میں پندرہ سال بعد موسم خزاں میں شکار کھیلنے کے لیے ’ویر لون‘ (فرانس کا ایک قصبہ) واپس آیا۔ اپنے دوست سرول کے ہاں قیام کیا۔ اس نے اپنی گاؤں والی حویلی، جسے پروشیائی تباہ کر گئے تھے، دوبارہ تعمیر کرلی تھی۔
میں اس علاقے کا دلدادہ تھا۔دنیا میں کچھ جگہیں ایسی دلکش ہوتی ہیں، جو آنکھوں کے لئے نفسانی کشش رکھتی ہیں۔ ان سے انسان جسمانی محبت محسوس کرتا ہے۔ ہم جیسے لوگ، جو دیہاتی علاقوں سے خاص اُنسیت رکھتے ہیں، کی یادداشت میں مخصوص بہاریں، مخصوص جنگل، مخصوص تالاب، مخصوص پہاڑ محفوظ ہوتے ہیں، جن سے ہم آگاہ رہتے ہیں، جو ہمارے دلوں کو کسی خوشگوار دن کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار ہم ذہن کے جھروکوں سے کسی جنگل کے بیچوں بیچ کسی مرغزار یا دریا کنارے کوئی جگہ یا پھر کسی پھولوں سے بھرے باغیچے کی جھلک دیکھ پاتے ہیں لیکن وہ ہمارے دلوں میں ان تصاویر کی طرح نقش ہوتے ہیں، جب ہم کسی بہار کی صبح کسی عورت کو شوخ و شنگ کپڑے پہنے دیکھتے ہیں، تو ہمارے جسم و جاں میں ناقابلِ فراموش خواہشات کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ خوشی ہمارے پاس سے گزری ہے۔
ویرلون کے پورے علاقے سے مجھے محبت تھی، جہاں چھوٹے چھوٹے جنگل بکھرے پڑے تھے ۔نہریں خون کی شریانوں کی طرح ایسے بچھیں تھیں، جیسے زمین کو خون پہنچا رہی ہوں۔ ہم ان نہروں میں جھینگا، ٹراؤٹ اور بام مچھلی پکڑتے ہوئے آفاقی خوشی محسوس کرتے۔ بعض جگہوں پر ہم نہا بھی لیتے۔ کبھی چھوٹے ندی نالوں کے کنارے اگی لمبی لمبی گھاس میں (snipe /چھا) پرندے مل جاتے۔
میں بکری کی سی نرم چال سے اپنے دونوں کتوں پر نظر رکھے ہوئے، جو میرے آگے ادھر ادھر ہو رہے تھے، چل رہا تھا۔ سرول میری داہنی طرف سو گز کے فاصلے پر لوسن/ سبز چارے کے کھیت میں تھا۔ میں جھاڑیوں کے گرد چکر لگا کر اس کی طرف بڑھا۔ یہ جھاڑیاں سودریس جنگل کے کنارے کنارے اگی ہیں۔ یک دم مجھے ایک جھونپڑی/کاٹیج کے کھنڈر نظر آئے۔
مجھے یاد آیا کہ 1869 میں جب آخری بار میں نے اسے دیکھا تھا، یہ صاف ستھری انگوروں اور چوزوں سے بھری تھی۔ اب اسے منحوس کھنڈر نما مردہ گھر کی حالت میں، جس کا صرف ڈھانچہ بچا تھا، دیکھنا انتہائی افسوس ناک تھا۔
یاد آیا، ایک دن جب میں بہت تھکا ہوا تھا تو ایک عورت نے اس جگہ مجھے انگوروں کا شربت پلایا تھا۔ سرول نے بعد میں مجھے یہاں رہنے والوں کے بارے میں بتایا تھا۔ باپ ایک بوڑھا شکاری (غیر قانونی) جسے ایک سپاہی نے مار ڈالا تھا۔ بیٹا، جسے میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا، ایک لمبا تڑنگا جوان جو باپ ہی کی طرح سنگدل شکاری تھا۔لوگ اس خاندان کو سفاک خاندان کہتے تھے۔
