تاریک افریقہ

ڈاکٹر مبارک علی

اہل یورپ نے افریقہ سے اچھی طرح واقف نہ ہونے کے باعث اسے تاریک براعظم کہہ کر نہ صرف اپنی کم علمی کو چھپایا بلکہ بعد میں تو افریقہ سے متعلق جو تاثرات قائم ہوئے، ان میں یہ تاثر بھی شامل تھا کہ افریقہ تو غیر مہذب بھی ہے۔ اس لیے کہ تہذیب کا معیار بھی یورپ ہی نے طے کر رکھا تھا۔ افریقی باشندوں کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ pagan ہیں اور مسیحیت سے دور رہتے ہوئے گمراہ بھی ہیں۔

پھر سیاسی طور پر افریقی باشندوں کو قبائل میں تقسیم کر دیا گیا اور اس بات سے انکار بھی کیا گیا کہ وہ بھی کوئی قوم یا اقوام نہیں یا ان کے ہاں بھی ریاست کا کوئی ادارہ ہوتا ہے۔ تب یورپ کی طرف سے یہ بھی کہا گہا کہ افریقہ میں تو کوئی بڑی ایمپائر نہیں بنی اور اسی لیے ان کی کوئی تاریخ بھی نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بات کا حوالہ بھی یورپی تاریخ نویسی سے دیا گیا، جو تحفظات اور دستاویزات کی مدد سے لکھی گئی۔

اس کے برعکس افریقی تاریخ زبانی تھی، جو نسل در نسل منتقل ہو رہی تھی۔ اس لیے افریقہ کی تاریخ میں ماضی اور شناخت کا احساس بھی موجود تھا۔ مگر یورپ کو افریقی باشندوں کی کالی رنگت اور جسمانی خدوخال کی وجہ سے ان میں کوئی خوبصورتی بھی دکھائی نہ دی۔ جب افریقہ سے غلاموں کو امریکہ اور کریبیین کے جزائر پر لایا گیا، تو انہیں انسانیت کی سطح سے گرا کر کم تر مخلوق سمجھا گیا، جیسے ان کے کوئی انسانی جذبات و احساسات ہی نہیں تھے۔

لیکن موجودہ دور میں نئی تحقیق افریقہ کے بارے میں ان تاثرات کو غلط ثابت کر رہی ہے۔ مارٹن برنل (Martin Bernal) نے اپنی کتاب ’بلیک ایتھینا‘ میں ثابت کیا ہے کہ ایتھوپیا اور مصر کی تہذیبوں نے یونان کو متاثر کیا۔ ایتھوپیا میں قدیم عہد ہی میں یہودیت اور مسیحیت موجود تھیں۔ اس نے یمن پر بھی اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور تہذیبی طور پر اعلیٰ مقام رکھتا تھا۔ یورپی سامراج کے آنے سے پہلے افریقہ میں ایک اشانتی ایمپائر بھی تھی، جو گھانا میں قائم تھی۔ سوڈانی ایمپائر اور زولو قبیلے کا اثر و رسوخ بھی موجود تھا۔ ان سلطنتوں کے تحت قبائل کو متحد کر کے قوم کی شکل بنے جا رہی تھی کہ یورپی سامراج نے مداخلت کر کے اس عمل کو روک دیا۔

اس نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افریقہ میں فرانس کی کون کون سے نوآبادی نے پیرس سے کس سال میں آزادی حاصل کیاس نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افریقہ میں فرانس کی کون کون سے نوآبادی نے پیرس سے کس سال میں آزادی حاصل کی
فرانس نے افریقہ میں بہت سے ممالک کو اپنی نوآبادیاں بنا رکھا تھا، جنہوں نے بعد ازاں فرانس سے آزادی حاصل کی

