پاکستان اسٹیل: روشن ماضی سے تاریک حال تک کا سفر

راجہ کامران

اسٹیل ملز حکومت کی کاروباری ادارے چلانے کی عدم اہلیت، بروقت فیصلہ سازی کے فقدان اور نااہلی کا شکار ہوئی اور قومی خزانے پر ایک بوجھ بن گئی ہے۔
راجہ کامرانشائع دن پہلے

پاکستان کی ترقی کے لیے ملک میں ایک بڑے فولاد سازی کے کارخانے کی ضرورت ہے جوکہ وطن عزیز کی زمین میں دفن 1.427 ارب ٹن خام لوہے کو فولاد میں تبدیل کر کے نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرسکے بلکہ برآمدات کر کے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی کما سکے۔

یہ طرفہ تماشا دیکھیں کہ کراچی کے مضافات میں پورٹ قاسم سے ملحقہ ایک دوسرے کی دیوار سے جڑی دو اسٹیل ملز بند پڑی ہیں۔ اس کی مشینری کو سمندر کی نمکین ہوا زنگ آلود کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک ہے پاکستان اسٹیل ملز اور دوسری نجی شعبے کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے قائم الطوقی اسٹیل ملز۔

ان دونوں اسٹیل ملز کی صلاحیت معدنی لوہے یعنی آئرن اُور (Iron Ore) کو فولاد میں ڈھالنے کی ہے، مگر فولاد سازی کے یہ دونوں ادارے ملکی نظام میں اس ذہنی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ ملک کو ترقی کرنے سے روک رہی ہے۔ آج کی تحریر پاکستان اسٹیل کی تاریخ اور زبوں حالی کی داستان پر مشتمل ہے۔

 پاکستان اسٹیل ملز کی تاریخ

قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتیں لگانے کی جانب توجہ دی گئی اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک میں موجود معدنی لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنے کی بنیادی صنعت لگانے کے لیے کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ 1956ء میں روسی حکومت نے پاکستان میں اسٹیل پلانٹ لگانے میں معاونت کی پیشکش کی۔ ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایوب خان کی حکومت نے اس پیشکش پر بات چیت شروع کی اور 1968ء میں پاکستان اسٹیل ملز کو بطور ایک نجی کمپنی کے رجسٹر کیا گیا۔ یعنی قیام پاکستان کے بعد تقریباً 21 سال بعد ادارے کی رجسٹریشن ہوئی۔ آخر اس میں اتنا وقت کیوں لگا اس کی متعدد وجوہات ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز کے قیام میں وقت لگنے کی بڑی وجہ روس اور مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان کو فولاد سازی کی صنعت لگانے کی پیشکش تھی۔ مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان میں صوبہ خبیر پختون خوا اور پنجاب سے ملحقہ علاقے کالا باغ میں فولاد سازی کا کارخانہ لگانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کر رہی تھی۔

اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کر دیا اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔

 اسٹیل ملز اور معاون شعبوں کی تعمیر

پاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں 11 لاکھ ٹن کی گنجائش اور بعد ازاں پیداواری گنجائش کو بڑھاتے ہوئے 22 لاکھ ٹن کرنا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ پاکستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ مگر ملک میں سیاسی وجوہات اور درآمدی مافیاز اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں دلچسپی رکھنے والوں کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز 11 لاکھ ٹن کی گنجائش سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا جبکہ افتتاح جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں کیا اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔

پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔ اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا۔

اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ رہائش کے لیے پاکستان اسٹیل سے متصل اسٹیل ٹاون شپ کے علاوہ گلشن حدید بھی بنایا گیا۔ اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز سے منسلک اسٹیل ٹاون شپ کی قیمت پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔

 عروج سے زوال کی کہانی

پاکستان اسٹیل ملز کے قیام سے لے کر اس کو چلانے اور اس کی نجکاری تک تقریباً تمام ہی فیصلوں میں ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے ہر مقام پر غلطیاں ہی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ اسٹیل ملز قیام کے بعد سال 2005ء تک خسارے میں چل رہی تھی اور ایک سیاسی اکھاڑے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ جس سیاسی جماعت کی طاقت ہوتی وہ اسٹیل ملز کے معاملات میں مداخلت کرتی اور انتظامی اعتبار سے پاکستان اسٹیل ملز تقریباً عضو معطل ہوکر رہ گئی تھی۔