میں نے سرول کو پکارا۔۔ وہ لمبے ڈگ بھرتا میرے پاس آیا، میں نے اس سے اس جگہ کے رہائشیوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے یہ کہانی سنائی:
جب جنگ (فرانس اور پروشیا [جرمن] کے درمیان ایک جنگ، جو 19 جولائی 1870ء سے 28 جنوری 1871ء تک لڑی گئی) شروع ہوئی تو ’سفاک جوان‘ جو اس وقت تینتیس سال کا تھا، ماں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہو گیا۔ لوگ بوڑھی اماں کے لئے پریشان نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے پاس روپیہ پیسہ ہے۔ وہ گاؤں سے دور جنگل کے کنارے اس الگ تھلگ گھر میں اکیلی رہتی تھی، لیکن وہ ڈرتی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی خوف زدہ ہوئی۔ وہ بھی اپنے مردوں کی طرح سخت جان تھی۔ لمبی پتلی بوڑھی عورت جو کبھی کبھار ہنستی، اس کے ساتھ کوئی ہنسی مذاق نہیں کرتا تھا۔۔ ویسے بھی دیہاتی عورتیں کم ہی ہنستی ہیں۔مرد زیادہ ہنستے ہیں۔ عورتوں کی زندگی خشک اور مشکل تھی، جس کی وجہ سے ان کی روح افسردہ اور اذیت میں رہتی۔۔ کسان شراب خانوں سے شور شرابا اور خوش دلی سیکھ لیتے، لیکن کسان کی بیوی سنجیدہ اور سخت تاثرات لئے ہوتی۔ ان کے چہرے کے عضلات ہنسنے کی حرکت سے ناواقف رہتے۔
سفاک اماں اپنی زندگی معمول کے مطابق گزارتی رہی۔ جلد ہی برفانی موسم آ گیا۔ وہ ہفتے میں ایک دن گاؤں گوشت اور روٹی لینے آتی اور پھر واپس چلی جاتی۔۔
کہا جاتا تھا کہ اس علاقے میں بھیڑیے پائے جاتے ہیں، اس لئے وہ باہر نکلتے وقت بندوق کندھے کے ساتھ لٹکا لیتی۔ بندوق اس کے بیٹے کی تھی، زنگ آلود، مسلسل استعمال سے گھسا ہوا دستہ۔۔وہ عجیب و غریب دکھائی دیتی۔ لمبی بوڑھی عورت مگر کچھ جھکی ہوئی برف پر آہستہ آہستہ چلتی، سر کے سفید بال، جو کبھی کسی نے نہ دیکھے تھے، کالے کپڑے سے سختی سے کس کر باندھے ہوتے۔ بندوق کی نالی سر سے اوپر اٹھی ہوتی۔۔
اور پھر ایک دن پروشیائی آ گئے۔۔ انہیں مقامی آبادی پر ان کے ذرائع آمدن کے حساب سے تقسیم کر دیا گیا۔ بوڑھی عورت چونکہ خوشحال مشہور تھی، چار سپاہی اس کی رہائش گاہ پر بھیجے گئے۔وہ گوری چمڑی، سفید داڑھی، نیلی آنکھوں والے ہٹے کٹے جوان تھے۔ جنگی مصیبتیں جھیلنے کے باوجود فربہ تھے۔ مفتوحہ علاقے میں رہتے ہوئے بھی خوش اخلاق تھے۔ بوڑھی عورت کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ تھا، جتنا ممکن ہوتا اس کی محنت اور تھکاوٹ کو بانٹنے کی کوشش کرتے۔
