حال ہی میں انگلینڈ میں جاری ایشیز سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں ایلکس کیری کی طرف سے جونی برسٹو کو اسٹمپ کرنے پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ روایتی اسٹمپ نہیں تھا، جو ہم کرکٹ میں عام طور پر دیکھتے رہتے ہیں، یہاں بلے باز کوئی شاٹ کھیلنے نہیں جا رہا تھا، بس اس سے یہ چُوک ہوئی کہ گیند ڈیڈ ہونے سے پہلے کریز چھوڑ کر چل نکلے، جس کا فائدہ آسٹریلیوی وکٹ کیپر نے اٹھایا
اگرچہ کرکٹ قوانین کی رو سے برسٹو کے آؤٹ ہونے میں کوئی شبہ نہیں، مگر اس کے باوجود ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو انہیں اس طرح آؤٹ کیے جانے کو اسپورٹس مین اسپرٹ اور کھیل کی روح کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر میزبان ٹیم کے حامی اس پر برافروختہ ہوئے۔ میڈیا نے واویلا مچایا۔ لارڈز کے لانگ روم میں ایم سی سی کے اراکین نے مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں پر آوازے کسے، جس کے باعث تین اراکین کی رکنیت بھی معطل ہوئی
کھلیوں میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے، تو ’قانونی طور پر‘ اور ’اخلاقی طور پر‘ کی اصطلاحات کی بنیاد پر ایک بحث چھڑ جاتی ہے، سو اس بار بھی ایسا ہی ہوا
اس قضیے کے بعد ’اسپورٹس مین اسپرٹ‘ کی بحث سے کرکٹ سے جڑے ماضی کے کتنے ہی واقعات ذہن میں آتے ہیں، جب آسٹریلیا اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے کرکٹ پر بٹہ لگایا۔ ان دنوں آسٹریلوی ٹیم کا طرزِ عمل خبروں کا موضوع ہے، تو ٹیسٹ اور ون ڈے سے ایک ایک مثال چھانٹ کر بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیری اور آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز تو کسی شمار قطار میں نہیں۔ اسپورٹس مین اسپرٹ کے پلڑے میں سرڈان بریڈ مین اور گریگ چیپل کو تولا جائے تو وہ بھی ہلکے نکلیں۔ بات پہلے دنیا کے عظیم ترین بلے باز ڈان بریڈمین کی کر لیتے ہیں
یہ 1946 کی بات ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روایتی حریف پہلی دفعہ ایشیز کھیل رہے تھے۔ جنگ کی وجہ سے تعطل سے پہلے 30 کی دہائی میں دنیائے کرکٹ میں بریڈمین کا راج تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ سے آٹھ سال کی دوری اور بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے ان کے کھیل میں پہلے جیسی بات نہیں رہی تھی۔ اس پر مستزاد، وہ فٹنس کے مسائل سے دوچار تھے، ان کی بینائی متاثر ہوئی اور کندھے کی تکلیف الگ۔۔ اس لیے ٹیسٹ سیریز سے پہلے اخبارات میں ان کی ٹیم میں شمولیت کا معاملہ مسلسل زیرِ بحث رہا۔ خیر، بریڈمین نے انگلیڈ کے خلاف کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ حتیٰ کہ یہ فیصلہ اس حد تک غیر متوقع تھا کہ ڈینس کامپٹن، جس نے دوسری جنگِ عظیم سے پہلے 1938 میں ایشیز سیریز میں حصہ لیا تھا، انہیں 1946ع میں بریڈمین کو دیکھ کر جھٹکا لگا
انگلینڈ کے بعض کھلاڑیوں کا خیال تھا کہ بریڈمین کو کرکٹ پچ کے بجائے نرسنگ ہوم جانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نے بریڈمین کو برسبن میں پہلا ٹیسٹ نہ کھیلنے کا مشورہ دیا، جسے انہوں نے نظرانداز کر دیا۔ اس میچ میں ان کی کھلی ’بے ایمانی‘ کے بارے میں، میں نے سب سے پہلے ای ایم ویلنگز کی کتاب ’وینٹج کرکٹرز‘ میں پڑھا۔ اچھا، اب یہ کوئی معمولی کتاب نہیں، اسے معروف کرکٹ رائٹر اسٹیون لنچ نے کرکٹ کے بارے میں اپنی پسندیدہ گیارہ کتابوں میں شامل کیا ہے
برسبن ٹیسٹ میں بریڈمین بہت دباؤ میں تھے۔ ان کی اننگ کا آغاز پُراعتماد نہیں تھا۔ گیند ان کے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ پہلے چالیس منٹ میں وہ مشکل سے سات رنز بنا پائے۔ یہ سب ان کی کلاس کے برعکس تھا
28 کے اسکور پر بل ووس کی گیند پر جیک اکین نے دوسری سلپ میں کندھے کی اونچائی کے برابر ان کا کیچ پکڑا، لیکن پویلین کا رخ کرنے کے بجائے بریڈمین ڈھٹائی سے وکٹ پر کھڑے رہے اور حیران کن طور پر امپائر نے بھی انگلی اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی
بریڈمین کا خیال تھا کہ یہ بمپ بال تھی اور فیلڈر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے گیند نے زمین کو چھوا تھا۔ جب کہ ای ایم ویلنگز کے خیال میں یہ بالکل ناممکن بات تھی، کیونکہ سکینڈ سلپ میں کندھے کے برابر اونچائی پر گیند بلے کے اوپری کنارے سے چھونے پر ہی جا سکتی ہے، لہٰذا اس کے زمین سے لگنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا
اس واقعے کے بارے میں مارٹن ولیم سن کے مضمون میں بڑی کار آمد اور دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ انگلینڈ کے کھلاڑیوں کو بریڈمین کے آؤٹ ہونے کا اس حد تک یقین تھا کہ انہوں نے اپیل تک نہیں کی، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بریڈمین ٹس سے مس نہیں ہو رہے تو وہ امپائر کی طرف متوجہ ہوئے، جس نے نفی میں سر ہلا دیا
انگلینڈ کے نائب کپتان نارمن یارڈلے، جو گلی میں فیلڈنگ کر رہے تھے، ان کے خیال میں بھی گیند بریڈمین کے بلے کے اوپری کنارے سے چھو کر سیدھی فیلڈر کے ہاتھ میں گئی ہے اور جب انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا تو انگلینڈ کے کھلاڑی حیرت زدہ رہ گئے
ریڈیو کمنٹیٹر کلف کیری نے یہ تک کہہ دیاتھا 🙁 Bradman is out … caught Ikin bowled Voce 28. ) وہ بعد میں اپنے مؤقف پر قائم رہے اور لکھا کہ بریڈمین کے وکٹ نہ چھوڑنے پر وہ بھی حیران رہ گئے
یہ کیتھ ملر کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ ایکن کے ہاتھوں میں گیند محفوظ ہوتے دیکھ کر وہ فوری طور پر سیٹ سے اٹھے، گلوز اور بلا ہاتھ میں تھامے، دھڑکتے دل کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری پکڑی، لیکن پھر دیکھا کہ بریڈمین تو وکٹ سے ہل نہیں رہے تو وہ دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اخبارات نے عظیم آسٹریلیوی بلے باز کو طعن و تشنیع کے نیزے پر رکھ لیا۔ ڈیلی ایکسپریس میں ہیریلڈ ڈیل نے لکھا ”پہلے دن کے اختتام پر بریڈ مین نے دو اننگز کھیلیں۔ پہلی میں انہوں نے 28 رنر بنائے۔“
