حسبِ معمول بہت پابندی سے دوپہر کے وقت اس نے اپنا تھیلا کھولا اور اپنا پیشہ ورانہ ساز و سامان پھیلایا، جو کہ ایک درجن کوڑیوں، ایک چوکور کپڑے کے ٹکڑے، جس پر مبہم اور پراسرار زائچے بنے ہوئے تھے، ایک بیاض اور تاڑ کی چھال کی لکھی ہوئی تختیوں کے بنڈل پر مشتمل تھا۔ اس کے ماتھے پر بھبھوت مَلی ہوئی تھی اور سیندور کا قشقہ لگا تھا۔ اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی، جو گاہکوں کی لگاتار تلاش کا نتیجہ تھی۔۔ مگر اس کے سادہ لوح گاہک اسے روحانی نور سمجھتے اور مطمئن ہو جاتے تھے۔ اس کی آنکھوں کے مقام نے ان کی اہمیت اور طاقت کو بڑھا دیا تھا، جو کہ رنگے ہوئے ماتھے اور سیاہ گھنی مونچھوں کے درمیان واقع تھیں، جو اس کے رخساروں پر نیچے تک لٹکی ہوئی تھیں۔ تاثر کو دو چند کرنے کے لئے اس نے کیسری رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ اس رنگ کا انتخاب کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ لوگ اس کی طرف یوں کھنچے چلے آتے جیسے شہد کی مکھیاں کاسموس یا ڈیلیا کے پھولوں کی طرف راغب ہوتی ہیں۔
وہ ٹاؤن ہال پارک کی ایک رہگزر پر املی کے درخت کی پھیلی ہوئی شاخوں تلے بیٹھتا تھا۔ یہ جگہ متعدد لحاظ سے قابلِ ذکر تھی۔ دن چڑھے سے دن ڈھلے تک اس تنگ سڑک پر اس کے آس پاس لوگوں کا ہجوم رواں دواں رہتا۔ یہاں بہت سے تجارتی پیشہ وروں کی دکانیں تھیں۔ دوا بیچنے والے، چوری شدہ لوہا بیچنے والے، ردی بیچنے والے، جادوگر اور سب سے بڑھ کر سستے کپڑے کی نیلامی کرنے والا، جو قصبے کو متوجہ کرنے کے لئے سارا دن غُل مچائے رکھتا۔ شور مچاتا ہوا اک پھیری والا بھی بُھنی مونگ پھلی لے کر آتا تھا۔ وہ اپنے مال کو ہر روز نت نیا نام دیتا۔ کبھی اسے ’بمبے آئس کریم‘ کہتا تو کسی روز ’دہلی بادام‘ اور اگلے روز ’راجہ کے پکوان‘ اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا۔
اس ہجوم کے ایک بڑے حصے کی جوتشی کے پاس بھی بھیڑ رہتی۔ جوتشی اپنے کام کا آغاز ایک الاؤ جلا کر کرتا تھا، جس کی چٹختی چنگاریاں اور دھواں مونگ پھلی کے ڈھیر کے اوپر تک جاتا تھا۔ اس جگہ کا دلکش پہلو یہ تھا کہ یہاں پر تاریکی تھی۔ میونسپل کی طرف سے روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ آس پاس کی دکانوں کی روشنی سے یہ جگہ روشن ہوتی تھی۔ لہریے دار کرنوں اور متحرک سایوں سے بہت عجیب سا سماں بندھ جاتا۔ کچھ دکانوں پر گیس لیمپ تھے، کچھ لوگوں نے مشعلیں جلا کر کھمبوں پر ٹانکی ہوئی تھیں۔ کسی نے سائیکل لیمپ سے کام چلایا ہوا تھا۔ کچھ ایسے بھاگیوان بھی تھے، جن کے پاس جوتشی کی طرح روشنی کا انتظام ہی نہ تھا اور وہ بھی ادھر ادھر کی روشنیوں سے کام چلا لیتے تھے۔ اس طرح یہ بہت ہی حیران کن جگہ تھی۔
ان تمام چیزوں سے جوتشی کو بہت فائدہ تھا۔ کیونکہ وہ کوئی پیدائشی جوتشی نہ تھا۔ اسے لوگوں کے متعلق تو در کنار، خود اپنے متعلق بھی معلوم نہ تھا کہ اس کا آنے والا پل کیسا گزرے گا۔ وہ ستاروں کی چال سے اتنا ہی بے خبر تھا، جتنا کہ اس کے معصوم گاہک۔۔ پھر بھی وہ ایسے قیاس لگاتا، جو سب کو حیران کر دیتے۔ یہ زیادہ تر مطالعہ، مشق اور اندازے کا کھیل تھا۔
ایمانداری سے کہیں تو یہ بھی ایک مشکل کام تھا۔ وہ کسی مزدور کی طرح سارا دن محنت کرتا تھا اور شام کو اس کی اجرت لے کر گھر لوٹتا تھا۔