روزانہ صبح وہ قمیض پہنے کنویں پر نہاتے۔ سفید چمکتی برف کے باوجود اپنے سفید گلابی بدن پر پانی پھینکتے، جبکہ سفاک اماں ادھر ادھر ہوتی رہتی، ان کے لئے سوپ تیار کرتی۔ جس کے بعد وہ جوان کچن کا فرش صاف کرتے، فرش پالش کرتے لکڑیاں کاٹتے، آلو چھیلتے، کپڑے دھوتے، تقریباً گھر کا ہر کام کرتے۔۔ بالکل ایسے، جیسے چار اچھے بیٹے اپنی ماں کی مدد کر رہے ہوں۔۔ لیکن بوڑھی عورت ہر وقت اپنے لمبے دبلے پتلے طوطے جیسی ناک، براؤن آنکھوں، گھنی مونچھوں، جو اس کے اوپر والے ہونٹ کو چھپائے رکھتیں اور کالے بالوں والے اپنے بیٹے کے بارے میں سوچتی رہتی۔
روزانہ وہ چولھے کے ارد گرد بیٹھے چاروں سپاہیوں سے پوچھتی، ”کیا تمہیں معلوم ہے فرانسیسی رجمنٹ 23-انفینٹری، جس میں میرا بیٹا ہے، کہاں ہے؟“
ان کا جواب ہوتا، ”نہیں، ہمیں نہیں معلوم، ہمیں کچھ پتہ نہیں۔۔“
اس کا دکھ سمجھتے کہ ان کی اپنی مائیں گھروں میں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ اس کے لیے بے شمار چھوٹی موٹی خدمات سر انجام دیتے۔ وہ خود بھی اپنے ان دشمنوں کو پسند کرتی تھی کیونکہ کسان بہت کم نفرت بوجہ حب الوطنی کرتے تھے۔ یہ اونچے طبقے کے لوگوں کا استحقاق ہے؟ عاجز، مسکین لوگ ہی زیادہ نقصان اٹھاتے۔۔ سارا بوجھ ان پر پڑتا۔۔ وہی مرنے کے لیے آگے دھکیلے جاتے۔۔ تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے وہی توپ کا چارہ بنتے۔۔کمزور ہونے کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ یہی لوگ جنگ کی سختیاں برداشت کرتے۔
وہ ہیجان انگیز تحاریک، عزت و غیرت کی حساسیت اور نام نہاد سیاسی حکمت عملی، جو چھ مہینے میں دونوں قوموں فاتح اور مفتوح کو تھکا دے، کو سمجھنے سے قاصر تھے۔۔
لوگ سفاک اماں کے ہاں ٹھہرے جرمنوں کے بارے میں کہتے، ”بلا شبہ ان چاروں کو آرام دہ رہائش ملی ہے۔“
ایک صبح جب بوڑھی عورت گھر میں اکیلی تھی۔ اس نے دور میدان میں ایک شخص کو اپنے گھر کی طرف آتے دیکھا۔ جلد ہی وہ اسے پہچان گئی۔ اس شخص کی نوکری لوگوں کو خط پہچانا تھا۔ اس نے بڑھیا کو تہہ کیا ہوا کاغذ پکڑایا۔ وہ اپنی سلائی والی عینک نکال کر پڑھنے لگی۔
’مادام سفاک! آپ کو ایک افسوسناک خبر پہنچانی ہے۔ آپ کا بیٹا وکٹر کل توپ کا گولہ لگنے سے مر گیا۔ گولے نے اسے دو حصوں میں کاٹ دیا۔ میں نے بہت قریب سے یہ سب دیکھا، کیونکہ ہم کمپنی میں ساتھ ساتھ تھے۔ اس نے مجھے کہہ رکھا تھا کہ اگر اسے کچھ ہو جائے تو میں آپ کو اطلاع کر دوں۔ میں نے اس کی گھڑی اس کی جیب سے نکال لی تاکہ جنگ کے اختتام پر آپ کو پہنچا دوں۔
آداب
سیزیر ریوٹ
سپاہی درجہ دوم، انفینٹری ریجمنٹ -32‘
خط پر تین ہفتے قبل کی تاریخ درج تھی۔
