تھور وادی سے چلاس تک گزرتے سندھو نے اس قدر گہری کھائیاں کھود دی ہیں کہ یہاں صرف چند گھنٹے ہی دھوپ پہنچتی ہے۔ یہ عظیم بلندیوں اور غاروں جیسی پستی والی سرزمین بدصورت ہے اور یہاں سے گزرتے دل پر عجیب سا اثر ہوتا ہے۔ اس وادی کی وسعت میں سندھو خاموشی مگر تیزی سے بہتا سڑک سے دور ہی رہتا ہے۔سندھو کے شمال کی طرف منہ کریں تو دل فریب نظارہ ہے۔ ایک طرف صحرا ہے لیکن یہ صحرا بھی صحیح معنوں میں صحرا نہیں بلکہ بھوری چٹانوں کے درمیان سے خشک نالے سندھو میں اترتے ہیں۔ دوپہر کو یہ بھوری چٹانیں اس قدر تپ جاتی ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کیوں کہ چاروں طرف تنور دہکتے نظر آتے ہیں۔ تپتے ہوئے صحرا کے دور پیچھے برفیلے پہاڑ، سبزہ، ریت سب بہ یک وقت نمایاں ہیں۔ یہ ایک ایسا دل کش منظر ہے کہ دیکھنے والا اس کے سحر میں کھو جاتا ہے اور خود کو کسی اور دنیا میں محسوس کرتا ہے
یہ علاقہ عرب کے صحرا کی طرح بنجر ہے اور اس کی سطح بے شمار سیلابوں کی تباہی کی داستان بیان کرتی ہے۔ یہ عمودی چٹانوں اور وادیوں کے درمیان گھری ہوئی چٹانوں کا ایسا گورکھ دھندا ہے، جس پر انسانی قدم شاید کبھی نہیں یا کم ہی پڑے ہوں۔ یہاں سبزہ اور نباتات سے محروم پتھریلے پتھروں کا ایسا ڈھیر ہے کہ ان پر چلنا شاید ایسا ہی ہے جیسے آپ چاند کی سطح پر اکیلے تنہا چل رہے ہوں۔ قدیم زمانے میں یہاں کی زندگی اڑتی ریت کی طرح تھی۔ سادہ لوگ سادہ زندگی گزارتے۔ عورتیں گھر داری اور پشم کا کپڑا تیار کرتی تھیں۔ نوجوان دن بھر کالی، سفید، براؤن اور ڈب کھڑبی بکریوں کے ریوڑوں کی نگرانی کرتے تھے۔ مرد شکار کرتے یا گپ شپ لگاتے تھے۔ پانی لوگوں کے لئے سر چشمہ حیات ہے۔ بارش نہ ہو تو ہریالی سندھو کی پانی کی وجہ سے کچھ کچھ رہ جاتی ہے لیکن گرمی کے موسم میں مرجھا جاتی ہے۔ خشک سالی اور وباؤں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پانی سر چشمہ حیات ہے تو سندھو اس حیات کا منبع۔ خشک سالی میں بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑ کم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح دجلہ، فرات اور نیل جیسے حیات افزا دریاؤں کے کناروں پر آبادیوں کے ہجوم تھے، اسی طرح سندھو کے کناروں پر بھی ہیں۔ دریا کی طغیانی ان زمینوں کو زرخیز مٹی فراہم کرتی ہے۔ میدانی علاقوں کے بسنے والوں کی خوشی اور خوشحالی کا دارومدار اس زرخیز مٹی پر ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب سندھو کا پانی اس کے کناروں سے باہر نہیں بہتا تو انہیں زبوں حالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میدانی اور سندھ کے صحرائی علاقوں میں سندھو کا چمکتا پانی ان خشک ویرانوں میں بادہ نشینوں کے لئے نخلستان کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں اور سندھو کا کنارہ پیام حیات سے کم نہیں ہے۔
بہتے سندھو کے پاتال میں ایک سیلاب خاموشی سے بغیر رکے رواں ہے، جس میں بھنور پیدا ہوتے رہتے ہیں، جو اپنے پورے غیظ و غضب اور گہری سرسراہٹ سے پانی کو اوپر اچھالتے ہیں۔ انسان یہاں بھی آباد ہیں۔ سندھو کی لائی مٹی جہاں کہیں موقع دیتی ہے، بستی آباد ہو جاتی ہے اور کھیتیاں اگ آتی ہیں۔ ان بستیوں میں انتہا کی سردی پڑتی ہے کیوں کہ سورج کی کمزور کرنیں ہی یہاں پہنچتی ہیں۔ ہاں کچھ بستیوں میں گرمی زمین کو اس قدر تپا دیتی ہے کہ وہاں کے باشندے نقل مکانی کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے دیہات مٹی اور برف کے پھسلتے تودوں اور خطرناک سیلابوں کی زد میں بھی رہتے ہیں۔ 1840، 1885 اور اس کے بعد آنے والے سیلاب یہاں بڑی تباہی مچاتے رہے ہیں۔