افریقی قبائل میں جنگیں تو ہوتی رہتی تھیں، مگر جنگ کے بارے میں ان کا ایک ضابطہ اخلاق بھی تھا۔ ان کی فوجیں پیدل اور گھوڑوں پر سوار ہوتی تھیں۔ فرق یہ تھا کہ پیدل فوجیوں میں برادرانہ تعلق ہوتا تھا اور وہ مل کر جنگ لڑتے تھے جبکہ گھڑسواروں کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا تھا۔ اس لیے وہ اپنی جنگ علیحدہ سے لڑتے تھے۔ افریقی دو بہ دو لڑنے کے قائل تھے۔ شب خون یا چھپ کر حملہ کرنا غیر اخلاقی تھا۔ وہ اپنے قدیم ہتھیاروں پر ہی بھروسا کرتے تھے۔ جب یورپ سے جدید اسلحہ آیا تو انہوں نے بمشکل ہی اسے اختیار کیا۔ ان کے نزدیک بہادری یہ نہ تھی کہ دور سے دشمن پر گولی چلائی جائے۔ اسی رویے کی بنا پر انہیں اہل یورپ کے ہاتھوں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

افریقی قبائل کی جنگوں میں پورے کے پورے خاندان شریک ہوتے تھے۔ عورتیں کھانا پکانے کا سامان لے کر میدان جنگ میں جاتی تھیں تاکہ اپنے اہل خانہ کو کھانا کھلا سکیں۔ جنگ کے بعد معاہدوں پر عمل کیا جاتا تھا۔ یہ تمام معاہدے زبانی ہوتے تھے۔ جب تک افریقہ سامراجی یورپ سے دور رہا، اس نے اپنی ثقافت، زبانوں، رسم و رواج اور تہواروں کو برقرار رکھتے ہوئے ہی زندگی بسر کی۔

اہل یورپ سب سے پہلے افریقہ کے ساحلوں تک آئے، جو غلاموں کی تجارت کا مرکز بن گئے تھے۔ پندرہویں صدی سے لے کر غلامی کے خاتمے تک تقریباً 12 ملین افریقیوں کو غلاموں کے طور پر پکڑ کر لے جایا گیا، جن میں زیادہ تعداد مردوں کی تھی۔ اس وجہ سے افریقہ میں عورتوں اور مردوں کا تناسب بھی بگڑ گیا۔ چونکہ افریقہ کے پاس سوائے خام مال کے اور کچھ نہیں تھا، اس لیے یورپی سامراجیوں کی نظریں افریقہ پر قبضہ کرنے پر لگی تھیں تاکہ وہ اس خام مال سے فائدہ اٹھا سکیں۔

لیکن اس سلسلے میں ان کے لیے کافی مشکلات بھی تھیں۔ مثلاً پہلے تو اس بات کی ضرورت تھی کہ افریقہ کے جغرافیے کو دریافت کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مہم جو آنا شروع ہوئے، جنہوں نے دور دراز کے سفر کر کے افریقہ کو دریافت کیا۔ پھر مشنری آئے، جن کی کوشش تھی کہ افریقی باشندوں کو مسیحی بنا کر ان میں اپنے حامی پیدا کیے جائیں۔

یورپی سامراجی ملکوں نے افریقہ میں بڑی فوجی مہمیں نہیں بھیجی تھیں کیونکہ وہاں کی آب و ہوا گرم تھی۔ گھنے جنگل تھے اور بیماریاں تھیں، جنہیں یورپی فوجی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس کا حل انہوں نے یہ تلاش کیا کہ اپنی فوجوں کی طرف سے افریقیوں کو لڑنے کے لیے تیا رکیا۔ خاص طور سے انگلستان اور فرانس کی فوجوں میں دونوں جانب سے افریقی ہی ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے۔

جن یورپی ملکوں نے افریقہ میں اپنی نوآبادیاں بنائیں، ان میں پرتگال بھی شامل تھا، جس نے موزبیق، گنی بساؤ اور انگولا پر قبضہ کیا۔ فرانس نے شمالی افریقہ میں الجزائر اور مغربی افریقہ میں سینیگال پر اپنا تسلط قائم کیا۔ انگلستان نے مشرقی افریقہ میں نائیجیریا اور گھانا میں اپنی کالونیز بنائیں۔ بیلجیم کے بادشاہ لیوپول نے کانگو کو اپنی ذاتی جاگیر بنا لیا، جہاں سے وہ ربڑ وصول کرتا تھا۔ اس کے مظالم کی وجہ سے کانگو کی آدھی آبادی ختم ہو گئی تھی۔

