کچھ تذکرہ میلان کنڈیرا کا

خالد جاوید

عالمی شہرت یافتہ چیک ادیب میلان کنڈیرا کی موت سے ناول کا عظیم الشان قلعہ مسمار ہو گیا، گیبرئیل گارشیا مارکیز کے بعد وہ ہمارے عہد کے ناول کے وارث تھے۔ منگل 11 جولائی کو میلان کنڈیرا چورانوے برس کی عمر میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں انتقال کر گئے۔

میلان کنڈیرا کی پیدائش یکم اپریل 1929 میں چیکوسلوواکیہ کے ایک شہر برنو میں ہوئی۔ یہ ایک درمیانی طبقے کا خاندان تھا اور میلان کنڈیرا کے والد لڈوک کنڈیرا ایک موسیقار تھے۔ پیانو بجانے میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی، وہ مشہور چیک موسیقار لیوجینک کے شاگرد رہے تھے۔ میلان کنڈیرا نے خود بھی اپنے والد سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔ میلان کنڈیرا کو موسیقی سے حددرجہ لگاؤ رہا ہے، یہاں تک کہ اُن کی تحریروں پر بھی موسیقی اور موسیقی کے اصول و ضوابط کا اثر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اپنے ناولوں میں ابواب کی تکرار، پلاٹ میں تنوع اور تبدیلی کا عمل اور تھیم یا موضوع کی وحدت وہ عوامل ہیں، جن کو کنڈیرا نے باقاعدہ طور سے علم موسیقی کے ذریعے برتا ہے۔ اُس کے ناولوں میں جگہ جگہ موسیقی کے بارے میں بخثیں ملتی ہیں۔ خاص طورپر ناول ‘دی جوک’ میں تو ایک طویل باب ہی موسیقی کے انتہائی دقیق اور پیچیدہ مسائل پر مبنی ہے۔

میلان کنڈیرا کو بچپن سے ہی ادب سے شغف رہا تھا۔ اُس نے اپنی پہلی نظم اُن دنوں لکھی تھی، جب وہ ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔ ابتدائی دنوں میں کنڈیرا نے نظمیں ہی لکھی ہیں۔ اُس زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل تھاکہ کچی پکی نظمیں لکھنے والے میلان کنڈیرا کے قالب میں ہمارے عہد کے اہم ترین ناول نگار کی رُوح پوشیدہ ہوگی

دوسری جنگ عظیم کے بعد کنڈیرا نے جاز موسیقار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اُس زمانے میں اُس کی تعلیم کا سلسلہ ملتوی ہو گیا تھا۔ کنڈیرا کا تعلق نوجوانوں کی اُس نسل سے ہے، جسے جنگ عظیم سے پہلے کے چیکوسلوواکیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ چیکوسلوواکیہ کا ’ری پبلک‘ ہونا اُن کے لیے ایک خواب کے مانند رہا ہے۔ لہٰذا یہ عین فطری تھا کہ دوسری جنگ عظیم اور چیکوسلوواکیہ پرجرمنی کے قبضے کے بعد نوجوانوں کی یہ نسل ایک خاص آئیڈیالوجی کی حامی ہو گئی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بھی اپنی کم عمری میں ہی چیکوسلوواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بعد میں پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کی اُس کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور جمالیات میں بھی ڈگریاں حاصل کیں۔

سن 1952 میں کنڈیرا کا تقرر پراگ اکادمی آف پرفارمنگ آرٹ میں بطور عالمی ادب کے پروفیسر ہو گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا، جب اُس نے اپنی نظمیں اور مضامین شائع کرانا شروع کیے۔ اُس نے کئی اہم ادبی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی، مگر اس سب سے پہلے کنڈیرا کی زندگی میں انتشار آمیز عناصر کی شمولیت ہو گئی تھی۔ وہ ایک بے چین زندگی گزار رہا تھا۔

