھٹی بن جاتی ہیں۔یہ بھی قدرت ہی ہے جو دن کو تکلیف دہ گرمی برساتی ہے تو رات کاٹ کھانے والی سردی میں بدل دیتی ہے۔
ہم ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد”استک“ پہنچے ہیں۔ یہ تاریخی جگہ ہے۔ یہاں پرانے محلات اور ’ٹی ڈی سی پی‘ کا جدید موٹل ہے۔ رہنے کی آرام دہ جگہ۔ استک بستی سندھو کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ استک کے ارد گرد بھی خطرناک موڑ اور دل دھلا دینے والی اترائیاں اور چڑھائیاں ہیں۔ اب یہ سارے بل ایف ڈبلیو او نے نکال دئیے ہیں۔ سڑک کو سیدھا اور چوڑا کرنے، ان موڑوں اور چڑھائیوں کو آسان بنانے کے لئے بلاسٹنگ کی گئی تھی اور رات ہونے والی بارش کے بعد سلائیڈنگ نے سڑک پھر سے بلاک کر دی ہے۔ شاہراہ کب کھلتی ہے ایف ڈبلیو او کا کیپٹن جہاں داد حتمی طور پر بتانے سے قاصر ہے۔ ہم پہنچے تو پہلے سے ہی کچھ گاڑیاں سڑک کنارے سڑک کھلنے کے انتظار میں ہیں۔ ہمیں یہ وقت سڑک کنارے کھلے آسمان تلے گزارنا ہے۔ یوں ہم بھی اس کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال آئے ہیں۔ ان علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ بہرحال ایک چیلنج ہے اور دوران سفر ایسی مشکلات سے دو چار ہو سکتے ہیں اور یہی اس سفر کی ایک اور سنسنی بھی ہے۔ ہمارے پاس کچھ خشک خوراک ہے جو ہمارے کام آئی اور محمد علی نے فون کرکے استک یونین کونسل کے سیکرٹری محمد ایوب قاچو کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دی ہے۔ اُسے فون کیا تو چند منٹ میں ہی پہنچ گیا ہے۔ بھائی جان قیس کے پوچھنے پر وہ بتانے لگا؛ ”سر! ستک میں ’راجہ ستک سنگھے‘ نے قلعہ تعمیر کیا اور وہ (1220 تا 1250) تک یہاں کے حکمران رہے۔ اس قلعے کے کھنڈر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ علاقہ ’روندو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ روندو یہاں کا مشہور قبیلہ ہے جو اپنی بہادری کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ اس جگہ کا درست نام ’ستک‘ ہے، نہ جانے کیوں یہ استک کہلانے لگا ہے۔ میرا تعلق شاہی مقپون خاندان سے ہے۔“ اس نے چائے سے ہماری پر تکلف تواضع کی۔ آپ جب بھی یہاں کا سفر اختیار کریں کچھ خشک خوراک اور پانی کی بوتلیں اپنے ساتھ ضرور رکھیں۔
میرے دائیں ہاتھ سے استک نالہ دور پہاڑوں سے بہتا پل کے نیچے سے گزر کر سندھو میں گم ہو جاتا ہے۔ استک نالے جیسے سینکڑوں نالے (جیسے ٹھک، سمر، شنگش، ڈامبو داس نالے وغیرہ) سندھو میں اپنا صاف و شفاف پانی لاتے اور پھر اس کے گدلے پانی میں گم ہو جاتے ہیں)۔ یہاں ڈھابہ ہوٹل میں گرم گرم چائے کی پیالی کے ساتھ تندور کی گرم روٹی کا اپنا ہی لطف ہے۔ میں تو جب بھی یہاں سے گزرا ہوں گرما گرم چائے اور تندوری روٹی سے ضرور لطف اندوز ہوا ہوں۔ استک اس راہ گزر پر میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ قریب سے بہتا ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا استک نالہ شور مچاتا، جھاگ اڑاتا اور چھینٹے اڑاتا، چٹانوں سے ٹکراتا بہتا ہے۔ ہلکی ہوا نے ابھی بھی موسم میں تازگی اور خوش گواری قائم رکھی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