حکومت نے فوج کے تعاون سے ملک میں زرعی انقلاب کے منصوبے ’گرین اینیشیٹو‘ کا اعلان کیا ہے۔ تاہم کسان تنظیموں اور قانونی ماہرین نے اس منصوبے پر عمل درآمد اور فوج کی شمولیت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے
منصوبے کے تحت ملک میں زرعی شعبے میں سرمایہ کاری، پیداوار میں اضافے کے لیے جدت اور ہائبرڈ بیج متعارف کرانے کے علاوہ زرعی شعبے میں شمسی توانائی اور پن بجلی کا استعمال بھی شامل ہے
اس حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ یہ آئیڈیا درحقیقت آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ہے
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے آئیڈیا سے بننے والے اس منصوبے کی نگرانی ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹیجک پراجیکٹس میجر جنرل شاہد نذیر کریں گے
انہوں نے میڈیا کو بتایا ”پاکستان کے مختلف زرعی منصوبوں کے لیے سعودی عرب 500 ملین ڈالرز فنڈ کے ساتھ جبکہ چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین بھی تعاون کر رہے ہیں جس سے یقیناً ہماری برآمدات میں اضافہ ہوگا“
میجر جنرل شاہد نذیر کہا ”مختلف شعبوں کے ماہرین، وسائل و ذخائر، جدید ٹیکنالوجی اور آب پاشی نظام کے مناسب استعمال سے پاکستان کی زراعت میں ایسی ترقی لائی جائے گی جس سے ملک کے ہر خطے میں نہ صرف خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا بلکہ خوراک کی حفاظت اور ضرورت کے مطابق ذخیرہ اندوزی بھی کی جائے گی“
دوسری جانب پاکستان میں کسانوں کی تنظیموں کو گلہ ہے کہ فوج کو ایسے منصوبوں میں شامل کرنے کے بجائے چھوٹے کاشت کاروں کو مراعات دی جائیں تو پاکستان میں سبز انقلاب آ سکتا ہے
’یہ کارپوریٹ فارمنگ کا ہی دوسرا نام ہے‘
آل پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق طارق سمجھتے ہیں کہ ’گرین انیشیٹو پاکستان‘ بنیادی طور پر کارپوریٹ فارمنگ کا ہی دوسرا نام ہے
اُنہوں نے کہا کہ یہ کسانوں کے حقوق کی نفی ہے۔ اِس سے قبل بھی کارپوریٹ فارمنگ کی کوشش کی گئی تھی، جسے عدالتِ عالیہ نے روکا ہے
واضح رہے کہ عدالتِ عالیہ لاہور نے حال ہی میں پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے فوج کو پینتالیس ہزار ایکڑ زرعی زمین بیس سال کے لیے دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق نگراں حکومت اور فوج کا یہ کام اُن کے دائرہ اختیار سے باہر ہے
عدالتی فیصلے کے مطابق آرٹیکل 245 کے مطابق پاکستانی فوج یا اس سے منسلک ادارے کارپوریٹ ایگری فارمنگ منصوبے میں شامل ہونے کا آئینی حق نہیں رکھتے۔ لہٰذا تمام زمین اس کی سابقہ حیثیت کے مطابق حکومت، محکموں اور افراد کو واپس کر دی جائے
اس عدالتی فیصلے کے کچھ روز بعد اب وفاقی حکومت نے فوج کی شمولیت کے ساتھ ’گرین انیشییئیٹو‘ کا منصوبہ شروع کیا ہے، جس کا آئیڈیا بقول وزیر اعظم شہباز شریف ، آرمی چیف نے دیا ہے
فاروق طارق نے الزام عائد کیا کہ اس منصوبے کا مقصد جاگیرداروں، زرعی کارپوریشنز اور عرب کمپنیوں کو نوازنا ہے
اُن کہنا ہے ”یہ پروگرام چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے خلاف ایک منصوبہ ہے جس سے پاکستان کی زراعت ترقی نہیں کرے گی لیکن ملک کے سرمایہ دار طبقات اور کارپوریشنز مزید مضبوط اور امیر ہو جائیں گی“
‘زراعت صوبائی معاملہ ہے’
قانونی ماہر احمد رافع عالم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کا ملک میں زراعت کی پیداوار سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے، جن کے اپنے زراعت کے محکمے ہیں