وہ بالکل نہ روئی۔۔ شدید صدمے سے حواس باختہ ساکت و جامد کھڑی رہی۔ اسے دکھ اور غم کا احساس تک نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے سوچا، ”یہ وکٹر تھا، جو چلا گیا اور مار دیا گیا۔۔“ پھر آہستہ آہستہ آنسو اس کی آنکھوں میں امڈ آئے۔ اس کا دل غم اور دکھ سے بھر گیا۔ ایک ایک کر کے خیال آنے لگے، خوفناک اور اذیت ناک خیالات۔۔ وہ کبھی اس کا بوسہ نہیں لے سکے گی۔ سپاہی نے باپ کو مار دیا، پروشیائیوں نے بیٹے کو مار دیا۔۔ وہ توپ کے گولے سے دو حصوں میں کٹ گیا۔۔ اسے لگا وہ یہ سب ہوتا دیکھ رہی ہے۔کھلی آنکھیں، گرتا ہوا سر، گھنی مونچھوں کے سرے چباتے ہوئے، جیسا کہ وہ ہمیشہ غصے میں کیا کرتا تھا۔
’انہوں نے اس کے جسم کا کیا کیا ہوگا؟ کاش وہ اسے واپس کر دیتے، جیسے اس کے خاوند کو پیشانی پر گولی مارنے کے بعد واپس کر دیا تھا‘
تب اسے پروشیائی سپاہیوں کی آوازیں سنائی دیں، جو گاؤں سے واپس آ رہے تھے۔ اس نے خط جلدی سے اپنی جیب میں چھپا لیا۔ اپنی آنکھیں صاف کیں اور پرسکون ہو کر عام دنوں کی طرح انہیں ملی۔ چاروں خوشی سے ہنس رہے تھے۔ وہ خرگوش لائے تھے، جو غالباً کہیں سے چرایا گیا تھا۔ انہوں نے اسے اشارہ کیا کہ آج وہ اچھا مزیدار کھانا کھائیں گے۔ وہ فوراً کھانا تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔ لیکن خرگوش ذبح کرتے وقت اس کا دل ہمت ہار گیا۔ چاروں میں سے ایک نے خرگوش کے کان کے پیچھے مکہ مار کر اسے ہلاک کیا۔۔
جب جانور مر گیا تو اس نے اس کے سرخ جسم پر سے کھال اتاری۔۔ لیکن خون کو دیکھ کر، جس سے اس کے ہاتھ بھر گئے۔۔ گرم گرم خون، جسے وہ محسوس کر رہی تھی، جو ٹھنڈا ہو کر جم رہا تھا، وہ سر سے پاؤں تک کانپنے لگی۔۔ وہ اپنے بیٹے کے دو حصوں میں کٹے سرخ جسم کو دیکھ رہی تھی، بالکل اسی جانور کی طرح، جو ابھی تک اس کے ہاتھوں میں کانپ رہا تھا۔۔ وہ ان پروشیائی سپاہیوں کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھ تو گئی مگر اس سے کچھ بھی کھایا نہیں جا رہا تھا۔ وہ اس کی پرواہ کیے بغیر گوشت چٹ کر گئے۔ وہ بڑی ہوشیاری سے بغیر کچھ کہے کوئی خیال سوچتے ہوئے انہیں دیکھتی رہی۔ اس کا چہرہ اتنا بے تاثر تھا کہ وہ کچھ محسوس نہ کر سکے۔
اچانک وہ ان سے مخاطب ہوئی، ”ہم ایک مہینے سے ساتھ ہیں، لیکن میں تمہارے نام نہیں جانتی۔۔“
وہ اس کی بات سمجھ گئے۔اسے اپنے نام بتائے، لیکن اس سے اس کی تسلی نہیں ہوئی۔ اس نے انہیں اپنے نام اور اپنے خاندان کے پتے کاغذ پر لکھنے کے لئے کہا۔ پھر عینک اپنے بڑے سے ناک پر درست کی۔ انجانی تحریر ملاحظہ کی۔ کاغذ تہہ کیا اور جیب میں اسی خط کے ساتھ، جس سے اسے اپنے بیٹے کی موت کی اطلاع ملی تھی، رکھ لیا۔
جب کھانا ختم ہو چکا تو اس نے انہیں بتایا کہ وہ ان کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے۔۔ پھر بھوسہ اٹھا کر اوپر جہاں وہ سوتے تھے، رکھنا شروع کر دیا۔
