گل حسن کلمتی صاحب کی وفات کسی بھی شخص کی دنیا سے روانگی کی طرح دوستوں اور اہلِ خاندان کے لیے ایک صدمہ اور ایک سانحہ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہماری علمی اور تحقیقی دنیا کا ایک بہت بڑا نقصان بھی ہے۔ کلمتی صاحب ایک تاریخ نویس، سماجی دانشور، سیاح اور انسانی حقوق کی تحریک کے سرکردہ رہنما تھے۔ اُن کی یہ سب حیثیتیں یاد رکھی جائیں گی اور ان شعبوں میں جو کچھ خدمات انہوں نے سرانجام دیں، وہ کبھی بھلائی نہیں جائیں گی۔
وہ ایک نفیس انسان تھے اُن کے ساتھ مل کر کبھی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ علم کا کتنا بڑا خزانہ ان کے ذہن میں محفوظ ہے۔ انہوں نے سندھ کو کتابوں اور نوشتوں، بنیادی مأخذ، دستاویزات اور عجائب گھروں میں محفوظ نوادرات ہی کی مدد سے نہیں سمجھا بلکہ ان کا ایک بڑا مشغلہ سندھ یا جس بھی علاقے کی تاریخ وہ لکھنا چاہتے تھے، اُس کی سیاحت اور چپّے چپّے سے اس خطے کے بارے میں معلومات اخذ کرنا تھا۔ یہ معلومات بھی اُن کی تاریخ نویسی کی اساس بنیں۔
گُل حسن کلمتی 5 جولائی 1957ء کو کراچی کے ضلع ملیر میں واقع گائوں حاجی عرضی بلوچ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم رادھو جوکھیو ولیج پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ ملیر کے میمن گوٹھ میں واقع مراد میمن سیکنڈری اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کراچی کے ایس ایم آرٹس کالج سے بی اے اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی ہی سے، لوکل گورنمنٹ میں ڈپلومہ بھی کیا۔
گُل حسن کلمتی زمانۂ طالبعلمی میں بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہوئے، انہوں نے پہلے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) اور پھر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) میں شمولیت اختیار کی۔ 1970ء کے عشرے کے اواخر اور 1980ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ملک کے دوسرے شہروں کے تعلیمی اداروں کی طرح جامعہ کراچی بھی طلبہ کی سیاسی فعالیت (Political Activism)کا مرکز بنی۔ اُس وقت ملک میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت قائم تھی۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی تھیں۔
حکومت کی ہمنوا سیاسی جماعتوں کے سوا سب جماعتیں کسی نہ کسی درجے میں عتاب کا شکار تھیں۔ جمہوری حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے سیاسی کارکنوں، صحافیوں، محنت کشوں، طالبعلموں، الغرض جملہ سیاسی و جمہوری حلقوں کو سخت گیر سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ملک کے سابق وزیراعظم کو پھانسی دی جا چکی تھی اور اُن کی جماعت سے وابستہ اور دوسرے سیاسی و صحافتی کارکنوں کو کوڑوں کی سزائیں معمول بن چکی تھیں۔ ملک میں عہدِ وسطیٰ کے طرز کی رجعت پسند معاشرت کو تھونپنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
آزاد خیالی، عقلیت پسندی اور جدید دنیا کے تقاضوں سے آہنگ سیاسی و سماجی تصورات کے آگے بند باندھے جارہے تھے۔جنرل ضیاء الحق علی الاعلان ترقی پسندی کو حرفِ غلط کی طرح مٹادینے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔حکومتی جبر اور رجعت پسندی کے امتزاج سے جو ماحول بنا اُس میں احتجاج کی گنجائش بھی مفقود تھی مگر اس کے باوجود احتجاجی آوازیں اٹھیں بھی اور مزاحمتی اقدامات میں ڈھلتی بھی رہیں۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ، اس احتجاج کے مظاہر جنم لیتے رہے۔ جامعہ کراچی میں ترقی پسند طلبہ اور قوم دوست طالبعلم آئے دن جلسے کرتے، مباحثے ہوتے، ترقی پسند شعراء کو بلایا جاتا اور شعری نشستیں منعقد کی جاتیں، 1979ء میں ایران، شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی استبدادی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک کا مرکز بنا تو کراچی یونیورسٹی میں بھی جلوس نکلے۔
