کراچی: مسمار کیے گئے ڈیڑھ سو سال قدیم مری ماتا کی تاریخ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہندو برادری ہفتے کی صبح یہ دیکھ کر حیرانی اور غم و غصّے سے بھر گئی کہ سولجر بازار میں واقع قدیم مری ماتا مندر زمین بوس ہو چکا ہے

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اس وقت کی گئی، جب جمعہ کی رات گئے علاقے میں بجلی غائب تھی، اسی وقت کھدائی کرنے والے اور ایک بلڈوزر اس کام کے لیے پہنچ گئے، جنہوں نے بیرونی دیواروں اور مندر کے مرکزی دروازے کو برقرار رکھتے ہوئے اندر کے تمام ڈھانچے کو مسمار کر دیا

رہائشیوں نے یہ بھی بتایا کہ کہ انہوں نے اس کام میں شامل افراد کو ’تحفظ‘ فراہم کرنے کے لیے وہاں ایک پولیس موبائل بھی دیکھی

واضح رہے کہ مری ماتا کا مندر مکھی چوہترم روڈ پر واقع ہے، جو سولجر بازار پولیس اسٹیشن کے بالکل قریب ہے

شری پنچ مکھی ہنومان مندر کے شری رام ناتھ مشرا مہاراج نے بتایا ”یہ ایک بہت پرانا مندر ہے، جس کے قریب ہی ایک اور قدیم مندر ہے“

ان کا کہنا تھا ”کہا جاتا ہے کہ یہ ڈیڑھ سو سال پہلے بنایا گیا تھا، ہم نے اس کے صحن میں دفن پرانے خزانوں کے بارے میں بھی کہانیاں سنی ہیں، یہ تقریباً چار سو سے پانچ سو مربع گز پر محیط ہے اور کچھ عرصے سے زمین پر قبضہ کرنے والوں کی اس پر نظر ہونے کی باتیں بھی زیر گردش تھیں“

واضح رہے کہ مری ماتا مندر کی دیوار پر موجود تحریر کے مطابق یہ مندر سیٹھ موتن داس نے تلسی بائی کی یاد میں سنہ 1957 میں تعمیر کرایا تھا۔ مری ماتا کو درگا ماتا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے

شری پنچ مکھی نے بتایا ”مندر کراچی کی مدراسی ہندو برادری کے زیر انتظام تھا اور چونکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ ایک بہت پرانا اور خطرناک ڈھانچہ ہے، جو کسی بھی وقت گر سکتا ہے، اس لیے انتظامیہ نے کافی دباؤ کے بعد ہچکچاتے ہوئے لیکن عارضی طور پر اپنی بیشتر مورتیوں کو تزئین و آرائش کا کام ہونے تک کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں منتقل کردیا تھا لیکن گزشتہ رات ماڑی ماتا مندر کو مسمار کر دیا گیا“

دریں اثنا مدراسی ہندو برادری کے ایک رکن نے کہا کہ انہیں دو افراد، یعنی عمران ہاشمی اور ریکھا عرف نگین بائی کی جانب سے یہ جگہ خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا

اس کے علاوہ یہ بات بھی سنی گئی کہ مندر کو دونوں افراد نے سات کروڑ روپے میں کسی دوسری پارٹی کو بیچ دیا تھا اور خریدار وہاں کمرشل عمارت بنانا چاہتے ہیں

اس سلسلے میں ’نوید‘ نامی شخص کے نام پر کچھ جعلی دستاویزات کا بھی ذکر تھا، جس میں اس پلاٹ کی لیز کو کمرشل میں منتقل کرنے کی اجازت دی گئی

کمیونٹی نے پاکستان ہندو کونسل، وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل سے نوٹس لینے اور معاملے کو فوری طور پر دیکھنے کی اپیل کی ہے

یاد رہے کہ ایودھیا میں سنہ 1992 میں بابری مسجد پر شیو سینا کے حملے کا خمیازہ مقامی ہندو آبادی کو بھگتنا پڑا تھا، ان ہی دنوں کراچی میں مندروں پر حملے کیے گئے اور مورتیوں کی بے حرمتی کی گئی تھی۔

محمد عظیم نے بتایا کہ ایک مشتعل ہجوم اس مندر کے باہر بھی پہنچ گیا تھا لیکن پڑوسیوں نے انھیں سمجھایا کہ یہ مندر نہیں امام بارگاہ ہے، جس کے بعد یہ لوگ آگے نکل گئے ورنہ یہاں بھی نقصان پہنچا سکتے تھے۔