1948 میں وہ پراگ کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا تھا، مگر صرف دو سال بعد 1950 میں اسےپارٹی سے نکال دیا گیا۔ کنڈیرا پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے بھی وہ شخصی اور انفرادی رجحانات سے آزاد نہیں رہ سکا تھا۔حالاں کہ کنڈیرا نے 1956 میں پھر پارٹی جوائن کر لی تھی اور 1970 تک کسی نہ کسی طرح اپنی ممبر شپ کو برقرار رکھا۔

پچاس کی تقریباً پوری دہائی میں کنڈیرا نے بہت سے ترجمے کیے، مضامین لکھے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ 1953 میں کنڈیرا کی نظموں کی پہلی کتاب ’مین اے وائیڈ گارڈن‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1961 میں ’دی لاسٹ مئی‘ اور 1965 میں ’مونولاگز‘ کے عنوان سے نظموں کے دو مجموعے اور شائع ہوئے۔ ان نظموں میں مارکسٹ آئیڈیالوجی کی چھاپ نمایاں ہے، مگر اس کے باجوود کنڈیرا— اس کٹر قسم کی مارکسی فکر کے خلاف نظر آتا ہے جو اس زمانے میں ادب اور شاعری کا ناگزیر عنصر بن گئی تھی۔ کنڈ یرا— اس کٹرپن میں ایک انفرادی اور انسانی چہرے کا ہمیشہ حامی نظر آتا ہے۔ یعنی سب کچھ صرف پرولتاری تحریک، طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ حقیقت نگاری ہی نہیں ہے۔ مگر 1955 میں اپنی طویل نظم ’دی لاسٹ مئی‘ میں اس نے ’جولیس فویک‘ کو خراج عقیدت پیش کیا جو دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں ایک طرح سے چیکو سلواکیہ کا کمیونسٹ ہیرو بن گیا تھا کیوں کہ وہ چیکوسلوواکیہ کے نازی جرمنی کے قبضے کے خلاف ایک جنگ کا قائد تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ نظم کنڈیرا نے اپنی مرضی سے نہیں کہی تھی۔ اُسے باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے کے طور پر لکھوایا گیا تھا اور کنڈیرا کو خود اس بات میں یقین نہ تھا جسے وہ زور شور کے ساتھ نظم کی ہیئت میں ڈھال رہا تھا۔ مگر مونولاگز کی بیشتر نظمیں محبت کی نظمیں ہیں۔ یہاں کسی قسم کا سیاسی پروپیگنڈا نہیں ہے۔ بجائے اس کے انسانی وجود کے مختلف جہات کی تفتیش کی گئی ہے۔

میلان کنڈیرا کی زیادہ تر نظموں میں دبے چھپے وہ موضوعات یا خیالات پائے جاتے ہیں، جو بعد میں اس نے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں کھل کر اور تفصیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ خصوصاً ’دی جوک‘ میں تو اس کی بہت سی نظموں کا خلاصہ موجود ہے۔

کنڈیرا—اس زمانے میں صرف نظمیں ہی نہیں لکھ رہا تھا۔ وہ اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تیار کر رہا تھا۔ ’دی آنرس آف دی کیز‘ اس نے 1962 میں لکھا تھا، جو اس سال پراگ کے نیشنل تھیٹر میں اسٹیج کیا گیا اور بے حد مقبول ہوا۔ اس ڈرامے میں بھی کنڈیرا— نے کمیونزم کی آمریت کو ایک نرم انسانی جہت دینے کی کوشش کی تھی۔ سچ تو یہ ہےکہ 1950 کے وسط سے ہی میلان کنڈیرا کمیونسٹ چکوسلوواکیہ کی ایک بے حد مشہور مقبول اور اہم ادبی شخصیت بن گیا تھا۔ اس کے مضامین کی شہرت دور دور پھیل چکی تھی۔