داستان گو کہانی آگے بڑھا رہا ہے؛ ”یہاں پہاڑ آٹھ نو ہزار فٹ بلند ہیں اور گھاٹیوں کی دیوار بنائے ہوئے ہیں۔ چٹانیں شدید سردی اور شدید گرمی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہیں۔ مون سون کے موسم میں یہ چٹانیں اور بھی خطرناک ہو جاتی ہیں۔ ہوا اور بارش مل کر لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بنتی ہیں۔ مئی سے اکتوبر تک مغربی ہوائیں بحیرہ عرب سے اٹھ کر بادلوں کی صورت میں یہاں اپنا بوجھ اتارتی ہیں۔ ہوائیں اور بارش مل کر غضب کی صورت اختیار کرتے ہیں اور پہاڑوں کی سطح پر بہتا پانی ندی نالوں کی صورت بن جاتا ہے۔ ہر ندی ہر نالہ غضب ناک دھارا بن کر بہتا پہاڑوں کے پہلوؤں سے مٹی اور چٹانوں کو ایک آبشار کی طرح گراتا ہے۔ مون سون بادل اپنے ساتھ گلشیئر سے پگھلنے والا پانی، سینکڑوں آبشاروں کی صورت سندھو میں اتارتے ہیں۔ یوں سندھو بپھر کر کناروں سے باہر نکل جاتا ہے۔ ابھری ہوئی چٹانوں سے پانی دھاروں کی طرح پھوار بن کر نیچے گرتا ہے۔ پانی کے ریلے سندھو کنارے آباد بستیوں میں تباہی مچا دیتے ہیں اور راستے میں آنے والی ہر شے ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ اضافی مشکلات لاتی ہے۔ سڑک کا بند ہونا مسافر اور سیاحوں کے لئے باعثِ زحمت ہے۔ ہر چند سال بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہزاروں سالوں سے سندھو اور ان ندی نالوں کی گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی قسم کا راستہ ضرور موجود رہا ہے۔ یہ ہے منظر نامہ سندھو کی گزرگاہ اور شاہراہ ریشم کا تھور وادی سے لے کر گونر فارم تک کا۔۔ بعض جگہوں پر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی ’لیونارڈو ڈاونچی‘ نے اپنے کنیوس پر کمال شہکار تراش دیا ہے۔ میں نے سندھو مرشد سے پوچھا؛ ”سائیں! یہ سب کیا ہے؟“ اس کا قہقہ فضا میں گونجا اور کہنے لگا، ”کون سا لیونارڈو ڈاونچی ایسے شہکار تراش سکتا ہے؟ دوست! یہ سب قدرت کے کمالات اور شہکار ہیں۔ قدرت ایسی مصوری بھلا اور کون کر سکتا ہے۔ ان شہکاروں، فن پاروں کو تراش کر قدرت پیغام دے رہی ہے: ’میری تخلیق، میرے سندھو کی گزر گاہ کی خوبصورتی دیکھو۔۔ بے شک تم میری کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟‘
”چوتھی صدی عیسوی میں بدھ مت کی زیارت گاہوں کو آنے والاچینی سیاح ’فاہیان‘ میرے راستوں کے بارے میں لکھتا ہے: ”یہ راستے بڑے خطرناک ہیں۔ جگہ جگہ ڈھلوانیں، چٹانیں اور عمودی پتھریلی دیواریں کھڑی نظر آتی ہیں۔ ان تنگ راستوں پر چلتے ہوئے ہزاروں فٹ بلند پہاڑ کی سمت محض ایک پتھر کی دیوار ہے، جس کے نیچے بہتے سندھو پر نظر ڈالتے ہی سر چکرا جاتا ہے اور نظر پتھر بن جاتی ہے۔ ان پتھروں پر پاؤں جمانے کے لئے کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ راستے میں دیواروں میں سوراخ کر کے بے ترتیب سیڑھیاں لگائی گئی ہیں، جو کافی تعداد میں ہیں۔ ان سیڑھیوں سے چڑھ کر اور رسوں سے لٹک کر ہی ہم نے سندھو کو عبور کیا ہے۔“
میرا چشمِ تصور مجھے فاہیان کے زمانے میں لے گیا ہے۔ میں بڑی دیر تک کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کیسے دل کڑا کر کے میں ان سیڑھیوں سے پار اتروں گا۔ سندھو دور نیچے کناروں تک بھرا بپھرا بہہ رہا ہے۔ میرے جیسے کمزور دل کے لئے ایسے سندھو کو پار کرنا کڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔۔
”فاہیان کے اس سفر نامے کے بعد غلاموں کی تجارت کرنے والے تاجروں نے ان خطرناک راستوں کی بجائے میری معاون ندیوں کے ساتھ جانے والے لمبے راستوں کو اختیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1968ء میں شاہراہِ ریشم کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس سے پہلے جو شاہراہ تھی اس پر سفر کتنا کھٹن اور مشکل تھا، اس کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ چلاس سے گلگت تک کا سفر تین دن میں طے ہوتا تھا۔ شاہراہ ریشم کے مکمل ہونے سے سفر آسان اور محفوظ ہو گیا ہے۔ دنیا اس شاہراہ کو آٹھواں عجوبہ کہتی ہے اور یہ ہے بھی عجوبہ ہی۔ یہ سارا راستہ خود ارضی عجائب خانہ ہے۔ ایک طرف سڑک، دوسری طرف بلند و بالا پہاڑ، گہری کھائیاں۔۔ ان پہاڑوں میں جگہ جگہ کھائیاں ہیں، جہاں سے پانی کے سفید دھارے شور مچاتے تیزی سے میرے پانی میں اترتے ہیں۔ میں نے یہاں ان پہاڑوں کو اس صفائی سے کاٹا ہے کہ انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے کیک کو تیز چھری سے کاٹا ہو۔ اس کیک میں مختلف رنگوں کی تہیں ہیں۔ سفید، بھوری، خاکستری۔ میری جانب کھڑے پہاڑ دیوار کی صورت نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں کوئی راستہ یا بہتے پانی کا نالہ یا کوئی شور مچاتا چشمہ نظارہ دکھا کر مجھ(سندھو) میں اتر جاتا ہے۔“
”ضلع دیامیر کا صدر مقام چلاس ابھی پچاس (50) کلو میٹر دور ہے۔ پہاڑ کی ڈھلوان اور سطح مرتفع پر بسا یہ شہر اور اس کے گردو نواح (تھور، شتیال، بٹل، سازین، دارین وادیاں) میں ہندو اور بدھ مت کی بہت سی تحریریں اور تصویریں پتھروں اور چٹانوں پر کندہ اس شہر اور سڑک کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ یہ ساری تحریریں اور تصویریں میرے ہی کنارے ہیں۔ اس کی لکھائی تم اور تمہارے لوگ آج تک نہیں پڑھ سکے ہو۔ فاہیان بھی یہاں سے گزرتے کچھ لکھ گیا، بدھ بھکشو بھی کچھ لکھ گئے۔ یونانی بھی کچھ لکھ گئے۔ کیا لکھ گئے، دنیا میں یہ کوئی نہیں جانتا، سوائے میرے۔۔ لیکن میں کسی کو کچھ بتاتا نہیں کہ راز فاش کرنا میری خصلت میں نہیں۔ دیکھو کیا وفاداری نبھا رہا ہوں؟ مجھ جیسے اب نہیں ملتے ہیں۔
”تمہیں ایک اور بات بتاتا ہوں۔۔ یہ بات اور کوئی جانتا ہی نہیں۔“ میرا عظیم داستان گو کہنے لگا، ”سنو دوست! 1931ء وہ سال تھا، جب پہلی بار ایک جرمن سیاح یہاں جیپ لے کر آیا تھا۔ نہ باقائدہ سڑک تھی، بس کچا راستہ تھا۔۔ جہاں جیپ چلتی وہ چلاتا اور جہاں سڑک کسی وجہ سے نہ ہوتی جیپ کو ڈس منٹیل کرتا دوسری طرف اترتا جیپ پھر سے جوڑی جاتی اور سفر شروع کیا جاتا تھا۔ کمال مہم جو شخص ہوگا وہ۔۔ میرے تو دل میں اتر گیا تھا۔ گلگت تک پہنچنے میں اسے کئی ماہ لگے تھے۔۔ یہ تاریخ ہے جو تم نے بتائی ہے۔ دوست جو تم جانتے ہو کوئی دوسرا بھلا کیسے جان سکتا ہے؟“ یقیناً یہ بہت سنسنی خیز سفر رہا ہوگا۔ سندھو اس بات کا گواہ ہے تو اس پر اعتبار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں
سورج ڈھلنے کی تیاری میں ہے۔ چلاس کے پہاڑوں پر شام ہونے میں کچھ دیر ہے۔ سورج کی ڈوبتی کرنیں سندھو کے پانی کو مچلانے لگی ہیں۔۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں سندھو کے پانی کو چھو سکوں لیکن ایسا ممکن نہیں۔ سندھو سڑک سے ذرا ہٹ کر کافی چوڑائی اور گہرائی میں سکون سے بہہ رہا ہے اور اس کے کنارے سفید ریت کے ٹیلے ہیں۔۔ (جاری ہے)