یہ تب کی بات ہے، جب خاندان اور گلی محلے کا نظام بزرگوں کی جنبشِ ابرو اور دبدبے پر چلا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ صبح جب بھائی، باپ، شوہر وغیرہ اپنے اپنے کاموں پر اور بچے اسکول روانہ ہو جاتے تھے تو محلے کی بہو، بیٹیاں، نانیاں، دادیاں پچھلی گلی میں کُھلنے والے گھروں کے کواڑوں پر کھڑی ہو کے اپنی مختصر سی دنیا کے حالاتِ حاضرہ پر کھل کے تبادلہِ خیالات کرتیں۔
اس دوران غیبت، چغلی، سرگوشی، طنز، مسکراہٹ، قہقہے، ہنسی، طیش میں لتھڑی گالیاں، کوسنے، کواڑ دھڑ سے بند کرنے کی آواز غرض ہر طرح کا ایکسپریشن اور ساؤنڈ ایفیکٹ سننے کو ملتا تھا۔
گلی کی اس پارلیمنٹ کا صبح کا سیشن بچوں کی اسکول سے واپسی کے وقت اختتام پذیر ہوتا، روٹی ہانڈی اور پیٹ بھرائی کے بعد بچے جب سو جاتے یا کھیل کود میں مگن ہوتے تو سہہ پہر کا سیشن شروع ہو جاتا اور عموماً تب تک جاری رہتا، جب گھر کے مردوں کی کام سے واپسی کا وقت شروع نہ ہو جاتا۔ یہ مرد ہی دراصل حقیقی اقتدارِ اعلیٰ کے مالک تھے۔
مرد جاتی کی آمد کے ساتھ ہی گلی کی جمہوریت کو سانپ سونگھ جاتا۔ بچوں کی آوازیں گھروں کے اندر سے باہر آنا بند ہو جاتیں۔ وہ سورما صفت بیویاں اور بڑھک باز بہو بیٹیاں جو دن بھر کے سیشن میں کسی اور ہمسائی کو بولنے نہ دیتیں تھیں، شام ہوتے ہی ان کی آواز گھر کے مردوں کی موجودگی میں ایسی دھیمی ہو جاتی کہ کان لگا کے سننا پڑتی۔
نصف صدی میں گلی گلی نہ رہی، گھروں میں بھی توازنِ طاقت خاصی حد تک بدل گیا اور کنبے کے ہر رکن نے بلاواسطہ یا براہِ راست بہت حد تک اپنا حقِ رائے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بزرگوں کے مطلق العنانیت بھی خاصی پسپا ہوئی، کہیں تیزی سے تو کہیں آہستگی سے۔
مگر قومی پارلیمنٹ کم و بیش اسی اصول پر کام کر رہی ہے جو نصف صدی پہلے پچھلی گلی کی مجلس پر لاگو تھا۔
یقین نہیں آتا تو گذشتہ دو پارلیمانوں کا چال چلن ہی دیکھ لیجیے۔
لگتا تھا کہ اپوزیشن جان دے دے گی مگر سپاہ سالار کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے محضٰر نامے پر دستخط نہیں کرے گی ۔ مگر سب سے زیادہ ہلا گلا کرنے والے ہینڈز اپ میں سب سے آگے پائے گئے۔
تیوریوں پر پڑی شکنوں سے یقین ہو چلا تھا کہ فوجی عدالتوں کی شکل میں متوازی نظامِ انصاف لانے کے سفر میں پارلیمنٹ کے ایوان کو دست بدست لڑائی سے گزرنا ہو گا۔ منظوری کا وقت آیا تو بعض ارکان نے احتجاجاً اس قانون کی حمایت میں ووٹ دیا اور بعض نے پُرنم آنکھوں کے ساتھ کانپتے ہاتھ سے ایسے دستخط کئے جیسے کسی مغویہ سے جبری نکاح نامے پر دستخط کروائے جا رہے ہوں۔
خیال تھا کہ ڈجیٹل میڈیا پر قدغنوں کا دو دھاری قانون اتنی آسانی سے منظور نہ ہوگا۔ سول سوسائٹی کے تحفظات کو بقول شخصے توجہ سے سنا جائے گا۔ جب منظوری کا وقت آیا تو متعدد ارکان نے آپس میں گپ شپ روکے بغیر ہاتھ کھڑا کر دیا۔
جانے کیوں لگتا تھا کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم ہو تو جائیں گی مگر منتخب ارکان ایک ایک لائن پر حکومت کو خون تھکوائیں گے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم و تبدیلی کے معاملے پر قومی اسمبلی میں وہ شور برپا ہو گا کہ مانو چھت میں دراڑیں پڑ گئیں۔ مگر قومی اسمبلی میں چوں کی آواز بھی نہیں سنی گئی۔ کوئی ہلا گلا ہوا بھی تو سینیٹ میں یا سوشل میڈیا پر ہوا ۔ چنانچہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کو بادلِ نخواستہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات سے مشروط کرنا پڑا۔
