سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط28)

شہزاد احمد حمید

برزل ٹاپ زمانہ قدیم سے ہی سری نگر اور گلگت کے درمیان اہم تجارتی راستہ تھا۔ اس راستے پر سفر زیادہ تر گھوڑوں یا یاک پر ہی ہوتا تھا۔ بنجی شاہراہ ریشم پر قدیم زمانے سے ہی اہم قصبہ ہے۔پرانے زمانے میں یہ جگہ گلگت اور ڈوگرہ راج کے درمیان بارٹر تجارت کا اہم مرکز تھی۔ دریائے استور پر بنا پرتاب برج مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور میں تعمیر ہوا اور انہی کے نام کی مناسبت سے پرتاب برج کہلاتا ہے۔ پرتاب برج گلگت اور استور کے درمیان رابطہ کا واحد زمینی ذریعہ ہے۔ یہ سسپنشن برج مسٹرجے ای چیپر (mr j e chapper) کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔ سندھو بنجی کے شمال سے مغرب کی جانب بہتا ہے جبکہ استور ریور شمال مشرق میں بہتا ہے۔ بنجی موڑ سے 3 کلو میٹر کے فاصلے پر سندھو اور استور ریور کا سنگم ہے۔ بنجی پن بجلی کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ دریائے سندھ، گلگت اور استور کی باہم جڑی وادیاں صدیوں سے گلگت کو تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ اب جب کہ چین اور روسی ریاستوں کو ملانے والے راستوں پر کام ہو رہا ہے، گلگت کے بازار سکردو کے بازاروں کی نسبت زیادہ مصروف ہو چکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال جگلوٹ اور بنجی بازاروں کا بھی ہے۔ بنجی کے ہرے بھرے قصبہ سے گزر کر شروع ہونے والی بے رحم ویرانی کئی میلوں تک پھیلی ہے، جبکہ سندھو یہاں شاہراہ ریشم سے ذرا ہٹ کر بہتا ہے۔

”مہاراجہ کشمیر کے دور حکومت میں شاہی نافرمان عرف عام میں حکومت کے باغی اور مجرموں کو کشمیر بدر کر کے استور وادی بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ ان مجرموں کے لئے کالا پانی ہی تھا۔ کشمیر کی جنت نظیر وادی سے نکالے جانے کے بعد یہ علاقہ ان کے لئے خشک، گردآلود، ویران تو تھا ہی مگر ان پر موت کی ہیبت بھی طاری کر دیتا تھا۔ ہندوکش کے سلسلہ میں واقع یہ جگہ غلاموں کی تجارت کا بھی مرکز تھی۔ ہندوکش کا مطلب ہے ’ہندوؤ ں کا قاتل‘۔ یہ نام اس لئے تھا کہ ہندوستان کی طرف جانے والے لڑکے اور لڑکیاں یہاں پہنچ کر اکثر شدید ٹھند اور برف کی وجہ سے مر جاتے تھے۔“ سندھو نے بتایا۔

”یہاں کی ایک لوک کہانی اور ایک روایت بہت مشہور ہے۔ ’باپ کی ٹوکری بیٹے کے لئے۔‘ کہتے ہیں جب کوئی آدمی بوڑھا ہو کر کام کرنے قابل نہ رہتا تھا تو اس کا بیٹا اسے ایک ٹوکری میں ڈال کر دریا کے کنارے کسی بلند چٹان سے نیچے لا کرکھڑا دیتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق ایک جوان آدمی اپنے بوڑھے باپ کو ٹوکری میں ڈالے اوپر سے نیچے پھینکنے کے لئے لے جا رہا تھا تو اسے اپنے باپ کی سرگوشی سنائی دی، ’بیٹا! میں بھی اپنے باپ کو کبھی ٹوکری میں ڈال کر اسی طرح یہاں لایا تھا۔ آج میری باری ہے اور کل تیری باری ہوگی۔‘ نوجوان نے باپ کو وہیں ایک غار میں چھپا دیا۔ روایت آگے یوں بیان ہوئی ہے؛ ’جب سکندر اعظم یہاں آیا تو اس نے آب حیات کے بارے میں دریافت کیا، جس کے متعلق اس نے سن رکھا تھا کہ یہیں ملتا ہے۔ کوئی بھی اس بارے میں سکندر کو صحیح معلومات نہ فراہم کر سکا۔سکندر کو غصے آیا کہ کسی بوڑھے کو بھی آب حیات کا علم نہیں لہٰذا بوڑھوں کو قتل کر دیا جائے۔ بوڑھوں کو قتل کیا جانے لگا۔ خبر اس لڑکے تک بھی پہنچی، جس نے اپنے باپ کو غار میں چھپا رکھا تھا۔ وہ سکندر کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا؛ ’صرف ایک بوڑھا آپ کو آب حیات کا بتا سکتا ہے۔’ سکندر کے حکم پر وہ اپنے بوڑھے باپ کو سکندر اعظم کے دربار لے گیا۔ بوڑھے نے سکندر کو آب حیات کا بتایا تو سکندر نے سن کر یہ تاریخی جملہ کہا، ’آج معلوم ہوا کہ جرأت اور طاقت نوجوان جسم میں ہوتی ہے جبکہ علم و دانش صرف سفید بالوں والے سر میں ہی پائی جاتی ہے۔‘ اُس وقت سے بوڑھوں کو مارنے کا قدیم رواج ختم ہو گیا۔ سنانے والے سناتے ہیں سکندر آب حیات کے چشمے پر پہنچا اور اس وقت بہت مایوس ہوا جب اُس نے ایک لومڑی اور کوے کو ہڈیوں کا ڈھانچے بنے دیکھا۔ انہوں نے سکندر کو بتایا؛ ’ہم نے آب حیات پیا تھا۔ اُس سے ہمیں بقائے دوام تو ملی مگر ہمیشہ کی جوانی نہ مل سکی۔ اب ہم دونوں بوڑھے بدحال ہیں، مرنا چاہتے ہیں لیکن موت نہیں آتی۔‘ سکندر نے اُنہیں دیکھ کر بوتل سے طلسمی پانی کو واپس چشمے میں ڈال دیا، جس کی تلاش میں وہ یہاں آیا تھا۔“ واہ داستان گو۔ کیا کیا کہانیاں بیان کر رہا ہے۔۔