پھر یورپی ملکوں میں یہ مقابلہ شروع ہوگیا کہ کس کے پاس کتنی نوآبادیاں ہیں۔ نوآبادیوں والا ملک ہونا باعث عزت اور فخر تھا۔ ان ملکوں کے تاجر اور حکمران طبقے لوٹ مار اور اپنی صنعتوں کے لیے نئی کالونیز بنانا چاہتے تھے۔ 1860ء کی دہائی میں جب اٹلی متحد ہوا، تو اس کے تاجر، بحری جہازوں کے مالک اور سیاست دان چاہتے تھے کہ اٹلی کی بھی اپنی نوآبادیاں ہونا چاہییں۔ جب انہیں ایتھوپیا میں کامیابی نہ ملی، تو انہوں نے لیبیا اور صحارا کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ پھر اٹلی کے کسانوں کو لیبیا لاکر وہاں آباد کیا گیا، مگر زمین زرخیز نہ ہونے کی وجہ سے یہ اطالوی کسان ہجرت کر کے امریکہ چلے گئے تھے۔

1871ء میں جب جرمنی متحد ہوا، تو اس کے بورژوا طبقے نے بھی حکومت پر زور دیا کہ وہ افریقہ میں اپنی کالونیاں بنائے۔ جرمن چانسلر بسمارک کالونیز کے خلاف تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ان نوآبادیوں پر اخراجات بہت زیادہ ہوں گے اور ان سے ہونےو الی آمدنی بہت کم رہے گی۔ لیکن اپنے بورژوا طبقے کے دباؤ کی وجہ سے ہی جرمنی نے تنزانیہ اور نمیبیا میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔

یورپی سامراجی ممالک نے افریقہ کے ان علاقوں میں، جہاں آب و ہوا ان کے باشندوں کی خواہشات کے مطابق تھی۔ اپنے شہریوں کو وہاں آباد کر کے مقامی باشندوں کی زمینوں پر قبضہ کیا اور ان کی مزاحمت پر ان کا قتل عام بھی کیا۔ جنوبی افریقہ میں بوئرز (Boers) سے لڑائی کے بعد انگلستان اور بوئرز نے مل کر سونے کی کانوں پر قبضہ کیا اور جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کرنے والی اپارتھائیڈ حکومت کی بنیاد ڈالی۔

یورپی سامراج کی کامیابی کی وجہ اس کا نیا مہلک فوجی اسلحہ تھا، جس میں نئی ایجاد شدہ رائفلوں، مشین گنوں اور بموں کا بھی استعمال ہوا۔ ان یورپی ممالک کے پاس بحری طاقت بھی تھی، اس لیے جنگی محاذوں پر فوج، اسلحہ اور رسد بھی پہنچائی جاتی تھی۔ اس لیے افریقی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔

افریقہ پر قبضے کے نتیجے میں یورپی سامراج نے نہ صرف اس کی سیاسی، سماجی اور معاشی ساخت کو ہی بدل ڈالا بلکہ افریقی باشندوں کو ان کی ثقافت سے محروم کر کے انہیں احساس کمتری میں مبتلا بھی کر دیا۔ اس کا احوال Chinua Acheb نے اپنے ناول Things Fall Apart میں بتایا ہے۔ اس ناول کا اردو ترجمہ ’بکھرتی دنیا‘ کے نام سےشائع ہو چکا ہے۔

اہل یورپ نے افریقہ کو اپنی نوآبادیاں بنا کر تباہ و برباد کر تو دیا، مگر ساتھ ہی وہ خود بھی کئی نفسیاتی نظریات کا شکار بھی ہو گئے۔ ان میں سے نسل پرستی، عدم مساوات، تعصبات اور نفرت آج بھی ان کے ماحول میں موجود ہیں۔ اسی پس منظر میں Frantz Fanon نے اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں لکھا ہے کہ افریقہ کی آزادی اس وقت ہو گی جب وہاں سے تمام نوآبادیاتی علامات کو مٹا دیا جائے گا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ’افتادگانِ خاک‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

افریقی ریاستوں کی آزادی کے بعد یورپ تو افریقہ سے چلا گیا، مگر جاتے جاتے اس نے افریقہ کو تاریک براعظم بنا دیا۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close