1955 میں اس کا ایک بے حد اہم مضمون شائع ہوا، جس کا عنوان ’آرگوئنگ اباؤٹ آور ان ہیریٹنس‘ تھا۔ اس مضمون میں چیک کی ادبی وراثت اور یورپ کی آواں گارد شاعری، دونوں کا دفاع کیا گیا تھا۔یورپ کی آواں گارد شاعری کی، ادعائیت پرست کمیونسٹ ادیبوں کے ذریعے بھرپور مذمت کی جاتی تھی مگر کنڈیرا کا موقف یہ تھا کہ یورپ کے آواں گارد یا زوال پرست شاعروں کے ان رجحانات یا عناصر کو قبول نہ کرتے ہوئے، جن سے ایک سچے سوشلسٹ آرٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ان عناصر کو قبول کرنے میں ایک سوشلسٹ شاعر کو عار نہ ہونا چاہیے، جن سے اس کے مقاصد کو تقویت ملتی ہو یا جو اس کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ہوں۔ یہی بات موسیقی اور مصوری پر بھی صادق آتی ہے۔ میلان کنڈیرا نے اپنے موقف کی حمایت میں لینن کا بھی حوالہ دیا، جس نے کہا تھا کہ صرف کٹر مادہ پرستوں نے ہی فلسفیانہ عینیت کو رد کیا تھا۔

سن 1960 میں میلان کنڈیرا کا ایک دوسرا اور طویل مضمون ’دی آرٹ آف ناول: ولادیسلاو وینکورا جرنی ٹو دی گریٹ ایپک‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون کو کنڈیرا کی تحریروں میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مضمون میں کنڈیرا نے چیک ادیب اور کمیونسٹ پارٹی کے ممبر ’وینکورا‘ کی تحریروں کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ مضمون مکالمے کی شکل میں ہے۔کنڈیرا نے فکشن کے بیانہ میں نئے تجربوں کے متعلق تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ وینکورا کے حوالے سے کنڈیرا نے ناول میں نغمیت، غیر ضروری نفسیاتی تشریح اور بیانیاتی اسلوب کی مخالفت کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اچھے فکشن کو ڈرامائی تناؤ یا ٹکراؤ پر مبنی ہونا چاہیے۔ مگر آج میلان کنڈیرا—اپنی اس تحریر کو رد کرتا ہے۔ دراصل 1986 میں اس نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب دی آرٹ آف ناول لکھ کر اس مضمون کے نکات کو ایک بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے۔

ظاہر ہے کہ 1986 کےمیلان کنڈیرا میں زیادہ پختگی ہے اور اس کا ذہن اب ان تمام بندشوں یا تعصبات سے آزاد ہو چکا ہے، جو اس کے اس ابتدائی دنوں میں کسی نہ کسی طور موجود تھے۔ اس کی وجہ اس کا کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہونا بھی سمجھا جانا چاہیے، مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ میلان کنڈیرا کے اس مضمون کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسے چیکوسلوواکیہ کے دو اہم ادبی ایورڈ تفویض کیے گیے ۔ مضمون کو چیکوسلوواکیہ کے مارکسی ادب کا بہترین کارنامہ مانا گیا تھا۔ اب میلان کنڈیرا نہ صرف اس مضمون کو بلکہ اپنی تمام ان تحریروں کو رد کرتا ہے۔ جو اس کی کہانیوں کے مجموعے ’لاف ایبل لووز‘ (مضحکہ خیز محبتیں) سے پہلےکی ہیں۔ لاف ایبل لووز کی پہلی کہانی کو ہی میلان کنڈیرا—اب اپنی پہلی تحریر مانتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بطور ایک ادیب اس کی زندگی کی شروعات اس کہانی سے ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی اس کی نصف زندگی ایک گمنام چیک دانشور سے زیادہ اور کچھ نہیں تھی۔ لاف ایبل لووز کی کہانیاں 1958 سے 1968 کے درمیان لکھی گئی تھیں ۔سن 1967 میں میلان کنڈیرا کا شاہکار ناول دی جوک شائع ہوا۔