بریڈمین نے اس ’روندی‘ سے پورا فائدہ اٹھایا اور 187رنز بنائے۔ برسبن میں انگلینڈ کے خلاف پہلی سنچری جھڑ دی۔ ہیسٹ کے ساتھ تیسری وکٹ کی شراکت میں 276 رنز جوڑے۔ آسٹریلیا نے اپنے ملک میں سب سے زیادہ 645 رنز کا ریکارڈ بنایا۔ ویلنگز اور ولیم سن کی دانست میں بریڈ مین 28 رنز پر آؤٹ ہو جاتے تو غالباً ان کا ٹیسٹ کرئیر انجام کو پہنچ جاتا۔ اس سیریز میں آسٹریلیوی امپائروں نے کئی اور موقعوں پر بھی غلط فیصلے دیے۔ چوتھے ٹیسٹ میں امپائر بریڈمین کا صاف ایل بی ڈبلیو نفی سے ڈکار گیا
ویلنگز نے اس بات پر حیرت ظاہر کی ہے کہ آسٹریلیا میں یہ بدترین امپائرنگ اس مہمان ٹیم کے ساتھ ہو رہی تھی، جس کا سیریز جیتنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا، کیونکہ میزبان ٹیم ہر شعبے میں اس سے آگے تھی۔
اس طرح کے کارناموں کی فہرست میں گریگ چیپل کا نام بھی آتا ہے، جس کا تذکرہ بیالیس سال گزرنے پر بھی پڑھنے سننے کو ملتا رہتا ہے
فروری 1981: آسٹریلیا کے خلاف نیوزی لینڈ کو آخری گیند پر میچ ٹائی کرنے کے لیے چھ رنز چاہیے تھے، ایسے میں گریگ چیپل نے بولر سے، جو خیر سے اس کا بھائی ٹریور چیپل تھا، کہا کہ وہ انڈر آرم گیند کرے تاکہ گیند کے باؤنڈری لائن سے باہر جانے کا امکان ہی نہ رہے۔ چھوٹا بھائی صرف بڑے بھائی کی فرمانبرداری اور کپتان کے حکم کی تعمیل ہی نہیں کر رہا تھا، دل سے بھی اس آئیڈیا کے ساتھ تھا۔ اس کی گیند پر برین میکچین نے احتجاج یوں ریکارڈ کروایا کہ گیند پر شاٹ کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی، بس اسے روکنے پر اکتفا کیا اور پھر غصے میں بلا ہوا میں اچھال دیا۔ امپائر نے آخری گیند سے پہلے بولر کی منشا سے میکچین کو آگاہ کیا تو اسے یقین ہی نہیں آیا۔ ادھر دو بھائی تو میدان میں یہ گُل کھلا رہے تھے اور تیسرا ایان چیپل کمنٹری باکس میں گریگ چیپل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا ”نہیں گریگ! نہیں تم ایسا نہیں کرسکتے۔۔“
وکٹ کیپر روڈنی مارش بھی کپتان کی سوچ سے متفق نہیں تھے۔ نیوزی لینڈ والے پہلے ہی چیپل پر تپے بیٹھے تھے، کیونکہ امپائر نے انہیں کیچ آؤٹ نہیں دیا تھا، جبکہ فیلڈر نے ان کا ’کلین‘ کیچ لیا تھا۔ چیپل اور ٹریور کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ انڈر آرم گیند سے اس قدر رسوائی ان کے حصے میں آئے گی۔ غیر تو غیر اپنے بھی اس کی مذمت کریں گے۔ کیتھ ملر نے کہا ”ون ڈے کرکٹ مر گئی جس کے ساتھ گریگ چیپل کو بھی دفن کر دینا چاہیے۔“
بریڈمین نے آسٹریلیا کے ہر قیمت پر فتح یاب ہونے کے اندازِ نظر پر افسوس کا اظہار کیا۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے اسے قبیح اور بزدلانہ فعل قرار دیا تو ان کے آسٹریلیوی ہم منصب نے اسے کرکٹ کی روایات سے برعکس ٹھہرایا
گریک چیپل کو اپنے ’کارنامے‘ کی سنگینی کا احساس کسی مبصر کے تبصرے، کسی کھلاڑی کی تنقید نے نہیں بلکہ ایک چھوٹی بچی نے دلایا، جو بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی اور آستین کھینچتے ہوئے کہا ”آپ نے بے ایمانی کی ہے۔“ نظروں سے گرنا اسی کو کہتے ہیں۔ اور زندگی میں اس صورت حال کا سامنے ہر اس شخص کو کرنا پڑتا ہے، جو کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