کہا تھا نا کہ قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض کو ہلکا نہ لینا۔ کہا تھا نا کہ ان کی سیدھ پن سے لبریز گفتگو سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کر کے ان پر فیصل آباد کی زندہ جگت کی پھبتی نہ کسنا۔
کہا تھا نا کہ راجہ صاحب کے ساندل باری لہجے کا مذاق نہ اڑایا جائے کہ ’میرا دل کرتا ہے کہ اسمبلی تلیل ہونے کے بعد پوشٹر پاڑ کے بارلے ملخ چلا جاؤں۔‘
اگرچہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام ان کی پارٹی کی تجویز کردہ فہرست میں نہیں تھا۔ خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بھی وہم و گمان میں یہ نام نہ تھا۔ حکمران اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان کے ذہن میں تو خیر یہ نام آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
گمان ہے کہ خود راجہ ریاض کی بھی شاید ہی سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے زندگی میں سوائے پارلیمانی علیک سلیک کبھی جم کے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔
خود کاکڑ صاحب یا ان کی باپ ( بلوچستان عوامی پارٹی) کے کسی اعلیٰ عہدیدار کو بھی اڑتالیس گھنٹے پہلے تک شاید اندازہ نہ ہو کہ فیصل آباد کا راجہ قلعہ سیف اللہ کے کاکڑ کے لیے اتنا اکڑ جائے گا کہ سارے ’پوشٹر پاڑ‘ کے پھینک دے گا۔
اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راجہ ریاض انوار الحق کاکڑ کے نام پر کیوں اڑ گئے؟ یہ سوال بھی بے معنی ہے کہ کاکڑ کا نام خود راجہ صاحب کے ذاتی ذہن کی پیداوار ہے یا انہوں نے جمعہ اور ہفتے کو کانوں میں مسلسل ہینڈز فری لگائے رکھا یا پھر کوئی واٹس ایپ موصول ہوا کہ بس ایک ہی نام پر جمے رہو۔ ہم ہیں تو کیا غم۔۔
اور یہ مشورہ اتنا فولادی تھا کہ راجہ صاحب سے غالباً پہلی اور آخری بار صادق سنجرانی، احسن اقبال حتیٰ کہ اسحاق ڈار کی بالمشافہ ملاقات بھی راجہ ریاض کا دل موم نہ کر سکی۔
راجہ صاحب میں ٹارزن جیسی طاقت کہاں سے آئی؟ وزیرِ اعظم اور حکمران اتحاد نے کیسے اپنی اپنی ناموں کی پرچیاں پھاڑ کے راجہ صاحب کے تجویز کردہ نام پر ہاتھ کھڑے کر دئیے؟ اتنا برق رفتار حسنِ اتفاق تو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے بھی نہ دیکھا گیا تھا۔
کوئی تو ہے جو نظامِ بستی چلا رہا ہے۔۔۔
مگر ایک منٹ!
یہ نہ تو کوئی انہونا سرپرائز ہے اور نہ ہی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی بار اس طرح سے کوئی اِکا پھینک کے تاش کی بازی پلٹی گئی ہو۔
یاد نہیں کہ سینیٹ میں نون اور پی پی کی مجموعی اکثریت کے باوجود ایک آزاد، غیر سیاسی، غیر معروف امیدوار صادق سنجرانی نے کس طرح مارچ 2018 میں گرم و سرد چشیدہ راجہ ظفر الحق کو شکست دے کے سب کو ششدر کر دیا تھا۔
اور پھر انہی سنجرانی صاحب نے ایک برس بعد تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا جبکہ سینیٹ میں عمران خان کی مخالف جماعتیں بظاہر اکثریت میں تھیں اور سنجرانی کے ہی ہم صوبہ بزنجو خاندان کے وارث میر حاصل خان کی جیت عددی دوربین سے لگ بھگ یقینی نظر آ رہی تھی۔
اور اسی سنجرانی نے 2021 میں چیئرمین شپ کی دوڑ میں یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کے تیسری بار چمتکار دکھایا۔ تب سے سنجرانی کا شمار گنے چنے اہم سیاسی کھلاڑیوں کی صف میں ہونے لگا۔
جو حاسد طعنہ دے رہے ہیں کہ انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی کی کامیاب ہائبرڈ پیوند کاری کا ٹو پوائنٹ او ماڈل ہیں، ٹی وی کے جو اسکرینچی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ جواں سال انوار الحق کا مختصر سیاسی شجرہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ نواز ہے اور وہ دراصل ایک فرنٹ کمپنی ہیں، جنہیں آگے رکھ کے ایک من پسند انتخابی ڈھانچہ بنا کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں گے۔
ان اسکرینچیوں کو کم ازکم یہ زیب نہیں دیتا کہ 2018 کے بعد سے بالعموم اور حالیہ ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور نہ ختم ہونے والی سینیٹ میں بالخصوص جس طرح آخری چار اوورز میں قوانین کی منظوری کی ریکارڈ توڑ سنچری بنائی گئی، اس کے بعد کوئی کہہ سکے کہ کون اسٹیبلشمنٹ کا کاسہ لیس ہے اور کون اس اسمبلی میں لینن، ہوچی منہہ، چی گویرا یا کم ازکم کوئی ولی خان، مفتی محمود یا نوابزادہ نصراللہ خان تھا۔
یہ اسمبلی تاریخ میں کس طرح یاد رکھی جائے گی؟ کسی کو شک ہو تو سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی آخری پارلیمانی تقریر یا پھر سینیٹ میں سابق چیئرمین رضا ربانی کا پچھلا خطاب سن لے۔
بھٹو کے تجربے کے بعد یہ سبق حاصل کیا گیا کہ آئندہ سب کچھ عوام کی رائے پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور عمران خان کے تجربے سے یہ سبق ملا کہ پروگرام میں وائرس آ جائے تو کوئی بھی انٹیلیجینٹ مشین پورس کا ہاتھی بن سکتی ہے۔
ان مسائل سے نجات کے لیے ایک اور انتہا یہ قائم ہوئی کہ نگاہِ بادشاہ گر میں سرخرو ہونے کے چکر میں کٹی پھٹی پارلیمان نے دل گردہ دکھانے کے بجائے پورے کے پورے اعضاِ رئیسہ عطیہ کر دیے۔ جو محبوب کو درکار نہیں بھی تھا وہ تک دان کر دیا۔
لے شبِ وصلِ غیر بھی کاٹی،
تو مجھے آزمائے گا کب تک (مومن)
اپنا تھوڑا بچانے کے عوض قوم کا سب کچھ کلیرنس سیل پر لگا دیا گیا۔ اس قماش کے خان بہادر اور رائے بہادر سرکارِ انگلسیہ کو میسر آ جاتے تو اس کی عمر کم از کم سو برس اور بڑھ جاتی۔
لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ مجھ جیسوں کو ملک و قوم کی ترقی سے کوئی کد ہے یا موجودہ یا آئندہ جمہوری ماڈل پسند نہیں۔ ہر ملک اپنے اپنے معروضی حالات کے اعتبار سے اپنا نظام تشکیل دیتا ہے۔ شمالی کوریا، تھائی لینڈ، ایران، مصر اور بہت سے افریقی ممالک خود کو جمہوریہ کہلا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟
ان میں سے اکثر ممالک کو تو راجہ ریاض، شہباز شریف، صادق سنجرانی اور انوارالحق کاکڑ تک میسر نہیں۔
میں انفرادی طور پر نئے نگراں وزیرِ اغطم کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔ نیز دعا گو ہوں کہ وہ اس ملک کو مزید اونچائیوں تک لے جائیں گے۔ نیز میں نو مئی کے واقعات کی بھی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)