واضح رہے کہ دس محرم کے بعد یہاں جنت مائی تعزیے کو مری ماتا مندر کے احاطے کے ایک کونے میں رکھ دیا جاتا تھا اور تعزیہ نکالنے والے محرم کے دنوں میں مندر کے احاطے میں ہی قیام کرتے تھے۔ جنت مائی کا تعزیہ نو محرم کی شب نکالا جاتا ہے جو صدر میں واقع امام بارگاہ پہنچتا ہے اور فجر تک وہاں ہی رہتا ہے بعد میں دوبارہ اس کو اپنی منزل پر لایا جاتا ہے اور شام کو نیٹی جیٹ پل پر جاکر لوبان دانی کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے

قیام پاکستان سے قبل مراٹھی آبادی کے اس علاقے میں کئی مندر اور دھرم شالا موجود تھے ، جن کی عمارتوں پر بعد میں قبضہ ہوگیا۔ موجودہ وقت ان مندروں کے آثار بچے ہیں جن کے اندر گیراج اور دکانیں بنادی گئی ہیں

معروف محقق اختر بلوچ 2015 میں ڈان میں شائع اپنے ایک بلاگ میں لکھتے ہیں:
”ایک دن ہمیں وشال نامی شخص نے فون کر کے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ رتن تلاؤ کے علاقے میں واقع مری ماتا مندر پر لکھیں، جہاں ان کے مطابق ہندو برادری کے افراد کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے سے روکا جاتا ہے

ہم نے ان سے کہا کہ وہ شام 7 بجے ہمیں پریس کلب میں ملیں۔ وشال 7 پریس کلب پہنچے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بازوئی تھیلا تھا (جسے ہم شولڈر بیگ کہتے ہیں)۔ ملاقات کے دوران انہوں نے اپنا تھیلا کھولا اور ہمارے سامنے دستاویزات کے انبار لگا دیے۔ ہم نے ان میں سے کچھ کا اِنتخاب کیا اور باقی انہیں لوٹا دیے۔ اگلا مرحلہ مری ماتا مندر کا دورہ کرنا اور اس کے بارے میں لکھنا تھا۔

کراچی کے مرکزی علاقے صدر کے قریب ایک علاقہ رتن تلاؤ ہے۔ تلاؤ سندھی زبان میں تالاب کو کہتے ہیں۔۔ رتن تلاؤ کے درمیان اکبر مارکیٹ ہے جہاں مری ماتا مندر ہے۔ اکبر مارکیٹ میں ایک سڑک سسٹر اسکوائر اسٹریٹ کے نام سے ہے۔ اب اس اسٹریٹ کا نام گلی نمبر 19 ہے۔

اسٹریٹ پر مختلف عمارتوں کے درمیان آپ کو ایک چھوٹا سا لوہے کا گیٹ نظر آئے گا۔ اِس گیٹ پر ایک جانب ‘یا اللہ’ اور ایک جانب ‘یا محمد’ جب کہ درمیان میں ”مائی جنت کا تازیہ“ لکھا ہے۔ ایک سرکاری نقشے کے مطابق اِس مندر کا کل رقبہ 285 گز تھا جو اَب سکڑتے سکڑتے 50 گز رہ گیا ہے۔ یہاں ہندو اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اور محرم میں اس مندر سے امام حسین کا تعزیہ بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ اس مندر کی ملکیت کا ہے، لیکن جن فریقوں کے درمیان یہ تنازع ہے، وہ 285 گز کی ملکیت پر نہیں بلکہ 50 گز کی ملکیت پر ہے، جو کہ باقی رہ گئی ہے۔

دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں اور معاملہ مقدمے بازی تک پہنچ گیا ہے۔ اہلِ محلہ نے مندر کی ملکیت کے دعوے دار ہندو برادری کے افراد کے خلاف درخواست انتظامیہ کو دی ہے۔ جب کہ مندر پر ملکیت کے دوسرے دعوے داروں نے بھی انتظامیہ کو درخواستیں دی ہیں۔ 2014 کو اکبر مارکیٹ کے رہائشیوں نے متعلقہ تھانے کو ایک درخواست دی جس کا متن حسبِ ذیل ہے:

اسی طرح کی ایک درخواست شری مہاراشٹرا پنچائت کراچی کے وشال راجپوت کی جانب سے کمشنر کراچی کو بھیجی گئی۔12/1/2015 کو کمشنر کراچی کو درخواست کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:

پیر 11 مئی کو میں اور ساتھی محسن سومرو اکبر روڈ پر واقع موٹر سائیکل مارکیٹ کی گلی نمبر 19 سِسٹر اسکوائر اسٹریٹ پر مری ماتا مندر کے گیٹ پر پہنچے۔ گیٹ کے باہر موٹر سائیکلیں کھڑی ہوئی تھیں، اور مندر کی نگران خاتون دکان داروں سے موٹر سائیکلیں ہٹانے کا کہہ رہی تھیں۔ ان کی اِس درخواست پر کم ہی توجہ دی جارہی تھی۔ لہٰذا محسن بھائی اور میں نے موٹر سائیکلیں ہٹانا شروع کیں۔

یہ دیکھ کر سامنے کی دکان پر موجود ایک نوجوان بھی ہماری مدد کرنے آگیا۔ خیر بڑی مشکل سے ہم مندر تک کا راستہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ خاتون نے ہم سے آنے کی وجہ دریافت کی تو ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں امام حسین کا تعزیہ دیکھنا ہے۔ وہ ہمیں اندر لے آئیں۔ وہاں پرایک چھوٹا سا صحن تھا اور اس کے سامنے دو کمرے تھے جن پر تالا پڑا ہوا تھا۔ صحن کے بائیں جانب ایک چبوترا سا بنا ہوا تھا۔ خاتون جنہوں نے اپنا نام محمودہ بتایا تھا، نے ہمیں چبوترے پر لگا پردہ ہٹا کر تعزیہ دکھایا۔

ان کے مطابق مائی جنت ان کی والدہ تھیں اور 1957 سے تا دمِ مرگ اِس تعزیے اور مندر کی نگران تھیں۔ ان کی وفات کے بعد یہ ذمے داری ان پر آن پڑی۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال محرم کی نو اور دس تاریخ کو تعزیے کو زیارت کے لیے باہر لایا جاتا ہے اور اس رسم میں ہندو اور مسلم سب ہی شریک ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہندو مندر میں اپنی پوجا پاٹھ کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ہم مندر میں نصب قدیم تختیوں کی تصاویر بنانے لگے جس پر وہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہنے لگیں کہ: ”بنا لو بنا لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ابھی پچھلے دِنوں سوامی نارائن مندر میں ہندوؤں کی بڑی پوجا تھی۔ ٹی وی والے فلم بنانے آئے تھے، لیکن مندر والوں نے انہیں بھگا دیا“۔

ہم نے یہ سنتے ہی کیمرہ بند کیا اور ان سے رخصت کی اِجازت چاہی۔ ہندو پنچائیت کراچی کے نائب صدر ڈاکٹر راج اشوک نے ہمیں بتایا کہ مندر کا کل رقبہ 286 گز تھا، جو اب سکڑ کر 50 گز رہ گیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ایک دستاویز بھی ہمارے حوالے کی جس میں لکھا ہے کہ مندر کی زمین 1938 میں الاٹ کی گئی تھی۔ ان کے مطابق بنیادی طور پر یہ مندر ہے اور وہ تعزیے کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے پھر بھلے ہی مندر کے دروازے پر کچھ بھی لکھا ہو۔

اہم بات یہ ہے کہ 9 مئی 2015 کو سندھ کے مختلف مندروں کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا ہے۔ اِس میں مری ماتا مندر کا نام بھی شامل ہے۔ یعنی ریکارڈ کے مطابق یہ مندر ہے۔ لیکن 12/7/1978 کو ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق مہاراشٹرا پنچائت نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ تعزیہ مندر میں اس شرط پر رکھا جائے گا کہ جب ضرورت ہو گی مندرکی جگہ خالی کر دی جائے گی۔ یہ معاہدہ جانو بھائی فیروز شاہ اور موہن گائیکواڑ جو شری شام سوموونش مہاراشٹرا پنچائت کے سیکریٹری تھے، کے مابین ہوا تھا۔

یہ دستاویز بھی ہمیں وشال نے فراہم کی تھی۔ مندر کی نگراں محمودہ بیگم کو ہندوؤں کے پوجا پاٹھ پر کوئی اعتراض نہیں، جبکہ ہندوؤں کا کہنا یہ ہے کہ مندر جاتے ہوئے وہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔

لیکن یہ بات سچ ہے کہ یہ مندر ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مندر میں تعزیہ بھی موجود ہے۔ یوں تو یہ مذہبی رواداری کی ایک خوبصورت علامت ہے، لیکن محمودہ بیگم اور ہندوؤں کے درمیان مندر کی ملکیت کے تنازع کو کس طرح حل کیا جائے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close