جب ایران کے جلاوطن طلبہ، فلسطین اور دیگر عرب ملکوں کے طالب علم، پاکستانی طلبا کے ساتھ مل کر جلوس میں ’’مرگ برشاہ‘‘ کے نعرے لگاتے تو یونیورسٹی کی آرٹس لابی اور کوریڈورز انقلابی نعروں کی گھن گرج سے گونج اٹھتے۔ یہ وہ ماحول تھا جس میں گل حسن کلمتی اور اُن جیسے بیسیوں نوجوانوں کا نظریاتی اور سیاسی مزاج بنا۔ گل حسن نے آیندہ برسوں میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ نظریاتی پختگی حاصل کرنے اور ان نظریات کی روشنی میں عملی جدوجہد کے راستے تلاش کرنے میں گزارا۔ وہ معاشرے کے محروم طبقات اور پسماندہ قومیتوں کے حقوق کے پرجوش علمبردار تھے، خاص طور سے انہوں نے سندھ اور بلوچستان کے اصلی اور دیسی (Indigenous) باشندوں کے حقوق، اُن کی زمینوں کی واگذاری، اور ان کی ثقافتی شناخت کی بحالی کو اپنی عملی جدوجہد کا بنیادی مطمح نظر بنایا اور اس سلسلے میں اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر ایسے اقدامات کیے، جنہوں نے جلد ہی ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اُن کی اس تحریک کو معاشرے میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔
روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں نے نہ صرف ان کی حمایت کی بلکہ ان کے ساتھ ہم سفر ہونے کا فیصلہ بھی کیا، لیکن اس اصولی جدوجہد کو وہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی، یا کم از کم اُس وقت جب جدوجہد کی گئی، اُس وقت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی کیونکہ اس کا مقابلہ طاقتور ریاستی مشینری، لینڈ مافیا اور مقامی سماجی اشرافیہ کے ساتھ تھا۔ پریس کا بھی بڑا حصہ قبضہ گیر ریئل اسٹیٹ کا حلیف بن چکا تھا۔ گل حسن کلمتی بہرحال اُس جدوجہد میں یوں سرخرو رہے کہ انہوں نے آخر وقت تک حقوق کی جنگ لڑی اور مزاحمت کے راستے سے پلٹ کر نہیں آئے۔
گُل حسن کلمتی عمل کی دنیا کے مردِ میدان تھے مگر جہاں اُن کا ذہن، اُن کے قویٰ اور ان کا وقت اُن کی جدوجہد کی نذر ہو رہے تھے، وہیں انہوں نے خیالات اور افکار کی دنیا میں بھی سرگرم رہنے کا مظاہرہ کیا۔ وہ فرزندِ زمین تھے۔ انہیں اپنی دھرتی، اپنی تہذیب، اور اپنی ثقافت سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ سندھ اُن کے رگ و ریشے میں شامل تھا۔ یہاں کی وادیاں، دریا، دریائے سندھ کے پاٹ، اس کا ڈیلٹا، اس خطے کے موسم، راستوں، فصلوں، تاریخ، اور سب سے بڑھ کر یہاں بسنے والوں سے ایک ایسا گہرا ذہنی اور جذباتی تعلق رہا، جس نے خود اُن کی زندگی کو تخلیقی روشنی سے منور کیے رکھا۔ یہ روشنی اُن کے علمی و تحقیقی کام کی رہنمائی اور اس کی را ہ کشائی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
ہمارے نزدیک کلمتی، کا سب سے بڑا کام سندھ کی تاریخ کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور لکھنے کا تھا۔ انہوں نے کوئی دس سے زیادہ کتابیں لکھیں، ان کی کتابوں میں ’سندھ جا سامونڈی بیٹ‘ جس کا ترجمہ ‘Coastal Islands of Sindh’، کے عنوان سے انگریزی میں ہوا، اور ’کراچی جا لافانی کردار‘ جو ‘Immortal Characters of Karachi’ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوئی، شامل ہیں۔
