سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 38)

شہزاد احمد حمید

باس کہنے لگے، ”اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے شمال میں جہاں جہاں سے سکندر نے سندھو کو عبور کیا، لوگوں کا خون بے دردی سے بہایا لیکن وہاں کے رہنے والے آج بھی اسے دیوتا کی طرح پوجتے اور اپنا جد امجد مانتے ہیں۔ بر صغیر کی تاریخ پر بھی سکندر کی ذات کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ پامیر کے پہاڑوں پر بسنے والے آج بھی اپنے گھوڑوں کو سکندر کے گھوڑے کی نسل سے نہ صرف گردانتے ہیں بلکہ اپنے گھوڑوں کا نام بھی اس کے گھوڑے ”بچوپلس“ (bucephalus) کے نام پہ ہی رکھتے ہیں۔فارس کے لوگوں کا وہ ہیرو ہے جبکہ ہندوستان پر بعد میں آنے والے حملہ آوروں تیمور لنگ، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور ظہیرالدین بابر وغیرہ کو سندھو اور ان اونچے پہاڑی دروں کو عبور کرنے کے طریقہ بھی سمجھا گیا۔ یاد رہے کہ قدیم زمانے میں حملہ آور سندھو کو پیر سر یا دربند کے قریب سے گھوڑوں یا کشتیوں کے پل بنا کر پار کرتے تھے۔“

سندھو کسی عجوبے سے کم نہیں۔ تنگ پہاڑوں کے دامن میں پھنسا بڑی تیز رفتاری سے گہرائی میں طاقت کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے جس کی راہ میں کوئی چیز مزاحم نہیں ہو سکتی۔ صدہا ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن یہ بغیر رکے روان ہے۔ اس کے بہاؤ کی قوت اس قدر شدید ہے کہ اسے نظر بھر دیکھنا بھی ہیبت زدہ ہونے کے برابر ہے۔ اپنے داستان گو کی فرمائش پر باس اور مشتاق ایک مسافر موٹر بوٹ پر سوار سندھو کے پانیوں پر تیرتے ایک نئے تجربے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مقامی مسافروں سے بھری موٹر بوٹ پر نہ کسی نے کوئی لائف جیکٹ پہنی ہے اور نہ ہی کوئی لائف گارڈ ہے۔ موٹر بوٹ کا ڈرائیور باریش رحیم اللہ چالیس پچاس برس کا تجربہ کار ملاح ہے۔ فی مسافر کرایہ 10 روپیہ ہے۔ گنجائش سے زیادہ مسافر موٹر بوٹ پر سوار خیریت سے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں یہ اللہ کی کرم نوازی اور سندھو کی مہربانی ہے۔ ورنہ موٹر بوٹ کی حالت دیکھ کر مسافروں پر ترس ہی آتا ہے۔ یہ ان کی ہمت ہے یا بیوقوفی کہ روز جان ہتھیلی پر رکھ کر سندھو کے آر پار آتے جاتے ہیں۔ ایسی ہی حالت کی چند اور موٹر بوٹس اس مقام پر مسافروں کو ایک مقام سے دوسرے تک لانے لے جانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ موٹر بوٹس بھی دیسی ساختہ ہیں۔ عام کشتی پر انجن لگا کر اسے ”موٹر بوٹ“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کسی کارخانے میں تیار نہیں کی گئیں ہیں بلکہ مقامی مستریوں کی کاریگری اور دماغ کی اختراع ہیں۔ دیسی مستری دیسی موٹر بوٹ، دیسی ڈرائیور۔ ان پڑھ ذھانت کی انتہا۔ مجال ہے اس ملک میں کوئی حفاظتی تدابیر کا بھی خیال کر لے۔ ہم چیزوں کو بہتر بنانے کے لئے تب تک انتظار کرتے ہیں جب تک اللہ نہ کرے کوئی حادثہ رونما نہ ہو جائے۔ خود سے کوئی کام کرنا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ we are a nation who loves to learn the hard way.

موٹر بوٹ پیرسر سے ”او ہند“ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ سورج آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ سندھو چوڑائی میں پرسکون بہہ رہا ہے۔ اس کے کناروں پر بسنے اور سڑک سے گزرنے والے اس کا جل ترنگ آسانی سے سن سکتے ہیں۔ سندھو راگ ”راگ ملگوس“ (ہندوستانی موسیقی کا سب سے پرانا راگ) سے ملتا جلتا ہے۔ لہریں اپنے ساتھ لائی تازہ ریت کناروں پر چھوڑ جاتی ہیں۔ سندھو کی دریا دلی کہ اپنے ساتھ لائی چیزیں کنارے پر ہی چھوڑ جاتا ہے۔ دریا دل جو ٹھہرا۔ موٹر بوٹ راستے میں مسافروں کو دریا کنارے آباد بستیوں پر اتارتی آگے بڑھ رہی ہے۔ ہم او ہند پہنچے ہیں جہاں سے بذریعہ جیپ ٹیکسلا جائیں گے۔

”ہم تھاکوٹ پہنچے ہیں۔“ تھاکوٹ وہ جگہ ہے جہاں سے سندھو ان اونچے پہاڑوں کو خدا حافظ کہتا مانسہرہ اور ٹیکسلا کی جانب گھومتا ہے اور شاہراہ ریشم جی ٹی روڈ سے مل کر پشاور، اسلام آباد اور وہاں سے لاہور کا رخ کرتی ہے۔ سامنے اس عظیم سندھو کا جدید پل ہے، جس سے جدید زمانے کی جدید گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ پرانا پل 70 ٹن تک وزنی گاڑیوں کا بوجھ برداشت کر سکتا تھا جبکہ نیا پل ایک سو تیس (130) ٹن تک وزنی گاڑیوں کا۔ بشام سے تھا کوٹ کی ایک سو چونتیس (134) کلو میٹر کی مسافت طے کرنے میں 3 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