وہ جو کچھ کر رہی تھی، اس سے انہیں خاصی الجھن ہوئی، اس نے وضاحت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ بھوسہ انہیں گرم رکھے گا، تو وہ بھی اس کی مدد کرنے لگے۔ انہوں نے چھت تک بھوسے کے ڈھیر لگا دیے۔ اپنے لئے بڑا، گرم، خوشبودار کمرہ تیار کر لیا، جس کی چاروں دیواریں بھوسے کی بنی تھیں۔ جہاں وہ مزے سے سوئیں گے۔
رات کے کھانے پر ان میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ وہ اب بھی کچھ نہیں کھا رہی، پریشان ہوا۔ اس نے اسے یہ کہہ کر کہ اس کے پیٹ میں مروڑ پڑ رہے ہے، اسے مطمئن کر دیا۔ تب اس نے اپنے آپ کو گرم کرنے کے لئے آگ جلائی۔جبکہ چاروں جرمن حسب معمول سیڑھی سے اوپر کمرے میں چڑھ گئے۔
جونہی چھت میں لگا دروازہ بند ہوا، بوڑھی عورت نے سیڑھی ہٹا دی۔ خاموشی سے باہر کا دروازہ کھولا اور مزید بھوسہ لینے چلی گئی۔ اس بھوسے سے اس نے باورچی خانہ بھر دیا۔ وہ برف پر ننگے پاؤں اس طرح چلتی رہی کہ لڑکوں کو کوئی آواز سنائی نہ دی۔ وقفے وقفے سے اسے چاروں سپاہیوں کے خراٹوں کی آواز سنای دیتی رہی۔
جب اس کی تیاریاں مکمل ہو گئیں تو اس نے ایک بھوسے کا بنڈل جلتے چولھے میں جھونک دیا، جب اس نے آگ پکڑ لی تو اس نے اسے باقی بھوسے پر پھیلا دیا۔ خود باہر نکل کر دیکھنے لگی۔
چند لمحوں میں چمکتے دمکتے شعلے نے کاٹیج کو اندر سے روشن کر دیا۔ جلد ہی وہ خوفناک، دہکتی، بھڑکتی آگ کی بھٹی میں تبدیل ہو گیا۔اس کی روشنی تنگ کھڑکی سے باہر برف پر آنکھیں چندھیا دینے والی شعاؤں کی صورت میں پڑنے لگی۔
تب ہی ایک چیخ گھر کے اوپر والے حصے سے بلند ہوئی۔۔ ساتھ ہی انسانی چیخوں کا شور و غل، دل خراش، اذیت ناک، دہشت زدہ آہ و بکا کا شور بلند ہوا۔۔ پھر جونہی چھت کا دروازہ گرا، آگ کا بگولہ اوپر والے کمرے میں داخل ہو کر گھاس پھونس سے بنی چھت کو چھیدتا ہوا بہت بڑے روشنی کے گولے کی طرح آسمان کو نکل گیا۔ تمام کاٹیج میں آگ پھیل گئی۔
شعلوں کے چٹخنے، دیواروں کے ڈھیر ہونے، شہتیروں کے گرنے کی آوازوں کے علاوہ اندر سے کوئی آواز سنائی نہیں دے دے رہی تھی۔ اچانک چھت نیچے آ گری۔ ساتھ ہی گھر کا جلتا ڈھانچہ دھویں کے مرغولوں کے ساتھ اوپر کو اٹھا، گویا آگ کا فوارہ تھا۔۔
سارا ماحول ایسے روشن ہو گیا، جیسے سرخی مائل سلور کپڑا ہو۔۔ دور فاصلے پر گھنٹی بجنے لگی۔ بوڑھی سفاک اماں اپنے جلتے گھر کے سامنے اپنے بیٹے کی بندوق لئے کھڑی رہی، مبادہ کوئی جرمن بچ کر نہ نکل جائے۔ جب اس نے دیکھا سب کچھ ختم ہو چکا ہے، تو اس نے بندوق آگ میں پھینک دی، دھماکہ ہوا، لوگ بھاگتے ہوئے آئے۔ کسان بھی اور پروشیائی بھی۔۔ انہوں نے اس عورت کو ایک درخت کے تنے پر پرسکون بیٹھے دیکھا۔
