فیس بک پر دوستی، انڈین لڑکی پاکستانی نوجوان سے ملنے اپر دیر پہنچ گئی!

ویب ڈیسک

ابھی پب جی پر دوستی کے بعد پاکستان سے انڈیا جانے والی شادی شدہ سیما حیدر معاملے کی دھول بھی نہیں بیٹھی تھی کہ فیسبک پر گہری دوستی انڈیا سے شادی شدہ خاتون کو پاکستان کھینچ لائی ہے۔ اطلاعات کے مطابق انجو نامی خاتون 22 جولائی کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر پہنچیں، جہاں وہ اپنے سوشل میڈیا کے گہرے دوست نصراللہ خان کے گھر بطور مہمان رہ رہی ہیں

دیر خاص پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او جاوید خان نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انڈیا کی ریاست اتر پردیش سے خاتون وزٹ ویزے پر پاکستان آئی ہیں، جس کو وزارت داخلہ نے اپر دیر کے لیے تیس دن کا این او سی بھی جاری کیا ہے۔ پولیس نے ان کی تمام دستاویزات کی تصدیق کے بعد اپر دیر میں قیام کی اجازت دی ہے

انہوں نے کہا کہ کلشو گاؤں کا رہائشی نصراللہ پیشے کے لحاظ سے میڈیسن کمپنی میں ملازم ہے۔ انڈین خاتون انجو سے اس کی دوستی ہے، اسی لیے وہ ملاقات کی غرض سے آئی ہیں، تاہم شادی سے متعلق ان کو کوئی اطلاع نہیں

ایس ایچ او جاوید نے مزید بتایا کہ انجو کا تعلق دہلی سے ہے اور کاغذات کے مطابق وہ پہلے سے شادی شدہ بھی ہیں

دوسری جانب انتیس سالہ نصر اللہ، انجو سے منگنی کی تیاریاں کر رہے ہیں

نصراللہ نے بتایا ”اگلے دو سے تین دن میں انجو اور میں باضابطہ طریقے سے منگنی کر لیں گے اور پھر دس بارہ دن بعد وہ واپس انڈیا چلی جائے گی اور اس کے بعد دوبارہ شادی کے لیے آئے گی۔ یہ میری اور انجو کی ذاتی زندگی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس میں مداخلت کی جائے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا سے بھی دور رہا جائے“

نصر اللہ کا چند سال قبل انڈیا کی ریاست اتر پردیش کی ایک خاتون سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہوا، جو وقت کے ساتھ محبت میں بدل گیا۔ یہ تعلق اتنا سنجیدہ رخ اختیار کر گیا کہ حال ہی میں انڈین شہری انجو، نصراللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو باضابطہ رشتے میں بدلنے کے لیے پاکستان پہنچ گئیں

مقامی صحافی نصراللہ کے مطابق نصراللہ اور انجو کی دوستی کئی سال پرانی ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی نوجوان نے ڈپٹی کمشنر سے اجازت کے لیے درخواست دی تھی۔ مقامی صحافی نے مزید بتایا کہ پورے دیر میں اس وقت نصراللہ خان اور انجو کی شادی سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں

یہ کہانی حال ہی میں پاکستان کی ایک خاتون سیما حیدر اور انڈیا کے شہری سچن سے ملتی جلتی ہے تاہم انجو ویزا لے کر قانونی طریقے سے پاکستان آئی ہیں جس کے لیے ان دونوں کو دو سال کا عرصہ لگا

واضح رہے کہ پاکستانی شہری سیما حيدر گذشتہ ہفتے اپنے چار بچوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کی انڈین شہری سچن سے پب جی موبائل گیم کھیلنے کے دوران جان پہچان ہوئی تھی جو کچھ عرصے میں محبت میں تبدیل ہوئی۔ انھوں نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ‘اب میں ان سے محبت کرتی ہوں اور ان کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر آئی ہیں۔‘

پاکستان اور انڈیا کے شہریوں میں ایسی محبت کی کہانیاں نئی نہیں ہیں تاہم دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے اب دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو کم سے کم ویزے دیتے ہیں۔

انجو کے لیے بھی پاکستان کا ویزا حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ خصوصاً دیر بالا تک پہنچنے کے لیے جو ایک دور دراز ضلع ہے، جس کی ایک سرحد افغانستان سے ملتی ہے