”تمہاری جیپ ہمالیہ کے دامن میں میرے کنارے آباد پختون خوا کے ضلع بٹ گرام کی قدیم بستی پہنچ رہے ہو۔ اجمیرا۔ سرسبز و شاداب مرغزاروں، پر فریب جنگلات ہر سو پھیلی ہریالی، پہاڑوں سے بہتے چشموں، پھوٹتی آبشاروں، پہاڑ کی ڈھلوانوں سے لٹکے لہلہاتے کھیتوں، سادہ، اورغریب لوگوں کی سر زمین بٹ گرام۔ اس ضلع کا صدر مقام بھی بٹ گرام ہے۔ سکندر اعظم یہاں بھی قابض رہا اور جاتے وقت اسے راجہ ’اباسری‘ کے حوالے کر گیا۔ آج بھی مقامی لوگ راجہ ابا سری اور اس کی بیوی رانی کن کلاں کی محبت کی کہانی سناتے ہیں۔ یہاں آباد سواتی لوگ پشتو زبان بولتے ہیں۔ قبائلی ثقافت والا تھاکوٹ کا قصبہ بھی اسی ضلع میں ہے لیکن اس قصبہ کی اہمیت سندھو پر بنے اُس پل کی وجہ سے ہے جو خیبر پختون خوا کو گلگت بلتستان سے بذریعہ شاہراہ ریشم ملاتا ہے۔یہاں واپڈا (2800) اٹھائیس سو میگا واٹ کا پن بجلی گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اگر تم میرے پانی سے بجلی بنانا چاہو تو تم تیس(30) ہزار میگا واٹ تک بجلی پیدا کرسکتے ہو، شرط یہ ہے کہ تمھاری حکومت کی نیت نیک ہو۔ ”where there is a will there is a way“ والی بات ہے۔ یہ خطہ دنیا کے نامور حکمرانوں تیمور لنگ، راجہ جے پال، محمود غزنوی کی حکومتوں کا بھی حصہ رہا ہے۔ کشمیری اور غوری سلطنتوں کے زیرِ تسلط بھی رہا۔ احمد شاہ ابدالی کا دور بھی دیکھا اور اکتوبر 2005ء کے ہولناک زلزلے کا شکار بھی ہوا اور پیچھے بربادی کی داستانیں چھوڑ گیا۔ یہاں کا پانی انتہائی زود ہضم ہے۔ تم جو بھی کھا لو ہضم ہو جاتا ہے۔ یہاں سے میں ’ہزارہ‘ کی جانب مڑوں گا، شاہراہ ریشم پر ہمارا ساتھ بس یہیں تک ہے۔ تم مانسہرہ ایبٹ آباد کا چکر لگا کر مجھ تک پہنچو۔“ سندھو مجھے اگلی مسافت اور منزل کا بتا کر خود اپنی راہ لیتا ہزارہ کی جانب گھوم گیا ہے۔

مانسہرہ اکبر اعظم کے مشہور راجپوت سردار مان سنگھ کا آباد کردہ شہر ہے۔ گلگت، ناران اور کاغان جانے کا جنکشن۔ یہ شہر اکبر اعظم کے راجپوت نورتن، اس کی چہیتی ملکہ اور شہزادہ سیلم کی والدہ ’جودھابائی‘ کے بھائی سردار مان سنگھ نے آباد کیا تھا۔ مان سنگھ کے مانسہرہ میں مان سنگھ دور کی شاید ہی کوئی نشانی نظر آتی ہو۔ البتہ مانسہرہ بائی پاس جہاں ختم ہوتا ہے، وہاں اشوک اعظم کے دور کے اسٹوپاز اور چٹانوں پر کندہ فرمان دیکھے جا سکتے ہیں

شاہراہ ریشم ہزارہ کو مڑتی ہے تو سندھو اس علاقے میں داخل ہوتا ہے جو عرصہ تک غیر معروف رہا ہے۔ جس کے بارے کم معلومات تھیں۔ یہاں گاؤں پہاڑ کی گھاٹیوں پر نظر آتے ہیں اور ہموار زمین پر کھیت۔ ہریالی کم ہے جبکہ پہاڑ بھوری رنگت کے ہیں۔ نیچے پاتال میں سندھو پوری روانی اور جوش سے بہتا ہے۔ مانسہرہ اسلام آباد موٹر وے پر سندھو صوابی کے قریب شاہراہ کو کراس کرتا تربیلا کو رواں ہے۔ پہاڑوں اور چٹانوں کے علاقے میں سندھو کا رخ تبدیل ہونا ممکن نہیں۔ یہاں شمال کی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں بڑی شہرت اختیار کر گیا ہے ’تربیلا‘۔ یہاں ریت اور چٹانوں پر مشتمل وسیع اور ہوادار علاقہ ہے، جس میں مون سون بارشوں نے بے حساب گھاٹیاں اور نالے کھود رکھے ہیں۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی دو ہزار (2000) فٹ ہوگی۔ شمال میں بلند پہاڑ ہیں جبکہ مشرق میں سطح مرتفع گنگا کے میدانوں تک چلی گئی ہے۔ ایک طرف کلکتہ ہے تو دوسری طرف کابل۔ زمین سرخی مائل جا بجا جھاڑیاں اور جنگلی گھاس ہے۔ یہ علاقہ دھوپ اور چھاؤں کی زد میں ہے۔ اسی جگہ دنیا کا سب سے بڑا مٹی کی بھرائی کا ڈیم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ’تربیلا ڈیم۔‘ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close