1950 میں جب کنڈیرا کو کمیونسٹ پارٹی سے نکالا گیا تھا تو اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے چیک ادیب ژان تریفلکا کو بھی پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں باہر کر دیا گیا تھا۔ اپنے ناول دی جوک میں کنڈیرا نے اس واقعے کو بیان کیا ہے۔ (خود تریفلکا بھی اپنے ناول ’ہپینیس رینڈ آن دیم‘ میں اسے لکھ چکا تھا جو 1962 میں شائع ہوا تھا)۔ اگر1967 سے قبل کی میلان کنڈیرا کی تحریروں کا موازنہ اس کی بعد کی تحریروں سے کیا جائے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ دی جوک سے پہلے کی تحریروں کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ تو نکال سکتا ہے کہ ان کا مصنف ایک بے حد ذہین شخص ہے، مگر شاید ہی اسے یہ گمان ہو کہ یہ مصنف آگے آنے والے وقت میں دنیا کے عظیم اور اہم ترین ناول نگاروں کی صف میں شامل ہونے والا ہے۔

دی جوک کا شائع ہونا دراصل ایک تاریخ کا بننا تھا۔ دی جوک کے شائع ہونے کے بعد ساری دنیا میں میلان کنڈیراکی شہرت پھیل گئی، اس کی کہانیوں کے مجموعے ’لاف ایبل لوز‘ کو بھی جو تقریباً اسی زمانے میں شائع ہوا تھا، بے حد سراہا گیا۔

کنڈیرا نے اس دور میں کمیونسٹ پارٹی میں اپنی شمولیت برقرار رکھی، مگر ہمیشہ کی طرح وہ پارٹی کی آمریت سے غیر مطمئن تھا۔ وہ پارٹی کی سرگرمیوں میں کچھ اصلاح یا ترمیم چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے میلان کنڈیرا تنہا ہی کوشاں نہ تھا اس کے ساتھ بہت سے کمیونسٹ ادیب ایسے تھے جو ریفارمز چاہتے تھے مثلاً پاول کو ہوت، جو 1968 کے ’پراگ اسپرنگ‘ میں میلان کنڈیرا کے ساتھ تھا مگر سدھار لانے کی ان سرگرمیوں کایہ بہت مختصر سا وقفہ ہی رہا اور اگست 1968 میں چیکوسلوواکیہ پر سویت روس کے حملے اور قبضے کے بعد تو ایسے ادیبوں کی تمام کوششوں کو کچل کر ہی رکھ دیا گیا۔ میلان کنڈیرا پھر بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنا چاہتا تھا۔ وہ چیکوسلوواکیہ کے کمیونزم میں ضروری ترمیمیں کیے جانے کا حامی تھا۔ اس نے اپنے دوست ادیب ویکلا و ہاویل سے کہا تھا کہ اس کاحوصلہ پست نہیں ہوا ہے اور یہ کہب’پراگ کے موسم خزاں کی اہمیت آخر میں پراگ کے موسم بہار سے بڑی ثابت ہوگی۔

’پراگ اسپرنگ‘ اصل میں اس تحریک کا نام تھا جو چیک کے کمیونزم میں ریفارمز چاہتی تھی۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی تھی تو اس میں ایک انقلابی جوش و خروش شامل تھا مگر سوویت روس کے حملے کے بعد یہ تحریک مٹ گئی اس کے بعد میلان کنڈیرا کا حوصلہ جو یوں شاید نہ بھی پست ہوتا مگر یونیوسٹی سے اس کو نکال دیے جانے کے بعد اور پھر 1970 میں پارٹی سے بھی باہر کر دیے جانے کے بعد بری طرح پست ہو گیا۔

سن 1972 میں اس کا دوسرا ناول ’فیئرویل والٹز‘ شائع ہوا جسے زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ کچھ عرصے تک کنڈیرا پراگ کے موسم خزاں میں اپنے خواب دیکھتا رہا اور اس کی کتابوں کے لیے چیک کی تمام لائبریریوں کے دروازے بند کر دیے گئے، یہی نہیں کسی پبلشر کو بھی اس کی کتاب چھاپنے کی آزادی نہ تھی۔ یہ دن کنڈیرا کے لیے بے حد پریشانی اور صدمے کے دن تھے۔ فیئرویل والٹز کے بعد اس کا تیسرا ناول مکمل ہو چکا تھا، لیکن وہ اسے شائع کرانے سے معذور تھا۔ بہر حال یہ ناول جس کا عنوان ’لائف از السویئر‘ تھا، پیرس سے 1973 میں شائع ہو گیا۔ اگر چہ اسے شائع کرانے میں میلان کنڈیرا کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اب وقت آ گیا تھا، جب کنڈیرا کو اپنے خوابوں سے دستبردار ہونا تھا۔ آخر 1975 میں اس نے پراگ کو خیر آباد کہا اور فرانس آکر رہنے لگا۔ رینیس کی یونیورسٹی میں اسے مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مقرر کر لیا گیا تھا۔ سن 1979 میں اسے چیکوسلوواکیہ کی شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کیوں کہ اس چوتھے ناول ’دی بک آف لافٹر اینڈ فارگیٹنگ‘ میں جو کچھ لکھا گیا تھا، اسے چیکو سلوواکیہ کی حکومت برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ناول 1978 میں شائع ہوا تھا اور اسے میلان کنڈیرا کی شہرہ آفاق تحریر کا درجہ حاصل ہے۔ سن 1981 میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی شہریت اختیار کر لی تھی

کنڈیرا اور سولنیسٹن جدید فکشن کی دنیا میں ڈکٹیٹر شپ کے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے موضوعات پر لکھنے والے دو سب سے اہم ناول نگارتسلیم کیے جاتے ہیں۔ سولنیسٹن کو جلا وطنی کے زمانے میں سوویت روس میں بے حد احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا مگر یہی بات کنڈیرا کے لیے نہیں کہی جاسکتی۔ چیکو سلوواکیہ میں اسے اتنا احترام نہیں ملا جتنا باقی تمام دنیا میں اسےحاصل ہوا ۔یہ حیرت انگیز ہے کہ بین الاقوامی شہرت کے مالک کنڈیرا کو اس کے اپنے ملک میں بہت زیادہ قدر اور عزت سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ایک ’چیک‘ نہیں محسوس کرتا ہے۔ وہ خود کو ’یورپین‘ محسوس کرتا ہے۔

مشہور امریکی ادیب فلپ راتھ نے 30 نومبر 1980 کو میلان کنڈیرا سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو کی اہمیت اس بات سے ہے کہ دو بڑے ناول نگار دنیا کے اہم مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے نظر آتے ہیں ۔ میلان کنڈیرا کے خیالات اس انٹرویو میں بہت کھل کر سامنے آتے ہیں۔ ذیل میں میلان کنڈیرا کے جن افکار پر گفتگو کی جارہی ہے وہ زیادہ تر اسی انٹرویو سے مستعار ہے۔

فلپ راتھ کا کہنا تھا کہ میلان کنڈیرا کے ناولوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا جلد ہی تباہ ہونے والی ہے۔ میلان کنڈ یرا کا جواب تھا کہ یہ احساس بہت قدیم ہے اور اگر کوئی احساس یا خیال اتنے زمانے سے انسان کے ذہن میں رہا ہے تو اس کی کوئی حقیقت تو ضرور ہوگی۔

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ چیکوسلوواکیہ پر روسی فوج کےحملے اور قبضے نے میلان کنڈیرا کی شخصیت پر گہرے اثرات قائم کیے ہیں۔ میلان کنڈیرا بار بار یہ کہتا ہے کہ 1968 میں روسیوں کے حملے کے بعد ہرچیک شہری کے سامنے یہ اندیشہ موجود تھا کہ اُس کا ملک یا اس کی قوم یورپ کے نقشے سے اچانک اور غیر محسوس طریقے سے غائب نہ ہو جائے۔ آخر پچھلی نصف صدی میں 40 ملین یوکرینین لوگ اچانک دنیا سے غائب ہو گئے تھے اور دنیا نے اس کا نوٹس تک نہ لیا۔ یہی صورت حال لتھوینیا کی بھی رہی ہے جو سترہویں صدی میں ایک بے حد طاقتور یورپی قوم تھی اور آج روسی انھیں کسی وحشی اور معدوم ہوتے ہوئے قبیلے کے بطور رکھے ہوئے ہیں اور یہ کام روسیوں نے اپنے ریزرویشنز یعنی اپنی شرائط پر کیا ہے۔ کنڈیرا کاخیال ہے کہ اسے تو پورا یورپ ہی اب بہت کمزور اور مٹ جانے والا محسوس ہوتا ہے۔