رافع عالم کہتے ہیں ”اگر ملک میں فوڈ سیکیورٹی اور پیداوار کی کم شرح کا مسئلہ ہے تو کاشت کاروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔“
احمد رافع عالم کا کہنا تھا کہ پالیسیوں میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اگر فوڈ سیکیورٹی کے خدشات ہیں تو چھوٹے کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اُن کے بقول کسانوں کو کام کرنے دیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی فوج کو اِس میں مڈل مین کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے
فاروق طارق بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں سرکاری بنجر زمینوں کے نام پر یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ ملک میں بے شمار زمینیں بنجر پڑی ہوئی ہیں۔ یہ زمینیں سرمایہ کاروں اور جاگیردار طبقے کے بجائے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو دینی چاہیے
فاروق طارق کا کہنا ہے کہ اِس سے قبل 60 کی دہائی میں بھی پاکستان کو ایک نام نہاد زرعی انقلابی منصوبہ دیا گیا تھا، جس میں ٹریکٹر، کھادوں اور ادویات کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا تھا، جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں
واضح رہے کہ گرین پاکستان انیشیٹو پروگرام کے حوالے سے منصوبے کی نگراں ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹیجک پراجیکٹس میجر جنرل شاہد نذیر کا کہنا تھا ”پاکستان کے پہلے سبز انقلابی منصوبے کا آغاز 60 کی دہائی میں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں نئی ٹیکنالوجی، نہری نظام، بیچ اور کیمیکل فرٹیلائزرز کو متعارف کروا کے اناج کی پیداوار میں تین گنا اضافہ کیا گیا“
زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کھاد کی کم نرخوں پر دستیابی، کسان کو کم نرخوں پر بجلی اور پانی کی فراہمی، منڈیوں تک آسان رسائی اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کر کے نہ صرف پاکستان کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ زرعی اجناس کو برآمد کر کے زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے
پاکستان میں زراعت کے شعبہ سے جُڑے افراد اِس پروگرام کو اہم سمجھتے ہیں۔ کچھ ماہرین کی رائے میں اگر اِس منصوبے میں جدید طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف بنجر زمین کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ پاکستا ن کے لیے بھی سودمند رہے گا
محکمہ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد انجم علی کی رائے میں یہ منصوبہ بہت زبردست ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کے شعبہ زراعت میں نئی تبدیلیوں اور نئے طریقۂ کار کی ضرورت ہے۔ اِس کے ساتھ جدید مشینری کے استعمال، اس کا فروغ اور زمین کی مزید بہتری کی ضرورت ہے
اُن کا کہنا تھا کہ زراعت کے شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے زمینوں کو بہتر بنانے اور زیر کاشت لانے کی ضرورت ہے
زرعی انقلاب کے منصوبے ’گرین پاکستان اینیشیٹو‘ پر کتنا عمل درآمد ممکن ہے؟
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ حکومتی سطح پر ’زراعت میں انقلاب‘ لانے کے پروگرام کا اعلان کیا گیا ہو۔ ماضی میں بھی متعدد حکومتوں کی جانب سے اس طرح کے منصوبے متعارف کروائے جاتے رہے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’گرین پاکستان انیشیٹو ‘ پایہ تکمیل تک پہنچے گا اور اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا؟