عالمی سطح پر فولاد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اچانک پاکستان اسٹیل ملز کا خسارہ منافع میں تبدیل ہوگیا۔ اسی کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ اس وقت سینیٹر جنرل ریٹائر عبدالقیوم اس کے چیئرمین تھے اور پہلی مرتبہ پاکستان اسٹیل ملز اپنے قرضے اتارنے کے بعد 10 ارب روپے منافع میں تھی۔

جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم کو جنوری 2004ء میں جنرل پرویز مشرف نے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کا چیئرمین مقرر کیا۔ جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم کہتے ہیں کہ اپنی اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے وہ یہ اسائنمنٹ لینے کو تیار نہ تھے جس پر پرویز مشرف نے انہیں قائل کیا کہ یہ اسٹیل ملز ایک قومی اثاثہ ہے اور اس کو چلانا اور بہتر بنانا ایک قومی خدمت ہے۔ جس پر انہوں نے اسٹیل ملز کو چلانے کا ٹاسک اپنے ذمے لے لیا۔

جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم اس سے قبل پانچ سال تک آرڈیننس فیکٹریوں کے سربراہ رہ چکے تھے جن میں 14 مخلتف فیکٹریاں شامل تھیں۔ اس طرح انہیں ایک انجینیئرنگ اور صنعتی ادارے کو چلانے کا تجربہ تھا۔

فولاد سازی کی صنعت کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میٹلرجی کی صنعت ایسی ہے کہ جیسے آپ نے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہو۔ فولاد سازی کی صنعت اقوام کی ترقی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

جب انہوں نے پاکستان اسٹیل ملز کا چارج سنبھالا اس وقت کے حالات بیان کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم بتاتے ہیں کہ ’اسٹیل ملز ملک کا سب سے بڑا صنعتی یونٹ تھا مگر بدانتظامی، بدعنوانی، سیاست، باہمی عدم تعاون، مایوس مزدور اور ضرورت سے زائد افرادی قوت اسٹیل ملز کے بڑے مسائل تھے۔ اسی وجہ سے اسٹیل ملز نقصان میں جارہی تھی۔ اسٹیل ملز کا خسارہ 7 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا۔ اس کے علاوہ اسٹیل ملز نے ڈھائی ارب روپے کی برج فنانسنگ حاصل کی ہوئی تھی‘۔

تمام تر مسائل کے باوجود وہ اپنے سابق چیئرمین اسٹیل ملز کو الزام دینے کے بجائے ادارے کے لیے کی گئی کاوشوں کو سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابقہ انتظامیہ نے اسٹیل ملز کی بحالی کا ایک پروگرام مرتب کیا تھا جس پر بتدریج عمل کیا گیا۔

جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم کا کہنا تھا کہ ادارے کی تیار کردہ مصنوعات چند خریداروں کو سستی فروخت ہورہی تھی اور مڈل مین انتہائی زائد منافع پر اسے فروخت کررہا تھا۔ فائدہ اسٹیل ملز یا اس کی مصنوعات کو استعمال کرنے والوں کے بجائے مڈل مین کو ہورہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے قابل افسران کی ٹیم بنائی۔ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد ملازمین کے جذبے کو بڑھانے پر کام شروع ہوا۔ وہ محنت کشوں کا لباس پہن کر ان میں گھل مل جاتے ان کے ساتھ کھانا کھاتے۔ ملازمین کو پلانٹ پر فراہم کردہ کھانے کو بہتر بنایا۔ پاکستان اسٹیل ملز کی رہائشی کالونی اسٹیل ٹاون میں محنت کشوں کے گھروں کی مرمت اور دیکھ بھال کی۔ گلشن حدید میں ملازمین کو پلاٹس دیے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایک پلاٹ بطور چیئرمین میرے لیے بھی دیا گیا جس کی مالیت اس وقت 30 سے 40 لاکھ کے درمیان ہوگی مگر میں نے یہ پلاٹ واپس کر دیا جس کو میرے بعد آنے والے چیئرمین نے لیا۔

