اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹیم میں جگہ نہ بنا پانا کسی بھی کھلاڑی کے لیے مایوس کن ہوتا ہے اور اگر ایسا تسلسل سے ہو رہا ہو تو مایوسی طیش میں بدل جاتی ہے، یہی چیز اب کرکٹر شاہنواز ڈاھانی اور ان کے مداحوں کے رویے سے بھی جھلکنے لگی ہے
اگرچہ شاہنواز ڈاھانی ان خوش قسمت کرکٹرز میں سے ہیں، جن کے ٹیم میں ہونے یا نہ ہونے سے ان کی فالوونگ پر کم ہی اثر پڑا لیکن ایک کھلاڑی کے لیے یہ کافی نہیں، کیونکہ وہ کھیل کے میدان میں ہی جچتا ہے
شاہنواز ڈاھانی کو اب تک پاکستان کے لیے صرف دو ون ڈے میچ ہی کھلائے گئے ہیں، جن میں انہوں نے ایک وکٹ حاصل کی ہے، جبکہ وہ گیارہ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں آٹھ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم پی ایس ایل اور لسٹ اے میں ان کی نمایاں کارکردگی رہی ہے۔ انہوں نے قریب 24 کی اوسط کے ساتھ 31 لسٹ اے میچوں میں 56 وکٹیں بٹوری ہیں، اور ایک قلیل فرسٹ کلاس کیریئر میں ان کی 35 وکٹیں ہیں
یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں ایشیا کپ اور افغانستان سیریز کے لیے اسکواڈ میں شامل نہ کیے جانے پر شاہنواز ڈاھانی ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے پر مجبور ہو گئے
انہیں نہ صرف اسکواڈ سے ڈراپ کر دیا گیا بلکہ جب سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف نے ایک ٹویٹ میں اسکواڈ میں شامل کیے گئے پاکستانی پیسرز کے لسٹ اے کی کارکردگی شائع کی تو اس میں بھی اپنا ذکر نہ پا کر انہوں نے تبصرہ کیا ”لگتا ہے ڈاہانی پاکستانی پیسر نہیں ہے!“
اس فہرست میں اسکواڈ میں شامل نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، محمد وسیم جونیئر اور زمان خان کے علاوہ دو سال کے وقفے کے بعد دوبارہ جگہ بنانے والے آل راؤنڈر فہیم اشرف کی لسٹ اے کارکردگی کے بھی اعداد و شمار تھے۔ صرف ڈاھانی ہی وہ فاسٹ بولر تھے، جنہیں سلیکٹرز کے ساتھ ساتھ راشد لطیف نے بھی نظر انداز کر دیا
اس پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے ڈاھانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ”ایک بھی صحافی یا کرکٹ تجزیہ کار نے سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کی۔ نہ ہی یہ اعداد و شمار سلیکٹرز کو دکھائے“
پی سی بی کے قوانین کے تحت ’کچھ کہہ بھی نہیں سکتے مگر رہ بھی نہیں سکتے‘ ڈاہانی کہنے کو تو یہ کہہ گئے، مگر بعد ازاں انہوں نے دونوں ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیے۔ ادھر پاکستانی کرکٹ بورڈ کے ذرائع کے مطابق تاحال قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی پر ڈاہانی کے خلاف تاحال کوئی ایکشن لینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا
واضح رہے کہ پی سی بی کے قوائد و ضوابط کے تحت کھلاڑیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی بورڈ کی پالیسی یا سلیکیشن پر تنقید کرنے سے روکا جاتا ہے
ڈاھانی کے ردعمل پر ملی جلی آرا سامنے آ رہی ہیں، کچھ لوگ ڈاھانی کے رویے سے نالاں ہیں اور بعض لوگ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ انہیں واقعی نظر انداز کیا گیا، جس کے بعد وہ یہ سب کہنے پر مجبور ہوئے
سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم نے کہا کہ ڈاہانی پر توجہ دینے اور انہیں بڑی احتیاط سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا ”رابطے کے فقدان کے باعث انہیں کھونے کا خطرہ باعث تشویش ہے“
بعض صارفین اس سوچ میں مبتلا ہوئے ہیں کہ شاید ڈاھانی بے خبر تھے کہ ان کے اکاؤنٹ سے ایسے ٹویٹ کیے گئے۔ جیسے سکینہ ناز نے پوچھا ”کیا ڈاھانی کو معلوم ہے کہ وہ یہ سب ٹویٹ کر رہے ہیں؟‘ تو شاہزیب نے اس امکان کا اظہار کیا کہ شاید ڈاھانی کا سوشل میڈیا ’غلط ہاتھوں میں پڑ گیا ہے۔‘
دریں اثنا راشد لطیف نے ڈاھانی کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے معذرت کی اور کہا ”یہ میری غلطی ہے۔ میں نئی پوسٹ بناتا ہوں“
صحافی قادر خواجہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ”شاہنواز ڈاھانی محنتی اور اچھا بولر ہے۔ امید کرتا ہوں وہ اپنی پرفارمنس سے جلد ٹیم میں جگہ بنائے گا لیکن اس طرح سوشل میڈیا پر کھلم کھلا بولنا شاہنواز ڈاھانی کے حق میں نہیں جائے گا“
صارف وسیم اکرم نے طنز کیا کہ ’ڈاھانی کو صبر کرنا چاہیے ورنہ عامر بننے میں دیر نہیں لگتی۔‘
یاد رہے کہ 2020 میں فاسٹ بولر محمد عامر نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیتے وقت کہا تھا کہ انہیں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا
پی سی بی نے رواں سال ان کی واپسی کی چہ مگوئیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلیکشن کے لیے ڈومیسٹک کی کارکردگی ضروری ہے۔