ایک جانب دنیا بھر میں واٹس ایپ کی جانب سے معلومات کے تبادلے کی پالیسی پر بحث جاری ہے تو دوسری طرف اس سے قبل ہی فیس بک انسانوں کے خیالات کا پتا لگانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر کام شروع کر چکا ہے، جس پر بھی ماہرین نے کئی تحفظات اور شبہات ظاہر کیے ہیں
تفصیلات کے مطابق ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے بزفیڈ نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ برس فیس بک کے ملازمین کو جاری کیے گئے آڈیو پیغام مین بتایا گیا کہ کمپنی انسانی خیالات کو پڑھ کر انہیں افعال میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی پر کام شروع کر چکی ہے اور اس کے لیے بنائے گئے عصبی حساسیے (نیورل سینسر) دیگر نیورو ٹیکنالوجی کمپنیز کی طرح پراڈکٹ کے طور پر بھی پیش کیے جائیں گے
رپورٹ کے مطابق اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے فیس بک نے عصبی انٹر فیس پر کام کرنے والے ادارے سی ٹی آر ایل لیبز میں کام کی ابتداء کر دی ہے۔ واضح رہے کہ فیس بک نے 2019ع میں یہ ادارہ خرید لیا تھا، جو اب اس کی ملکیت ہے
بزفیڈ کی رپورٹ میں فیس بک کے ٹیکنالوجی افسر مائیک شریوفر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ حساسیے (سینسرز) پہلے ہی دماغ سے ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے بازو کی کلائی تک آنے والے عصبی پیغام کا پتا لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں
فیس بک کے ٹیکنالوجی افسر مائیک شیروفر کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی مدد سے بصری آلات کے ذریعے ٹائپنگ اور گیم وغیرہ کھیلنا بھی ممکن ہوگا اور بڑے پیمانے پر فیس بک کی دماغ پڑھنے کی ٹیکنالوجی کی مدد سے کئی دیگر جسمانی افعال بھی انجام دیے جاسکیں گے
خیال رہے کہ اس ٹیکنالوجی کی ابتدائی شکل نیورو لنک برین مشین کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔ اس مشین کے ذریعے سوّر میں عصبی چپ نصب کر کے کام یابی کے ساتھ عملی تجربات بھی کیے جا چکے ہیں
علاوہ ازیں فیس بک مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کے ایک اور ٹول ’’ٹی ایل ڈی آر‘‘ پر بھی کام کررہا ہے۔ اس ٹول کی مدد سے تفصیلی خبروں اور مضامین کی نقطہ وار تلخیص ممکن ہوجائے گی اورصارف کو پورا مضمون یا خبر پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی.