منی پور میں خواتین کی برہنہ پریڈ اور ان پر جنسی تشدد کی وڈیو پر مودی سرکار تنقید کی زد میں

ویب ڈیسک

انتشار کی شکار بھارتی ریاست منی پور میں ڈھائی ماہ سے جاری نسلی فسادات کے دوران ایک ہجوم کے سامنے دو خواتین کو برہنہ کر کے سڑک پر گشت کرانے اور ان پر جنسی تشدد کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی ہے، جس نے بھارت کے سیاسی و سماجی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ہندوؤں کے ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے دو عیسائی خواتین کو برہنہ کر کے انہیں کئی کلو میٹرز تک پریڈ کروانے اور اسی دوران ان پر تشدد کیے جانے کی وڈیوز وائرل ہونے کے بعد مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ملوث افراد کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے

منی پور کے ضلع کانگ پوکپی کی مختصر دورانیے کی وڈیوز 19 جولائی کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں، جن میں مشتعل ہجوم کو دو برہنہ خواتین کو پریڈ کرواتے ہوئے دیکھا گیا تھا

وائرل وڈیوز میں مشتعل افراد برہنہ خواتین پر تشدد بھی کرتے دکھائی دیے، جب کہ ان کے ساتھ نامناسب حرکتیں بھی کرتے رہے اور بعد ازاں ایک خاتون کو گینگ ریپ کا نشانہ بھی بنایا گیا

بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ وڈیو کم از کم دو ماہ پرانی ہے، مذکورہ واقعہ رواں برس 4 مئی کو منی پور کے ضلع تھوبل میں ہوا تھا اور متاثرہ خواتین کے مسیحی قبیلے کوکی کے معزز افراد نے 18 مئی کو پولیس کو واقعے کا مقدمہ دائر کرنے کی درخواست دی تھی

4 مئی کو پیش آنے والے واقعے کا مقدمہ 21 جون کو درج کرنے والی پولیس کا کہنا ہے ”معاملے پر تحقیقات جاری ہے۔ پولیس مجرموں کو پکڑنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے“

مذکورہ واقعے میں ایک ہزار تک افراد کو نامزد کیا گیا تھا اور خواتین کو برہنہ کرنے کے معاملے میں علاقے کے ہندو قبیلے کے میتلی افراد کے لوگ ملوث تھے

واقعے کی ایف آئی آر میں کیا درج ہے؟

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق 4 مئی کو تھوبل میں کوکی زومی برادری کی خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم جنسی ہراسانی کا مقدمہ 18 مئی کو ضلع کانگپوکپی میں درج کیا گیا۔ اس کے بعد متعلقہ پولیس اسٹیشن کو کیس بھیج دیا گیا

’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق کوکی قبیلے کی جانب سے درخواست دیے جانے کے ایک ماہ بعد 21 جون کو پولیس نے مقدمہ دائر کرتے ہوئے پہلی گرفتاری 19 جولائی کو کی تھی

منی پور کی پولیس کے مطابق اس واردات کے کلیدی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کا نام ہیراداس ہے اور اس کی عمر بتیس سال ہے

وزیرِ اعلیٰ این بیرن سنگھ نے کہا کہ ملزم کو سزائے موت دینے پر غور کیا جائے گا۔ جبکہ کوکی قبائل نے وزیرِ اعلیٰ بیرن سنگھ اور وزیرِ اعظم نریندر مودی سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے

وڈیو میں ایک خاتون کی عمر بیس برس جبکہ دوسری کی چالیس برس بتائی گئی ہے۔ ان خواتین نے پولیس کو دیے بیان میں کہا کہ وڈیو میں صرف دو خواتین نظر آ رہی ہیں جبکہ وہاں موجود جتھے نے پچاس سال کی خاتون کے بھی کپڑے اتارے تھے۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ ایک نوجوان خاتون کو دن کی روشنی میں گینگ ریپ کیا گیا

