کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی ٹاک ٹاکر نے خود کو اڑتا دکھانے والی وڈیوز کے ذریعے کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔ وہ اپنے وڈیوز میں ویژول ایفیکٹس کے استعمال سے کسی بھی چیز پر بیٹھ کر خود کو اڑاتا ہوا دکھاتا تھا۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’آدی پُرش‘ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ انہی وڈیوز سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے
ہندو میتھالوجی ’رامائن‘ پر مبنی بتائی جا رہی فلم ’آدی پرش‘ کو دکھانے والے ہر تھیٹر میں ایک سیٹ ہنومان کے لیے مختص کی گئی ہے۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ وہ پہنچے یا نہیں، لیکن عام شائقین ضرور تھیٹر سے دور رہے۔ ہر لحاظ سے دیکھیں تو ’عظیم‘ بتائی جا رہی، یہ فلم فلاپ ہو گئی ہے۔
بھارتی نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’آدی پرش‘ ان فلموں میں سے ایک ہے، جس کا مقصد ہندوتوا کے بیانیے میں فٹ ہونا ہے۔ ایسی فلموں یا پروڈکشن میں بھگوا جھنڈے، ’ملک کے دشمنوں‘ کے خلاف اپیل وغیرہ جیسی خصوصیات عام ہیں۔ چاہے وہ عصری کہانیاں (دی کشمیر فائلز) سنائیں یا تاریخی (سمراٹ پرتھوی راج، تانہاجی) ان میں بعض خصوصیات مشترک ہیں- وہ یہ کہ ہندوؤں کو مظلوم کے طور پر دکھانے یا ان کی عظمت کو درشانے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور تمام مسلمانوں کو ولن کے طور پر دکھانا۔ تاریخ کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ اس مرکب کا حصہ ہے۔
دی وائر میں شائع اسٹوری کے مطابق، ’دی کیرالا اسٹوری‘ میں تو پوری بے شرمی سے ایک فرضی اعداد و شمار کا استعمال کیا گیا تھا کہ ریاست کی بتیس ہزار خواتین کو اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے لیے برین واش کیا گیا تھا۔ تاہم، جب فلمساز کو چیلنج کیا گیا تو انہوں نے خاموشی سے تعداد گھٹا کر تین کر دی!
سچائی کے ساتھ ’انیس بیس‘ کرنے کا یہی رجحان نام نہاد ’تاریخی‘ کہانیوں میں بھی پایا جاتا ہے، جہاں ہارنے والے فاتح بن جاتے ہیں، پھر تاریخ کی کتابیں چاہے کچھ بھی کہیں۔ بھارتی فلم ساز ایسا یا تو پختہ یقین کی وجہ سے کرتے ہیں، یا زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ اس چورن کو بیچ رہے ہیں، جو بازار میں ’ٹرینڈنگ‘ ہے
بھارتی فلم انڈسٹری ہمیشہ سے کسی بھی ٹرینڈ یا چلن سے فائدہ اٹھانا پسند کرتی ہے، لیکن اس کے لیے کسی بھی فلم کی کامیابی کا پیمانہ ایک ہی ہے– باکس آفس۔ بی جے پی کی مودی سرکار نے جس طرح انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دیا ہے، اس کے بعد ہندوتوا پر مبنی کئی فلمیں اس پیمانے پر کامیاب ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے دوسرے فلمسازوں کو بھی اس راستے پر چلنے کی تحریک ملی ہے، لیکن اگر ایک نام نہاد پروپیگنڈا پر مبنی ’کشمیر فائلز‘ بڑی کمائی کرتی ہے، تو ایسے بھی بہت سے ہیں جو عوام کو مایوس کرتے ہوئے منہ کے بل گر جاتے ہیں۔ اپنی قوم پرستانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کو بے چین، اکشے کمار کی فلاپ فلموں کی سیریز میں شامل ’سمراٹ پرتھوی راج‘ ایک ایسی ہی ڈیزاسٹر تھی! اور اب اس کچرے کے ڈھیر میں ’آدی پرش‘ ایک اور اضافہ ہے۔
ایسے ملک میں جہاں ہر کوئی رامائن سے واقف ہے، وہاں اسے ہٹ ہونا چاہیے تھا، لیکن اب اسے فلاپ بتایا گیا ہے۔ باکس آفس کے تجزیہ کار ترن آدرش نے ایک ٹوئٹ میں اسے انتہائی مایوس کن قرار دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب ہندوستانی ناظرین اس گرنتھ سے واقف ہیں اور حکمران جماعت نے رام کو ایک کل ہند دیوتا کے طور پر پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے، اس کے باوجود فلم بین ناقص اسپیشل ایفیکٹس، سستے مکالمے اور بیہودگی سے دکھائی جا رہی کہانی کو دیکھنا نہیں چاہتے۔
