رواں ماہ دنیا میں اب تک کا گرم ترین اوسط درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا اور یہ ایک بار نہیں بلکہ ایسا چار دنوں میں چار بار ہوا
یونانی جزیرے روڈس سے لے کر الجزائر اور کینیڈا تک جنگلوں میں آگ بھڑک رہی ہے، جن میں سے بہت سے ایسے آتشزدگی کے واقعات انسانی قابو سے باہر ہیں۔ دھوئیں کی وجہ سے لوگوں کا سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ گھر برباد ہو رہے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو تباہی کا سامنا ہے۔
حالیہ جنگلوں کی آگ، ہیٹ ویوز، مسلسل بارشوں اور سیلابوں کی تعداد اور شدت ہمارے فوسل ایندھن کے جلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی عالمی حرارت کے بغیر عملی طور پر ممکن نہ ہوتی لیکن پھر بھی کاربن کا اخراج بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اگر ہم انفرادی اور سسٹمیٹک لیول پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لیے ابھی سے سخت اور تیزی سے کام نہیں کرتے ہیں تو ہم لفظی طور پر آگ سے کھیل رہے ہیں۔
عالمی حدت قدرتی ال نینو (El Nino) نامی موسمی رجحان کو بڑھا رہی ہے اور ہمیں خطرناک حد تک موسمی تباہی کے قریب لا رہی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ہم نے پہلے ہی کسی ایسی چیز کو متحرک کر دیا ہو، جسے ہم اب کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں۔ سائنس ہمیں یہ یقینی طور پر نہیں بتا سکتی۔
موسمیاتی سائنس دان کئی دہائیوں سے گذشتہ ماہ کے دوران دنیا بھر میں سامنے آنے والے شدید موسم جیسے واقعات کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو اب منظر عام پر آ رہا ہے وہ 27 ناکام ’کوپس‘ اجلاسوں، لاتعداد آب و ہوا کی کانفرنسوں، کمزور اور دور اندیشی سے ناآشنا حکومتوں اور فنڈز، مذموم اور مفادات کے ذریعے ماحولیاتی سائنس کو دانستہ طور پر دھندلا دینے کا نتیجہ ہے۔
اپنے ہالیڈے ہوٹل سے بھاگنا انتہائی تکلیف دہ ہے، جہاں آسمان کو چھونے والا دھواں، ان سے بھی اوپر لپکتے شعلے اور شدید گرمی آپ کو اپنا مال چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اپنے گھر اور روزی روٹی کو کھونا، جیسا کہ ان متاثرہ علاقوں کے مکین ان مصائب کا شکار ہیں، اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔
اس کے باوجود یونان میں لگنے والی آگ اور مشرقی کینیڈا میں سیلاب کے دلخراش مناظر کے بعد بھی ہمیں ان موسمیاتی تباہی کی کچھ کم ڈرامائی بصری علامات پر اور بھی زیادہ گھبرانا چاہیے جن کا ہم اس سال سامنا کر رہے ہیں یعنی سمندر میں غیر متوقع ہیٹ ویوز، انٹارکٹک کے سمندری برف کے نقصان میں مرحلہ وار ڈرامائی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت کے ٹوٹتے ہوئے ریکارڈ جو چھوٹے مارجن سے نہیں بلکہ بڑے فرق سے ٹوٹ رہے ہیں۔
جون میں آئرلینڈ کے مغربی ساحل سے دور شمالی بحر اوقیانوس کا درجہ حرارت سال کے اس وقت کے اوسط سے چار اور پانچ سیلسیئس کے درمیان تک زیادہ تھا۔ نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن نے اسے ’انتہائی حد سے آگے‘ کی صورت حال قرار دیا ہے۔
جیسے جیسے سمندر گرم ہوتے ہیں، سمندری برف پگھل جاتی ہے جس سے سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو البیڈو ایفیکٹ کہا جاتا ہے اور اس طرح سمندر اور بھی گرم ہو جاتے ہیں۔ یہ سرگرمی کا ایک خطرناک سرکل ہے، جیسا کہ اس ماہ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔
انٹارکٹک کی سمندری برف اب اپنے پچھلے ریکارڈ کی کم ترین سطح سے 10 فیصد کم ہے، بس اب یہ ڈوبنے کے قریب ہے یعنی 10 فیصد سے بھی کم۔ اگر کوئی سپرنٹر 100 میٹر کا عالمی ریکارڈ ایک سیکنڈ کے چند سوویں حصے سے توڑتا ہے تو یہ ہیڈ لائن نیوز ہے لیکن اگر وہ اسے ایک سیکنڈ تک توڑ دے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح جس رفتار سے برف پگھل رہی ہے، وہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہونا چاہیے۔
جہاں تک باقی سائنسی غیر یقینی صورت حال کا تعلق ہے، جو آب و ہوا کی سائنس کے بارے میں ہے وہ کسی آبشار کے ٹپنگ پوائنٹس کے تصورات جیسا ہے یعنی یہ خیال کہ پگھلنے والی برف، جنگلوں کی آگ اور پرما فراسٹ سے نکلنے والی میتھین ہم سب کے لیے تباہ کن مضمرات کے ساتھ مزید بے قابو درجہ حرارت کو متحرک کر سکتی ہے۔
سائنس سے ہٹ کر اصل راز حکومتوں کی بے عملی میں پوشیدہ ہے اور ان واقعات میں سے زیادہ تر پریس میں کم رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ سب کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟ تیل اور گیس کی صنعت ایک واضح ٹیمپلیٹ کی پیروی کر رہی ہے، جسے تمباکو کی صنعت نے دہائیوں پہلے تیار کیا تھا کہ کس طرح پریشان سائنس کے لیے پالیسی رسپانس میں تاخیر کی جائے۔ زیادہ تر میڈیا سے مضبوط روابط رکھنے والے امیر گروپ عوام کو الجھانے اور سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے نکلے ہیں۔
حکومتی وزرا کی جانب سے موسمیاتی پالیسی پر ہمیں معمول کے مطابق دھوکہ دیا جاتا ہے۔ صرف دو مثالیں دینے کے لیے گرانٹ شیپس کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ بحیرہ شمالی میں تیل اور گیس کے نئے استعمال میں ناکامی توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی اور جب مائیکل گوؤ نے کہا کہ انہیں کمبریا میں کوئلے کی کان کے شواہد ملے ہیں، مجھے یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ انہوں نے کوئلے کی کان کنی کمپنی کی طرف سے فنڈز سے فراہم کیے گئے شواہد کی حمایت کی تھی, بجائے ان شعبوں میں اعلیٰ ماہرین کی طرف سے فراہم کردہ بہت زیادہ سخت، مضبوط اور آزاد جوابی ثبوت کے۔
ہمیں پہلے سے زیادہ اپنے سیاست دانوں سے ایمان داری اور دیانت داری کی ضرورت ہے۔ ہمیں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے مواقع کو برداشت کرنے کے لیے معمول کی خرافات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم سب کو پہلے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور صرف ان سیاست دانوں کو ووٹ دیں جو سچائی کے ساتھ محتاط پالیسی کی حمایت کریں۔ موسمیاتی تباہی کی علامات اب پہلے سے بدتر ہوں گئی اور اس کا انحصار ہمارے اعمال پر ہو گا لیکن اگر ہم تیزی سے کام کریں اور قسمت ہمارے ساتھ ہو تو ہم عالمی تباہی سے بچ سکتے ہیں۔ یہ اتنا ہی سنگین ہے۔
بشکریہ: دا انڈپینڈنٹ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)