پینے والوں کو تو پینے کا بہانہ چاہیے لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ حال ہی میں دبئی میں ایک ایسی بار کھلی ہے، جہاں الکحل یا اسی طرح کا کوئی اور مائع موجود نہیں ہے، جسے پی کر سرمستی طاری ہو جائے بلکہ یہاں گاہکوں کو مختلف قسم کا پانی پیش کیا جاتا ہے۔ اس بار کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ ان کے نلکے کا پانی پینے والے اپنے اندر تازگی اور توانائی محسوس کریں گے
اس بار کے بارے میں آگے چل کر بات کرتے ہیں، پہلے تھوڑا تذکرہ بار کی تاریخ کا ہو جائے۔ ’بار‘ بنیادی طور پر یونانی زبان کے ’تابرنا‘ سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب شراب خانہ ہے۔ بعد ازاں یہ لفظ فرانسیسی زبان میں ’بارا‘ کے نام سے مستعمل ہوا، جس سے مراد لکڑی کا ایک ایسا تختہ تھا، جو شراب پینے اور بیچنے والوں کے درمیان لگایا جاتا تھا۔ بارہویں صدی عیسوی میں یہ لفظ انگریزی میں بہ طور ’بار‘ داخل ہوا
رفتہ رفتہ اس لفظ کے استعمال کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس سے مراد ایسا کاؤنٹر لیا جانے لگا، جہاں ایک انداز کی کھانے پینے کی چیزیں رکھی گئی ہوں
چودہویں صدی میں اس لفظ کے لمبے ہاتھ قانون تک بھی پہنچ گئے اور اس سلاخ یا تختے کو ’بار‘ کہا جانے لگا، جو عدالت میں جج اور عام لوگوں کے درمیان ایک دوسرے سے الگ رکھنے کے لیے لگائی جاتی تھی۔ ججوں کے بعد بھلا وکلاء کیوں پیچھے رہتے، وکلا کے ’بار کونسل‘ کا لفظ بھی اسی سے نکلا ہے۔ عدالت میں صفائی اور استغاثے کی جانب سے پیش ہونے والوں کے گروپ کو ’بار کونسل‘ کہا جانے لگا۔ دنیا کی پہلی بار کونسل 1878 میں امریکہ میں قائم ہوئی، جس میں پچھتر وکلا شامل تھے اور ان کا تعلق بیس امریکی ریاستوں سے تھا
چلتے چلتے دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب پانی بھی اب بار تک پہنچ گیا ہے۔ پانی کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب سے زمین پر زندگی شروع ہوئی ہے، پانی کا ہر قطرہ کم ازکم دس بار پیا جا چکا ہے اور کوئی نہ کوئی جاندار اسے اپنے حلق میں اتار چکا ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ ری سائیکل ہونے والی چیز بھی پانی ہے، جسے قدرت کا فلٹریشن نظام صاف کر کے دوبارہ قابل استعمال بنا دیتا ہے
کہتے ہیں کہ اس شخص کی کاروباری حس کو کوئی نہیں پہنچ سکتا، جس نے ہر جگہ مفت پانی کو پہلی بار بوتل میں بند کر کے بیچا ہوگا۔۔ لیکن اس کاروباری دنیا میں سیر پر سوا سیر موجود ہیں
پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر ملکوں میں لوگ صحت کے خدشات کی بنا پر نل کا پانی پینے سے اجتناب کرتے ہیں، جب کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ملکوں میں نل کا پانی صفائی کے تمام مقررہ معیاروں سے گزر کر گھروں میں پہنچتا ہے، جسے بلا خوف و خطر پیا جا سکتا ہے۔ دبئی بھی انہی ممالک میں شامل ہے۔ اس لیے پانی کی بار کھولنے والے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بار میں نل کا ہی پانی استعمال کرتے ہیں
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے ہاں ’پینے والوں‘ کو مختلف ذائقوں اور مختلف خصوصیات کا پانی ملے گا
بار منتظمین کا کہنا ہے ”ہم نے لوگوں کے مختلف گروپس کے لیے مختلف پانی تیار کیے ہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ چشمے کا پانی پینے کی خواہش رکھتے ہیں تو ان کے لیے ہمارے پاس وہ پانی دستیاب ہے، جس میں چشمے کے پانی میں پائے جانے والے تمام اجزا شامل ہیں۔“