یہاں سے روانہ ہوئے تو مجھے پھر میرے عظیم دوست سندھو کی مانوس آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا ہے، ”وہ سامنے اوپر پہاڑوں کی طرف دیکھو۔ تمھیں برف پوش چوٹی نظر آ رہی ہے نا۔۔ یہ نانگا پربت ہے۔ یہ بھی مجھے سلام کرتی ہے۔ یہ میں ہی ہوں جو ایسے نظارے دکھاتا ہوں۔“

نانگا پربت کی چوٹی ڈھلتی سہ پہر میں سورج کی کرنوں سے چمک رہی ہے۔ جیسے کہہ رہی ہو ’آؤ میرے قریب تمھیں اپنے جلوے دکھاؤں۔‘ جگلوٹ سے چلاس جاتے ہوئے نانگا پربت کی آسمان سے بوس و کنار کرتی یہ چوٹی برف سے ڈھکی کہیں کہیں سے درشن دیتی ہے۔ سر تا پا غیر اراضی مگر آفاقی حسن میں ڈوبی ہے۔ یہ کوئی ایک پہاڑ نہیں بلکہ پے در پے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں کا دیو ہیکل سلسلہ ہے، جس کی انتہائی بلندی چھبیس ہزار سات سو ساٹھ (26760) فٹ ہے اور یہ ہر وقت برف کی چادر اوڑھے رکھتی ہے۔ میرا دوست سندھو جیسے اس کے سائے سے بہتا ہے۔ نانگا پربت کو کئی راستے ہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے حوصلے اور ہمت کے مطابق راستے کا انتخاب کرتا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن زیادہ تر فیری میڈوز والا راستہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی بھی اپنی سائیکی ہے، چاہے تو آنے والے کو اپنا درشن دیں، دل نہ مانے تو کئی کئی دن اپنے چہرے کو بادلوں چھپا لیں۔ نیچے سندھو کے ارد گرد انتہائی گرمی ہے تو اوپر نانگا پربت پر شدید سردی۔

برف سے ڈھکے پربت اور درخت، درمیان سے گزرتی نین کی کمر کی طرح بل کھاتی سڑک اور نیچے خم دار بہتا سکڑا ہوا سندھو۔۔ اس موسم میں کوئی سندھو کو یہاں بہتے دیکھے تو ندی سمجھے، کناروں سے سمٹ کر اندر کی جانب دھنسا ہوا۔ نین نے تو اسے دریائے سندھ ہی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یہاں کے پربت جنگلات سے بھرے ہیں۔ صنوبر، چیڑ کے درخت اس قدر گھنے ہیں کہ ان سے گزرنا مشکل ہے۔ ڈھلتی شام میں جب ان پیڑوں، پتھروں اور چٹانوں کے سائے سڑک پر پڑتے ہیں تو دور سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سڑک میں بڑے بڑے شگاف پڑے ہیں۔ بعض دفعہ تو یہ سائے انسان کو اس قدر ڈرا دیتے ہیں کہ بس میں ہو تو دوڑ ہی جائیں۔۔ آہ! دوڑا بھی نہیں جا سکتا اور دوڑ کر جانا بھی کہاں۔ ہر طرف کہسار، ویرانی اور سناٹا ہے۔

سندھو دونوں جانب سر اٹھائے کھڑے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ شور مچاتا بہتا ہے مگر یہاں اس کی سڑک سے گہرائی نسبتاً کم ہے۔ ہاں کبھی سڑک دریا کے دائیں کنارے آ جاتی ہے اور کبھی بائیں کنارے۔ یہ پہاڑ اور سندھو ہر نئے آنے والے مسافر کو مل کر خوب ڈراتے ہیں لیکن ہمیں وہ اپنی تاریخ، مقامی روایات اور قدیم قافلوں کی کہانیاں خود سنا رہا ہے۔ وہ پھر سے گویا ہوا ہے، ”میری اور ان پہاڑوں کی دوستی ازل سے ہے۔۔ مجھے ان پہاڑوں کا جو بھی پتھر پسند آ جائے، میں اُن سے مانگ لیتا ہوں۔ میری خواہش کے احترام میں تیز ہوا اور بارش میرے پسندیدہ پتھر مجھ میں لڑھکا دیتے ہیں۔ زیادہ بڑے پتھر پسند آ جائیں تو زلزلوں کے دوران میرے پیندے میں اتر آتے ہیں۔ مجھ میں گرے ان گنت چھوٹے بڑے پتھر ہماری ازلی اور پکی دوستی کے امین ہیں۔ میرا پانی ان پتھروں سے ٹکرا کر موسیقی کے وہ جل ترنگ بکھیرتا ہے جو انسان پر وجدان طاری کر دیتا ہے۔ کبھی میرے کنارے تنہائی میں بیٹھ کر اس جل ترنگ کو سننا، تم حیران رہ جاؤ گے کہ کیا پتھر بھی ایسی موسیقی سے وجد طاری کر دیتے ہیں۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close