متاثرہ خواتین کوکی قبائل سے متعلق بتائی جاتی ہیں۔ یہ اقلیتی برادری عیسائی مذہب کی پیروکار ہے، جب کہ واقعے میں ملوث اکثریتی میتی برادری مذہبی طور پر ہندو ہے

متاثرین نے بتایا کہ 3 مئی کو تھوبل میں ان کے گاؤں میں جدید ہتھیاروں سے لیس آٹھ سو سے ایک ہزار افراد نے حملہ کیا، جو وہاں گولیاں برسانے اور لوٹ مار کرنے لگے

ان حالات میں ایک نوجوان اور دو معمر خواتین اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ جنگل کی طرف بھاگے

شکایت کے مطابق پولیس نے انہیں بچا لیا۔ جب پولیس انھیں تھانے لے جا رہی تھی تو تھانے سے دو کلو میٹر دور جتھے نے ان خواتین کو اغوا کیا اور کپڑے اتارنے پر مجبور کیا

ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے ان خواتین کو پولیس کی تحویل سے لیا، جس کے بعد نوجوان خاتون کے والد کو موقع پر قتل کر دیا گیا

ایف آئی آر کے مطابق ایک جتھے نے تین خواتین کو مظاہرین کے سامنے بغیر کپڑوں کے چلنے پر مجبور کیا جب کہ نوجوان خاتون کو ہجوم کے سامنے گینگ ریپ کیا گیا۔ ان کے بھائی نے انہیں جتھے سے بچانے کی کوشش کی مگر اسے بھی قتل کر دیا گیا

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق متاثرین میں سے ایک خاتون نے بات چیت میں کہا کہ ہجوم میں پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔ ان کے مطابق پولیس نے ہمیں مشتعل بھیڑ کے حوالے کر دیا تھا

میڈیا ویب سائٹ ’اسکرول ڈاٹ ان‘ کے مطابق متاثرین میں سے ایک چالیس سالہ خاتون نے اس کے نمائندے سے گفتگو میں کہا کہ حملہ آوروں نے ان لوگوں کے سامنے ان کے ایک پڑوسی اور اس کے بیٹے کو ہلاک کر دیا

ان کے مطابق انہوں نے ہم سے کہا کہ اگر کپڑے نہیں اتارو گے تو تمہیں بھی ہلاک کر دیں گے۔ ہم نے اپنی جان بچانے کی خاطر ان کا مطالبہ منظور کر لیا۔ اس دوران وہ لوگ ہم پر جنسی تشدد کرتے رہے

علاقے کے قبائلی رہنماؤں کے گروہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجرموں نے متاثرین کی نشاندہی کروانے کے لیے وڈیو جاری کی تاکہ ان پر مزید دباؤ ڈالا جائے

ریاست میں خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم نے اس واقعے پر احتجاجی مظاہرے کی کال دی ہے مگر حکومت نے احتجاج کو روکنے کے لیے ریاست کے پانچ اضلاع میں غیر معینہ کرفیو نافذ کر دیا ہے

اخبار دی ہندو کے مطابق منی پور کے حالات کو دیکھتے ہوئے سنٹرل ریزوو پولیس فورس نے ناگالینڈ اور آسام سے دو پولیس افسران کو منی پور تعینات کر دیا ہے۔ اس وقت منی پور میں مرکز سے مسلح افواج کی 124 کمپنیاں اور فوج کے 184 دستے تعینات ہیں

خواتین کو برہنہ کر کے انہیں کئی کلومیٹرز تک بے لباس گھمانے اور ان پر تشدد کی وڈیو سامنے آنے کے بعد بھارت کے مختلف سیاست دانوں، صحافیوں، سماجی رہنماؤں، اسپورٹس اور بولی وڈ شخصیات نے واقعے پر اظہار افسوس کیا اور حکومت سے ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے

وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سے مرکز میں حزب اختلاف کے رہنماؤں، بشمول کانگریس کے ارکان، نے شدید ردعمل دیا ہے اور حکمراں بی جے پی کے وزرا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے

دریں اثنا بھارتی حکومت نے ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس وڈیو کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس واردات کی مذمت کی ہے۔ اس نے مذکورہ وڈیو کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ صدمہ انگیز واقعہ منی پور میں ہونے والے تشدد کی سنگینی اور شرپسندوں کو ملی چھوٹ کی یاد دلاتا ہے

اس نے مزید کہا کہ مئی میں تشدد برپا ہونے کے بعد انتظامیہ نے انٹرنیٹ پر پابندی عاید کر دی جو آج بھی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے منی پور میں انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزیوں پر پردہ پڑا ہوا ہے

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم دہلی کی ایک تنظیم ’آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن‘ (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) کی جنرل سیکریٹری مریم دھاولے کا کہنا ہے کہ منی پور میں تین مئی سے ہی تشدد جاری ہے لیکن وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ خاموش ہیں۔ اب جب کہ ایک بھیانک واردات کی ویڈیو سامنے آگئی ہے تو انھیں اب تو بولنا چاہیے۔

انہوں نے مودی حکومت پر نفرت کی سیاست کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس کی وجہ سے عام لوگوں کے اندر کا وحشی پن اب ظاہر ہونے لگا ہے۔ اس سیاست کے خلاف پورے ملک میں زبردست غصہ ہے۔ ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے

کانگریس رہنماؤں پریانکا گاندھی اور راہل گاندھی نے معاملے پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی پر تنقید کی ہے

پریانکا گاندھی نے کہا ہے ”منی پور میں خواتین پر جنسی تشدد کے مناظر افسوس ناک ہیں۔ اس خوفناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ معاشرے میں تشدد کی قیمت سب سے زیادہ خواتین اور بچوں کو ادا کرنا پڑتی ہے“

انھوں نے مزید کہا ”مرکزی حکومت، وزیر اعظم منی پور میں پُرتشدد واقعات پر آنکھیں بند کیوں کیے ہوئے ہیں؟ کیا یہ مناظر اور پُرتشدد واقعات انہیں پریشان نہیں کرتے؟“

جب کہ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ ’وزیر اعظم مودی کی خاموشی نے منی پور کو فسادات کی طرف دھکیل دیا۔ منی پور حملوں کی زد میں ہے مگر ’انڈیا‘ خاموش نہیں رہے گا۔ ہم منی پور کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور واحد راستہ امن ہے۔‘

واضح رہے کہ حال ہی میں انڈیا میں اپوزیشن کے اتحاد نے اپنا نام ’انڈیا‘ رکھا ہے

دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے کہا کہ یہ واقعہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ ”بھارتی سماج میں ایسے جرائم کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ منی پور کی صورتحال پریشان کن ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت میں ایسے مجرمان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔“

بھارتی وزیر سمریتی ایرانی نے کہا ہے کہ انھوں نے معاملے پر ریاستی وزیر اعلیٰ سے بات کی ہے اور مجرمان کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

گزشتہ روز وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک تقریب سے خطاب میں بالآخر اس معاملے پر اپنی زبان کھولی اور کہا کہ منی پور میں بیٹیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو کبھی نہیں بھولیں گے اور ملزمان کو نہیں چھوڑا جائے گا

انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ بھارت کے ایک ارب چالیس کروڑ عوام کے لیے شرمساری کا باعث ہے

وزیرِ اعظم مودی بولے ”میرا دل اس واقعے پر درد اور غصے سے بھرا ہوا ہے۔“

خواتین کی بے حرمتی کی وڈیو پر بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندراچند نے بھی کہا ہے کہ یہ واقعہ قانون کی سنگین ناکامی کے مترادف ہے اور یہ ناقابلِ برداشت ہے۔