اقوا واٹر بار کی منیجنگ ڈائریکٹر رویا جباری، جن کا آبائی وطن ایران ہے، کہتی ہیں ”ہم نے اپنی بار میں مہیا کیے جانے والے پانی میں ایسی اقسام بھی شامل کی ہیں، جو لوگوں کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ مثلاً سخت گرمی میں دبئی کے صحرا میں گھومنے والوں کے جسم میں نمکیات کی کمی ہو جاتی ہے۔ ہمارے پاس ’رنرز ہیون‘ برینڈ موجود ہے، جس میں سوڈیم اور پوٹاشیم کے جزا موجود ہیں۔ اسی طرح ’ویگنز چوائس‘ کے نام سے بھی ہمارے پاس پانی کا ایک برینڈ ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے، جن کی خوراک میں صرف سبزیاں شامل ہوتی ہیں۔ اس برینڈ میں وہ معدنیات اور وٹامنز شامل کیے جاتے ہیں، جو انہیں اپنی مخصوص خوراک کی وجہ سے نہیں مل پاتے۔“
جباری کہتی ہیں کہ ان کی ’بار‘ میں تیس اقسام کے پانی پیش کیے جاتے ہیں، جن کا تعلق لوگوں کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی پسند اور ذوق سے بھی ہے
بار میں پیش کیے جانے والے پانی کے دام بھی کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ آپ صرف پچاس سینٹ میں کسی بھی ورائٹی کے پانی سے سولہ اونس کی بوتل بھر سکتے ہیں۔ البتہ ’ماک کاک ٹیل‘ کی قیمت ڈھائی ڈالر ہے۔ کاک ٹیل چند شرابوں کو ملا کر بنائے جانے والے مشروب کو کہتے ہیں۔ جب کہ ماک کاکٹیل ، ایسے مشروبات کا مجموعہ ہوتا ہے، جس میں الکحل نہیں ہوتا
جباری کہتی ہیں ”ہمارا ماک کاک ٹیل ورجن موجیتو ہے، جس میں آپ کو کھیرے، لیموں، کیوڑا، شہد اور مٹھاس کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے۔ یہ میرا بھی پسندیدہ مشروب ہے۔“
منتظمین کے دعوے کے مطابق اقوا واٹر بار میں پیش کی جانے والے پانی کی تیس اقسام میں مختلف پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ ساتھ وٹامنز، معدنیات اور دیگر جڑی بوٹیوں کی معمولی مقدار، ذائقے اور مہک کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ان اجزا کو پانی میں حل کرنے کے لیے جرمنی سے خصوصی مشینری منگوائی گئی ہے
واٹر بار کے ابتدائی نتائج کو جباری حوصلہ افزا قرار دیتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ گوگل میں ان کی ریٹنگ کافی اچھی ہے
بلال رضوی بھی یہاں آ چکے ہیں اور انہیں یہ بار اچھی لگی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خاص طور پر ان کا ہلدی والا پانی تو بہت زبردست ہے
جباری کو دبئی میں اپنی واٹر بار کی کامیابی کا یقین ہے۔ کیونکہ ویسے بھی کچھ عرصے سے سادہ پانی پینے کی بجائے، اس میں کھیرے، لیموں، سیب یا اپنی پسند کے کسی پھل یا سبزی کی ایک پھانک ڈال کر ان کی تازہ مہک والا پانی پینے کا رجحان عام ہے
جباری کا کہنا ہے کہ ان کی اگلی منزل سعودی عرب ہے، اور وہاں انہیں اچھا بزنس ملے گا
واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ واٹر بار کا تجربہ کیا گیا ہو، تاہم ماضی میں واٹر بار کا تجربہ کچھ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ 2012 میں ایک ایسا ہی بار نیویارک اور 2019 میں واشنگٹن میں کھولا گیا تھا، لیکن دونوں جلد ہی بند ہو گئے تھے۔ لیکن جباری کا خیال ہے کہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں پانی کی بار چلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم وہ اس بار میں اپنے آبائی ملک ایران کے کھانے بھی فراہم کرتی ہیں۔