مظہر گردیزی ٹاٹے پور، تحصیل ملتان صدر میں ایک وسیع رقبے پر متعدد اجناس کاشت کرتے ہیں، جن میں سر فہرست گندم، مکئی، آلو، آم اور دیگر نقد آمدن فراہم کرنے والی فصلیں شامل ہیں
وہ زراعت میں آنے سے پہلے ایک بینکار تھے اور 1982 میں انہوں نے ذاتی شوق کی خاطر ایک بڑے بینک کے مینیجر کی پوزیشن سے مستعفی ہو کر زراعت شروع کی تھی۔ اس کے بعد سے وہ کئی حکومتوں کے متعدد ایسے منصوبے دیکھ چکے ہیں جن پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں پاکستان میں زرعی خود مختاری اور خوشحالی کے دعوے کیے گیے تھے
وہ اس پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر عزم ہو تو پاکستان میں زرعی انقلاب لانا ممکن ہے، لیکن ماضی میں ایسے کئی منصوبے بیوروکریسی کی عدم دلچسپی اور مافیاز کے منفی کردار کی نذر ہو چکے ہیں اور اب تک کی صورتحال کے مطابق بظاہر یہ منصوبہ بھی ایک انتخابی نعرہ ہی لگتا ہے
پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ
مظہر گردیزی کی نظر میں اس منصوبے کی تکمیل میں بھی کئی چیلینجز درپیش ہیں اور زمینی سطح پر اس کے ثمرات کا فائدہ اٹھانے کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی
وہ کہتے ہیں ”پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے ہے۔ ڈرپ اریگیشن نظام کافی مہنگا پڑتا ہے، اس منصوبے کے تحت سولر سسٹم کے تحت پانی فراہم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، لیکن یہ بھی ملک کے جنوبی حصوں میں مکمل اور بآسانی قابل عمل نہیں ہے۔ زمینوں کے ایک مناسب قطعے کو سیراب کرنے کے لیے درکار شمسی توانائی کے نظام پر تقریباً 36 لاکھ روپے خرچ آتا ہے، لیکن یہ سردیوں کے مہینوں میں اتنا سود مند نہیں ہے۔ سردیوں میں سورج کم وقت کے لیے نکلتا ہے اور تقریباً چار گھنٹوں کی توانائی کے ذریعے وسیع زمینوں کو سیراب کرنا ممکن نہیں ہے“
چینی سرمایہ کاروں نے پاکستانی زمینیں حاصل کرنا شروع کر دیں
ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹیجک پروجیکٹس جنرل شاہد نذیر نے بتایا کے مطابق اب تک جس زمین کی نشاندہی کر دی گئی ہے، اس کی کل رقبہ 4.4 ملین ایکڑ ہے، جس میں سے 1.3 ملین ایکڑ پنجاب میں، 1.3 ملین ایکڑ سندھ، 1.1 ملین ایکڑ خیبرپختونخوا اور 0.7 ملین ایکڑ بلوچستان میں ہے
انہوں نے کہا ”کوششیں کی جا رہی ہیں کہ تھر، تھل اور کچھی کینال میں نہری منصوبوں کو تیزی سے مکمل کیا جائے۔“
دوسری جانب مظہر گردیزی نے بتایا کہ حکومتی منصوبے کے اجرا سے پہلے ہی چینی سرمایہ کار پاکستان میں زراعت کے لیے لیز پر زمینیں حاصل کر رہے ہیں اور اس میں اضافے کا امکان ہے ”میرے علاقے میں ایک ایکڑ ایک سال کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار روپے کے قریب لیز پر لیا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے“
پاکستان کے پاس قابل کاشت زمین کے حوالے سے لمز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 11 بڑے حصے کاشت کے لیے ہیں۔ کل زمین 79.6 ہیکڑز ملین ہے، جس میں سے 24 ملین ہیکٹرز زمین پر فصلیں لگائی جاتی ہیں جبکہ 9.1 ملین ہیکٹرز زمین قابل کاشت بنجر زمین ہے جس پر کام کر کے اسے زرعی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