کینسل کلچر صرف منفی نہیں ہوتا

عارفہ رانا

کیا آپ نے بعض اوقات یہ دیکھا ہے کہ کسی چیز، پروڈکٹ یا سلیبریٹی کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک مہم چلا دی جاتی ہے، جس کے ساتھ ہیش ٹیگ میں بائیکاٹ لکھا ہوتا ہے یا ان کے امیجز پر بائیکاٹ لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ کینسل کلچر کہلاتا ہے

کینسل کلچر 2010ء اور 2020ء کے درمیان میں سامنے آنے والی ایک اصطلاح ہے۔ جس نے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ترقی کی۔ 2020ء کے بعد تقریبا تمام دنیا کے لیے سوشل میڈیا ناگزیر اور اہم ہو گیا۔ اسی لیے یہ اصطلاح بھی زور پکڑتی گئی۔ اس اصطلاح کے بارے ایک دلچسپ بات یہ کہ اس کو 1991ء میں ریلیز کی گئی ایک فلم "نیو جیک سٹی” سے کشید کیا گیا۔ جہاں ایک کردار اپنی مطلوبہ چیز لینے پر ہونے والی فضول گوئی سے تنگ آ کر کہتی ہے، "کینسل اٹ”۔ اس لفظ نے 2014 ء میں اس وقت توجہ حاصل کی، جب نسلی امتیاز کی مخالفت کرنے والی ایک تنظیم نے اسے استعمال کرنا شروع کیا اور 2019ء سے باقاعدہ اس نے شہرت حاصل کرنا شروع کر دی۔

2020ء میں نیو یارک ٹائمز نے اس اصطلاح کو علامتی طور پر باقاعدہ استعمال کیا، جس کا مقصد آن لائن یا آف لائن انصاف کی طرف توجہ دلانی تھی۔ می ٹو موومنٹ بھی اسی کا حصہ مانی جاتی ہے، جہاں ان سوشل رویوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے، جو خواتین کو دبانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

کینسل کلچر ہوتا کیا ہے؟ اگر آسان لفظوں میں بات کریں تو یہ ایک ایسا معاشرتی رویہ ہے، جس کے مطابق لوگ سب کے سامنے کسی مخصوص تنظیم، سلیبریٹی یا پروڈکٹ کے ناقابل قبول ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا پرانے زمانوں میں کسی شخص کی نا اہلی یا ان کے کسی غلط کام کی وجہ سے بستی میں اس سے بات نہ کرنے یا پھر اس سے کسی لین دین کے نہ کرنے اور قطع تعلقی کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ اس کا نقصان اس کے کاروبار یا اس کے خاندان کو ہوتا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اس مخصوص کام سے باز آ جاتا تھا۔

اسی طرح کینسل کلچر کے تحت کیے جانے والے بائیکاٹ کا مقصد کسی کو کسی مخصوص کام سے باز رکھنا ہے، مثال کے طور پر کوئی طاقت ور ملک کسی کمزور ملک میں در اندازی کر رہا ہے تو اس کی خاص طور سے اس چیز کا بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، جس سے اس ملک کو سب سے زیادہ آمدن ہو رہی ہو۔

اب سوال یہ بھی ہے کہ پہلے بھی تو مسائل تھے لیکن کینسل کلچر اتنا عام نہیں تھا۔ تاہم جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے یہ کلچر بھی عام ہو گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے بات تیزی سے آگے تک بڑھانا اور پہنچانا بہت آسان ہو گیا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ رویہ درست ہے کیونکہ اس سے فوری طور پر غلط بات کرنے والوں یا کسی کی تضحیک کرنے والوں کو جواب مل جاتا ہے۔ لیکن کچھ واقعات میں اس کے بھیانک نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کیرولین فلیک کی ہے۔ فلیک اداکارہ اور ایک مشہور ٹی وی شو کی میزبان تھیں۔ کیرولین فلیک بھی کینسل کلچر کی زد میں آ گئیں اور بات بائیکاٹ سے بڑھ کر ٹرولنگ تک جا پہنچی جو وہ برداشت نا کر سکیں اور انہوں نے خودکشی کر لی۔

اگر دیکھا جائے تو کینسل کلچر جیسا رویہ کافی حد تک پیچیدہ ہے۔ ہمیں بعض اوقات اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم کس قدر جلد کسی بھی چیز کے بارے میں اپنے خیالات بدل لیتے ہیں اور لوگوں کی پرانی باتوں کو لے کر انہیں اس رویے کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ اس کا انسان کی ذہنی صحت پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے۔

ہیری پورٹر کی مشہور مصنفہ جے کے رولنگ کو 2020ء میں ٹویٹر پر اس کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے بارے میں کچھ کمنٹ کیا تھا۔ یہ ٹویٹ 95000 بار ری ٹویٹ ہوا اور اس پر تقریبا 46000 کمنٹس تھے۔ کریسی ٹائگن ایک ماڈل اور کک بک کی مصنفہ کو ان کے غلط انداز میں کیے گئے ٹویٹس کی وجہ سے اس رویے کا سامنا کرنا پڑا اور نتیجتاً وہ اپنی کلینگ سپلایز کی کمپنی سے بھی ہٹا دی گئیں اور نیٹ فلیکس کی کی سیریز سے بھی۔ اس کے علاوہ مختلف برانڈز کو بھی اس کا نشانی بنایا گیا۔

کینسل کلچر کے ساتھ ساتھ ایک اور اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے جسے کال آوٹ کلچر کہتے ہیں۔ اکثر لوگ ان دونوں کو ہم معنی سمجھتے ہیں جبکہ کال آوٹ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناانصافی یا معاشرتی ناہمواری کی طرف توجہ دلائی جائے جبکہ کینسل کلچر کا مطلب بائیکاٹ کر دینا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close