مؤخرالذکر کتاب میں انہوں نے اُن شخصیات کا احاطہ کیا ہے، جنہوں نے کراچی کی تعمیر و ترقی اور اس شہر کی سیاسی و سماجی زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کتاب میں جن شخصیات کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی، اُن میں میر چاکر خان کلمتی، شہید قادو مکرانی، سیٹھ دھریانو مَل، نسروانجی رستم جی مہتہ، ہرچند رائے وشن داس، جمشید نسروانجی رستم مہتہ، مولانا محمد صادق، سیٹھ غلام علی غلام حسین چھاگلہ، حاجی محمد ہاشم گزدر، قاضی خدابخش مورائی، درگداس بی ایڈوانی، حاجی امام بخش چانڈیو وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
ان سب شخصیات کے بارے میں کلمتی صاحب نے جو تفصیلات بہم کی ہیں، وہ تحقیق کے میدان میں ان کی دیدہ کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ کراچی ہی کے بارے میں اُن کی ایک کتاب شہر کی رہائشی اسکیموں کے بارے میں ہے۔ سندھی زبان میں لکھی گئی یہ مختصر کتاب یا کتابچہ اردو میں ’رہائشی اسکیمیں اور سوالیہ نشان بنے ہوئے دھرتی کے وارث‘ کے عنوان سے بھی چھپا۔
گُل حسن کلمتی، نے تاریخ نویسی بڑے تخلیقی انداز میں کی۔ ان کی کتاب ’سسئی جی واٹ‘ یعنی ’سسئی کا راستہ‘ بڑی عجیب و غریب تاریخ ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر رخمان گل پالاری کے ساتھ مل کر بھمبھور سے کیچ مکران تک اُن سخت راستوں پر سفر کیا جو سسئی نے پنہوں کی تلاش میں اختیار کیے تھے۔سسئی کی افسانوی کہانی عشق کی ایک لافانی کہانی ہے، جس کی کئی پرتیں گفتگو کا موضوع بنائی جا سکتی ہیں۔ یہ سب پرتیں اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ البتہ اتنا کہنا ضروری ہے کہ اس کہانی میں جذبہ عشق میں پنہاں قوتِ عمل، مشکلات سے نبردآزمائی، ہمت، سنگلاخ راستوں پر سفر کا حوصلہ اور محبوب تک پہنچنے کی تڑپ کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کلمتی صاحب اور رخمان گل پالاری صاحب نے کیا کمال کیا ہے کہ سسئی کے طے کردہ پورے راستے کو کھنگال ڈالا، جگہ جگہ رکے، ہر جگہ کے حالات و کوائف محفوظ کیے، مختلف نقشے بنائے، مقامیوں سے ملاقاتیں کیں اور یہ سب کچھ ، یوں کیا کہ سسئی کے طے کردہ راستے آج ہمیں بھی نظر آنے لگے۔
کلمتی حسن، کی ایک اور اہم کتاب رضا علی عابدی کی ’شیردریا‘ کا سندھی میں ترجمہ ہے۔ جو انہوں نے ’سندھو جی سفر کہانی‘ کے نام سے کیا۔ رضا علی عابدی نے بی بی سی کی اردو سروس سے وابستگی کے طویل دورانیے میں کئی قسطوں پر پھیلے ہوئے ایسے بہت سے پروگرام کیے جو تاریخی اہمیت کے حامل بن گئے۔ انہوں نے گرینڈ ٹرنک روڈ پر ’جرنیلی سڑک ‘کے نام سے ، اور پاکستان اور ہندوستان میں لوگوں کے ذاتی کتب خانوں میں محفوظ کتابوں اور مخطوطوں کو موضوع بناتے ہوئے ’کتب خانہ‘ کے نام سے بڑے معلوماتی پروگرام نشر کیے۔ ’جرنیلی سڑک‘ پر پروگرام کے لیے انہوں نے اس پوری سڑک کا سفر کیا، آس پاس کے گاؤں دیکھے، اور لوگوں سے باتیں کیں، اور یوں ’جرنیلی سڑک‘ ایک اہم تاریخی دستاویز بن گیا۔ بعد ازاں یہ پروگرام کتابی شکل میں بھی شایع ہوا۔ ایسا ہی کچھ کتب خانہ کے حوالے سے بھی ہوا۔
