امریکہ میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعرات کو جاری ہونے والے نئے امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ملک میں لگ بھگ ساڑھے انچاس ہزار افراد نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ یہ تعداد امریکہ میں اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں صحتِ عامہ کے نگراں ادارے (سی ڈی سی) کے جاری کردہ اعداد و شمار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ برس خودکشی کی شرح کیا رہی، لیکن اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگِ عظیم دوم کے آغاز کے بعد سے اب تک امریکہ میں خودکشیاں بڑھ گئی ہیں
کرسٹینا ولبر پینتالیس سال کی ہیں اور وہ فلوریڈا سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے بیٹے نے گزشتہ سال خود کو گولی مار کر خودکشی کی تھی۔
کرسٹینا کہتی ہیں ”کچھ غلط ہو رہا ہے اور تعداد کو بڑھنا نہیں چاہیے۔۔ میرے بیٹے کو مرنا نہیں چاہیے تھا۔ میں جانتی ہوں کہ یہ پیچیدہ ہے۔ لیکن ہمیں کچھ کرنے کے قابل ہونا پڑے گا۔ کچھ ایسا کرنا پڑے گا، جو ہم نہیں کر رہے کیوں کہ جو کچھ ہم ابھی کر رہے وہ مدد نہیں دے رہا“
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ خودکشی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور حالیہ اضافے کے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں جس میں ڈپریشن کی بلند شرح اور ذہنی صحت کی سروسز کی محدود دستیابی بھی شامل ہے
البتہ امریکن فاؤنڈیشن فار سوسائیڈ پریوینشن میں ریسرچ کے سینئر نائب صدر جل ہارکیوی فریڈمین کہتے ہیں کہ خودکشیوں کی ایک اہم وجہ گنز (آتشیں اسلحہ) کی بڑھتی ہوئی دستیابی ہے
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ایک حالیہ تجزیے میں 2022 کے ابتدائی اعداد و شمار کو شامل کیا گیا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ملک میں بندوق سے خودکشی کی مجموعی شرح گزشتہ سال بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
تجزیے میں محققین کو پتا چلا کہ پہلی مرتبہ سیاہ فام نوجوانوں میں بندوق سے خودکشی کی شرح سفید فام نوجوانوں کی شرح سے زیادہ ہو گئی ہے
کے ایف ایف کے مطابق دماغی صحت کی حالتوں کی کم تشخیص، دیکھ بھال میں ساختی رکاوٹیں ، دقیانوسی تصورات اور امتیازی سلوک خراب دماغی صحت، نسل پرستی اور امتیازی سلوک، اور دماغی صحت کی خدمات کے استعمال میں تفاوت سیاہ فاموں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں
ہارکیوی فریڈمین کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم لیکن کیا آتشیں اسلحے سے متعلق بات کیے بغیر خودکشی پر بات کی جا سکتی ہے؟
امریکہ میں رواں صدی کے اوائل سے لے کر 2018ع تک خودکشی میں مسلسل اضافہ ہوا اور قومی شرح 1941 کے بعد سے بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس سال امریکہ میں اڑتالیس ہزار تین سو افراد نے خودکشی کی تھی
تاہم سال 2019ع میں اس کی شرح میں کمی ہوئی جب کہ 2020ع میں بھی کرونا وبا کے پہلے سال یہ تعداد دوبارہ کم ہوئی
بعض ماہرین نے اس کمی کو جنگوں اور قدرتی آفات کے ابتدائی مراحل میں دیکھے جانے والے رجحان سے جوڑا، جب لوگ ایک ساتھ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں
لیکن سال 2021ع میں خودکشیوں میں چار فی صد اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس یعنی 2022ع میں نئے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ بڑھ کر 49 ہزار 449 تک پہنچ گئی
خودکشیوں کی یہ تعداد ایک سال قبل کے مقابلے میں لگ بھگ تین فی صد زیادہ ہے
امریکہ میں یہ عارضی اعداد و شمار موت کے سرٹیفکیٹس سے حاصل کیے جاتے ہیں اور اسے تقریباً مکمل ہی تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس میں موت سے متعلق معلومات کا جائزہ لینے کے بعد تبدیلی آ سکتی ہے
سی ڈی سی کے مطابق ادھیڑ عمر اور بزرگوں میں خودکشی کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ پینتالیس سے چونسٹھ سال کی عمر کے لوگوں میں اموات میں تقریباً سات فی صد جب کہ پینسٹھ سال اور اس سے زائد کے لوگوں میں آٹھ فی صد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ سفید فام مردوں میں یہ شرح سب سے زیادہ دیکھی گئی
سی ڈی سی کے چیف میڈیکل آفیسر ڈیبڑا ہوری کہتے ہیں ”کئی درمیانی عمر کے اور بوڑھے لوگوں کو نوکری یا شریکِ حیات کو کھونے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ان کی مدد کے لیے سماجی بے توقیری اور دیگر رکاوٹوں کو کم کیا جائے۔“
اسی طرح پچیس سے چوالیس سال تک کی عمر کے لوگوں میں خودکشی کی شرح لگ بھگ ایک فی صد بڑھی
نئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سال 2022 میں عمر کے اس گروپ میں خودکشی موت کی دوسری بڑی وجہ بن گئی ہے۔ سال 2021 میں یہ چوتھے نمبر پر تھی
سی ڈی سی حکام کا کہنا تھا کہ سال 2022ع میں دس سے چوبیس سال کی عمر کے لوگوں میں خودکشی کے واقعات میں آٹھ فی صد سے زیادہ کمی بھی ہوئی۔ اس کی وجہ نوجوانوں کی ذہنی صحت کے مسائل پر زیادہ توجہ اور اسکولوں اور دیگر افراد کو اس مسئلے پر زیادہ توجہ دینے کے لیے دباؤ بھی ہو سکتی ہے
امریکی ادارے کے ایف ایف کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2022 تک، نصف ملین سے زیادہ جانیں (539,810) خودکشی کی وجہ سے چلی گئیں، 2022 میں ریکارڈ پر سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔ اس مدت کے اندر، ایڈجسٹ شدہ خودکشی کی شرح میں 16 فیصد اضافہ ہوا
خودکشی کی کل تعداد کم ہو سکتی ہے، جیسا کہ کچھ تحقیق بتاتی ہے کہ خودکشیوں کو منشیات کی زیادہ مقدار سے ہونے والی اموات کے طور پر غلط درجہ بندی کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ تعین کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ آیا منشیات کی زیادہ مقدار جان بوجھ کر لی گئی ہے۔