فلپ راتھ نے پوچھا تھا کہ فرانس میں ایک مہاجر کی حیثیت سےکنڈیرا کو کیا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کنڈیرا نے ایک بہت پتے کی بات کہی ہے کہ پراگ میں پیش آنے والے واقعات کو مغربی یورپ کی آنکھ کے ذریعے دیکھا گیا ہے مگر اس کے الٹ فرانس میں جو ہو رہا ہے اسے پراگ کے زاویہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔یہ دو دنیاؤں کا ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف میرا ملک ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس ملک نے جمہوریت فاشزم، انقلاب، اسٹالن کی دہشت گردی سب کچھ دیکھ لی ہے۔ یہی نہیں اس ملک نے بعد میں اسٹالنزم کا بکھراؤ، جرمنی کا قبضہ اور پھر روسی افواج کا قبضہ اور بڑے پیمانے پر جلاوطنی کے تماشے بھی دیکھے۔ مغرب کو اپنے ہی گہوارے میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اس لیے یہ ملک تاریخ کے بوجھ سے دب کر رہ گیا ہے۔ یہ ڈوب رہا ہے اور دنیا کی طرف سوائے تشکیک کی نظر سے دیکھنے کے کچھ اور نہیں کر سکتا۔ مگر دوسری طرف فرانس ہے۔ صدیوں سے وہ دنیا کا مرکز رہا ہے، مگر آج بڑے تاریخی واقعات کے لیے ترس رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس آج انتہا پسندانہ غیر عملی تصورات اور غنائیت کا مارا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ کسی عظیم واقعے کی تمنا میں گرفتار ہے۔ اسی کا انتظار کر رہا ہے مگر وہ واقعہ ہو کر نہیں دیتا اور نہ شاید کبھی ہوگا

کنڈیرا کا بیان ہے کہ اسٹالنی دہشت کے زمانے میں وہ پہلی بار مزاح کی اہمیت سے آگاہ ہوا۔ مسکراہٹ کے صرف ایک انداز سے وہ یہ سمجھ سکتا تھا کہ کون سا شخص اسٹالن کی آئیڈیالوجی کا پیروکار ہے اور کون نہیں، یعنی حس مزاح کسی آدمی کی شناخت کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بن گئی تھی، کنڈیرا کو اُس دنیا سے ہول آتا ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ اپنی حس مزاح کو کھوتی جارہی ہے۔ ڈکٹیٹر شپ جہنم ہی نہیں ہے بلکہ جنت کا خواب بھی ہے ایک قسم کا یوٹوپیا، ایک خواب کہ ہر شخص مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اس دنیا میں رہے گا۔آندرے بریتون کی آرزو تھی کہ وہ شیشے کے گھر میں جا کر بس جائے۔ دراصل ڈکٹیٹر شپ انسان کے باطن میں پائے جانے والے آرکی ٹائپ سے تشکیل پاتی ہے اسی لیے انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اس میں شامل ہو جاتی ہے۔

فلپ راتھ سے میلان کنڈیرا نے ایک بار کہا تھا ”جب میں نیکر پہنے ہوئے ایک چھوٹا بچہ ہوا کرتا تھا، تب ہی سے میں کسی ایسے لیپ کا خواب دیکھا کرتا تھا جسے جسم پر لگا کر میں ناقابل دید بن جاؤں۔ پھر میں بالغ ہوا، لکھنے لگا اور کامیاب ہونا چاہا، اب میں کامیاب ہوں اور وہ لیپ حاصل کرنا چاہتا ہوں جو مجھے دنیاکی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکے“

نوٹ: یہ مضمون خالد لطیف کی کتاب ’میلان کنڈیرا‘ سے لیے گئے اقتباسات پر مبنی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close