عابدی صاحب نے ان کتب خانوں میں جو کچھ دیکھا، اُن پر سیر حاصل گفتگو کی، اور پشت ہا پشت ان کتابوں اور مخطوطوں کو محفوظ رکھنے والے لوگوں سے انٹرویوز کیے۔ یہ پروگرام بھی کتابی شکل میں محفوظ ہو گیا۔ دریائے سندھ کے بارے میں ان کے پروگرام نے اُس پورے راستے کا احاطہ کیا، جس سے دریا گزرتا ہے۔ اپنے آغاز سے سمندر میں گرنے تک کے اس پورے راستے کو دیکھتے وقت عابدی صاحب نے دائیں بائیں کے علاقوں، سیراب ہوتی ہوئی انسانی بستیوں اور اُن تمام پہلوئوں کو پیشِ نظر رکھ کر ’شیر دریا‘ کی کہانی بیان کی تھی جو بعد ازاں کتاب کے قالب میں ڈھل گئی۔ گُل حسن کلمتی نے اس کو سندھی کا روپ دیا، یہی نہیں بلکہ بعد میں اسی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے انہوں نے بھی ایسے ہی وقت کے دھارے کی ہم رکابی میں تاریخی سفر طے کیے اور اُن کو قلمبند بھی کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’سسئی کا راستہ‘ بھی ’سندھو جی سفر کہانی ‘ہی سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔
ویسے تو گُل حسن کلمتی صاحب کی سب ہی کتابیں اپنی انفرادیت اور تحقیقی نوعیت کی وجہ سے قابلِ ذکر ہیں لیکن وسعت اور گہرائی کے حوالے سے ’سسئی جی واٹ‘ کے علاوہ جو دوسری کتاب ان کا شاہکار قرار دی جا سکتی ہے، وہ ’کراچی ، سندھ جی مارئی‘ ہے، جس کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر امجد سراج میمن نے ‘Karachi Glory of the East’ کے عنوان سے کیا۔ یہ کتاب کراچی کے بارے میں ایک مبسوط تصنیف ہی نہیں بلکہ ایک انسائیکلوپیڈیا کی بھی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کراچی کے قدیم ماضی سے لے کر حال تک کے تاریخی، تہذیبی اور سیاسی و انتظامی ارتقا کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایسا کرتے وقت مصنف نے جو سب سے زیادہ دقّتِ نظر اور انفرادیت کا حامل کام کیا، وہ یہ ہے کہ انہوں نے ماضی کے اُن ادوار ، اُن کرداروں اور ثقافتی مظاہر کو تلاش کر کے اس کتاب میں سمو لیا ہے، جن کو فراموش کر دیا گیا تھا یا جن کو عمداً پردۂ اخفا میں رکھ دیا گیا تھا۔ انہوں نے کتاب کا ابتدائیہ ’وطن سے ہمارے پیمانِ وفا کو زیرمت کریں‘ (Curb not our Loyalities with the Country) کے عنوان سے تحریر کیا۔ آگے بڑھیں تو کتاب کے چار سو کے قریب صفحات اس پیمانِ وفا تفسیر نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں کراچی کئی صدیوں سے زندہ، ایک شہر کی حیثیت سے سامنے آتا ہے، اور وہ سب انسان تاریخ کے زندہ کرداروں کی حیثیت سے اپنا وجود ہمارے حافظے میں محفوظ کرتے چلے جاتے ہیں، جنہوں نے کراچی کوکراچی بنایا۔
مشاہیر اور سیاسی و انتظامی لیڈروں کا ذکر تو اور لوگوں نے بھی کیا ہے مگر تاریخ کے اصل بنیاد گزار تو وہ محنت کش ہیں، مچھیرے ہیں، گھروں اور گلی محلوں کے خاکروب ہیں، ڈسپنسریوں میں کام کرنے والے، اسکولوں میں پڑھانے والے، سڑکوں کا جال بچھانے والے، پتھروں کو توڑ اور کاٹ کر سمندر کے ساحلوں پر پکی دیواریں بنانے اور عمارتیں کھڑی کرنے والے ہیں، جو سب نہ ہوتے تو یہ شہر اکیسویں صدی تک کیسے پہنچتا۔ گل حسن کلمتی ان سب کو تاریخ کے صفحات تک لے آئے ہیں۔ اُن کی یہ کتاب کراچی کی عوامی تاریخ بھی قرار دی جاسکتی ہے۔ گل حسن کلمتی کا یہ سارا علمی اور تحقیقی کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سارے کام کا یہ پہلو میرے نزدیک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اُن میں رتی بھر بھی اپنی بڑائی کا یا اپنے عالم فاضل ہونے کا احساس نہیں تھا۔ وہ ہر شخص سے خواہ وہ ان سے بڑا ہو ، ان کا ہم عمر ہو یا چھوٹا، یکساں خلوص اور احترام سے ملتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ علم اور انکسار کا جو امتزاج ان میں پایا جاتا تھا، وہ کم لوگوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ نہ صرف ہمارے ذہنوں میں بلکہ دلوں میں بھی زندہ رہیں گے۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