اسے کسی پیشگی منصوبے کے بنا اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا تھا۔ اگر وہ وہیں رہتا تو اپنے آبا و اجداد کا پیشہ جاری رکھے ہوتا۔ جیسا کہ کھیتوں میں ہل جوتنا، مکئی کے کھیتوں میں فصل اگانا، شادی کرنا اور اپنے آبائی گھر میں بوڑھا ہونا، مگر ایسا ہونا نصیبوں میں نہیں تھا۔ ایک روز اسے بنا بتائے اپنا گھر چھوڑنا پڑ گیا اور وہ بنا دَم لئے وہاں سے دو تین سو میل دور نکل آیا۔ یہ کسی دیہاتی کے لئے بہت بڑی بات تھی- اتنا فاصلہ، جیسے اس کے گاؤں اور اس جگہ کے بیچ سمندر پڑتا ہو۔
وہ انسانی مشکلات، شادی، پیسہ اور دیگر انسانی جھمیلوں کا تجزیاتی مطالعہ کرتا رہتا تھا۔ طویل مشق نے اس کی حسّیات کو جلا بخش دی تھی اور وہ پانچ منٹ میں سمجھ جاتا تھا کہ مؤکل کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ وہ ہر سوال کے تین پائی لیتا اور اس وقت تک اپنا منہ نہ کھولتا، جب تک سامنے والا دس منٹ تک بول نہ لیتا، جو کہ اسے درجنوں جوابات اور مشوروں کے لئے مواد مہیا کر دیتا۔
جب وہ گاہک کو بہت توجہ سے اس کی ہتھیلی پر نگاہیں جمائے بتاتا ”کئی لحاظ سے تمہیں اپنی کوششوں کے مکمل نتائج نہیں ملتے۔۔“ تو دس میں سے نو لوگ اسے مان جاتے اور کہتے ”یہ تو آپ نے بہت درست فرمایا۔“ یا وہ پوچھتا کہ ”کیا تمہارے خاندان میں کوئی عورت ہے، چاہے دور پار کی رشتہ دار ہی سہی۔۔ جس کا تم سے سلوک اچھا نہیں؟“ یا وہ کردار کا تجزیہ کرتا ”تمہاری بہت سی مشکلات تمہاری فطرت کا شاخسانہ ہیں۔۔ ورنہ مشکلات کیوں تمہارے گھر آن کر بیٹھتیں۔ تم بے چین فطرت کے مالک ہو اور تمہاری قسمت ہی خراب ہے۔“ اس طرح وہ گاہک کے دل میں اپنی جگہ بنا لیتا۔ کیونکہ ہر معمولی سے معمولی شخص بھی یہ تصور کرنا پسند کرتا ہے کہ وہ بظاہر برا دکھائی دیتا ہے، مگر دل کا بہت اچھا ہے۔
مونگ پھلی والے نے پھونک مار کر آگ بجھائی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ جوتشی کے لئے اشارہ تھا کہ وہ بھی اپنا مال اسباب سمیٹے۔ آگ بجھنے سے اس کے اطراف میں اندھیرا چھا گیا تھا اور دور کہیں سے ہرے رنگ کی روشنی کی اک کرن آ رہی تھی، جس نے اس کے سامنے کی زمیں کو روشن کر دیا تھا۔
اس نے اپنی کوڑیاں اور دیگر ساز و سامان اٹھایا اور انہیں تھیلے میں ڈالنے لگا تو وہ ہری کرن دھندلا گئی۔ اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو اپنے سامنے ایک شخص کو کھڑے پایا۔ جوتشی نے اسے ممکنہ گاہک سمجھا اور بولا ”تم بہت تھکے ہوئے نظر آتے ہو۔ تمہارے لئے اچھا ہوگا کہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھو اور مجھ سے گپ شپ لگاؤ۔“
دوسرے شخص نے
بڑ بڑا کر کوئی مبہم سا جواب دیا۔ جوتشی نے پُر زور انداز میں اپنی بات دہرائی۔ جس پر دوسرے شخص نے اپنی ہتھیلی کو اس کی ناک کے نیچے لہرایا، ”تم خود کو جوتشی کہتے ہو؟“
جوتشی نے اسے چیلنج سمجھا اور اس کی ہتھیلی کو اپنے سامنے جھکاتے ہوئے بولا ”تمہاری ایک عادت ہے۔۔۔۔“
”اوہ! بند کرو یہ سب“ دوسرے شخص نے کہا، ”مجھے کچھ ایسا بتاؤ، جو بتانے کے قابل ہو۔۔“
جو تشی غصے میں آ گیا، ”میں ایک سوال کے صرف تین پائی لیتا ہوں اور بدلے میں جو بتاتا ہوں، وہ تمہاری رقم سے کہیں قیمتی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔“