جانے کیوں گمان تھا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان جس طرح سے دھواں دھار نظر آ رہے ہیں، کم ازکم ایک بات تو ہمیشہ کے لئے طے کروا کے ہی رہیں گے کہ آئندہ بھلے ایوانِ زیریں ہو کہ ایوانِ بالا۔ کوئی بھی قانونی بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کی چھان پھٹک کے بغیر ایوان میں براہِ راست رائے شماری کے لیے پیش نہیں ہوگا۔
مگر ہوا کیا؟ 17 نومبر 2021 کے سیشن میں پانچ گھنٹے کی ریکارڈ مدت میں 33 بل منظور کروائے گئے۔
حزبِ اختلاف سے پاک موجودہ پارلیمنٹ نے جتنے قوانین سال 2022 میں منظور کیے کم و بیش اتنے ہی اپنی زندگی کے آخری دو ہفتے میں کروانے والوں نے بلڈوز کروا لیے۔ ارکانِ پارلیمان کی چیخ و پکار اور غم و غصہ اپنی جگہ مگر ان کی ایک آنکھ قانونی بل پر رہی اور ایک آنکھ بڑے ابا جان کے چہرے کے ہر آن بدلتے تاثرات اور موبائل فون کی سکرین پر ٹکی رہی۔
جو ارکان حساس نوعیت اور دورس نتائج کے حامل قوانین کی منظوری کی مخالفت میں سلطان راہی بنے ہوئے تھے۔ جب بل رائے شماری کے لیے پیش ہوئے تو وہ گبھرو جوان یا تو ایوان میں ہی نظر نہ آئے یا پھر ان کی آواز اس موقع پر ساتھ بیٹھے نے بھی نہیں سنی۔ جن اکادکا لوگوں نے کھل کے مخالفت کی بھی تو ان کی مخالفت کو حسبِ معمول ’گنوار کی گالی ہنس کے ٹالی‘ کی طرح لیا گیا۔
یہی کچھ اب انتخابی عمل کے ساتھ ایک بار پھر ہو رہا ہے۔
چونکہ حقیقی مقتدرانِ اعلیٰ عمران خان کا تسلی بخش بندوبست کیے بغیر فوری عام انتخابات میں بالکل انٹرسٹڈ نہیں۔ لہذا پہلے الیکشن ایکٹ میں ترامیم منظور کروائی گئیں تاکہ جو بھی نگراں حکومت آئے وہ اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں بھی اہم فیصلے کر سکے۔
پھر اچانک سے نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ تاکہ نوے دن میں انتخابات کی لازمی آئینی پابندی سے بچنے کا کوئی راستہ نکل سکے۔
پیپلز پارٹی نے کھلم کھلا کہا کہ ہم انتخابات میں تاخیر کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ لگتا تھا کہ مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری نہیں دے گا کیونکہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور بلوچستان کی حکومتی اتحادی جماعتوں کو اس پر کڑے تحفظات ہیں۔ لہذا چار و ناچار پرانی مردم شماری کی بنیاد پر ہی نوے دن میں انتخِابات کرانے پڑ جائیں گے۔
مگر فلک نے دیکھا کہ کونسل کے اجلاس میں سندھ سمیت چاروں صوبوں نے متفقہ طور پر ڈجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی۔ اس کا مطلب ہے کہ جب نئی حلقہ بندیاں مکمل ہوں گی تب ہی الیکشن ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ مارچ اپریل تک تو انتخابات نظر نہیں آ رہے اور عمران خان وغیرہ کے پرزے دھونے کے لیے بھی تھوڑا اضافی وقت تو چاہیے۔
ابھی تو انجن کھلا ہے۔ پچھلے دو ماہ میں ہونے والی تیزرفتار قانون سازی نے انجینیئرز کو جو نئے آلات و اوزار و پیمانے فراہم کر دیے ہیں۔ ان کی مدد سے انجن کی اوورہالنگ ، فٹنگ اور فنشنگ میں ٹائم تو لگے گا۔
تب تک آپ کو اگر کوئی رکے ہوئے یا ضروری کام کرنے ہیں تو بھلے کر لیجیے۔ آئین ایکسپریس کہیں نہیں جا رہی۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)