’ملازمین کی فلاح بہبود سے ان کی کارکردگی میں اضافہ ہوا اس کے ساتھ ہی بہتر کاروباری منصوبہ بندی نے اسٹیل ملز کو منافع بخش ادارہ بنادیا۔ اسٹیل ملز نے پہلی مرتبہ قبل از ٹیکس منافع 18 ارب روپے کمایا اس کے علاوہ حکومت کو 6 ارب روپے کا ٹیکس بھی ادا کیا۔

’اس وقت حکومت نے اسٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے بنائی گئی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے پاس 6 ارب روپے کا خام مال اسی مالیت کی تیار مصنوعات اور اکاؤنٹ میں 10 ارب روپے موجود تھے جبکہ اسٹیل ملز پر تمام قرضے بھی اتار دیے گئے تھے۔ یعنی اسٹیل ملز کے لیکویڈ اثاثوں کی مالیت 22 ارب روپے تھی۔ مگر اسٹیل ملز کو اس سے بھی کم یعنی 21 ارب 68 کروڑ روپے میں فروخت کردیا گیا۔

’اس فروخت پر جنرل پرویز مشرف کو ایک مکتوب تحریر کیا جس میں بتایا کہ 22 ارب روپے کے لیکویڈ اثاثوں سے بھی کم قیمت پر پاکستان اسٹیل ملز کو فروخت کردیا گیا ہے۔ قیمتِ فروخت میں پلانٹ، ساڑھے 4 ہزار ایکڑ زمین، 18 ریلوے انجن، 72 کلو میٹر ریلوے ٹریک، 110 کلومیٹر طویل سڑکیں، جیٹی اور کنوینئر بیلٹ اور سب سے بڑھ کر اسٹیل ٹاون شپ کو تو قیمت کا حصہ بنایا ہی نہیں گیا۔

’میرا مشورہ حکومت کو تھا اور یہی مشورہ مقرر کردہ مالیاتی مشیر نے بھی دیا تھا کہ اسٹیل ملز کی نجکاری بتدریج کی جائے۔ اس کے حصص اسٹاک ایکسچنج میں فروخت کیے جائیں جس کے بعد یہ ادارہ کسی اسٹریٹجک سرمایہ کار کو بہتر قیمت پر فروخت کیا جائے۔ مگر سپریم کورٹ نے نجکاری کو کالعدم قرار دیا اور میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ میرے بعد اسٹیل ملز میں لوٹ مچ گئی اور لوگوں نے ادارے کو نوچ کھایا‘۔

وفاقی حکومت نے جب اسٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ کیا تو سال 2006ء میں اسٹیل ملز عارف حبیب گروپ اور سعودی سرمایہ کاروں کوتقریباً 21 ارب روپے میں فروخت کردی گئی۔ مگر اس نجکاری کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسٹیل ملز کی نجکاری کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے نے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ پاکستان اسٹیل کی نجکاری کالعدم قرار دینے پر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو معزول کردیا اور وکلا تحریک نے جنم لیا۔

یوں لگتا ہے کہ پاکستان اسٹیل کی نجکاری کو کالعدم قرار دینے سے شروع ہونے والی لڑائی ملک میں جمہوریت کی بحالی میں تو کامیاب ہوئی مگر پاکستان اسٹیل ملز کے لیے فیصلہ کچھ اور ہی کیا جاچکا تھا۔ 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ساتھ دنیا میں کساد بازاری نے جنم لیا اور امریکا سے شروع ہونے والے سب پرائم لون بحران نے معیشتوں کو گرانا شروع کیا۔ اس وجہ سے عالمی منڈی میں معدنی لوہے اور کوئلے کی قیمت کریش کر گئی مگر پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ جس نے معدنی لوہے اور کوئلے کی فراہمی کے طویل مدتی معاہدے کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنے معاہدوں کے مطابق مہنگا خام مال درآمد کرتی رہی۔