چیف جسٹس نے حکومت کو ہدایت کی کہ معاملے کا نوٹس لیا جائے اور علاقے میں خواتین کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا جائے

خیال رہے کہ منی پور میں میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان فسادات 3 مئی کو شروع ہوئے۔ پُرتشدد واقعات میں اب تک 142 افراد مارے گئے ہیں جبکہ قریب 60 ہزار شہری بے گھر ہو گئے ہیں۔

ریاستی حکومت کے مطابق ان پُرتشدد حالات میں آتشزنی کے 5000 واقعات ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں منی پور کی حکومت نے بتایا کہ پُرتشدد واقعات پر 5995 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور 6745 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے

منی پور میں نسلی فسادات ریاست کی اکثریتی آبادی میتی اور پہاڑوں پر آباد قبیلے کوکی کے درمیان ہو رہے ہیں۔

کوکی قبائل کو طویل عرصے سے یہ خدشہ ہےکہ میتی برادری کو ان علاقوں میں بھی زمینیں حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جو فی الحال کوکی قبیلے سمیت دیگر قبائلی گروہوں کے لیے مختص ہیں

میتی کمیونٹی منی پور ریاست کی کل آبادی کا 53 فی صد ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ انہیں میانمار اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں آنے والے تارکینِ وطن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت میتی کمیونٹی کو منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے

منی پور کی غیر قبائلی آبادیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں قبائل کا درجہ دیا جائے تاکہ ان کی آبائی زمین، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل سکے۔ دوسری جانب اس مطالبے کے خلاف منی پور کے قدیم قبائل کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں

بھارت میں مذہبی امتیاز خوف ناک سطح پر پہنچ گیا ہے

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھارت میں مذہبی امتیاز اس حد تک خوف ناک سطح پر پہنچ گیا ہے کہ بھارت کے سنجیدہ حلقوں اور سماجی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو اپنا راستہ بدلنا ہوگا

یاد رہے کہ سال 2005 میں امریکی محکمۂ خارجہ نے 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور فرقہ ورانہ تشدد میں کردار کی وجہ سے نریندر مودی کا سیاحتی و کاروباری ویزا منسوخ کر دیا تھا

انسانی حقوق کے گروپوں نے مودی حکومت پر مسلمان، عیسائی اور سکھ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے امتیازی مذہبی قوم پرستی کو فروغ دینے کا الزام لگایا ہے

واشنگٹن کے سرکاری دورے کے دوران وزیرِ اعظم مودی سے 22 جون کو وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران ان کی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

وزیرِ اعظم مودی کا کہنا تھا ”میں واقعی حیران ہوں کہ لوگ ایسا کہتے ہیں، ہندوستان میں ایک آئینی جمہوری نظام ہے۔ جس میں تعصب کے لیے قطعی کوئی جگہ نہیں ہے۔“

اسی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر سبرینا صدیقی کو وزیرِ اعظم مودی سے مذہبی امتیاز کے معاملے پر سوال کرنے کی وجہ سے آن لائن ہراساں کیا گیا، جس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی

امریکی محکمۂ خارجہ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ’امبیسیڈر ایٹ لارج‘ رشاد حسین نے گزشتہ منگل کو کانگریس کی سماعت کے دوران بتایا ”ہم اس سال مذہبی آزادی سے متعلق خاص تشویش والے ملکوں کی ‘سی پی سی’ کی نامزدگی کے لیے اپنا عمل شروع کر رہے ہیں“

تاہم انہوں نے تخصیص سے یہ نہیں بتایا کہ آیا بھارت کو اس برس سی پی سی میں نامزد کیا جائے گا

واضح رہے کہ حیران کن طور پر گزشتہ برس یو ایس سی آئی آر ایف کی سفارش کے باوجود امریکی حکومت نے بھارت کو مذہبی منافرت کے حوالے سے خاص تشویش والے ملک کے طور پر نامزد نہیں کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close