عام طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزا دیتے ہوئے بہت کم شہروں تک رسائی فراہم کرتے ہیں

تو آخر انجو اور نصر اللہ کی یہ کہانی کیسے شروع ہوئی اور انجو کو پاکستان کا ویزا اور دیر بالا جانے کی اجازت کیسے ملی؟

اس حوالے سے نصر اللہ نے بتایا کہ ان کا انجو سے فیس بک کے ذریعے چند سال پہلے رابطہ ہوا تھا۔ لیکن اس پہلے رابطے کے بعد اگلے مراحل بہت جلدی طے ہوئے۔

انجو کا تعلق انڈیا کی ریاست اتر پردیش سے ہے اور وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کی درخواست پر ان کی نجی تفصیلات کو مختصراً بیان کیا جا رہا ہے

جب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے انجو سے بات کرنے کی درخواست کی تو نصر اللہ نے کہا کہ انجو اس وقت میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔

نصر اللہ بتاتے ہیں ”پہلے یہ رابطہ دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہو گیا جس کے بعد ہم دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میرے گھر والے اس فیصلے میں میرے ساتھ ہیں۔ ہم دونوں میں طے ہوا کہ انجو پاکستان کا دورہ کرے گی، میرے خاندان سے ملے گی اور ہم پاکستان میں منگنی کریں گے، جس کے کچھ عرصے بعد ہم شادی کر لیں گے“

تاہم اس دورے کو ممکن بنانا آسان نہیں تھا۔ سرحد کے علاوہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات بھی ایک رکاوٹ تھے

نصراللہ کا کہنا تھا ”انجو کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا بہت مشکل تھا مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا، جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے“

ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں، ادہر نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے

نصر اللہ کہتے ہیں ”وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہی اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزا انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے“

ان کی کوششیں بلآخر رنگ لائیں۔ لیکن حکام کو قائل کرنے میں ان کو دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزا بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی

نصراللہ کا کہنا ہے ”پاکستان اور پھر دیر بالا داخلے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ انجو اور میں نے ویزا حاصل کرنے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے ہیں۔ اب ایک دفعہ ویزا لگ گیا ہے تو امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا“

نصر اللہ بتاتے ہیں کہ انجو انڈیا میں اپنی کمپنی سے چھٹی لے کر پاکستان آئی ہیں اور دوبارہ واپس جا کر اپنی ملازمت جاری رکھیں گی

انہوں نے بتایا ”انجو اس وقت میرے گھر میں ہے، جہاں پر وہ بالکل پرسکون اور آرام سے رہائش پذیر ہے“

تاہم یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا کی موجودگی سے وہ خوش نہیں۔ ”بہت بڑی تعداد میں میڈیا اور لوگ اکھٹے ہوچکے ہیں۔ میں سب سے کہتا ہوں کہ جو ضروری ہوگا میں خود میڈیا کو بتا دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے تعلق کو کوئی مسئلہ بنایا جائے۔ ہمارے تعلق میں مذہب بھی شامل نہیں ہے۔ انجو مذہب تبدیل کرے گی یا نہیں، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا اور میں اس کے فیصلے کا احترام کروں گا، جیسے وہ میرے فیصلے کا احترام کرتی ہے۔“

نصراللہ کا کہنا تھا کہ ان کے تعلق سے انجو کے خاندان کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ”اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہماری پرائیویسی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے تعلق اور زندگی کو بالکل بھی تماشہ نہ بنائیں، ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے ہیں۔“

دوسری طرف ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں لیکن موسم اور حالات ان کے استقبال کی تیاریوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئے

نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بتایا ”انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت پہنچی جب شدید بارش ہو رہی تھی۔ اہلیان علاقہ شدت سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ہفتے کو شاندار استقبالیہ دیں گے مگر بدقسمتی سے علاقے میں ایک فوتگی ہو گئی۔ اب ہم یہ استقبالیہ جلد دیں گے۔“

فرید اللہ کا کہنا تھا ”انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں“

انھوں نے بتایا ”ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں اور اس کو یہ یقین بھی دلا رہی ہیں کہ وہ کسی بات کی فکر نہ کرے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close