پاکستان اسٹیل ملز کی اس وقت کی انتظامیہ کا موقف تھا کہ ملکی قوانین کے تحت وہ مہنگا خام مال خریدنے پر مجبور ہیں اور نئے معاہدے نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسٹیل ملز جس کے بینک اکاؤنٹس میں 10 ارب روپے موجود تھے، کنگال ہوگئی اور اس کی مصنوعات مارکیٹ سے مہنگی ہونے کی وجہ سے فروخت ہونا بند ہوگئیں۔ جب پیسے ختم ہوئے تو خام مال خریدنے کے پیسے بھی نہ رہے اور یوں اسٹیل ملز کے اسٹاک یارڈ جس میں 6 ماہ کے مساوی خام مال اسٹور کرنے کی گنجائش تھی وہ خالی ہوگیا۔ یوں اسٹیل ملز کے پاس نہ خام مال رہا اور نہ ہی تیار شدہ مال فروخت ہوا۔

مالی صورتحال بہتر کرنے کے لیے انتظامیہ نے تیار مصنوعات جنہیں مہنگے داموں خریدے گئے خام مال سے تیار کیا تھا کو کم قیمت پر فروخت کرنا شروع کیا۔ اس پرآڈٹ اعتراضات کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے الزامات لگنے لگے اور ایف آئی اے نے اسٹیل ملز میں بدعنوانی پر تحقیقات شروع کیں مگر اس میں افسران کے خلاف تحقیقات کرنے کے بجائے ایف آئی اے نے کم قیمت پر مصنوعات خریدنے والوں کو نشانہ بنایا اور پورے پاکستان کے خریداروں کو کراچی بلانا شروع کردیا۔ اس سے ان کے کاروبار اور ساکھ کو شدید نقصان ہوا اور لوگوں نے اسٹیل ملز کے ساتھ رہا سہا کاروبار کرنا بھی بند کردیا۔

سال 2012ء میں میجر جنرل ریٹائرڈ محمد جاوید کو جو پہلے ہی 2006ء سے 2008ء تک دوسال پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین رہ چکے تھے، ادارے کا چیف ایگزیکٹو تعنیات کیا گیا۔ انہوں نے اسٹیل ملز کو چلانے کی بہت کوشش کی اور پیداوری گنجائش کو جیسے ہی اوپر لانا شروع کیا تو سوئی سدرن نے گیس منقطع کردی۔ اس سے پیداواری عمل رک گیا اور ان کاوشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ سال 2018ء میں نواز شریف حکومت کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کا منصوبہ منظور نہ ہونے پر انہوں نے عہدے سے استعفی دے دیا۔

اس دوران وفاقی حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے کے لیے کوئی کاوش تو نہ کی مگر ملازمین کی تنخواہوں کے لیے پیسے دیتی رہی جس سے اسٹیل ملز پر قرضہ بڑھتا گیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کو بحال کرنے کے لیے تحریک انصاف نے ملازمین سے بھر پور وعدے کیے مگر ان کے دور میں ملازمین کی بڑی تعداد کو فارغ کردیا گیا۔ اسٹیل ٹاؤن شپ تقریباً خالی ہوگئی اور کبھی آباد بنگلے اب بھوت بنگلے کا منظر پیش کررہے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز کے مجموعی قرضے اور نقصانات جولائی 2023ء میں 526 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں مگر اسٹیل ملز کا مالیاتی ڈیٹا اس وقت عوامی سطح پر دستیاب نہیں ہیں۔ اسی لیے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز اور پی آئی اے کا قرضہ دو اور ادارے مفت لے لو کیونکہ ایک اسٹیل ملز لگانے کا مجموعی خرچہ 50 سے 100 ارب روپے کے درمیان ہے۔ جبکہ اسٹیل ملز پر واجب الاادا رقم نیا کارخانہ لگانے سے 5 گنا سے زائد بڑھ چکی ہے۔