اس بات پر دوسرے شخص نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور ایک آنہ نکال کر یہ کہتے ہوئے اس کی جانب اچھال دیا کہ ”میرے پاس پوچھنے لے لئے کچھ سو الات ہیں۔۔ اگر میں نے ثابت کر دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو تمہیں وہ آنہ سود سمیٹ مجھے لوٹانا ہوگا۔“
”اگر میرے جوابات نے تمہیں مطمئن کر دیا تو کیا تم مجھے پانچ روپے دو گے؟“
”نہیں!“
”یا پھر تم مجھے آٹھ آنے دو گے؟“
”ٹھیک ہے۔۔ دئیے جائیں گے۔ مگر تم غلط ثابت ہوئے تو تمہیں مجھے دگنا لوٹانا ہو گا۔“ اجنبی نے کہا
کچھ بحث مباحثے کے بعد معاہدہ طے پا گیا۔ جوتشی نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر خدا سے دعا مانگی۔ اس اثناء میں اجنبی نے چروٹ سلگایا۔
ماچس کی روشنی میں جوتشی نے اجنبی کے چہرے کی ہلکی سی جھلک دیکھی۔ بات چیت میں کچھ توقف آ گیا۔ سڑک پر ایک کار نے زور سے ہارن بجایا۔ تانگے والے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ ہجوم کے شور و غوغا نے پارک کی نیم تاریکی کو اور بھی گھمبیر کر دیا۔
دوسرا شخص چروٹ پیتے اور دھواں پھینکتے ہوئے بے رخی سے وہاں بیٹھ گیا۔ جوتشی نے بہت بے آرامی محسوس کی
”یہ لو، پکڑو اپنا آنہ۔۔ مجھے ایسے چیلنجوں کی عادت نہیں۔ مجھے آج دیر بھی ہو گئی ہے۔۔۔۔“ وہ سامان سمیٹنے کی تیاریوں میں لگ گیا
دوسرے شخص نے اس کی کلائی تھام لی اور بولا ”اب تم اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ جب میں گزر کر جا رہا تھا تو، تو مجھے یہاں کھینچ لایا“
جوتشی اس کی گرفت میں کانپنے لگا۔ اس کی آواز لرزنے لگی اور بیٹھ گئی، ”آج کا دن مجھے جانے دو، میں کل تم سے بات کروں گا“
اجنبی نے اپنی ہتھیلی اس کے چہرے کے سامنے پھیلا دی اور کہا، ”شرط تو شرط ہے۔ اسے پورا کرو۔“
جوتشی اپنے خشک گلے کے ساتھ شروع ہو گیا، ”ایک عورت ہے۔۔۔“
”رک جاؤ“ دوسرے شخص نے کہا، ”مجھے اس سب کی ضرورت نہیں۔ کیا میں اپنی حالیہ تلاش میں کامیاب ہو جاؤں گا یا نہیں؟ مجھے اس کا جواب دو اور جاؤ۔ بہ صورتِ دیگر، جب تک سارے سکے تیرے حلق سے نہ نکال لوں، تجھے جانے نہیں دوں گا!“
جوتشی نے کچھ منتر بدبدائے۔ اور جواب دیا ”ٹھیک ہے، میں بتاؤں گا۔۔ لیکن کیا تم مجھے ایک روپیہ دو گے اگر میں نے تمہیں متاثر کر لیا تو؟ ورنہ میں اپنا منہ نہیں کھولوں گا۔ اور تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔“
کچھ پس و پیش کے بعد دوسرا شخص راضی ہو گیا۔
جوتشی بولا ”تمہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔۔ کیا میں نے درست کہا؟“
”آہ! مجھے مزید بتاؤ۔۔۔“
”ایک مرتبہ تمہیں چاقو گھونپا گیا تھا۔“ جوتشی نے بتایا
”بہت اچھے۔۔۔“ اس نے گھاؤ دکھانے کے لئے اپنا سینہ ننگا کر دیا، ”اور کچھ۔۔۔۔“
”اور کھیتوں کے پاس تمہیں ایک کنوئیں میں دھکا دیا گیا تھا اور تمہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا-“
”میں تو مر ہی گیا ہوتا، اگر کسی مسافر نے اتفاقاً کنوئیں میں نہ جھانکا ہوتا۔۔“ اجنبی نے پُر جوش ہو کر وضاحت کی۔۔ ”مجھے وہ شخص کب ملے گا؟“ اس نے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا
”دوسرے جہان میں۔۔۔“ جوتشی نے جواب دیا، ”چار ماہ قبل وہ ایک دور دراز گاؤں میں وفات پا چکا ہے۔ تم اس سے اب کبھی نہیں مل پاؤ گے۔“
دوسرا شخص یہ سن کر غرّایا۔ جوتشی نے بات جاری رکھی، ”گرو نائک۔۔۔“
”تم میرا نام بھی جانتے ہو!“ دوسرے شخص نے حیران ہو کر کہا
”اسی طرح، جیسے میں دیگر تمام باتیں جانتا ہوں۔۔ توجہ سے سنو! جو میں کہنا چاہتا ہوں۔۔ اس گاؤں کے شمال میں، جہاں تمہارا گاؤں ہے، وہاں جانے میں دو دن لگتے ہیں۔۔ ٹرین پکڑو اور چلتے بنو۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ اگر اب تم گھر سے نکلے تو تمہاری جان کو خطرہ ہے۔۔“ اس نے چٹکی بھر بھبھوت لی اور اجنبی کو تھما دی، ”اسے اپنے ماتھے پر رگڑو اور گھر جاؤ۔۔ دوبارہ جنوب کی جانب کبھی سفر مت کرنا۔۔ تم سو سال تک جیو گے۔“
”مجھے بھلا دوبارہ گھر چھوڑنے کی کیا پڑی ہے۔“ دوسرے شخص نے پُر سوچ انداز میں کہا، ”میں تو صرف اس شخص کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا کہ اگر وہ مل جائے تو اس کی زندگی کا خاتمہ کر سکوں۔“ اس نے تاسف سے اپنا سر ہلایا، ”وہ میرے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ مجھے امید ہے وہ اسی طرح اپنے انجام کو پہنچا ہوگا، جس کا وہ حقدار تھا“
”ہاں۔۔۔“ جوتشی نے کہا، ”وہ ایک لاری کے نیچے کچلا گیا تھا۔“ یہ سن کر اجنبی کی تسکین ہو گئی۔
وہ جگہ بالکل سنسان ہو چکی تھی۔ جب جوتشی نے اپنا سامان سمیٹ کر تھیلے میں ڈالا۔ ہری روشنی بھی گُل ہو چکی تھی۔ تمام علاقہ اندھیرے اور خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اجنبی بھی مٹھی بھر سکے دینے کے بعد تاریکی میں گم ہو گیا تھا۔ قریباً آدھی رات کا وقت تھا، جب جوتشی گھر پہنچا۔ اس کی بیوی دروازے پر منتظر تھی، اس نے تاخیر سے آنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے سکے بیوی کی طرف اچھال دئیے اور کہا، ”گِنو انہیں۔۔ ایک آدمی نے یہ سب سکے دیے ہیں۔“
”ساڑھے بارہ آنے ہیں۔۔“ اس نے گن کر بتایا۔ وہ بے تحاشا خوش تھی، ”میں کل گُڑ اور کچھ ناریل خریدوں گی۔ ہمارا بچہ بہت دنوں سے میٹھا مانگ رہا تھا۔ میں اس کے لئے اچھی سی مٹھائی بناؤں گی“
”اس سؤر نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔۔ اس نے مجھے ایک روپیہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔“ جوتشی بولا
بیوی نے اس کی طرف دیکھا، ”تم پریشان دکھائی دیتے ہو۔۔ کیا مسئلہ ہے؟“
”کچھ نہیں“
کھانا کھانے کے بعد اس نے چبوترے پر بیٹھتے ہوئے بیوی کو بتایا، ”کیا تم جانتی ہو کہ آج میرے کندھوں سے بڑا بوجھ ہٹ گیا ہے۔ ان تمام سالوں میں یہی خیال مجھ پر سوار رہا کہ میرے ہاتھوں اک خون ہوا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں گاؤں سے بھاگ آیا تھا اور یہاں قیام پذیر ہو کر تم سے شادی کر لی تھی۔۔ وہ زندہ ہے۔۔“
وہ خوف سے ہانپنے لگی، ”تم نے کسی کی جان لینے کی کوشش کی تھی!“
”ہاں! گاؤں میں جب میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا تھا، ہم نے شراب پی، جوا کھیلا اور بری طرح لڑائی کی۔۔۔۔۔ لیکن اب ان سب باتوں کو سوچنے کا کیا فائدہ؟ سونے کا وقت ہے۔۔“ اس نے جمائی لیتے ہوئے کہا اور چبوترے پر دراز ہو گیا۔
Original Title: An Astrologer’s Day
Writer: R.K. Narayan