واضح رہے ’آدی پرش‘ کے حوالے سے نہ صرف یہ بات پھیلی کہ یہ بیہودگی سے بنائی گئی فلم ہے، بلکہ اس سے ہر طرح کے لوگ ناراض بھی ہوئے۔ نیپال اس بات پر ناراض ہوا کہ سیتا کو ’ہندوستان کی بیٹی‘ کہا گیا، جبکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ نیپال میں پیدا ہوئی تھیں، اس بات پر نیپال نے ملک میں فلم پر پابندی لگا دی۔ خود بھارت میں ایودھیا کے چیف پجاری نے اس لیے فلم پر پابندی لگانے کی اپیل کی، کیونکہ اس میں رام اور دیگر کرداروں کو ٹھیک سے نہیں دکھایا گیا
دوسری جانب اگر عام ناظرین کی بات کی جائے تو انہیں مکالمے ناقص لگے۔ فلم کی ریلیز کو بہ مشکل ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ڈائیلاگ رائٹر منوج منتشر شکلا نے کہا کہ وہ کچھ ڈائیلاگ بدل دیں گے۔ ظاہر ہے، اس نے ہندوتوا کے حامیوں کو خوش کرنے کے بجائے نہ صرف ناظرین کو بلکہ ہندو پجاری کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ آپ جن کو خوش کرنا چاہتے ہوں، ان کو ٹھیک الٹا محسوس کروانے کے لیے اسپیشل ٹیلنٹ کی ضرورت ہوتی ہے! اس کے علاوہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی مخصوص زمرے میں شامل ہونا ہر کسی کے کام نہیں آتا۔ کہیں کہیں نتائج تسلی بخش نہیں بھی ہوتے
فلم کے کچھ مکالمے سن کر ایسا لگتا ہے کہ فلم کے ہیرو رام، بی جے پی کی ذیلی تنظیم آر ایس ایس کے ان کارکنوں سے مخاطب ہیں، جو ’لو جہاد‘ کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ہاتھ میں خنجر لیے یہ کہتے ہوئے گھوم رہے ہیں کہ مجھے کام بتا میں کس کو کاٹوں۔۔۔
دوسری جانب لو جہاد، گاؤ ماتا کے حوالے سے پروپیگنڈا فلموں کے درمیان ان کے توڑ کے طور پر سدھیر مشرا کی ’افواہ‘ ایک ایسی فلم کے طور پر سامنے آئی، جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے، جس میں بھومی پیڈنیکر اور نوازالدین صدیقی نے مرکزی کردار نبھائے ہیں۔ یہ فلم بہت سے مختلف موضوعات پر سماجی تبصرہ کے طور پر ختم ہوتی ہے، بشمول بھارت کی موجودہ آلودہ سیاسی فضا، لو جہاد تنازعہ، اور نئی نسل پر سوشل میڈیا کی افواہوں کا اثر۔ افواہ اتنی ہی مستند اور متعلقہ ہے، جتنا آپ سدھیر مشرا سے امید کر سکتے ہیں
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ حکمران پارٹی کے مستقبل کے ڈپٹی لیڈر وکی بانا (سمیت ویاس) کی منگیتر نویدیتا (بھومی پیڈنیکر) اپنے ہونے والے شوہر کے گھناؤنے کردار کے بارے میں علم ہونے پر ذاتی وجوہات کی بنا پر گھر چھوڑتی ہیں۔ جب انہیں خطرہ ہوتا ہے تو راہ چلتے ہوئے راحب احمد (نواز الدین صدیقی) ان کی مدد کرتے ہیں، لیکن ان کی تصویر وائرل ہونے اور پتہ چلنے کے بعد کے راحب مسلمان ہیں، ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر ’لو جہاد‘ کی افواہ اڑا دی جاتی ہے۔ فلم کے بارے میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ کبھی بھی تبلیغ کے طور پر سامنے نہیں آتی، حالانکہ یہ اپنے کرداروں اور ایک کے بعد ایک ہونے والے واقعات کے ذریعے کئی اہم پیغامات دینے کی کوشش کرتی ہے۔ افواہ فلم نے گہرے، فکر انگیز مواد والی فلموں جو پسند کرنے والے سنجیدہ فلم بینوں جو بے حد متاثر کیا
سو بات کی ایک بات، کہ ناظرین تفریح چاہتے ہیں، اپنے پسندیدہ ستاروں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کو بڑے پردے پر دیکھنے آتے ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلم ’پٹھان‘ کو براہ راست اور بالواسطہ ہر قسم کے پروپیگنڈے سے جوجھنا پڑا۔ دیپیکا پڈوکون کے زعفرانی لباس کو ہندو روایت کی توہین قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم، فلمساز بھی اپنی بات پر ڈٹے رہے اور یہ فلم اب تک کی سب سے بڑی کمرشل ہٹ بن گئی، حالانکہ دیکھنے میں یہ بھی کسی کارٹون فلم سے کم نہیں۔ اس کے برعکس ’سمراٹ پرتھوی راج‘ کو آخری ہندو شہنشاہ کی کہانی کے طور پر مشتہر کیا گیا، لیکن یہ اس طرح گری کہ اٹھ ہی نہیں پائی۔
آدی پرش کا ولن لنکیش، جو راون کے کردار کا ہی ایک ورژن ہے، کا رول ایک مسلم اداکار نے ادا کیا ہے۔ اور پھر بھی، ناظرین نے اس احمقانہ علامت کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اسے مسترد کر دیا۔ فلم کو نہ ہندوتوا بچا سکا، نہ ہی ہنومان۔