 کیا پاکستان اسٹیل ملز کو حکومتی ملکیت میں چلانا ممکن ہے؟

کیا پاکستان اسٹیل ملز کو حکومتی ملکیت میں چلانا ممکن ہے۔ اس حوالے سے ممریز خان جو کہ پاکستان اسیٹل ملز کی نجکاری کے خلاف سپریم کورٹ مقدمے میں پیش پیش تھے ان کا کہنا ہے کہ اسٹیل ملز کی نجکاری کیے بغیر بھی اس کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تنظیم نو کرنا ہوگی۔ پیشہ ورانہ انتظامیہ، تربیت یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ساتھ بزنس کمیونیٹی کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ اسٹیل ٹاون شپ کی مالیت اسٹیل ملز سے زائد ہوگئی ہے۔ اسٹیل ملز سے ملحق پورٹ قاسم پر زمین کی قیمت 10 کروڑ روپے فی ایکٹر سے بڑھ چکی ہے۔ اس کی فروخت سے بھی اسٹیل ملز کی بحالی کی جاسکتی ہے۔ جبکہ 15 ارب ڈالر کی بدعنوانی کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

میں ذاتی طور پر ممریز خان کی دلیل سے اتفاق نہیں کرتا ہوں کیونکہ پاکستان اسٹیل ملز کی تباہی کی اصل وجہ اس کے مالک یعنی وفاقی حکومت کی عدم توجہی، سرخ فیتے اور اس کے علاوہ بدعنوانی ہے۔ کاروبار میں فیصلہ سازی بروقت اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ مگر پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر حکومتی کاروباری اداروں میں ہر کام کی منظوری وفاقی حکومت سے درکار ہوتی ہے۔ اور بیشتر معاملات وزیر اعظم، کابینہ، ای سی سی یا وزارت میں منظوری کے لیے بھیجے جاتے ہیں اور یہ منظوری میں اتنا وقت لیتے ہیں کہ مارکیٹ کی صورت حال تبدیل ہوچکی ہوتی ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز سے قبل ملک میں کوئی بھی اس قدر بڑا صنعتی کمپلیکس موجود نہ تھا اور نہ اب ہے۔ پاکستان اسٹیل اگر مختلف کارخانوں پر مشتمل ہے تو اس کے ہر کارخانے کو چلانے کے لیے انتظامیہ اور کاروباری منصوبہ بھی الگ ہونا چاہیے۔ پاکستان اسٹیل میں فولاد سازی بند ہوئی تو آکسیجن پلانٹ کو کیوں بند کیا گیا۔ پاکستان اسٹیل ملز میں لگی کوک اوون بیٹری دنیا میں کوک بنانے کے چند کارخانوں میں سے ایک ہے۔ اگر اسی کو چلانے کی کوشش کی جاتی تو کوئلے کو درآمد کرکے اس سے کوک بنا کر دوبارہ ایکسپورٹ کیا جاسکتا تھا۔ جبکہ اس عمل میں پیدا ہونے والی قیمتی گیسوں کا فائدہ الگ ہوتا۔

اگر اسٹیل ملز کا اسٹیل میکنگ ڈپارٹمنٹ بند تھا تو اس کے ہاٹ اور کولڈ رولز تو کام کرسکتے تھے۔ بیرون ملک سے سلیب اور بلٹ منگوا کر ان کو ہاٹ یا کولڈ رول میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ مگر انتظامیہ ایسا کرنے میں ناکام رہی کیونکہ اس کو ہر عمل کی منظوری وفاقی حکومت سے لینا ہوتی جوکہ بطور مالک اسٹیل ملز کو چلانے میں دلچسپی لے ہی نہیں رہی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل ملز کے لیے فراہم کردہ زمین کی لیز، گیس فراہمی کا معاہدہ، پورٹ قاسم جیٹی کی لیز اور فراہمی آب کے معاہدے ختم ہوچکے ہیں اور ان کی موجودہ قیمت یا کرایہ داری مالیت پر دوبارہ لیز کرنا ایک مہنگا سودا ہوگا۔

پاکستان اسٹیل ملز کو دو کمپنیوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ پہلی کمپنی پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن ہے جس کے پاس اسٹیل ملز کے نقصانات اور واجبات کی ادائیگی ہے جبکہ پلانٹ کو الگ کردیا گیا ہے۔ پلانٹ کی اسٹیل کارپوریشن آف پاکستان لمیٹڈ کو فروخت سے ملنے والی رقم سے پہلے اسٹیل ملز پر چڑھا ہوا قرض اتارا جائے گا۔ پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن نے چین کی کمپنی ڈونگ ہوا سے ایک مفاہمت کی ہے مگر اس مفاہمت پر متعدد اختلافات سامنے آئے ہیں۔