ایک جرمن افسر نے، جو فرانسیسیوں کی طرح فرانسیسی بولتا تھا، پوچھا، ”تمھارے سپاہی کدھر ہیں؟“
اس نے اپنا دبلا پتلا ہاتھ بجھتی آگ کے سرخ ڈھیر کی طرف پھیلایا اور اونچی آواز میں جواب دیا ۔”وہاں۔۔۔!“
اس کے ارد گرد جمگھٹا لگ گیا۔ پروشیائی نے پوچھا، ”آگ کیسے لگی؟“
”میں نے لگائی“ وہ بولی
انہوں نے اس کا یقین نہیں کیا، وہ سمجھے اس اچانک تباہی نے اسے پاگل کر دیا ہے۔ سب لوگ اسے سننے کے لئے جمع ہو گئے تو اس نے ساری کہانی شروع سے آخر تک سنا دی۔ خط کے آنے سے لے کر اس کے گھر کے ساتھ جلنے والوں کی آخری چیخوں تک۔۔۔ اس نے جو کچھ محسوس کیا اور جو کچھ کیا، اس کی ہر تفصیل بتائی۔ یہ سب بتانے کے بعد اس نے جیب سے کاغذ کے دو ٹکڑے نکالے، اور انہیں علیحدہ علیحدہ کرنے کے بعد دوبارہ عینک پہنی، پھر ان میں سے ایک دکھاتے ہوئے بولی ”یہ وکٹر کی موت کا ہے۔“
دوسرا دکھاتے ہوئے اور سرخ کھنڈر کی طرف اشارہ کر کے بولی، ”یہ ان کے نام ہیں تاکہ تم ان کے خاندانوں کو اطلاع دے سکو“ یہ کہتے ہوئے سفید کاغذ بڑے سکون سے افسر کی طرف بڑھا دیا، جو اسے کندھے سے پکڑے ہوئے تھا۔۔ اپنے بیان میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بولی، ”تم انہیں سب بتاؤ کہ کیا ہوا۔۔ ان کے والدین کو بتاؤ کہ یہ سب میں نے، ’وکٹوریہ سمن‘ نے کیا۔۔ بھولنا مت۔۔!“
افسر نے چلا کر جرمن زبان میں کچھ حکم دیا۔ سفاک اماں کو پکڑ لیا گیا اور اسی مکان کی دیوار کے ساتھ جو ابھی تک گرم تھی کھڑا کر دیا گیا۔ پھر بارہ آدمی جلدی سے اس کے سامنے بیس گز کے فاصلے پر کھڑے ہو گئے۔ وہ سمجھ چکی تھی۔ ذرا بھی ہلی نہیں، انتظار میں کھڑی رہی۔۔
حکم دیا گیا، جس کی تعمیل فوراً گولیوں کی بوچھاڑ سے ہوئی۔۔ ایک کے بعد دوسرا فائر ہوتا رہا۔۔ بوڑھی عورت گری نہیں بلکہ اس طرح ڈھیر ہوئی، جیسے اس کی ٹانگیں کاٹ دی گئی ہوں۔ پروشیائی افسر اس کے پاس آیا۔ وہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور اس کے ہاتھ میں پکڑا خط خون سے بھر چکا تھا۔۔۔
میرے دوست سرول نے مزید بتایا، ”جرمنوں نے انتقاماً مقامی حویلی، جو میری ملکیت تھی تباہ کر دی“
میں اپنے طور پر ان جل جانے والے چاروں جوانوں کی ماؤں اور اس دوسری ماں کے خوفناک ہیروازم کے بارے میں سوچ رہا تھا، جسے دیوار کے ساتھ لگا کر گولیاں ماری گئیں۔ تب میں نے وہاں سے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھایا، جو کہ آگ میں جلنے کی وجہ سے ابھی تک کالا تھا۔۔
Original Title: La Mère Sauvage
English Title: Mother Savage
Written by:
Guy de Maupassant