کون سا تعلیمی نظام اچھا، نجی یا سرکاری؟

زبیدہ مصطفیٰ

اب دنیا بھر میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ تعلیم ہر بچے کا پیدائشی حق ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کی آگہی عشروں سے موجود ہے لہٰذا وہاں تعلیمی نظام طویل عرصے سے رائج ہیں اور ان میں ریاست بڑا کردار ادا کرتی ہے

جب ریاست کو ضرورت پیش آئی تو اس نے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی کے لیے کچھ اصول بنائے لہٰذا وہاں تعلیمی نظام میں نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ مساوات اور سماجی انصاف کے تقاضوں کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کا معیار اعلیٰ ہوتا ہے اور بچوں کی اکثریت وہیں تعلیم پاتی ہے

اس کے برعکس پسماندہ ممالک میں صورت حال کچھ اور ہے۔ یہ تمام ممالک نوآبادیاتی نظام کے جال میں پھنسے ہوئے تھے اور انہیں اپنے معاملات میں فیصلے لینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں ان کے تعلیمی نظام بھی پس ماندہ رہ گئے

جب وہ آزاد ہوئے تو انہیں اپنے تعلیمی نظام کے حوالے سے پالیسیاں بنانے کا حق مل گیا۔ چونکہ حکومتوں کے پاس اتنے وسائل نہ تھےکہ وہ اتنے سرکاری اسکول کھولیں کہ تمام بچوں کو تعلیم دی جا سکے لہذا بہت سے بچے بنیادی تعلیم سے محروم رہے

رفتہ رفتہ ان ممالک میں تبدیلی آنا شروع ہو ئی اور جن کے سربراہوں کے دل میں انسانی ہمدردی تھی اور وہ جمہوریت کے تقاضوں کو سمجھتے تھے، انہیں قوم کی ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت معلوم تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے وسائل تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بھرپور طور سے وقف کر دیے اور رفتہ رفتہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے

انہوں نے سرکاری اسکولوں کی تعداد بھی بڑھائی اور ان کے معیار کو بھی بلند کیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں عمدہ نجی ادارے بھی کھلنے لگے، جن کی فیسیں زیادہ تھیں اور وہاں صرف مراعات یافتہ خاندانوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن حکومتوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ اس طرح تعلیم کا حصول عام لوگوں کے لیے ایک نایاب شے نہ بن سکا

سن 1947ء میں، جب پاکستان وجود میں آیا تو وسائل کی کمی کی وجہ سے حکمران تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے زبانی جمع خرچ کے علاوہ ذیادہ کچھ نہ کر سکے، چونکہ حکومت اس پر زیادہ وسائل نہیں لگانا چاہتی تھی، اس لیے اسکولوں کی تعداد میں صرف معمولی اضافہ ہوا اور اس شعبے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی

اس کے نتیجے میں تعلیمی میدان میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا، جسے اپنے طور سے نجی اسکولوں نے پُر کرنے کی کوشش کی۔ مختلف ا قسام کے نجی اسکول کھل گئے، ان میں تعلیم کا معیار وہاں کی فیس کی مناسبت سے ہوتا۔ دوسری طرف حکومت اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت برتنے لگی، جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار انتہا ئی بگڑ گیا

1972ء میں یکایک حکومت نے اعلان کیا کہ ملک کے تمام نجی اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے گا سوائے اشرافیہ کے چند مخصوص اسکول چھوڑ کر۔ اس اعلان کی منطق تو آج تک کسی کی بھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ حکومت میں اپنے اسکول چلانے کی اہلیت نہ تھی اور اس صورت میں وہ تمام تعلیمی اداروں کا بوجھ کیسے برداشت کرتی؟

یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ قدم تھا، جس نے پاکستان میں تعلیمی نظام کے پرخچے اڑا دے۔ چہ جائیکہ 1980کی دہائی میں حکومت نے اپنا فیصلہ بدلا اور نجی شعبے میں اسکول قائم کرنے کی اجازت دے دی مگر آج تک ہم ان قلابازیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں

اس وقت صورت حال کیا ہے؟ سرکاری اسکولوں کی تعداد نجی اسکولوں سے زیادہ ہے لیکن وہاں تعلیم برا ئےنام ہے۔ اساتذہ کی کارکردگی نا ہونے کے برابر ہے، جب کہ ان کی تنخواہیں کم نہیں۔ اساتذہ کو اپنا بنیادی کام نہ کرنے کی مکمل آزادی ہے، اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ لا تعداد اسکول بند پڑے ہیں اور صرف کاغذوں میں ہی اپنی کارکردگی دیکھا رہے ہیں

دوسری طرف پاکستان کا تعلیمی نظام نجی شعبے پر منحصر ہے لیکن اس کی حالت بھی کچھ زیادہ خوش کن نہیں۔ ہر گلی کوچے میں اسکول تو کھلے ہیں لیکن ان میں اچھی تعلیم دینے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے

جو اسکول زیادہ فیس لیتے ہیں، ان کے یہاں تعلیم کا معیار قدرے بہتر ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کم آمدنی والی آبادی زیادہ ہے تو زیادہ اسکول بھی کم فیس والے ہیں جبکہ کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کی تعداد کم ہے اور اس معیار کے اسکول بھی کم ہیں کیونکہ ان کی فیس ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں

اس دوہرے تعلیمی نظام سے غریب اور امیر کے درمیان خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے۔ امیر طبقے کے بچے عمدہ تعلیم حاصل کرتے ہیں،جس کے سہارے وہ اونچی تنخوا والی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں اور غریب والدین کے بچوں کو ناقص تعلیم کی وجہ سے اچھی نوکریاں بھی نہیں مل پاتیں اور عام طور سے ان کے سامنے اپنے حالات بدلنے کے دروازے نہیں کھلتے

اس طرح ہمارا تعلیمی نظام معاشرےکو طبقات میں تقسیم کر رہا ہے۔ مدارس، سرکاری اور نجی اسکول کسی حد تک ایک دوسرے سے متصادم خیالات کے طالب علم پیدا کر رہے ہیں۔ غربت اس طرح ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی قومی معیشت کبھی بہتر ہو سکے گی

تعلیمی نظام کا تضاد ہمیں مسلسل تباہی کی طرف لے جا رہا ہے، جس کے تدارک کے لیے جنگی بنیادوں پر فیصلے لینے کی ضرورت ہے.

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close