 اسٹیل ملز کی نجکاری میں حائل رکاوٹیں

پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے پاک چائنا انویسٹمنٹ نے مئی 2023ء میں ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں پاکستان اسٹیل ملز کی فروخت سے متعلق متعدد اختلافات سامنے آئے ہیں۔ اس کے مطابق 22 لاکھ ٹن کی اسٹیل ملز کے لیے 300 ایکڑ زمین بہت ہے۔ سرمایہ کار 1229 ایکڑ زمین کی قیمت کیوں ادا کرے اور آئندہ 30 سال کی لیز کے لیے 57 ارب روپے کی رقم ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ کمپنی زمین کی 30 سال کی لیز کے بجائے پلانٹ کی لائف مکمل ہونے تک زمین کی ملکیت دینے کا معاہدہ چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ پورٹ قاسم جیٹی کے استعمال پر پاکستان اسٹیل ملز کو جو بھی مراعات دی گئی تھیں وہ ان کا تسلسل چاہتی ہے مگر پورٹ قاسم اتھارٹی اس حوالے سے تجارتی بنیادوں پر جیٹی کے چارجز لینے کی خواہش مند ہے۔

فولاد سازی کے کسی بھی کارخانے کے لیے پانی وہی حیثیت رکھتا ہے جوکہ جسم میں دوڑتا خون، اس پر سرمایہ کار اور اسٹیل ملز کے درمیان تنازع موجود ہے۔ اسٹیل ملز کو پانی کی فراہمی بھی تجارتی بنیادوں پر کرنے اور اسٹیل ملز کے لیے واٹر میٹر لگانے کا کہا گیا ہے۔ مگر سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی پانی کی فراہمی میں تسلسل چاہتی ہے اور وہ ایسا معاہدہ چاہتی ہے کہ اگر متعلقہ ادارہ پانی کی فراہمی میں ناکام ہوا تو اس پر جرمانہ کیا جائے اس کے علاوہ وہ فراہمی آب کے نظام کا کنٹرول بھی چاہتی ہے جبکہ اسٹیل ملز سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی سے 3 سال کے پانی کی فراہمی کا بل اکٹھا وصول کرنا چاہتی ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز کے پیداواری عمل بند ہونے کے بعد ملک میں چھوٹے چھوٹے اسٹیل پروڈکشن یونٹس بن گئے ہیں جو کہ معدنی لوہے کے بجائے دنیا بھر سے اسکریپ خرید کر اس کو پگھلاتے ہیں اور اس سے فولادی مصنوعات جیسا کہ سریا وغیرہ بناتے ہیں۔ یہ گروہ بھی پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی نہیں چاہتا ہے اور وہ بھی اس حوالے سے متعدد رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز حکومت کی کاروباری ادارے چلانے کی عدم اہلیت، بروقت فیصلہ سازی کے فقدان، نااہلی، بدعنوانی اور مافیاز کی ملی بھگت کا شکار ہوئی اور اپنی تمام تر کاروباری اہمیت کے باوجود ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے قومی خزانے پر ایک بوجھ بن گئی ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز کو جب لگایا گیا تھا تو اس کو متعدد مراعات دی گئی تھیں۔ اس کی بحالی کے وقت اس ادارے کے لیے مراعات واپس لے کر سب عمل تجارتی بنیادوں پر کرنا کسی طور پر سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ پاکستان اسٹیل ملز کو اگر نجی شعبے کے حوالے کرنا ہے تو اس کو انہی مراعات کے ساتھ حوالے کیا جائے جو کہ ادارے کو قیام کے وقت حاصل تھیں۔

اس کا فائدہ عوام کو پہنچانے کے لیے اسٹیل ملز بلکہ حکومت کے تمام اداروں کا لازمی طور پر پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں اندراج کروایا جائے تاکہ ان اداروں کے حسابات عوامی سطح پر دستیاب رہیں اور منافع بخش اداروں میں سرمایہ کاری سے عوام کو بھی فائدہ ہو۔

بشکریہ: ڈان نیوز
نوٹ: راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close